HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

مسجد میں بچوں کو لے جانا

قارئین کے خطوط و سوالات پر مختصر مبنی جوابات کا سلسلہ


    سوال : میں جس مسجد میں نماز پڑھتا ہوں وہاں امام صاحب تواتر سے ہر جمعے کے خطبے میں فرماتے ہیں کہ چھوٹے بچوں کو مسجد میں نہ لایا کریں ۔ ان کا مسجد میں لانا منع ہے کیونکہ یہ مسجد میں شور کرتے ہیں۔ پھر جماعت سے پہلے یوں فرماتے ہیں کہ سب بچوں کوصفوں کے آخری سروں پر کھڑا کریں ۔

    دوسری طرف مولانا صاحبان یہ بھی ذکر کرتے رہتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے نماز کے دوران میں آپ کے کندھوں پر چڑھ جاتے تھے اور آپ اس موقع پر لمبا سجدہ فرمایا کرتے تھے۔

    ان دونوں پہلوؤں پر روشنی ڈالیے ۔ مزید یہ کہ میرے پوتے بڑے شوق سے میرے ساتھ جمعے کی نماز پڑھنے جاتے ہیں ۔ ہم انھیں ایک ایک کرکے اپنے بیچ میں کھڑا کر لیتے ہیں ، تاکہ وہ باہم مل کر شور نہ کریں ۔ میرا خیال یہ ہے کہ ہم اگر ان کے مسجد جانے کے شوق کو برقرار رکھیں تو یہ خود ہی مسجد کے آداب سیکھ لیں گے ۔ (محمد زبیر خان ،لاہور )

    جواب : آپ کا یہ خیال لائقِ تحسین ہے کہ آپ اپنے بچوں کومسجد جانے اور نماز پڑھنے کا عادی بنانا چاہتے ہیں ، لیکن بچوں کے معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالعموم یہی طریقہ اختیار کیا تھا کہ وہ الگ صف میں کھڑے کیے جائیں ۔ اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ نماز میں دھیان صرف اللہ کی طرف رہے کیونکہ بچوں کی وجہ سے دھیان کے بٹنے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں ۔ لہٰذا بہتر یہی قرار دیا گیا کہ ان کی صف الگ ہو ۔ اس مصلحت کے پیشِ نظر یہ بھی بہتر لگتا ہے کہ ذرا زیادہ عمر کے بچے ہی مسجد میں لے جائے جائیں ۔ بہرحال پنجگانہ نماز میں بچوں کی الگ صف بنانے میں کوئی دشواری نہیں ہے لہٰذا اس کا اہتمام کیا جائے تو بہتر ہے ۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ ایک تدبیر ہے ، اسے اختیار کرنا لازم نہیں کیا گیا ۔

    باقی رہا معاملہ جمعہ اور عیدین کی نماز کا تو اس میں بچوں کی الگ صف بنانا ممکن نہیں لہٰذا ایک صورت تو یہ اختیار کی جا سکتی ہے کہ بچوں کو صف کے ایک طرف آخر میں کھڑا کیا جائے اور دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ وہ طریقہ اختیار کر لیا جائے جو آپ نے تجویز کیا ہے ۔موجودہ حالات میں آپ کی تجویز زیادہ بہتر ہے۔


نشہ آور اشیا اور شراب

    سوال: آج کل نشہ کی عادت معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے اور گھن کی طرح اسے کھوکھلا کر رہی ہے ۔ یہ مسئلہ دن بدن گھمبیر ہوتا جارہا ہے ۔اخبارات میں ان کے علاج کی اپیلیں شائع ہوتی ہیں۔ لیکن علاج معالجے کے باوجود اس مسئلے کی شدت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔

    میں نے علما سے سنا ہے کہ شراب پینے والے کے لیے اسلام میں سزا مقرر ہے ۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ شراب کے علاوہ دوسری نشہ آور چیزیں مثلاً چرس ، افیم اور ہیروئن کا معاملہ کیا ہے ،کیا تمام نشہ آور اشیا شراب کی طرح حرام نہیں اور کیا یہ شرعاً قابلِ سزا نہیں ؟(محمد زبیر خان ،لاہور )

