بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھِیْمُ لِاَبِیْہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِھَۃً اِنِّیْٓ اَرٰکَ وَقَوْمَکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ{۷۴} وَکَذٰلِکَ نُرِیْٓ اِبْرٰھِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ{۷۵}
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْہِ الَّیْلُ رَاٰ کَوْکَبًا قَالَ ھٰذَا رَبِّیْ فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ{۷۶} فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ھٰذَا رَبِّیْ فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَّمْ یَھْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَکُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ{۷۷} فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَۃً قَالَ ھٰذَا رَبِّیْ ھٰذَآ اَکْبَرُ فَلَمَّآ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ{۷۸} اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ{۷۹}
وَحَآجَّہٗ قَوْمُہٗ قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰہِ وَقَدْْ ھَدٰنِ وَلَآ اَخَافُ مَا تُشْرِکُوْنَ بِہٖٓ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ رَبِّیْ شَیْئًا وَسِعَ رَبِّیْ کُلَّ شَیْئٍ عِلْمًا اَفَلَا تَتَذَکَّرُوْنَ{۸۰} وَکَیْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَکْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکْتُمْ بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطٰنًا فَاَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ{۸۱} اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مُّھْتَدُوْنَ{۸۲}
وَتِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰھَآ اِبْرٰھِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآئُ اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ{۸۳} وَوَھَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ کُلًّا ھَدَیْنَا وَنُوْحًا ھَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَھٰرُوْنَ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ{۸۴} وَزَکَرِیَّا وَیَحْیٰی وَعِیْسٰی وَاِلْیَاسَ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ{۸۵} وَاِسْمٰعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَیُوْنُسَ وَلُوْطًا وَکُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ{۸۶} وَمِنْ اٰبَآئِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَاِخْوَانِھِمْ وَاجْتَبَیْنٰھُمْ وَھَدَیْنٰھُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ{۸۷} ذٰلِکَ ھُدَی اللّٰہِ یَھْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَلَوْاَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ{۸۸} اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ فَاِنْ یَّکْفُرْ بِھَا ھٰٓؤُلَآئِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِھَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِھَا بِکٰفِرِیْنَ{۸۹} اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدٰھُمُ اقْتَدِہْ قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِنْ ھُوَ اِلَّا ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ{۹۰}
