[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین
کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
حضرت زبیربن عوام کے پڑوس میں ایک انصاری صحابی (حمید) رہتے تھے۔ دونوں کے ایک دوسرے سے متصل کھجوروں کے باغات تھے جنھیں ایک پہاڑی نالہ سیراب کرتا۔پانی حضرت زبیر کے باغ سے ہو کر انصاری کے نخلستان میں پہنچتا ۔ سیدنازبیر پانی روک کر اپنی زمین سینچ لیتے پھر انصاری کی طرف جانے دیتے۔ ایک بار ان دونوں کاآپس میں جھگڑا ہوا۔انصاری نے کہا، پانی (بغیر رکاوٹ کے میرے پیڑوں کی طرف )بہنے دو، حضرت زبیر نہ مانے ۔آخرکاردونوں یہ قضیہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔آپ نے حکم فرمایا، زبیر !اپنا باغ سیراب کر لو پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑ دو۔انصاری غضب ناک ہو گیا اور کہا، (یہ فیصلہ) اس لیے کہ یہ آپ کا پھوپھی زاد بھائی ہے؟غصے سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔آپ نے فرمایا،زبیر!کھجوریں سیراب کرلو پھر پانی روکے رکھو حتیٰ کہ یہ پشتوں اور منڈیروں کو بھی تر کر دے ۔تب آپ نے زبیرکو پورا حق دلایا حالانکہ اس سے پہلے آپ نے ایسا مشورہ دیا تھاجس میں زبیر اور انصاری دونوں کے لیے سہولت تھی۔ حضرت زبیر کہتے ہیں،میرا خیال ہے، اسی واقعہ کی بعد قرآن مجید کی یہ آیات نازل ہوئیں،’’فلا وربک لا ےؤ منون حتی یحکّموک فیما شجر بینہم،ہر گز نہیں !تیرے رب کی قسم! یہ مومن نہ ہوں گے حتیٰ کہ اپنے جھگڑوں میں آپ کو حکم تسلیم نہ کر لیں‘‘ (النساء: ۶۵) (بخاری:۲۳۵۹، ۲۷۰۸،مسلم:۶۰۶۵) ۔ایک دوسری روایت کے مطابق یہ واقعہ زبیر اور حاطب بن ابی بلتعہ کے مابین پیش آیا۔ حاطب مہاجر تھے اور غزوۂ بدر میں حصہ لے چکے تھے۔
زبیربن عوام عہد رسالت میں وحی کی کتابت بھی کرتے تھے۔انھوں نے آنجناب کا وہ خط تحریر کیاجو آپ نے بنومعاویہ کو بھیجا۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مردوں کے ساتھ عورتوں کوبھی راہ خدا انفاق کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ ایک باراسماؓ بنت ابوبکر جوسیدہ عائشہ کی بہن اور زبیر بن عوام کی اہلیہ تھیں،آپ کے پاس آئیں اور کہا، یا رسول اﷲ ! میرا اپنا توکوئی مال نہیں ،وہی ہے جو زبیر نے دے رکھا ہے۔کیا میں اسے بھی صدقہ کر ڈالوں ؟ آپ نے فرمایا،دے ڈالو،تم مال دینے میں بخل کرو گی تو اﷲ کا فضل وکر م تم سے روک لیا جائے گا۔ (بخاری:۲۵۹۰،مسلم :۲۳۷۵)زبیربن عوام کی دیانت و امانت مسلم تھی۔حضرت عثمان کے علاوہ مقداد،ابن مسعوداورابن عوف نے بھی انھیں وصی بنایا تاکہ ان کے بعد کے ان کے مال و اولاد کی نگہداشت کریں۔
حضرت زبیر بن عوام تھے جنھوں نے اسلام کے لیے سب سے پہلے تلوار سونتی۔ایک بارمکہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ پھیلی تو زبیر ننگی تلوار سوت کر باہر نکل آئے۔جب آپ کو دیکھ لیا تو تلوار میان میں ڈالی۔آپ نے ان کے لیے اور تلوار کے لیے دعا فرمائی۔ دوسروں کو ضرب لگانے والے کو کبھی خود بھی چوٹ کھانا پڑتی ہے۔ان کے جسم پر تلوار سے لگے ہوئے تین گھاؤ تھے۔ان میں سے دو جنگ بدر ۳ھ میں اور ایک جنگ یرموک ۱۳ھ میں لگا تھا (دوسری روایت میں الٹ ترتیب کے ساتھ ایک گھاؤجنگ بدر میں اوردو معرکۂ یرموک میں لگنے کا ذکرہے)۔ ان کے چھوٹے بیٹے عروہ کہتے ہیں، میں بچپن میں اپنی انگلیاں مونڈھے کے گھاؤ میں ڈال کر کھیلا کرتا تھا۔