    جواب : قرآنِ مجید میں شراب کو ممنوع قرار دیا گیا ہے ، لیکن اس کے پینے والے کے لیے کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں شراب پینے والے کو حضور کے حکم پر زدوکوب کیا گیا ۔ یعنی کوئی متعین سزا نہیں دی گئی ۔ حضرت ابوبکر کے زمانے میں شراب نوشی کی سزا چالیس کوڑے مقرر کی گئی اور بعد میں اس سزا کو دگنا یعنی اسی کوڑے کر دیا گیا ۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ یہ معاملہ حکمرانوں کے اختیار پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ وہ اس جرم کے ارتکاب پر کوئی بھی سزا تجویز کر سکتے ہیں ۔

    نشہ آور اشیا میں صرف شراب ہی حرام نہیں ہے ۔ تمام نشہ آور چیزیں حرام ہیں ۔ اور ان میں سے ہر ایک کے استعمال پر سزا دی جاسکتی ہے ۔ یہ سزا ایک بھی ہو سکتی ہے اور نشہ آور اشیا کی نوعیت کے فرق کی بنا پر مختلف بھی۔

    مجھے آپ کی اس بات سے اتفاق ہے کہ شراب ہی کی طرح دوسرے نشہ آور چیزوں کے استعمال کو جرم قرار دینا چاہیے اور ان اشیا کے تیار کرنے والوں ، بیچنے والوں اور استعمال کرنے والوں کو ان کے جرم کی شناعت کے مطابق سزا ملنی چاہیے ۔


پل صراط اور تمثیل

    سوال : میرے پل صراط سے متعلق سوال کا آپ نے بڑی تفصیل سے جواب دیا ۔ ایک چھوٹی سی وضاحت اور فرما دیجیے ۔ کیا دنیوی زندگی ہی کو تمثیلاً پل صراط کہا گیا ہے یا قیامت میں واقعی پل ہو گا ؟

                                                            (محمد زبیر خان ،لاہور )

    جواب : میں نے اپنے سابقہ جواب میں متعلقہ روایات بھی درج کی تھیں۱؎ ۔ ان روایات کی روشنی میں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ دنیوی زندگی قیامت میں اس طرح ممثل ہو جائے گی جس طرح کہ روایات میں بیان ہوا ہے۔ لیکن اس کی حقیقت امورِ متشابہات میں سے ہے لہٰذا اس واقعے کی نوعیت متعین کرنا ممکن نہیں ۔

    میں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ یہ کوئی نئی آزمایش نہیں ہے ، بلکہ اسی آزمایش کا تمثیلی مظہر ہے ،جس سے ہم اس دنیا میں دوچار ہیں ۔


ہجرت کے حالات

    سوال : سورۂ نساء کی آیات ۷۹۔۹۹میں ارشاد ہے :

    ’’جو لوگ اپنا برا کر رہے ہیں جب ان کی جان فرشتے نکالیں گے تو وہ ان سے پوچھیں گے تم کس حال میں تھے ۔وہ کہیں گے ہم خدا کی زمین میں بے بس تھے ۔ فرشتے کہیں گے کیا خد ا کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم وطن چھوڑ کر وہاں سے چلے جاتے ۔یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے ۔مگر وہ بے بس مرد عورتیں اور بچے جو کوئی تدبیر نہیں کر سکتے اور کوئی راہ نہیں پارہے ہیں ۔ یہ لوگ توقع ہے کہ اللہ انھیں معاف کر دے گا ۔ اور اللہ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔‘‘

    یہاں پر ’’جو لوگ برا کر رہے ہیں ‘‘سے کیا مراد ہے ؟ کیا کشمیر ، چیچنیا اور کسووا میں بسنے والے مسلمانوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا ؟ کیا یہ آیات ان لوگوں سے مخاطب ہیں جو ایسی جگہوں پر رہ رہے ہیں جہاں احکامِ الہٰی کی بجاآوری مشکل ہے اور فساد کا خطرہ ہے ؟ ایسی صورت میں جو لوگ امریکہ اور یورپ جانے کی سعی کرتے ہیں ان کے لیے کیا شرعی احکام ہیں ؟ (سیف الرحمان عباسی ،راولپنڈی)