اِنھیں ابراہیم کا واقعہ سناؤ۹۵؎،جب اُس نے اپنے باپ آزر ۹۶؎سے کہا تھا:کیا تم بتوں کو معبود بنائے بیٹھے ہو؟ میں تو تمھیں اور تمھاری قوم کو بالکل گمراہی میں دیکھ رہا ہوں۔ ابراہیم کو ہم اِسی طرح زمین و آسمان کی بادشاہی کا مشاہدہ کراتے تھے۹۷؎ تاکہ وہ اپنی قوم پر ہماری حجت قائم کرے اور خود بھی اُن لوگوں میں سے ہو جائے جو پورا یقین رکھنے والے ہوں۹۸؎۔۷۴-۷۵
چنانچہ۹۹؎ (ایک دن)جب اُس پر رات طاری ہوئی تو اُس نے تارا دیکھا (اور لوگوں کو متوجہ دیکھ کر) کہا: یہ میرا رب ہے۔ پھر (اِسی طرح کے ایک موقع پر) جب تارا ڈوب گیا تو اُس نے کہا: میں (خدائی کے لیے) اُن کو پسند نہیں کرسکتا جو ڈوب جاتے ہیں۱۰۰؎۔ پھر (ایک دن)چاند کو چمکتے دیکھا تو کہا:یہ میرا رب ہے۔ لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو اُس نے کہا: اگر میرے پروردگار نے میری رہنمائی نہ فرمائی تو میں گمراہوں میں سے ہو کر رہ جائوں گا۱۰۱؎۔ پھر (ایک دن)سورج کو چمکتے دیکھا تو کہا: یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے۱۰۲؎۔لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو اُس نے (اپنی قوم کو مخاطب کرکے) کہا: میری قوم کے لوگو، میں اُن سب سے بری ہوں جنھیں تم (خدا کے) شریک ٹھیراتے ہو۔ میں نے یک سو ہو کر اپنا رخ اُس ہستی کی طرف کر لیا ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۱۰۳؎۔۷۶-۷۹
اُس کی قوم (اِس بات پر) اُس سے جھگڑنے لگی۔ اُس نے جواب دیا: کیا تم اللہ کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے ہو، دراں حالیکہ اُس نے میری رہنمائی فرمائی ہے۱۰۴؎۔میں اُن سے نہیں ڈرتا جنھیں تم اُس کا شریک ٹھیراتے ہو۱۰۵؎۔ ہاں، اگر میرا پروردگار ہی کچھ چاہے۱۰۶؎۔میرے پروردگار کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۱۰۷؎۔پھر کیا تم دھیان نہیں کرتے؟ اور میں اُن چیزوں سے کیسے ڈروں جنھیں تم شریک ٹھیراتے ہو، جبکہ تمھارا حال یہ ہے کہ تم اِس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اُن چیزوں کو اللہ کا شریک بنا رکھا ہے جن کے حق میں اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی ہے۱۰۸؎؟سو (بتائو کہ) ہم دونوں فریقوں میں سے کون امن و اطمینان کا زیادہ مستحق ہے، اگر تم جانتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ امن و اطمینان تو اُنھی کے لیے ہے جو ایمان لائے اور اُنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم ۱۰۹؎سے آلودہ نہیں کیا اور وہی راستہ پانے والے ہیں۔۸۰-۸۲
یہ تھی ہماری وہ حجت جو ہم نے ابراہیم کو عطا فرمائی کہ اپنی قوم پر قائم کرے۱۱۰؎۔ہم جس کو چاہتے ہیں، اُس کے درجے پر درجے بلند کر دیتے ہیں۱۱۱؎۔حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار حکیم و علیم ہے۱۱۲؎۔(پھر یہی نہیں)، ہم نے ابراہیم کو اسحٰق اور یعقوب عنایت فرمائے۔ اُن میں سے ہر ایک کو ہم نے ہدایت بخشی۔ اِس سے پہلے یہی ہدایت ہم نے نوح کو بخشی تھی اور (ابراہیم کے بعد) اُس کی ذریت میں سے دائود، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ ہم نیکوکاروں کو اِسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں۔ اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیا۱۱۳؎س کو بھی۔ یہ سب نیکوکاروں میں سے تھے۔ اور اسمٰعیل، یسع۱۱۴؎، یونس اور لوط کو بھی۔اِن میں سے ہر ایک کو ہم نے دنیا والوں پر فضیلت عطا فرمائی تھی۱۱۵؎۔ نیز اُن کے آباواجداد، اُن کی اولاد اور اُن کے بھائی بندوں کو بھی ہم نے اپنی ہدایت سے نوازا، اُنھیں برگزیدہ کیا اور (توحید کی اِسی) صراط مستقیم۱۱۶؎ کی طرف اُن کی رہنمائی فرمائی تھی۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے۔ اپنے بندوں میں سے وہ جسے چاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق) اِس سے سرفراز فرماتا ہے۔ لیکن اگر کہیں یہ لوگ بھی شرک میں مبتلا ہو گئے ہوتے تو اِن کا سب کیا کرایا غارت ہو جاتا۱۱۷؎۔یہی لوگ تھے جنھیںہم نے کتاب اور حکم ۱۱۸؎اور نبوت عطا کی تھی۔(تمھارے) یہ (مخاطبین) اِس کا انکار کریں گے تو (کچھ پروا نہیں)، ہم نے یہ نعمت کچھ اور لوگوں کے سپرد کر دی ہے جو اِس کے منکر نہیں ہیں۱۱۹؎۔(علم نبوت کے جن حاملین کا ہم نے ذکر کیا ہے)، وہی تھے جو اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے۔ سو اُنھی کے طریقے کی پیروی کرو۔ (اِن لوگوں سے، البتہ) کہہ دو کہ میں (اپنی) اِس (دعوت) پر تم سے کوئی صلہ نہیں چاہتا (کہ نہیں مانو گے تو میرا کوئی نقصان ہو جائے گا)۔ یہ تو محض ایک یاددہانی ہے تمام دنیا والوں کے لیے۱۲۰؎۔۸۳-۹۰
۹۵؎ آگے دوسرے نبیوں کا بھی ذکر ہے، لیکن ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ خاص اہتمام کے ساتھ اِس لیے سنایا جا رہا ہے کہ بنی اسمٰعیل بھی اُنھیں اپنا خاندانی بزرگ اور مذہبی پیشوا مانتے تھے اور بنی اسرائیل بھی۔ پھر دونوں یہ دعویٰ بھی رکھتے تھے کہ جس دین پر وہ اِس وقت عمل پیرا ہیں، اُس کی وراثت اُنھوں نے سیدنا ابراہیم ہی سے پائی ہے۔
۹۶؎ یہود کے مذہبی لٹریچر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آزر صرف بت پرست ہی نہیں، بت گر اور بت فروش بھی تھے۔ قرآن نے اپنے عام اسلوب کے خلاف اُن کے نام کی تصریح غالباً اِس لیے کی ہے کہ وہ اُس اختلاف کو رفع کرنا چاہتا ہے جو یہود و نصاریٰ کے ہاں اِس نام کے بارے میں پایا جاتا ہے۔
۹۷؎ اصل الفاظ ہیں: ’کَذٰلِکَ نُرِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ‘۔یہ دراصل’کنا نری ابراہیم‘ہے۔ عربی زبان کے عام اسلوب کے مطابق فعل ناقص حذف ہو گیا ہے۔ ملکوت الٰہی کا یہی مشاہدہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو اُس دلیل و حجت کی طرف رہنمائی دی جو اُنھوں نے اپنی قوم پر قائم فرمائی۔ اُن کی اِس حجت کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ یہ جملہ اُسی کی تمہید ہے۔ ابراہیم علیہ السلام اِس ملکوت الٰہی کا مشاہدہ اُس نظر سے کرتے تھے جو درختوں کے ایک ایک پتے، زمین کے ایک ایک ذرے اور آسمان کے ایک ایک تارے کو معرفت کردگار کا دفتر بنا دیتی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’جہاں تک غور کرنے کا تعلق ہے، اِس ملکوت پر غور تو ایک سائنس دان بھی کرتا ہے، لیکن وہ سارا غور و فکر اپنی ذات یا اپنے محدود ماحول کو محور بنا کر کرتا ہے۔ اُس کی نگاہ صرف اپنے نفع عاجل پر ہوتی ہے۔ اِس وجہ سے وہ اُن حقائق تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتا جو اُس کی نگاہ کو اُس کے مطلوب نفع عاجل سے ہٹا دیں۔ وہ چمن میں کھلے ہوئے گلاب کو اِس نگاہ سے دیکھتا ہے کہ اُس سے گل قند یا اِسی طرح کی کوئی اور چیز تیار ہو سکتی ہے جس سے فلاں فلاں فائدے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اِس کے بعد وہ اِس چکر میں نہیں پڑتا کہ اُس پھول کے حسن و جمال ، اُس کی رعنائی و دل کشی، اُس کی عطر بیزی و مشام نوازی میں اُس کے صانع کی قدرت، کاری گری، حکمت، رحمت اور ربوبیت کے جلوے دیکھنے کی کوشش کرے اور اِن جلووں سے بے خود ہو کر پھول سے گزر کر پھول کے پیدا کرنے والے کے جمال و کمال کے مشاہدے میں غرق ہو جائے:
