HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۱۸۰-۱۸۲ (۳۵)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ) 


 کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَاً الْوَصِّیْۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ ۔ فَمَنْ بَدَّلَہٗ بَعْدَ مَا سَمِعَہٗ فَاِنَّمَآ اِثْمُہٗ عَلَی الَّذِیْنَ یُبَدِّلُوْنَہٗ، اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۔ فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَیْنَھُمْ فَلَآاِثْمَ عَلَیْہِ ، اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ {۱۸۰۔۱۸۲}

(اِسی طرح مال کے نزاعات سے بچنے کے لیے) تم پر فرض کیا گیا ہے کہ تم میں سے جب کسی کی موت کا وقت آ پہنچے اور وہ کچھ مال چھوڑ رہا ہو ۴۷۳ تو والدین اور قرابت مندوں ۴۷۴ کے لیے دستور کے مطابق وصیت کرے۔ ۴۷۵  اللہ سے ڈرنے والوں پر یہ حق ہے ۔ ۴۷۶ پھر جو اس وصیت کو اس کے سننے کے بعد بدل ڈالے تو اِس کا گناہ اُن بدلنے والوں ہی پر ہو گا ۔ اُنھیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ جس کو، البتہ کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے جانب داری یا حق تلفی ۴۷۷ کا اندیشہ ہو ۴۷۸ اور وہ آپس میں صلح کرا دے ۴۷۹ تو اِس میں کوئی گناہ نہیں ہے ۔ بے شک ، اللہ بخشنے والا ہے ، اس کی شفقت ابدی ہے ۔ ۱۸۰۔ ۱۸۲ 

۴۷۳؎ وصیت کے لیے یہ دو شرطیں اس لیے عائد کی ہیں کہ جو لوگ اپنی چلتی پھرتی زندگی میں وصیت کر دیتے ہیں ، ان کے لیے بسا اوقات بڑی الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں اور جو لوگ مال رکھتے ہوئے اس معاملے میں کوتاہی کرتے ہیں ، وہ بارہا اپنے پیچھے بڑے جھگڑے چھوڑ جاتے ہیں ۔ پہلی شرط کا ذکر، اگر غور کیجیے تو اصل میں ’اذا‘ کے ساتھ ہوا ہے ، اس لیے کہ موت سب کو آنی ہے اور دوسری کا ذکر ’ان‘ کے ساتھ ہوا ہے ، اس لیے کہ مال ہر شخص کے پاس نہیں ہوتا ۔ ’ان‘ اور ’اذا‘ کا یہ فرق عربی زبان کے طلبہ کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔ پھر یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ مال کے لیے اس آیت میں ’خیر‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے اصلی معنی مرغوب اور مطلوب چیز کے ہیں ۔ اس طرح قرآن نے گویا بالواسطہ طریقے پر بتا دیا ہے کہ مال فی نفسہٖ کوئی بری چیز نہیں ہے ، بلکہ علم و دانش کی طرح ایک خیر ہے جس کی تمنا اگر آدمی کے دل میں پیدا ہو او روہ اس کے لیے جدوجہد بھی کرے تو اسے کسی طرح ناپسندیدہ نہیں کہا جا سکتا ۔

۴۷۴؎ یہ اس لیے فرمایا ہے کہ لوگ بالعموم اولاد ہی کو اپنے ترکے کا وارث سمجھتے تھے ۔ والدین اور دوسرے اعزہ کے لیے کوئی حصہ اس میں نہیں مانتے تھے ۔

