بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
اَمْ کُنْتُمْ شُھَدَآئَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَاِلٰہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰھٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰھاً وَّاحِدًا وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ۔
تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ لَھَا مَا کَسَبَتْ وَ لَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ وَلاَ تُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۔
وَ قَالُوْا کُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْنَصٰرٰی تَھْتَدُوْا قُلْ بَلْ مِلَّۃَ ِابْرٰھٖمَ حَنِیْفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ۔ قُوْلُوْآ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلیٰٓ ِابْرٰھٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَمَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ۔
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِاھْتَدَوْا وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِیْ شِقَاقٍ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۔
پھر کیا ۳۳۲؎ تم اُس وقت موجود تھے ، جب یعقوب اِس دنیا سے رخصت ہو رہاتھا ، ۳۳۳؎ اُس وقت جب اُس نے اپنے بیٹوں سے پوچھا : تم میرے بعد کس کی پرستش کرو گے ؟ ۳۳۴ ؎ انھوں نے جواب دیا : ہم اُسی ایک معبود کی پرستش کریں گے جو تیرا معبود ہے اور تیرے باپ دادوں ــــــ ابراہیم، اسمعٰیل ۳۳۵ ؎اور اسحق ــــــــ کا معبود ہے اور ہم اُسی کے فرماں بردار ہیں ۔ ۳۳۶ ؎ ۱۳۳
یہ ایک گروہ تھا جو گزر گیا ، اُن کاہے جو اُنھوں نے کیا اور تمھارا ہے جو تم نے کیا ، تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے ۔ ۳۳۷؎ ۱۳۴
(اِن کے بزرگوں کی روایت تو یہ ہے ) اور (اِدھر) اِن کا اصرار ہے کہ یہودی یا نصرانی بنو تو ہدایت پاؤ گے ۔ ۳۳۸ ؎ اِن سے کہہ دو : بلکہ ابراہیم کا دین اختیار کرو ۳۳۹؎ جو (اپنے پروردگار کے لیے) بالکل یک سو تھا ۳۴۰؎ اور مشرکوں میں سے نہیں تھا ۔ اِن سے کہہ دو : ہم نے اللہ کو مانا ہے اور اُس چیز کو جو ہماری طرف نازل کی گئی اور جو ابراہیم ، اسمعٰیل، اسحق اور یعقوب اور اُن کی اولاد کی طرف نازل کی گئی اور جو موسیٰ اور عیسیٰ اور دوسرے سب نبیوں کو اُن کے پروردگار کی طرف سے دی گئی ۔
ہم اِن میں کوئی فرق نہیں کرتے ۔ ۳۴۱ ؎ (یہ سب اللہ کے پیغمبر ہیں) اور ہم اُسی کے فرماں بردار ہیں۔۱۳۵ ۔ ۱۳۶
پھر اگر وہ اُس طرح مانیں ،جس طرح تم نے مانا ہے ۳۴۲؎ تو راہ یاب ہوئے اور اگر منہ پھیر لیں تو وہی ضد پر ہیں ۔ سو اِن کے مقابلے میں اللہ تمھارے لیے کافی ہے ، اور وہ سننے والا ہے ، ہر چیز سے واقف ہے ۔ ۳۴۳ ؎ ۱۳۷
۳۳۲؎ یہ سوال کا اسلوب اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ مخاطبین اُس بات کو سننے کے لیے پوری طرح متنبہ ہو جائیں جو آگے بیان کی جا رہی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم سمجھتے ہو کہ تمھارے یہ بزرگ یہودی یا نصرانی تھے تو کیا تم اُس وقت موجود تھے جب یعقوب نے اپنے بیٹوں سے یہ گفتگو کی ۔ اسے یاد کرو اور بتاؤ کہ اُس وقت انھوں نے اپنی اولاد سے یہودیت اور نصرانیت کا اقرار لیا تھا یا اسلام کا؟
۳۳۳؎ وصیت کے وقت سیدنا یعقوب کی موت کے اس حوالے سے جن باتوں کی طرف اشارہ مقصود ہے، ان کی وضاحت استاذ امام نے اپنی تفسیر میں اس طرح فرمائی ہے :