    جواب :یہ آیات ان مقامات پر رہنے کو غلط قرار دے رہی ہیں ، جہاں اپنے عقیدے پر عمل سے بالجبر روکا جا رہا ہو ۔ چنانچہ ایسے علاقوں میں رہنے والے وہ لوگ جو کسی طرف نکل سکتے تھے اور نہ نکلیں ،قیامت کے دن ان کا عذر قبول نہیں کیا جائے گا ۔یہ صورت جہاں بھی مسلمانوں کو درپیش ہو ان کے لیے ہجرت کرنا ضروری ہو جاتا ہے ۔آپ نے کشمیر اور چیچنیا کا ذکر کیا ہے ، ان علاقوں میں اگر مسلمانوں کو بالجبر غیر اسلامی طریقے اپنانے پڑتے ہیں تو ہجرت کا راستہ اختیار کرنا ہی ان کے دین کا تقاضا ہے ۔ ہمارے علم کی حد تک اس وقت مذکورہ ممالک میںسے کسی بھی ملک میں مسلمانوں کو یہ صورت درپیش نہیں ہے ۔ لہٰذا آیت کے حوالے سے ان علاقوں سے ہجرت کا کوئی سوال نہیں ۔ اصل میں فلسطین ، کشمیر اور چیچنیا میں آزادی کی جدوجہد کی جا رہی ہے اور وہاں درپیش سارے مسائل اسی جدوجہد کے حوالے سے ہیں ۔

    باقی رہا امریکہ یا یورپ میں قیام تو وہاں مسلمانوں کو یہ جبر تو درپیش نہیں ہے ۔ البتہ وہاں کے حالات صحیح اسلامی زندگی گزارنے کے لیے ساز گار نہیں ہیں ۔ اس مصلحت کے پیشِ نظر بس اتنی بات کہی جا سکتی ہے کہ معاشی جدوجہد کے لیے اپنے ملک کو ترجیح دی جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے ۔


کفار سے دوستی

    سوال : قرآنِ مجید میں کئی جگہ کفار کی مسلمانوں سے دشمنی کا ذکر ہے اور کفار کی دوستی کو فریب کہا گیا ہے ۔ کیا اس کا اطلاق موجودہ زمانے پر بھی ہے ۔ جبکہ بہت سے غیر مسلم ہمارے ساتھی طالب علم ہیں اور اچھے دوست ہیں ۔ ( سیف الرحمان عباسی ،راولپنڈی)

    جواب :نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کفراور اسلام کی کشمکش اپنے عروج پر تھی ۔ دشمن ہر ہر اعتبار سے اسلام کی بیخ کنی کے درپے تھا اور اسلام کے ماننے والے کسی بھی طرح اپنے موقف سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں تھے ، بلکہ وہ اپنے جان ومال کے ساتھ دین کے لیے میدانِ کارزار میں اترے ہوئے تھے۔ اس صورتِ حال میں دشمن کے ساتھ دوستی در حقیقت اپنے دین کے ساتھ تعلق میں کمی کی علامت قرار پاتی تھی اور دشمن کی دوستی کی کوشش بھی کسی خلوص پر مبنی نہیں تھی ۔موجودہ زمانے میں وہ صورتِ حال نہیں ہے ۔ لہٰذا کسی غیر مسلم سے دوستی میں حرج نہیں ہے ۔ البتہ جہاں ایسا ہو وہاں دین کے تقاضوں کو ہر حال میں ترجیح دی جائے گی ۔ اگر ہم تعلقات کے معاملے میں اس ارشادِ پیغمبر کو پیشِ نظر رکھ سکیں تو یہ ہمارے لیے ایک کسوٹی بن سکتا ہے کہ جس نے اللہ کی خاطر دوستی کی اور جس نے اللہ کی خاطر دشمنی کی ، وہ مومن ہے ۔


