HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

قصۂ آدم و ابلیس

گزشتہ دنوں اسرار عالم صاحب کی کتاب ’’دجال‘ ‘ دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ کتاب کی ابتدا میں ’’مرحلۂ ہفتم : مرحلۂ ابراہیمی ‘‘ کے باب میں ’’معرکۂ خلافت کا تناظر‘‘ کی ذیلی سرخی کے تحت وہ لکھتے ہیں :

’’مرحلۂ دوم کا آغاز اس گھڑی ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کے مخصوص منصوبے کے تحت حضرت آدم سے ان کا جوڑا حضرت حوا پیدا فرمایا ۔ الجنہ کا یہ وہ مرحلہ ہے جب حضرات آدم و حوا پر ابلیس کی چالیں کارگر ہونا شروع ہوئیں ۔ چنانچہ وہ آپ دونوں سے حکم الہٰی کی خلاف ورزی کروانے میں کامیاب ہو گیا اور اس طرح الجنہ میں پہلی بار فساد کا آغاز ہوا ۔ اس کا خوف ناک نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ نوعِ آدم طبعی طور پر الجنہ میں سکونت پزیر رہنے اور روحانی طور پر حسب سابق مدارج خلافت میں ترقی کر کے مقامِ محمود تک پہنچنے کی اہلیت سے قاصر ہو گیا ۔ بہرحال نوع آدم سے ایک عظیم خطا سرزد ہوئی تھی ، لیکن حضرات آدم و حوا اپنی اس خطا پر بلا تاخیر متنبہ ہوئے اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا ۔ اس توبہ و انابت کے سبب ہر چند کہ آپ دونوں حضرات کی خطا معاف ہو گئی تھی ، لیکن اس خطا سے نوعِ آدم میں جسمانی اور روحانی قصور و فساد کا آغاز ہو گیا جس نے مزید ایسی صورتیں پیدا کر دیں جو اس نوع کے انحطاط کا باعث ہوئیں ۔ ابتداءً یہ قصور و فساد جسم و طبع میں پیدا ہوئے ۔ لہٰذا حضرات آدم و حوا کو الجنہ سے روئے ارض پر منتقل کر دیا گیا۔‘‘(۲/ ۸ )

اس سے آگے انھوں نے اس پیرے میں بیان کردہ مقدمات کی بنیاد پر قصۂ آدم و ابلیس کی فلسفیانہ توجیہات اور نتائج بیان کیے ہیں ۔ یہ تفصیلات بظاہر ناقابل فہم اور ہول ناک محسوس ہوتی ہیں ۔ فساد کا آغاز ، مقام محمود تک پہنچنے کی اہلیت سے محرومی، عظیم خطا کا صدور ، جسمانی اور روحانی قصور و فساد وغیرہ جیسے الفاظ و اصطلاحات سے تو لگتا ہے کہ انسان اپنی نااہلی ثابت ہو جانے کے بعد دنیا میں درپیش آزمایش میں ڈالا گیا ہے ، اگر ایسا ہے تو یہ انسان کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس پیرے میں جو باتیں ہوئی ہیں ، ان کی حقیقت کیا ہے؟

جواب : قصۂ آدم و ابلیس قرآ ن مجید میں بہت سے مقامات پر بیان ہوا ہے ۔ ابتداءً یہ داستان سورۂ بقرہ کی آیات ۳۰ ۳۹ میں سورہ کی تمہیدی آیات کے خاتمۂ کلام کے طور پر وارد ہوئی ہے ۔ سورۂ بقرہ ہجرت کے بعد سے لے کر غزوۂ بدر سے متصلاً قبل تک نازل ہوئی ۔ یہ یہود پر اتمام حجت کی سورہ ہے۔

اس قصے کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے:

وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَآٰءِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَہً ۔ (البقرہ ۲ : ۳۰)
’’اور ( یاد کرو)جب کہ تمھارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ ‘‘

اگر سورہ میں یہود پر اتمام حجت کے مضمون کی رعایت سے آیت کا ترجمہ کیا جائے تو وہ یوں ہو گا:

’’اے پیغمبر ! یہود کے اس (مخالفانہ اور معاندانہ) رویے کو سمجھنے کے لیے وہ واقعہ یاد کرو جب تمھارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں ۔‘‘

سورہ کے مرکزی مضمون کا اگر لحاظ رکھا جائے تو یہ بالکل واضح ہے کہ قصۂ آدم و ابلیس کی سرگزشت سنانے کا مقصد اس آئینے میں اس ردعمل کی تصویر دکھانا تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے آپ کے مخاطبین اور بالخصوص یہود پر ہوا۔ گویا یہ بتانا مقصود تھا کہ آپ کی دعوت کے نتیجے میں یہود کی مخالفت کسی عقلی اور اخلاقی بنیاد پر نہیں ، بلکہ اور وجوہ کی بنا پر ہے ۔ ان میں سے ایک وہ بغض و حسد ہے جو سلسلۂ نبوت کے بنی اسرائیل سے بنی اسمٰعیل میں منتقل ہو جانے کے باعث ان میں پیدا ہو گیا تھا۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اس زعم باطل میں مبتلا ہو گئے تھے کہ وہ انبیا کی اولاد اور خدا کی چہیتی قوم ہیں ، لہٰذا وہ دنیا میں منصب امامت کو اپنا موروثی حق خیال کرتے تھے اور وہ پیغمبر کی مخالفت کے باوجود خود کو خدا کا برگزیدہ اور آخرت میں خدا کے فضل و کرم کا اجارہ دار سمجھتے تھے۔

اس قصے کی روشنی میں یہ حقیقت ان پر واضح کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کر کے دراصل وہ شیطان کی پیروی کر رہے ہیں ۔ جس طرح شیطان نے حسد اور تکبر کی بنا پر حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا ، بالکل ویسے ہی مرض میں وہ مبتلا ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور قرآن کی دعوت کا انکار کر رہے ہیں ۔ اور جیسے شیطان کے سجدے سے انکار کے باوجود حضرت آدم شرف خلافت سے متصف ہوئے ، اسی طرح یہود کی مخالفت کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے اور ان کی نبوت و رسالت کے بارے میں مشیتِ ایزدی کا یہ فیصلہ بھی قطعی اٹل ہے کہ وہ قیامت تک کے لیے روے زمین پر قائم ہو ، اور ایسا ہی ہوا ۔

قرآن مجید میں سورۂ بقرہ میں یہ سرگزشت جس سیاق و سباق میں بیان ہوئی ہے ، وہاں اس کا مدعا یہی ہے ۔ البتہ بعض چیزیں جو اشارۃ النص کے طور پر بیان ہو گئی ہیں ، وہ یہ ہیں ۔

۱۔ ’انی جاعل فی الارض خلیفۃ‘ کے الفاظ میں قصے کی ابتدا ہی میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ حضرت آدم کو زمین ہی کے لیے خلیفہ بنایا گیا تھا۔ لہٰذا یہ مقدمہ ہی غلط قرار پاتا ہے کہ انھیں اپنی غلطی کی پاداش میں جنت سے نکلنا پڑا۔

۲۔ ’خلیفہ‘ کا لفظ عربی زبان میں جہاں نائب اور جانشین کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، وہیں اس لفظ کا استعمال صاحب اختیار و اقتدار ہستی کے لیے بھی معروف ہے ، اللہ تعالیٰ اپنے معاملات کے لیے چونکہ کسی کی جانشینی اور نیابت کا محتاج نہیں ہے ، اس لیے یہاں خلیفہ کا لفظ لازماً صاحب اختیار و اقتدار ہستی ہی کے لیے آیا ہے ۔ گویا اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو جس مخلوق کی خبر دی اس کے بارے میں خلیفہ کا لفظ استعمال کر کے یہ بتا دیا کہ اسے زمین میں اقتدار حاصل ہو گا ۔