اے گل بتو خرسندم تو بوئے کسے داری
حالاں کہ ایک صاحب نظر کے لیے پھول کا یہی پہلو زیادہ جاذب نظر ہے۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ اگر پھول سے مقصود صرف گل قند ہی ہوتا تو صرف اِس مقصد کے لیے اُس کی ایک ایک پنکھڑی پر قدرت کو اِس فیاضی کے ساتھ گل کاری کی کیا ضرورت تھی؟ یہ گل کاری اور صنعت گری تو اِسی لیے فرمائی گئی ہے کہ پھول کی ایک ایک پتی معرفت کردگار کے دفتر کا کام دے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۹۰)
۹۸؎ اِس جملے کا معطوف علیہ اصل میں محذوف ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔ آگے کی آیتوں میں ’تِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰھَآ اِبْرٰھِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ‘ کے الفاظ سے اُس کا تعین ہو جاتا ہے۔ اِس میں جس یقین کا ذکر ہے، وہ ایمان سے اوپر کا درجہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ایمان ایک عام چیز ہے جس کے لیے اگر فطرت سلیم ہو تو اندر کا وجدان بھی کافی ہوتا ہے، لیکن یقین فکر و نظر، تفکر و تدبر اور ملکوت الٰہی کے علم و مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے۔ اُس کے مراتب و مدارج کی کوئی حد و نہایت نہیں ہے۔ چنانچہ آگے ’نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآئُ‘ میں اُسی کے مراتب عالیہ کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ یہی یقین جب ایمان کے اندر پیدا ہوتا ہے، تب اُس کا فیضان متعدی ہوتا ہے، یہاں تک کہ بسا اوقات اُس سے دشت و جبل گونج اٹھتے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۹۲)
۹۹؎ یہاں سے آگے اب اُس حجت ابراہیمی کا بیان ہے جو آں جناب نے زمین و آسمان میں ملکوت الٰہی کے مشاہدے سے اخذ کرکے اپنی قوم کے سامنے پیش فرمائی۔ اِس میں بناے استدلال یہ حقیقت ہے کہ جن چیزوں کو معبود سمجھ کر لوگ اُن کی پرستش کرتے ہیں، وہ سب محکوم و مقہور ، اپنی تقدیر کے پابند اور اپنے خالق کے احکام و قوانین کے تحت مسخر ہیں۔ اُن میں سے کوئی چیز اِن احکام و قوانین سے سرموانحراف نہیں کر سکتی۔
۱۰۰؎ اصل میں یہ بات کہنا مقصود تھی، لیکن ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کے مزاج کی رعایت سے استدراج کا طریقہ اختیار فرمایا۔ چنانچہ کسی مجلس میں پہلے ایک دن خود اپنے آپ کو مخاطب کرکے وہ بات کہی جس سے اُن کی ستارہ پرست قوم کسی حد تک مطمئن ہو گئی کہ ہمارے معبودوں سے بے زار یہ شخص بھی اب شاید کچھ مان لینے پر آمادہ ہو رہا ہے۔ چنانچہ اپنی قوم کے کانوں میں یہ بات ڈال کر وہ کچھ دن خاموش رہے۔ پھر کسی دن صبح کے وقت جب تارے ڈوب گئے تو خودکلامی کے اُسی انداز میں دوسروں کو سناتے ہوئے اُنھوں نے فرمایا کہ میں ڈوب جانے والوں کو خدائی کے لیے پسند نہیں کر سکتا۔ اِس کے معنی یہ تھے کہ طلوع کے بعد اِن ستاروں کے غروب کو بھی دیکھو۔ یہ اپنے وجود سے شہادت دے رہے ہیں کہ اِنھیں جس قانون کا پابند بنایا گیا ہے، اُس سے ذرہ برابر تجاوز نہیں کر سکتے۔ اِس لیے کوئی عاقل اِنھیں اپنا معبود کیسے بنا سکتا ہے؟ یہ منصب تو اُسی کے شایان شان ہے جو حی و قیوم اور قدیم و لا یزال ہو۔