غیر مسلم کے نیک اعمال

    سوال :کوئی ایسا شخص جس تک اسلام کی دعوت نہ پہنچ سکی ہو ، لیکن وہ اپنے فہم کے مطابق پاکیزہ اور صاف ستھری زندگی گزارتا ہے تو اس صورت میں اس کے پاکیزہ اعمال کی کیا حیثیت ہو گی ؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور جو شخص کوئی نیک کام کرے گا ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت (بشرطیکہ وہ مومن ہو)تو ایسے لوگ ضرور جنت میں جائیں گے ۔‘‘ ( سیف الرحمان عباسی ،راولپنڈی)

    جواب:قیامت کے دن حق کے منکر سخت عذاب سے دوچار ہوں گے ۔ یہ بات بطور اصول بالکل واضح ہے ۔البتہ یہ فیصلہ کہ کوئی شخص حق کا منکر ہے انتہائی عدل کے ساتھ کیا جائے گا ۔ چنانچہ اس معاملے میں اگر ایک فرد کوئی حقیقی عذر رکھتا تھا تو یہ عذر قبول کیا جائے گا ۔اللہ تعالیٰ کے عدل پر اس یقین کی روشنی میں ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ وہ شخص جس کو اسلام کی دعوت نہیں پہنچی ،لیکن وہ اپنے علم و فہم کے مطابق نیکی کے راستے پر چلنے کے لیے کوشاں رہا ،وہ جنت میںجائے گا ۔


قیامت سے پہلے جنت یا جہنم

    سوال : انسان کی کامیابی یا ناکامی دوسرے لفظوں میں انسان کے لیے جنت یا دوزخ کا فیصلہ قیامت کے دن ہو گا ، لیکن اکثر علما وعظ کے دوران میں بتاتے ہیں کہ فلاں شخص نے نیک عمل کیا تو اللہ نے اسے جنت عطا کردی یا فلاں شخص نے ساری زندگی گناہوں کی دلدل میں گزاری لیکن فلاں نیک عمل کی وجہ سے اللہ کے دربار میں سرخرو ٹھیرا اور جنت کا حق دار بن گیا ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ روز ِجزا و سزا سے پہلے جنت یاجہنم کے حق دار کیسے ٹھہرے ۔ نامہء اعمال تو روز ِآخرت اللہ کے سامنے پیش ہو گا اور کامیابی کا فیصلہ اس دن ہو گا ، لیکن اس سے پہلے ؟( سیف الرحمان عباسی ،راولپنڈی)

    جواب :اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنت اور دوزخ کا حتمی فیصلہ قیامت کے بعد ہی ہو گا ۔ لیکن قرآنِ مجید سے معلوم ہو تا ہے کہ برزخ کی زندگی ہی میں واضح ہو جاتا ہے کہ آدمی کا کیا انجام ہونے والا ہے ۔مواعظ میں بیان کیے گئے یہ واقعات نہ قرآنِ مجید سے ماخوذ ہیں اور نہ ان کا ماخذ صحیح روایات ہیں ۔لہٰذا ان کی کوئی دینی حیثیت نہیں ہے ۔البتہ اگر انھیں محض برزخ کی زندگی میں ملنے والی خوش خبری قرار دے دیا جائے تو یہ ایک قابلِ قبول بات ہے ۔


انعامی اسکیمیں اور جوا

    سوال: آپ نے میرے ایک سوال کے جواب میں لکھا تھا کہ ’’اگر انعام کے لالچ میں ہم کوئی چیز خریدیں اور انعامی کوپن پر کر کے روانہ کر دیں تو اس پر نکلنے والا انعام ناجائز ہو گا ۔ جبکہ اگر بغیر انعام کی نیت کے کوئی چیز خریدی جائے اور اس پر اتفاقاً انعام نکل آئے تو یہ صورت مباح ہے ۔ ایسے معاملات میں اصل فیصلہ دل کرے گا ۔‘‘میرا سوال یہ ہے کہ مولانا عبد المالک نے ایسے ہی سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا تھا کہ چونکہ ہم اپنی ادا کردہ قیمت کے بدلے چیز لے چکے ہوتے ہیں اور ہماری دولت داؤ پر نہیں لگتی ، اس لیے اسے جوا قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب ہم کوپن بھیجیں گے تو لازماً ہماری نیت انعام کی ہوگی ۔ ایسی صورت میں آپ کی رائے وضاحت کی محتاج ہے ۔(محمد صفتین ،راولپنڈی)