۳۔ ’خلیفہ‘ کے لفظ میں مضمر اسی حقیقت کی رعایت سے فرشتوں نے ٹھیک نتیجہ نکالا کہ اگر ایسی ہستی تخلیق کی گئی جسے اختیار و اقتدار حاصل ہوئے تو وہ لازماً زمین پر فساد پھیلائے گی اور خون خرابے کا باعث بنے گی ۔

۴۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کا خلافتِ ارضی پر تبصرہ کوئی اعتراض نہ تھا ، بلکہ لفظ خلیفہ کی رعایت سے پروردگارِ عالم کی تخلیقِ آدم کی اسکیم پر ایک فطری اشکال تھا جو انھیں پیش آیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ابتدائی جواب یہ دیا :

اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔ (البقرہ ۲: ۳۰)
’’بے شک میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔ ‘‘

اس جواب سے گویا فرشتوں کو یہ بتانا مقصود تھا کہ میری اسکیم کے ظاہری پہلو سے تم نے جو نتیجہ نکالا ہے وہ جزوی حقیقت تو ہو سکتی ہے ، مگر وہ نتیجہ اصلاً درست نہیں ہے ، کیونکہ اس اسکیم کے سارے پہلووں پر تمھاری نظر نہیں ہے ۔ جب پوری اسکیم سامنے آ جائے گی تو تمھارا اشکال خود بخود رفع ہو جائے گا۔

۵۔ فرشتوں کا سوال ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا ، اعتراض نہ تھا ، بلکہ بات کو سمجھنے کی تمہید تھی ، اسی لیے انھوں نے اپنے عجز کا اعتراف ان الفاظ میں کیا :

قَالُواْ سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمَتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ ۔ (البقرہ۲: ۳۲)
’’ان (فرشتوں) نے عرض کیا : آپ کی ذات ہر عیب سے منزہ ہے ، ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے بتایا ہے ۔ علیم و حکیم تو اصل میں آپ ہی ہیں ۔ ‘‘

اس کے بعد جب پوری اسکیم ان کے سامنے آ گئی تو انھوں نے بات سمجھ لی ۔ اعترافِ حقیقت تو وہ پہلے ہی کر چکے تھے ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کے حسنِ نیت کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا :

قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ اِنِّیْ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ ۔ (البقرہ۲ : ۳۳)
’’اس نے کہا : کیا میں نے تم سے نہیں کہا کہ آسمانوں اور زمین کے بھید کو میں ہی جانتا ہوں اور میں جانتا ہوں اس چیز کو جس کو تم ظاہر کرتے ہو اور جس کو تم چھپاتے تھے؟ ‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو باور کرایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمھیں غایت درجۂ قرب اور حضوری حاصل ہے ، مگر اس کے باوجود کائنات کی ساری حکمتوں اور مصلحتوں کا احاطہ میرے سوا کسی کے بس کی چیز نہیں ہے ۔ تخلیق آدم کی پوری اسکیم اور اس کی حکمتوں کو سمجھنے کی خواہش کو اگرچہ تم نے بیان نہیں کیا تھا ، مگر ہم تمھارے سوال کے پیچھے چھپی ہوئی اس حقیقت سے خوب واقف تھے۔

۶۔ نیت کی پاکیزگی کے ساتھ بات کو سمجھنے کے ارادے سے اشکال پیش کرنا مذموم نہیں ، بلکہ مستحسن چیز ہے ۔ یہ چیز ایمان کی نعمت سے محروم ہونے کی صورت میں قبول حق کی راہ ہموار کرتی ہے اور صاحب ایمان ہونے کی صورت میں ازدیادِ ایمان کا ذریعہ بنتی ہے ۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین میں سے بہت سے مخلصین کو یہ صورت حال پیش آئی۔ ان کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے اور کئی اعتراضات نے ان کے فکر و نظر کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی ،مگر وہ بات کو سمجھنے کی سچی لگن کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے اور جب بات ان کی سمجھ میں آ گئی تو تمام شکوک و شبہات رفع ہو گئے ۔ کوئی اعتراض باقی نہ رہا اور انھوں نے بالآخر اسلام قبول کرلیا ۔ ان کے برخلاف یہود اور اس طرح کے دوسرے معاندین اسلام بھی اسلام پر اعتراضات وارد کرتے تھے ، مگر وہ چونکہ حسد اور تکبر ، کبر و نخوت اور دنیوی مفادات و مصالح کی بنا پر انکارِ حق کا فیصلہ کر چکے تھے ، اس لیے وہ اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کو انکارِ حق کی آڑ کے طور پر استعمال کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایمان کی دولت سے محروم رہے ۔

