’’بے شک تمھارا رب وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ادوار میں پیدا کیا ، پھر وہ معاملات کا انتظام سنبھالے عرش پر متمکن ہوا ۔ اس کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارشی نہیں ۔ یہی اللہ تمھارا رب ہے تو اسی کی بندگی کرو ، کیا تم سوچتے نہیں ؟‘‘( یونس ۱۰: ۳)
اس آیت کے اولین مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم بنی اسمعیل کے لوگ ہیں ۔ مشرکین مکہ اللہ کو اس کی ذات کی حد تک تو وحدہ لا شریک مانتے تھے ، مگر اس کی صفات میں دوسروں کو شریک ٹھیرا کر انھیں الوہیت کے منصب پر فائز کر دیتے تھے۔ انھیں بتایا گیا ہے کہ جس اللہ نے زمین و آسمان بنائے ، وہی تمھارا رب اور آقا و مولیٰ ہے ، لہٰذا جیسے اس کی ذات میں کوئی شریک نہیں ہے ، اسی طرح وہ اپنی صفات اور حقوق میں بھی یکتا ہے ۔ وہ اس کائنات کو پیدا کرنے کے بعد اس سے بے تعلق ہو کر نہیں بیٹھ گیا ، بلکہ وہ اس کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے اور تنہا اس کانظام چلا رہا ہے ۔ وہ افراد اور قوموں کے ساتھ اپنے اصول و قوانین کے مطابق معاملہ کرتا ہے ۔ ایسے قاعدوں اور ضابطوں کو جن کے مطابق وہ صفحۂ ہستی پر قوموں کے عروج و زوال اور بقا و فنا کی داستانیں رقم کرتا ہے ،قرآن مجید میں اللہ کی سنتیں کہا گیا ہے اور ان کے بارے میں اس کا حتمی فیصلہ ہے کہ وہ اپنی سنتوں میں کوئی ردوبدل نہیں کرتا ۱ اور نہ اس کی مخلوق میں سے کسی کو یہ زورو اختیار حاصل ہے کہ اسے ان سنتوں میں کسی تبدیلی اور ترمیم و اضافہ پر مجبور کر سکے ۔ اس لیے اگر کوئی کوتاہ فہم مخلوق میں سے کسی کو اس کی ربوبیت میں شامل کر کے اپنا الہ بنا لیتا ہے اور پھر اس سے یہ توقع باندھ لیتا ہے کہ وہ ہستی قیامت میں خدا کی مرضی کے خلاف اس کے کام آ سکے گی تو یہ اس کی خام خیالی ہے ۔ اسی بات کو ’ما من شفیع الا من بعد اذنہ‘ ۲ (اس کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارشی نہیں) اور ’من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ ‘ ۳ (کون ہے جو ا س کے حضور ا س کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کر سکے ) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔
انسان اپنی ضعیف الاعتقادی کے باعث اکثر اوقات ایسی گمراہیوں کا شکار ہو جاتا ہے ۔ شرک ایک عالم گیر ضلالت ہے۔ یہ ضلالت مشرکینِ مکہ تک محدود تک نہیں تھی ، بلکہ اس کے آثار و شواہد ہر دور میں موجودرہے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ مسلمان معاشرے بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہے ۔
آج کے دور میں اگرچہ اپنے آپ کو ہم دین توحید کے علم بردار سمجھتے ہیں ، مگر اس کے باوجود شرک کی بہت سے خفی اور جلی صورتیں اختیار کیے ہوئے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہم یہ جرم دین کے نام پر کر رہے ہیں ۔
قرآن مجید میں دو ٹوک الفاظ میں اعلان کر دیا گیا ہے کہ شرک ناقابلِ معافی جرم ہے، ۴ اس لیے بندۂ مومن کی اولین ترجیح عقیدۂ توحید کی اصلاح ہونی چاہیے ۔
____________
۱ الاحزاب ۳۳ : ۶۲ ، فاطر ۳۵: ۴۳، الفتح ۴۸: ۲۳۔
۲ یونس ۱۰: ۳ ۔
۳ البقرہ ۲ : ۲۵۵۔
۴ النساء ۴ : ۴۸، ۱۱۶۔
_______________