    جواب :مولانا عبدالمالک کا جواب جوئے کی متعینہ تعریف کی روشنی میں ہے ۔ انعامی کوپن کی ان سکیموں میں جوا اپنی کامل صورت میں نہیں ہوتا ۔ لہٰذا انھیں بعینہ جوا قرار دینا مشکل ہے ۔ البتہ ان سکیموں میں جوئے کی روح موجود ہے ۔ خاص طور پر اس صورت میں جب آدمی انعام ہی کی غرض سے کوئی چیز خریدتا ہے ۔ اس سے کمتر سطح وہ ہے ، جس میں شے کسی دوسرے محرک سے خریدی گئی لیکن کوپن بھر کر بھیج دیا گیا ۔ اسی لیے میں نے اس انعام کو سب سے محفوظ صورت قرار دیا ہے جو اتفاقاً نکل آئے اور انعام وصول کرنے والے نے اس طرح کی انعامی اسکیم میں شرکت کی کوئی تدبیر اختیار نہ کی ہو ۔ یہ بات میں پھر بیان کردوں کہ اشیاے صرف پر جاری کی گئی انعامی سکیموں کو صریحاً جوا قرار نہیں دیا جا سکتا ۔


بدشگونی اور طبی امراض

    سوال :آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض احادیث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وبائی امراض کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہامہ ، بیماری لگنا اور شگونِ بد کوئی چیز نہیں ہے ۔‘‘

    جبکہ جدید دور میں میڈیکل سائنس کی تحقیق یہ ہے کہ مرض ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسری جگہ آپ نے ایک شخص کو دوسرے مریض شخص سے دو فٹ کے فاصلے سے بات چیت کرنے کی ہدایت کی ۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ بالاحدیث کی نفی ہوتی ہے ۔ اس بارے میں وضاحت کر دیجیے ۔(محمد صفتین ، راولپنڈی )

    جواب : یہ دونوں روایتیں الگ الگ موقع کی ہیں ۔پہلی روایت میں بدشگونی کی مختلف شکلوں یعنی ’طیرۃ ‘، ’ھامۃ‘ اور ’صفر‘ پر ’عدوی‘ کے عطف سے واضح ہے کہ معاملہ توہم پرستی کی تغلیط کا ہے ۔ہماری اس بات کی تائید مفصل روایت کے مطالعے سے ہو جاتی ہے:

 عـن ابـی ھـریـرۃ قـال : قـال رسـول الـلـّٰہ صـلـی الـلّٰـہ عـلـیـہ وسـلـم لا عــدوی و لا طـیـرۃ و لا صـفـر و لا ھـامـۃ ۔ فـقـال اعـرابـی: مـا بـال الابـل تـکـون فـی الـرمـل کـأنـھـا الـظـبـاء فـیـخـالـطـھـا الـبـعـیـر الأجـرب فـیـجـربـھـا ۔ قـال : فـمـن أعـدی الاولـی۔                   (ابو داؤد ،کتاب الطب ،باب۵۳)
   ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیماری کا متعدی ہونا ، بدشگونی ،پیٹ کے سانپ ۱؎ اور پرندے یا الو کے گرنے ۲؎ کی کوئی حقیقت نہیں ۔ آپ کی یہ بات سن کر ایک بدو نے پوچھا : ان اونٹوں کا کیا معاملہ ہے جو صحرا میں بھلے چنگے ہوتے ہیں، گویا کہ وہ ہرنوں کی طرح(چاک و چوبند) ہیں۔ پھر ان میں ایک بیمار اونٹ آملتا ہے جو انھیں بیمار کر دیتا ہے۔ آپ نے پوچھا : پہلے کو کس نے بیمار کیا تھا ۔‘‘