۱۰۱؎ اِس میں تعلیم کا قدم مزید آگے بڑھ گیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔یہاں صرف اتنی ہی بات نہیں ظاہر ہوئی کہ ڈوبنے والے سزاوار عبادت نہیں، بلکہ یہ بات بھی ظاہر ہوئی کہ اِن ڈوبنے والوں کو معبود بنانا کھلی ہوئی ضلالت ہے۔ نیز یہ بات بھی ظاہر ہوئی کہ یہ ضلالت کوئی معمولی چیز نہیں ہے، بلکہ بڑے حسرت و اندوہ کی چیز ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی ظاہر ہوئی کہ ہدایت کا سرچشمہ صرف خدا ہے، وہ ہدایت نہ بخشے تو انسان ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر اُس کے درپے ہو جاتا ہے۔ یہ ساری باتیں حضرت ابراہیم نے چونکہ اپنے آپ سے کہیں، اِس وجہ سے سننے والوں میں سے جس کے کان میں پڑی ہوں گی، اُس کے لیے اِن سے چڑنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی تھی، بلکہ جس کے اندر کچھ بھی غور و فکر کی صلاحیت رہی ہو گی، وہ اِس سوچ میں پڑ گیا ہو گا کہ ایک یہ شخص ہے جو طلب ہدایت میں اِس طرح بے قرار ہے اور ایک ہم ہیں کہ پتھر کی طرح اپنی جگہ سے کھسکنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۹۵)
۱۰۲؎ صاف واضح ہے کہ یہ بات اُنھوں نے طنز، تحقیر اور استہزا کے طور پر کہی ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا یہ خاص مزاج ہے ۔ دوسروں کو مشتعل کیے بغیر اپنی بات اُن تک پہنچانے کے لیے توریہ، استدراج اور پاکیزہ ظرافت کے یہ انداز وہ بالعموم اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ یہی اسلوب اُس جملے میں بھی ہے جو بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد اُنھوں نے اپنی قوم کی پوچھ گچھ کے جواب میں فرمایا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔انبیا کے طریقۂ کار اور خطاب و استدلال میں استدراج، مزاح، طنز، توریہ اور تدریج وغیرہ کے انداز جو کہیں کہیں پائے جاتے ہیں، یہ سب انسانی فطرت کے مقتضیات پر مبنی ہیں۔ اِن میں سے ہر اسلوب کا ایک محل ہوتا ہے اور ہر انداز اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔ بسا اوقات ایک وقفہ جو بظاہر ٹھیراؤ ہوتا ہے، سفر کی ہزاروں منزلیں طے کر ا دیتا ہے اور ایک دل آویز طنز جو بظاہر طنز ہوتا ہے، ہزاروں حجتوں پر بھاری ہو جاتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۹۹)
۱۰۳؎ ’وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ‘ کے جو الفاظ آیت میں آئے ہیں، اُن میں ’لِلَّذِیْ‘ کا لام دلیل ہے کہ ’وَجَّھْتُ‘ کا لفظ یہاں’اسلمت‘کے مضمون پر بھی مشتمل ہے۔ قوم کو مخاطب کیے بغیر ایک تدریج کے ساتھ اپنی بات اُس کے کانوں میں ڈالنے کے بعد اب اُس کو مخاطب کرکے ابراہیم علیہ السلام نے براہ راست اپنے عقیدے کا اعلان فرمایا ہے۔ یہ درحقیقت اسلام اور توحید کی دعوت ہے جو اِس اسلوب میں پیش کی گئی ہے۔ اوپر جس یقین کا ذکر تھا، یہ اُسی یقین کا اظہار ہے۔ اِس کا ایک ایک لفظ بتا رہا ہے کہ یہ اعلان کس اذعان اور کس شدت احساس کے ساتھ کیا گیا ہے۔ غروب آفتاب سے جب اُن کے سب سے بڑے معبود کی حقیقت بھی واضح ہو گئی تو یہی موقع تھا کہ یہ دعوت اُن کے سامنے پیش کی جائے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، جن کی خدائی کی دلیل اُن کے وقتی کروفر ہی سے اخذ کی گئی ہو، اُن کی بے ثباتی اور ناپائداری پر سب سے مؤثر تقریر کا وقت وہی ہوتا ہے ، جب اُن کی لاش اُن کے پرستاروں کے سامنے پڑی ہو۔ ابراہیم علیہ السلام نے ٹھیک اِسی موقع کا انتخاب کیا۔ اُن کی اِس تقریر کا حاصل یہ ہے کہ معبود وہی ہو سکتا ہے جو زمین وآسمان کا خالق ہو۔ انسان اپنے آپ کو اُسی کے حوالے کر سکتا ہے۔ جو خود فراخیِ افلاک میں خواروزبوں ہیں، وہ کسی کو کیا دیں گے اور کوئی اپنے آپ کو اُن کے حوالے کیوں کرے گا؟ اِس لیے توحید پر ایمان کے ساتھ یہ اعلان بھی ضروری ہے کہ بندئہ مومن ہر شرک سے بری ہے اور وہ کبھی مشرکین میں سے نہیں ہو سکتا۔