۷۔ فرشتوں کے اشکال سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اقتدار و اختیار اگر خدا کی مرضی کے تابع نہ ہوں تو ان کا لازمی نتیجہ فتنہ و فساد اور خون خرابہ ہو گا ۔

۸۔ شیطان اور انسان کا باہمی تعلق ہمیشہ کی دشمنی کا ہے ۔ لہٰذا شیطان کسی بھلے روپ میں بھی ہو تو بھی وہ ہر گز ہرگز انسان کا دوست نہیں ہو سکتا ۔

۹۔ شیطان اس دنیا میں انسان کو درپیش آزمایش کی راہ کھوٹی کرنے کے لیے انانیت اور جنس کے راستے سے حملہ آور ہوتا ہے ۔ اس کے لیے یہی دو بڑے چور دروازے ہیں جہاں سے وہ انسان کی دولت ایمان اچک لینے کے لیے قیامت تک سرگرم رہے گا ۔

۱۰۔ حضرت آدم کی لغزش کے بعد توبہ ہمیں اس حقیقت سے روشناس کراتی ہے کہ انسان میں نیکی اور بدی کا شعور ازل ہی سے موجود ہے ۔ یہ فطری شعور انبیا کی تعلیمات سے جِلا پاتا ہے ۔ لیکن انسان اگر اس فطری ہدایت کی قدر نہ کرے اور اپنے اعمال بد کی وجہ سے اس نور باطن کو ضائع کر بیٹھے تو خارج میں انفس وآفاق کی آیات اس کے لیے بے معنی ہو جاتی ہیں ۔ اللہ کے پیغمبروں کی ہدایت دراصل اس روشنی پر روشنی ہے ۔ یعنی خیر و شر کا فطری شعور اگر زندہ ہو گا تبھی پیغمبروں کی ہدایت کارآمد ثابت ہو گی ۔ بصورت دیگر خدا کے پیغمبروں کی موجودگی میں بھی کفر و ضلالت کی تاریکیاں دلوں پر ڈیرا جمائے رکھیں گی ۔

اس قصے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں انسان کی سعی و جہد کا آخری ہدف جنت کا حصول ہے ۔ وہ ایک غلطی کی پاداش میں عارضی جنت سے محروم ہوا ، اب اسے ہمیشہ کی جنت کے حصول کے لیے تگ و دو کرنا ہے ۔

۱۱۔ یہ دنیا آزمایش کے اصول پر بنائی گئی ہے ۔ یہ تزکیۂ نفس کی آزمایش ہے ۔ اس آزمایش کے ذریعے سے خدا آخرت میں اپنی جنت میں آباد کرنے کے لیے بندوں کا انتخاب کرنا چاہتا ہے ۔ گویا عارضی جنت میں سرزد ہونے والی خطا اس کے لیے آخرت کی پادشاہی کے حصول کی تمہید بن گئی ۔ اسے جو صلاحیتیں عطاہوئی ہیں اور ا س کے لیے انفس و آفاق ، خداکے فرستادوں،آسمانی کتابوں اور الہامی صحیفوں کے ذریعے سے جس قدر رہنمائی کاسامان کیا گیا ہے ،اس سے بالبداہت واضح ہے کہ اسے جس آزمایش میں ڈالا گیا ہے ، وہ بقدر ظرف ہے اور وہ اس میں پورا اترنے کی کامل صلاحیت رکھتا ہے ۔ بشرطیکہ:

ا۔ وہ آزمایش کو آزمایش سمجھے اور اس کے مضمرات اور احوال و ظروف سے پوری طرح آگاہ ہو ۔

ب۔ وہ اپنے ازلی اور ابدی دشمن شیطان کی چالوں سے ہشیار رہے اور اس کے ہتھکنڈوں سے بچنے کی سعی کرتا رہے ۔

ج۔ وہ خدا کے فرستادوں کی ہدایت کو کسی حال میں نظر انداز نہ کرے ۔

خلاصہ

اس تجزیے سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ واقعہ دنیا میں انسان کو درپیش آزمایش کے لیے تمہید اور ریہرسل کی حیثیت رکھتا تھا ۔ اس کے ذریعے سے اس پر درج ذیل حقائق واضح کر دیے گئے ۔

۱۔ انسان کو اسی دنیا میں خلیفہ بنا کر بھیجنے کے لیے پیدا کیا گیا۔

۲۔ دنیا میں بھیجنے سے پہلے آدم وحوا کو اسی دنیا میں کسی باغ میں رکھا گیا۔ اس سے مقصود یہ تھا کہ آیندہ کے حقائق ممثل کر کے پیش کر دیے جائیں تاکہ درپیش آزمایش میں کامیابی کی راہ آسان ہو جائے ۔

۳۔ حق کے بارے میں اشکالات پیش آنے کی صورت میں اس کا رویہ کیا ہونا چاہیے ۔

۴۔ اسے جو اختیار و اقتدار عطا ہو ا ہے ، اس کا صحیح استعمال اسے آخرت کی ابدی بادشاہی کا حق دار بنا سکتا ہے اور اس کے غلط استعمال سے دنیا میں شرو فساد پیدا ہو گا اور آخرت میں وہ خدا کی جنت سے محروم ہو جائے گا ۔

۵۔ دنیا میں اس کا سب سے خطرناک اور چالاک دشمن شیطان ہے ۔

۶۔ شیطان اس پر بالعموم انانیت اور جنس کے راستے سے حملہ آور ہو کر اس کی آخرت کی راہ کھوٹی کرنے کی کوشش کرے گا، لہٰذا وہ اس سے ہمیشہ چوکنا رہے ۔

۷۔ غلطی ہو جانے کی صورت میں اس کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ فوراً خدا کی طرف متوجہ ہو اور توبہ و انابت کا راستہ اختیار کرے ۔

۸۔ وہ دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے اپنے آخری ہدف یعنی آخرت میں جنت کا حصول ہر حال میں ملحوظ رکھے۔

۹۔ انسان کا اصل شرف اس کا خدا پر اعتماد اور خدا کے پیغمبروں کی ہدایت پر غیر متزلزل یقین ہے ۔ اسے اپنی اس متاع عزیز کی ہر حال میں حفاظت کرنی چاہیے ۔

۱۰۔ اسے اس بات پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے اسے جس آزمایش میں ڈالا ہے ،اس کے سارے مثبت اور منفی پہلو ابتدا ہی میں واضح کر دیے ہیں ۔ اور انفس و آفاق میں مضمرفطری ہدایت کے ساتھ ساتھ انبیا ورسل کا ایک طویل سلسلہ جاری کیا۔ اور بہت سی کتابیں اور صحیفے نازل کیے تاکہ آزمایش کی یاددہانی کے ساتھ ساتھ لغزشوں اور کوتاہیوں پر تنبیہہ ہوتی رہے۔

ہمارے نزدیک ، سیاقِ کلام اور سورہ کے مضمون و مدعا کی رعایت سے قصۂ آدم و ابلیس کی یہی توجیہ اقرب الی الکتاب ہے اور حسنِ تاویل کے اعتبار سے اس کا یہی مطلب ہو سکتا ہے ۔ ہماری اس شرح ووضاحت کے بعد اس قصے کے بارے میں اسرار عالم صاحب نے جو کچھ بیان کیا ہے ، اسے کسی بھی لحاظ سے قرآن کامتن قبول نہیں کرتا ، اس لیے اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔

____________

B