    اس روایت میں بیان کی گئی تمام مثالیں عربوں کے توہمات سے متعلق ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تردید کی ہے ۔ اسی طرح بیماری کے متعدی ہونے کے ساتھ توہم کا وابستہ ہونا بھی شرک کا راستہ کھولتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی ساتھ شامل کر لیا ہے۔ آپ ﷺ کا یہ پوچھنا کہ ’’پہلے کو کس نے بیمار کیا۔‘‘ درحقیقت خدا کے فیصلے اور اذن کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہے ۔

    آپ نے جس دوسری روایت کا ذکر کیا ہے ، اس کا تعلق احتیاطی تدبیر سے ہے ۔ اور دنیوی اعتبارسے مناسب تدابیر اختیار کرنا بھی دین کے مطابق ہے ، البتہ تدابیر اختیار کرتے ہوئے یہ واضح رہنا چاہیے کہ کوئی تدبیر اللہ تعالیٰ کے اذن و توفیق کے بغیر موثر نہیں ہوتی ۔


راضی نامہ

    سوال :سورئہ نساء میں ہے : ’’ان عورتوں میں سے جن کو تم کام میں لائے ان کو ان کا طے شدہ مہر دو اور مہر ٹھیرانے کے بعد جو تم نے آپس میں راضی نامہ کیا ہو تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔ ‘‘یہاں پر راضی نامہ سے کیا مراد ہے ۔ ( سیف الرحمان عباسی ،راولپنڈی )

    جواب :یہاں راضی نامہ سے مراد مہر کی رقم میں تخفیف پر فریقین کا راضی ہونا ہے ۔


سزا میں فرق

    سوال : سورئہ نساء میں ہے کہ مردوں کی بدکاری کی سزا میں اذیت پہنچانے کا ذکر ہے اور عورتوں کو صرف گھروں میں قید کرنے کا۔ حالانکہ دونوں ایک جیسے قبیح فعل کے مرتکب ہوئے ہیں ؟(سیف الرحمان عباسی ،راولپنڈی )

    جواب :’والتی یاتین الفاحشۃ‘ والی آیت کا تعلق قحبہ عورتوں سے ہے اور ’والذان یاتیانھا ‘کا چوری چھپے یاری آشنائی گانٹھنے والے جوڑوں سے ۔ دونوں احکام عارضی تدبیر کے طور پر تھے ۔ بعد میں باقاعدہ سزائیں نافذ کی گئی تھیں ۔


بندۂ مومن اور جسدِ خاکی

    سوال :اکثر سنا جاتا ہے کہ اللہ کے بندوں کے جسموں کو کچھ بھی نہیں ہوتا حتیٰ کہ کفن بھی صدیاںگزر جانے کے باوجود خراب نہیں ہوتا ۔ شریعت کی رو سے اس کی کیا اہمیت ہے ؟(راشد امداد، سیالکوٹ)

    جواب :یہ شریعت کا مسئلہ نہیں ہے ۔ یہ بات نہ قرآنِ مجید میں بیان ہوئی ہے اور نہ احادیث میں ۔ اس کا انحصار مختلف واقعات کے مشاہدے پر ہے ۔ اس معاملے میں دین کی روشنی میں نفیاً یا اثباتاً کوئی بات کہنا نصوص ہی کی بنیاد پر ممکن ہے ۔ لہٰذا نصوص کی عدم موجودگی میں کسی میت کے محفوظ رہنے کی اطلاع یقینی ذرائع سے ملے تو اس کے انکار کی کوئی وجہ نہیں ۔