(بخاری:۳۹۷۳)زبیر بن عوام کی تلوار پر چاندی جڑی ہوئی تھی۔اس میں ایک دندانہ بھی تھاجو جنگ بدر (یا جنگ خندق)کے دن پڑا تھا۔یہی تلوار ان کے بیٹے عبداﷲ کے پاس آئی اور جب حجاج بن یوسف نے ان کو شہید کیا تو اسی دندانے کی نشانی سے پہچان کر ان کے بھائی عروہ بن زبیر کو دے دی گئی۔اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے تلوار ان کے حوالہ کرتے ہوئے مشہور عرب شاعر نابغہ ذبیانی کا یہ شعر بھی پڑھا
ولا عیب فیہم غیر ان سیوفہم
بہن فلول من قراع الکتائب
ان دلیروں میں کوئی عیب نہیں مگر اتنا ہی کہ لشکروں سے بھڑنے کی وجہ سے ان کی تلواروں میں دندانے پڑے ہیں۔ (بخاری:۳۹۷۳)
عبداﷲ بن زبیر نے اپنے والد سے پوچھا،کیا بات ہے کہ میں نے آپ کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی احادیث اس طرح بیان کرتے نہیں سنا جیسے فلاں فلاں صحابی روایت کرتے ہیں؟حضرت زبیر نے جواب دیا،میں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی رفاقت نہیں چھوڑی(کہ آپ کی باتیں یاد نہ ہوں) لیکن آپ کا یہ ارشاد سن رکھا ہے،جس نے مجھ سے جھوٹ منسوب کیاوہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنا لے۔(بخاری:۱۰۸) انس بھی یہی کہتے تھے پھر بھی ان سے بے شمار احادیث مروی ہیں۔
حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جبل حرا پر تھے ۔آپ کے ساتھ ابوبکر،عمر،عثمان،علی، طلحہ اور زبیرتھے ۔ ایک چٹان ہلی تو آپ نے فرمایا،رک،ساکن ہو جا!تم پر نبی،صدیق اور شہید کے علاوہ کوئی نہیں۔(مسلم:۶۱۹۷)
زبیربن عوام کا رنگ گندمی، جسم میانہ اور ڈاڑھی ہلکی تھی۔ قدبہت لمبا نہ تھاتاہم کہا جاتا ہے ،وہ گھوڑے پر سوار ہوتے تو پاؤں زمین پر لگتے۔نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے عبدالرحمان بن عوف اور زبیر بن عوام کوریشمی قمیص پہننے کی رخصت عطا کی کیونکہ ان دونوں نے خارش اور جوؤں کی شکایت کی تھی۔ (بخاری: ۲۹۲۰، مسلم: ۵۳۹۶)حضرت زبیر بن عوام اپنے بالوں کو خضاب نہ لگاتے تھے۔
حضرت زبیر کے ۱۱بیٹے اور ۹ بیٹیاں ہوئیں۔اسما بنت ابوبکر سے عبداﷲ ،عروہ ،منذر ،عاصم ، مہاجر،خدیجۂ کبری،ام حسن اور عائشہ کی ولادت ہوئی۔ام خالد(امہ بنت خالدبن سعیدجو حبشہ میں پیدا ہوئی تھیں) سے خالد،عمرو،حبیبہ ،سودہ اور ہند نے جنم لیا۔رباب بنت انیف کلبیہ سے مصعب ، حمزہ اور رملہ ہوئے۔زینب بنت مرثدنے عبیدہ اور جعفر کو جنم دیا۔ام کلثوم بنت عقبہ سے زینب کی پیدائش ہوئی۔حلال بنت قیس سے خدیجۂ صغری پیدا ہوئیں۔ حضرت عمرکی بیوہ عاتکہ بنت زیدسے بھی حضرت زبیر کی شادی ہوئی جن سے ان کا بیٹا عیاض پیدا ہوا۔حضرت زبیر فرماتے ہیں ،طلحہ بن عبیداﷲ اپنے بچوں کے نام انبیا علیہم السلام کے ناموں پر رکھتے ہیں۔ میں نے اپنی اولاد کو شہدا( عبداﷲ بن حجش، منذر بن عمرو،عروہ بن مسعود،حمزہ بن عبدالمطلب ،جعفر بن ابوطالب،مصعب بن عمیر، عبیدہ بن حارث، خالد بن سعیدا ور عمرو بن سعید)کے ناموں سے موسوم کیا ہے ،امید ہے ،ان کی طرح یہ بھی شہادت سے سرفراز ہو جائیں۔
مطالعۂ مزید:السیرۃ النبویہ (ابن ہشام)،الطبقات الکبری(ابن سعد)، الجامع المسند الصحیح (بخاری)، صحیح مسلم،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر)،البدایہ والنہایہ(ابن کثیر)، فتح الباری( ابن حجر)،الاصابہ فی تمییز الصحابہ(ابن حجر)
_________________