۱۰۴؎ یعنی اُس اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو جسے تم بھی مانتے ہو کہ زمین و آسمان کا خالق ہے۔ یہ اُنھوں نے اِس لیے فرمایا کہ اُن کی قوم خدا کی منکر نہ تھی، بلکہ اُس دور کی تمام دوسری قوموں کی طرح اُس کے شریک ٹھیراتی تھی۔ جملے کا آخری حصہ بتا رہا ہے کہ یہ تمام واقعہ نبوت کے بعد کا ہے۔
۱۰۵؎ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ دلیل کا جواب دلیل سے دینے کے بجاے اُن کی قوم نے اپنے اوہام سے اُنھیں ڈرانا شروع کر دیا۔ ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے یہ اُنھی ڈراووں کا جواب ہے۔ یہ ڈراوے کیا ہو سکتے تھے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔شرک کی بنیاد۔۔۔چونکہ تمام تر خوف اور وہم پرستانہ اندیشوں پر ہوتی ہے، اِس وجہ سے قوم کے لوگوں نے طرح طرح سے اُن کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا کہ معبودوں سے نفرت و بغاوت کا اعلان کرتے ہوتو اُن کی پکڑ میں آجائوگے، اندھے ہو جائو گے، اپاہج ہو جائو گے، تم پر بجلی گرے گی، بری موت مرو گے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۹۶)
۱۰۶؎ یہ استثنا تفویض الی اللہ کے لیے۔ مطلب یہ ہے کہ جو کچھ کہہ رہا ہوں، خدا کے اعتماد پر کہہ رہا ہوں۔ میرا ارادہ چاہے جتنا پاک اور عزم جتنا سچا ہو، اُس کی تکمیل اگر ہو سکتی ہے تو اُسی پروردگار کی توفیق سے ہو سکتی ہے۔ ہر راستے کی اپنی آزمایشیں ہیں اور بندئہ مومن اِن آزمایشوں میں اُس کی مدد اور توفیق کے بغیر کسی طرح پورا نہیں اتر سکتا۔
۱۰۷؎ اِس لیے مجھے یہ اندیشہ بھی نہیں ہے کہ اُس کی لا علمی میں کوئی مجھے نقصان پہنچا دے گا۔
۱۰۸؎ یعنی خدا کے غضب اور اُس کے قہر سے ڈرنا تو تمھیں چاہیے کہ اُس کی سند کے بغیر اُس کے شریک ٹھیراتے اور اُس پر جھوٹ باندھتے ہو۔
۱۰۹؎ اِس سے مراد وہی شرک ہے جس میں ابراہیم علیہ السلام کی قوم مبتلا تھی۔
۱۱۰؎ یہ قرآن نے خود واضح کر دیا ہے کہ اوپر نجوم و کواکب اور مہ و آفتاب کے طلوع و غروب کے حوالے سے جو کچھ کہا گیا ہے ، وہ ابراہیم علیہ السلام کا اپنا کوئی فکری ارتقا نہیں، بلکہ اُن کے استدلال کا بیان ہے جو اُنھوں نے توحید کی دعوت کے لیے اختیار فرمایا۔ آیت میں ’عَلٰی قَوْمِہٖ‘ کے الفاظ اِس پر صریح دلیل ہیں۔
۱۱۱؎ اصل میں لفظ ’دَرَجٰتٍ‘ آیا ہے۔ یہ جمع بھی ہے اور اِس پر تنوین بھی ہے۔ ہم نے ترجمے میں یہ چیزیں ملحوظ رکھی ہیں۔
۱۱۲؎ مطلب یہ ہے کہ ہمارا یہ چاہنا الل ٹپ نہیں ہوتا، بلکہ ہمارے علم و حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ ہم اپنے قرب کے یہ مدارج اُنھی کو عطا فرماتے ہیں جو اِن کے اہل ہوتے ہیں۔
۱۱۳؎ یہی وہ پیغمبر ہیں جن کا ذکر بائیبل کے مجموعۂ صحائف میں ایلیا کے نام سے ہوا ہے۔
۱۱۴؎ اِس سے ملتے جلتے نام کے جن دو پیغمبروں کا ذکر بائیبل میں ہوا ہے، اُن میں سے الیشع قرآن کے تلفظ سے قریب تر ہے۔ اِن کا زمانہ ۷۱۳ ق م بتایا جاتا ہے۔ دوسرے یسعیاہ ہیں جن کا زمانہ ۶۲۰ ق م بتایا گیا ہے۔