’’ایک تو اس بات کی طرف کہ حضرت یعقوب نے یہ عہد و اقرار اپنی اولاد سے اپنے بالکل آخری لمحاتِ زندگی میں لیا ہے ، اس وجہ سے یہ گمان کرنے کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے کہ اس کے بعد ان کے مسلک و مذہب میں کوئی تبدیلی واقع ہو گئی ہو ۔ دوسری اس بات کی طرف کہ ایک شفیق و مہربان باپ جو خدا کا ایک پیغمبر بھی ہے ، اپنی اولاد سے جو عہد و اقرار، اپنے بالکل آخری لمحات ِ زندگی میں لیتا ہے ، اس کے اور اس کی اولاد کے درمیان سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا واقعہ وہی عہد و اقرار ہو سکتا ہے اورباوفا اولاد کا یہ سب سے بڑا اور سب سے مقدس فرض ہے کہ وہ ہر طرح کے حالات کے اندر اس عہد کو نباہے ، صرف ناخلف اولاد ہی اس نوعیت کے عہدو اقرار کی خلاف ورزی کرتی ہے ۔ تیسری یہ کہ اللہ سے ڈرنے والے اور اپنی اولاد سے سچی محبت کرنے والے ایک باپ کا زندگی میں اپنی اولاد سے متعلق آخری فریضہ یہ ہے کہ وہ مرتے دم ان کی دنیا سے زیادہ ان کی آخرت کی فکر کرے اور ان کو دین پر قائم رہنے اور اسی دین پر جینے اور مرنے کی تلقین کرے ۔ ‘‘ (تدبرِ قرآن ، ج ۱ ، ص ۳۴۶)
۳۳۴؎ اصل الفاظ ہیں : ’ ماتعبدون من بعدی ‘ ۔ ان میں سوال کے لیے ’ ما ‘کا لفظ سیدنا یعقوب نے اس لیے استعمال فرمایا کہ مخاطبین کے ذہن میں معبود سے متعلق اگر کوئی تردد ہو گا تو وہ ابہام کے اس اسلوب سے اُن کے جواب میں ظاہر ہو جائے گا ۔
۳۳۵؎ یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کی زبان سے اس اعتماد اور صراحت کے ساتھ یہاں سیدنا اسمعٰیل کے ذکر سے واضح ہے کہ اُن کے زمانے تک اُن کی اولاد میں اسمٰعیل اور اُن کی ذریت کے خلاف اس طرح کا کوئی تعصب نہ تھا جو بعد میں بدقسمتی سے پیدا ہو گیا ۔
۳۳۶؎ یعنی ہم توحید کے ماننے والے ہیں اور ہم نے اسلام ہی کو اپنے دین کی حیثیت سے اختیار کیا ہے ، اس کے سوا ہمارا کوئی دین نہیں ہے ۔
۳۳۷؎ یہ چند لفظوں میں اس ساری بحث کا خلاصہ ہے جو اوپر سے چلی آ رہی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم اگر یہ سمجھتے ہو کہ تمھارے حصے کا عمل بھی تمھارے بزرگ کر گئے ہیں تو یہ محض وہم و خیال ہے ۔ وہ اپنے اعمال کا صلہ خود پائیں گے ۔ اس میں تمھارا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں تم سے تمھارے بزرگوں کا عمل نہیں پوچھا جائے گا ، بلکہ تمھارا اپنا عمل پوچھا جائے گا ۔
۳۳۸؎ یعنی ایک دوسرے کی تکفیر و تضلیل کے باوجود ، جب اسلام کی مخالفت کا موقع آتا ہے تو اس طرح متحد ہو کر کہتے ہیں کہ جو شخص ہدایت اور نجات چاہتا ہو ، اسے یہودی ہونا چاہیے یا نصرانی ۔ یہ تیسرا دین جو اسلام کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے ، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
۳۳۹؎ اصل الفاظ ہیں : ’ بل ملۃ ابراہیم حنیفاً ‘ ۔ ان میں ’ ملۃ ‘ کا لفظ منصوب ہے ، لہٰذا یہاں لازماً کوئی فعل محذوف مانا جائے گا ۔ ہم نے ، جیساکہ ترجمے سے واضح ہے ، امر کا صیغہ محذوف مانا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی زبان میں اس طرح کا نصب ، بالعموم ترغیب یا ترہیب کے مواقع پر آتا ہے ،اور اس کے لیے امر کا صیغہ ہی موزوں ہے ۔ پھر یہ جملہ یہودونصاریٰ کی دعوت کے جواب میں آیا ہے اور دعوت کا جواب ، اگر غور کیجیے تو اس موقع پر دعوت ہی ہو سکتی ہے ۔
۳۴۰؎ اصل میں ’ حنیفاً ‘کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اس کے معنی پوری طرح کسی کی طرف جھک جانے کے ہیں۔ یہاں یہ مضاف الیہ سے حال واقع ہوا ہے ۔ اس پر کوئی تردد نہ ہونا چاہیے ۔ عربی زبان میں مجرور سے حال پڑنے کا یہ طریقہ بالکل عام ہے ۔
۳۴۱؎ یعنی ہم تمھاری طرح یہ نہیں کرتے کہ کسی کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں ۔ اللہ تعالیٰ کی کسی ہدایت کو بھی ہم نہ جھٹلاتے ہیں اور نہ تردید کرتے ہیں ، بلکہ بغیر کسی استثنا کے سب پر ایمان رکھتے ہیں ۔
۳۴۲؎ یعنی بغیر کسی تفریق اور تعصب کے جس طرح تم نے تمام نبیوں اور تمام رسولوں کو مانا ہے ، اسی طرح یہ بھی مانیں ۔
۳۴۳؎ اس سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان دلانا ہے کہ تمھارا پروردگار سب کچھ سنتا اور جانتا ہے ، لہٰذا تم بے خوف ہو کر اپنی ذمہ داری پوری کرتے رہو ۔ ان کے مقابلے میں تمھاری طرف سے وہی کافی ہے ۔
(باقی )
ـــــــــــــــــ