    اس ضمن کی ایک دلچسپ بات حضرت یوسف علیہ السلام کی وصیت کے حوالے سے بائیبل میں بیان ہوئی ہے ۔آپ نے وصیت کی تھی کہ جب بنی اسرائیل مصر چھوڑ کر جائیں تو میر ی قبر سے میری ہڈیاں نکال کر ساتھ لے جائیں ۔ اگر یہ وصیت انھی الفاظ میں کی گئی تھی ،یعنی ترجمے کی وجہ سے کو ئی خرابی نہیں ہوئی تو پھر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ نیک آدمی کے جسم کا محفوظ رہنا کوئی لازمی امر نہیں ہے ۔ یہ عمل کچھ اور مصالح کے تحت ہوتا ہے جن کا علم نہیں دیا گیا ۔


دعوت کا کام

    سوال : مجھے مشورہ دیجیے کہ مجھے دعوت کا کام کیسے کرنا چاہیے ۔ (راشد امداد ، سیالکوٹ)

    جواب : دعوت کے کام کے دو میدان ہیں ۔ ایک دعوت وہ ہے جس میں ایک آدمی لوگوں کے سامنے دین کی شرح و وضاحت کرتا ، بدعات اور فکری انحرافات کی نشان دہی کرتا اور اس سارے کام کے لیے عقل و نقل کے اصولوں کے مطابق فکری بحثیں کرتا ہے ۔اس دعوت کے لیے ’تفقہ فی الدین ‘کی شرط ہے ۔ اس اہلیت کے بغیر یہ کام انجام دینا قرآنِ مجید کی نص سے رو گردانی ہے ۔دوسری دعوت وہ ہے ، جس میں داعی خدا اور بندے کے حقوق کے ادا کرنے کی یاددہانی کراتا ہے ۔ یہ کام کرتے ہوئے داعی اصل میں کسی عالمِ دین سے وابستہ ہوتا ہے ۔

    آپ اپنے موجودہ حالات میں یہی کام کر سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو استقامت اور بے خوفِ لومۃِ لائم، محض آخرت کے جذبے اور مجادلہ ء احسن کے اسلوب میں اس کام کی توفیق دے ۔ اس موضوع پر تفصیل کے لیے آپ استاذ محترم کی کتاب ’’قانونِ دعوت‘‘ کا مطالعہ ضرور کرلیں ۔


ملکِ یمین

    سوال :سورئہ نساء میں فرمایا گیا ہے : ’’اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ تم عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی نکاح کرو یا جو کنیز تمھاری ملک میں …‘‘ اس آیہ میں ’یا جو کنیز تمھاری ملک میں ہو‘ سے کیا مراد ہے ؟ کیا کنیز سے ازدواجی تعلقات استوار کیے جا سکتے ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو یہ بدکاری نہ ہو گی ؟(سیف الرحمان عباسی ،راولپنڈی )

    جواب: ملک یمین سے مراد وہ مرد وعورت ہیں جو جنگ میں قیدی بنے ہوں اور انھیں فاتح لشکر کے افراد میں تقسیم کرکے ان کی ملکیت قرار دے گیا ہو ۔ یہ قدیم زمانوں کاضابطہ تھا ۔ اسلام نے اسے ایک ایسی برائی کی حیثیت سے پایا جو معاشرے میں پھیلی ہوئی تھی چنانچہ اس نے غلاموں کی حالت کی بہتری کے ساتھ ساتھ غلامی کے خاتمے کے اقدامات بھی کیے۔یہ آیت لونڈی کے بارے میں اسی عبوری دور کاحکم بیان کرتی ہے ۔ چنانچہ اس میں لونڈی کے ساتھ زوجی تعلق کو جائز قرار دیا گیا ہے ۔اس وضاحت کی ضرورت ہی اس لیے پیش آئی تھی کہ لوگ لونڈی کے ساتھ اس تعلق کو ناجائز نہ سمجھیں۔


زکوٰۃ کی شرح

    سوال : اشراق جولائی ۰۰۰۲ میں محمد بلال صاحب کی ایک تحریر ’’ٹیکس ـــــ ایک دینی مسئلہ‘‘ میں زکوٰۃ کی بیان کی گئی پانچ اور دس فیصد شرحوں کی بنیاد کیا ہے ۔جبکہ میرے مطالعے اور چھان پھٹک کے مطابق زکوٰۃ کی شرح صرف ڈھائی فیصد ہے ۔ (عبدالجبار )