۱۱۵؎ یہ اُسی عمومی فضیلت کا ذکر ہے جو انبیا علیہم السلام کو اُن کے منصب کے لحاظ سے تمام انسانوں پر حاصل ہوتی ہے۔
۱۱۶؎ یہ لفظ اصل میں نکرہ آیا ہے ، لیکن اِس کی تنکیر تفخیم شان کے لیے ہے۔
۱۱۷؎ یعنی اِس مرتبے کے لوگ بھی اگر کہیں شرک میں مبتلا ہو جاتے تو اُن کا انجام یہی ہوتا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔مجرد اِس بنیاد پر اُن کی برگزیدگی قائم نہ رہتی کہ یہ نوح یا ابراہیم کی اولاد ہیں۔ یہ تنبیہ اہل عرب کے لیے بھی ہے اور بنی اسرائیل کے لیے بھی کہ توحید سے منحرف ہو کر جو لوگ مجرد اُس نسبت پر برگزیدگی کے خواب دیکھ رہے ہیں جو اُنھیں ابراہیم کی اولاد ہونے کے سبب سے حاصل ہے، وہ نری حماقت میں مبتلا ہیں۔ یہ تو درکنار اگر وہ بھی شرک میں آلودہ ہو جاتے تو خدا کے ہاں اُن کا بھی کوئی وزن باقی نہ رہ جاتا۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۱۰۲)
۱۱۸؎ اِس سے مراد وہ اختیار و اقتدار ہے جو اِن بزرگوں کو کسی نہ کسی حیثیت سے حاصل رہا اور جس کی بنا پر یہ موقع اِنھیں حاصل ہوا کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق تمام معاملات کے فیصلے کتاب الٰہی کے مطابق کریں۔
۱۱۹؎ اصل میں ’وَکَّلْنَا بِہَا قَوْمًا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’ب‘اِس بات کا قرینہ ہے کہ ’وَکَّلْنَا‘ کے لفظ میں ذمہ دار بنائے جانے کے ساتھ امین اورضامن بنائے جانے کا مفہوم بھی شامل ہو گیا ہے۔ ’قَوْمًا‘ سے صحابۂ کرام کی وہ جماعت مراد ہے جو یثرب سے آ کر اِس ہدایت سے بہرہ یاب ہوئی اور جس کی نصرت سے ایک ایسی قوم پیدا ہوئی جو پورے عالم کے لیے دعوت توحید کی علم بردار بن گئی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اِس ٹکڑے میں صحابہ کی استقامت اور مستقبل میں امت کی کثرت کی پیشین گوئی ہے اور اِس پہلو سے یہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک عظیم بشارت ہے جو اُس دور میں آپ کو دی گئی، جب آپ مخالفتوں کے طوفان سے گزر رہے تھے۔ الفاظ سے تقدیر الٰہی کا وہ اٹل فیصلہ بھی مترشح ہو رہا ہے جو اِس دعوت کو فتح مند کرنے کے لیے ہو چکا ہے اور یہ اشارہ بھی نکل رہا ہے کہ اللہ نے اپنے جن بندوں کو اِس کے لیے کھڑا کر دیا ہے، اُن کی قلت تعداد پر نہ جائو، یہی لوگ اِس دعوت کے علمبردار ہوں گے اور یہی قطرے ایک دن سمندر بنیں گے۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۱۰۳)
۱۲۰؎ اصل میں لفظ ’ذِکْرٰی‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ قرآن کے لیے آیا ہے اور دو حقیقتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ایک تو اِس حقیقت کی طرف کہ وہ جو کچھ پیش کر رہا ہے، وہ کوئی اوپری اور انوکھی بات نہیں ہے، بلکہ اُنھی حقائق کی یاددہانی ہے جو انسانی فطرت کے اندر ودیعت ہیں، لیکن لوگوں نے اُن کو اپنی خواہشات و بدعات کے نیچے دبا دیا ہے۔ دوسرے اِس حقیقت کی طرف کہ یہ اُسی ہدایت الٰہی کی یاددہانی کر رہا ہے جس کو نوح، ابراہیم اور تمام انبیا لے کر آئے، لیکن اُن کے ساتھ نسبت کے مدعیوں نے اِس ہدایت الٰہی کی جگہ مختلف ناموں سے مختلف ضلالتیں ایجاد کر لیں اور اُنھی ضلالتوں کو اپنے بزرگوں کا دین سمجھ بیٹھے۔ قرآن اپنی اس تذکیر سے تاریخ کے فراموش کردہ اوراق کو بھی یاد دلا رہا ہے اور فطرت کے فراموش کردہ اسباق کو بھی۔ پس جس کا جی چاہے، اُس سے فائدہ اٹھائے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۱۰۴)
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