۴۷۵؎ وصیت کا یہ حکم ان وارثوں کے لیے باقی نہیں رہا جن کے حصے اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء (۴) میں اس کے بعد خود متعین فرما دیے ہیں ۔ اولاً ، اس لیے کہ نساء کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ حصے اس نے خود اس لیے متعین فرمائے ہیں کہ لوگ یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ ان کے وارثوں میں سے کون بہ لحاظ منفعت ان سے قریب تر ہے ۔ لہٰذا اب اگر کوئی شخص ان وارثوں کے لیے وصیت کرتا ہے تو وہ گویا اپنے عمل سے یہ کہتا ہے کہ میں یہ فیصلہ نہ صرف یہ کہ کر سکتا ہوں ، بلکہ اس فیصلے سے بہتر کر سکتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ ثانیاً ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے وہاں ان حصوں کو اپنی وصیت قرار دیا ہے جس کے بعد اگر وصیت کی جائے تو یہ گویا اللہ کی وصیت کے مقابلے میں اپنی وصیت پیش کرنے کی جسارت ہے ۔ ثالثاً، اس لیے کہ اسی سورۂ نساء کی آیت ۷ میں ان حصوں کو ’نصیباً مفروضاً، کہا گیا ہے جنھیں ظاہر ہے کہ کوئی وصیت اب کسی طرح باطل نہیں کر سکتی ۔ چنانچہ یہ بات تو بالکل قطعی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ وارثوں کی حد تک وصیت کا یہ حکم سورۂ نساء کی آیات سے منسوخ ہو گیا ہے ۔لیکن یہ جب دیا گیا تو اس سے کیا چیز پیش نظر تھی ؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی اس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :

’’اس آیت میں والدین اور اقربا کے لیے جو وصیت کا حکم دیا گیا ، وہ معروف کے تحت تھا اور اس عبوری دور کے لیے تھا جب کہ اسلامی معاشرہ ابھی اس استحکام کو نہیں پہنچا تھا کہ تقسیمِ وراثت کا وہ آخری حکم دیا جائے جو سورۂ نساء میں نازل ہوا ۔ اس حکم کے نزول کے لیے حالات کے ساز گار ہونے سے پہلے یہ عارضی حکم نازل ہوا اور اس سے دو فائدے پیشِ نظر تھے : ایک تو فوری طو رپر ان حصہ داروں کے حقوق کا ایک حد تک تحفظ جن کے حقوق عصبات کے ہاتھوں تلف ہو رہے تھے ، اور دوسرے اس معروف کو از سر نو تازہ کرنا جو شرفاے عرب میں زمانۂ قدیم سے معتبر تھا ، لیکن اب وہ آہستہ آہستہ جاہلیت کے گردوغبار کے نیچے دب چلا تھا تاکہ یہ معروف اس قانون کے لیے ذہنوں کو ہموار کر سکے جو اس باب میں نازل ہونے والا تھا۔‘‘ (تدبرِ قرآن۱/ ۴۳۹)

۴۷۶؎ اصل الفاظ ہیں : ’حقاً علی المتقین‘ ۔ ان میں ’حقاً‘ مصدر موکد ہے ، یعنی ’حق ذلک حقاً ‘۔

۴۷۷؎ اصل میں ’جنفاً او اثماً‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ ’جنف‘ کے معنی مائل ہونے کے ہیں ، لیکن یہ زیادہ تر نیکی اور حق سے ہٹ کر برائی اور ظلم کی طرف مائل ہونے کے لیے آتا ہے ۔ آیت میں یہ ٹھیک اس مفہوم میں آیا ہے جس مفہوم میں ہم جانب داری کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ اس کے مقابل میں ’اثم‘ ہے جو اداے حقوق میں پیچھے رہ جانے کے لیے آتا ہے۔ اس کا مفہوم ، ظاہر ہے کہ یہاں حق تلفی کا ہو گا ۔

۴۷۸؎ اصل میں لفظ ’خوف‘ استعمال ہوا ہے ۔ اس کے معنی اس آیت میں اندیشہ کرنے کے ہیں ۔عربی زبان میں یہ اصلاً گمان کرنے ، خیال کرنے ، توقع کرنے اور اندیشہ کرنے کے مفہوم ہی میں آتا ہے ۔ استاذ امام نے کلام عرب سے بھی اس کی دلیل اپنی تفسیر میں پیش کر دی ہے ۔

۴۷۹؎ اصل الفاظ ہیں : ’فاصلح بینھم‘۔ ان کا واضح مفہوم صلح کرا دینے کا ہے، بطور خود کوئی اصلاح کر دینے کا نہیں ہے ۔ لہٰذا اس ہدایت کا مقصد یہی تھا کہ اگر کوئی جانب داری یا حق تلفی ہوئی ہے تو وصیت میں مناسب تبدیلی کے لیے وارثوں میں مفاہمت کرا دی جائے ۔

(باقی)      

              ـــــــــــــــ              ـــــــــــــــ

B