    جواب : اس سوال کی وجہ بلال صاحب کے مضمون میں زکوٰۃ کی اصطلاح کاوسیع مفہوم میں استعمال ہے ۔ قرآن و حدیث میں یہ لفظ جس طرح سوناچاندی یعنی نقود کی زکوٰۃ کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اسی طرح یہ زرعی اجناس کی زکوٰۃیعنی عشر اور نصف عشر کے لیے بھی آتا ہے ۔ ظاہر ہے ، پہلی قسم کی شرح ڈھائی فیصد اور دوسری کی پانچ اور دس فیصد ہے ۔ یہ دونوں شرحیں فقہ و حدیث کی کتب میں الگ عنوانات کے تحت بیان ہوئی ہیں ۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے ، جسے ثابت کرنے کے لیے حوالے کی ضرورت پیش آئے ۔


نکاح میں لڑکی کی رضا مندی

    سوال : شادی ایک مقدس فریضہ ہے ، لیکن ہمارے معاشرے میں اس کو ایک مصیبت بنا دیا گیا ہے ۔بالخصوص لڑکیوں کے معاملے میں تو صورتِ حال اور بھی سنگین ہے ۔ والدین انھیں ایک بوجھ سمجھ کر سر سے اتار دینا چاہتے ہیں اور اس ضمن میں ان کی پسند و ناپسند کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا ۔ دراصل میں خود بھی آج کل اسی مسئلے کا شکار ہوں ۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ اس بارے میں اسلام کا حکم کیا ہے؟

    جواب : شادی کے حوالے سے لڑکی کی رضا مندی ایک ضروری چیز ہے ۔ اس کو نظر انداز کرنا کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ۔ اگر لڑکی کسی نکاح کے معاملے میں رضا مند نہ ہو تو یہ نکاح نہیں ہوتا ۔ البتہ نکاح کے ضمن میں یہ احتیاط بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ لڑکی کے والدین یا اولیا اور اسی طرح لڑکے کے والدین یا اولیا بھی راضی ہو کر شریک ہوں ۔ اگرچہ ایسا ہونا نکاح کے درست ہونے کے لیے شر ط نہیں ہے ، لیکن اس کو ملحوظ نہ رکھنے کے نتیجے میں بہت سی معاشرتی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور نئے جوڑے کی زندگی بھی اجیرن ہو جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ولی کی رضا مندی کی بڑی تاکید کی ہے ۔

    آپ کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنی والدہ کے ساتھ الگ بیٹھ کر اپنی مرضی بیان کر دیں ۔ لڑکی کا اپنی مرضی بیان کرنا یا کسی لڑکے کو پسند کرنا بالکل معیوب نہیں ۔ اصل میں وہ معاشرت نامطلوب ہے جو دورِ جدید میں پیدا ہو گئی ہے اور لڑکے لڑکیاں آزادانہ گھومتے اور دوستیاں کرتے ہیں ۔ پاکیزگی ، حیا اور آدابِ معاشرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے لڑکی کا اپنی بات کہنا ایک موزوں عمل ہے ۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ لڑکی اپنے والدین کی رائے کو بھی انصاف کے ترازو میں تولے اور جذبات کی رو میں بہ کر ان کے تجربے سے فائدہ اٹھانے سے محروم نہ رہے ۔ اسی طرح والدین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کے جذبات کا لحاظ کریں اور محض سماجی رسوم کی پیروی ہی کو اپنا مقصود نہ بنا لیں ۔

ـــــــــــــــــــ

  ۱؎ دیکھیے’’اشراق‘‘ ستمبر۰۰۰۲، ص ۸۶۔

 ۱ ؎ عربوں کا خیال تھا کہ بھوک کی شدت میں پیٹ کی اینٹھن کا باعث ایک سانپ ہے۔

 ۲ ؎ زمانہء جاہلیت کے عربوں کے نزدیک الو کے گھر میں اترنے سے مصیبتیں آتی ہیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B