HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: آل عمران ۳: ۳۸-۴۱ (۹)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)

  

ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ، قَالَ: رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً، اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآئِ{۳۸} فَنَادَتْہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ و َھُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ فِیْ الْمِحْرَابِ، اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی، مُصَدِّقًا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ، وَ سَیِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ{۳۹} قَالَ:رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّقَدْ بَلَغَنِیَ الْکِبَرُ، وَامْرَاَتِیْ عَاقِرٌ، قَالَ :کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَفْعَلُ مَا یَشَآئُ{۴۰} قَالَ: رَبِّ اجْعَلْ لِّیْٓ اٰیَۃً، قَالَ: اٰیَتُکَ اَلَّاتُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ اِلَّارَمْزًا، وَاذْکُرْ رَّبَّکَ کَثِیْرًا، وَّسَبِّحْ بِالْعَشِیِّ وَالْاِبْکَارِ{۴۱}
   یہی موقع تھا کہ زکریا نے اپنے رب کو پکارا ۔ اُس نے دعا کی کہ پروردگار ، تو مجھے بھی اپنی جناب سے (ایسی ہی )پاکیزہ اولاد عطا فرما۔ یقینا تو (اپنے بندوں کی) دعائیں سننے والا ہے ۔ ۷۳ اِس کے جواب میں فرشتوں ۷۴ نے ندادی، جب کہ وہ محراب میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا ۷۵  کہ اللہ تجھے یحییٰ ۷۶ کی خوش خبری دیتا ہے جو اللہ کے ایک فرمان کی تصدیق کرنے والا، ۷۷ سردار ۷۸ اور دنیا کی لذتوں سے کنارہ کش ۷۹ اور صالحین میں سے ایک نبی ہوگا ۔ ۸۰ اُس نے تعجب سے پوچھا: پروردگار، میرے ہاں لڑکا کہاں سے ہوگا، میں تو بوڑھا ہو چکا اور میری بیوی بھی بانجھ ہے ؟ فرمایا: اللہ اِسی طرح جو چاہے، کرتا ہے۔ ۸۱ اُس نے عرض کیا: پر وردگار، پھر میرے لیے کوئی نشانی ٹھیرادیں۔ ۸۲ فرمایا : تمھارے لیے نشانی یہ ہے کہ تین دن تک تم لوگوں سے اشارے کے سوا کوئی بات نہ کرسکو گے۔ (ہاں، تسبیح وتہلیل، البتہ کر سکو گے، لہٰذا یہ دن اِسی طرح گزارنا) اور (اِس دوران میں ) اپنے پروردگار کو بہت یاد کرنا اور صبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہنا۔ ۸۳  ۳۸۔۴۱       

۷۳ ؎سیدہ مریم کوجو حکمت و معرفت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی تھی، اسے دیکھ کر زکریا اس درجہ متاثر ہوئے کہ ان کے اندر بھی یہ آرزو بھڑک اٹھی کہ کاش ایسا ہی کوئی نیک اور صالح فرزند اللہ تعالیٰ انھیں بھی عطا فرمائے۔

۷۴؎ یہ لفظ جمع اس لیے آیا ہے کہ کوئی متعین فرشتہ حضرت زکریا کے پاس نہیں آیا، بلکہ ایک غیبی آواز تھی جو انھیں سنائی دی۔ چنانچہ اس سے مقصود محض اس آواز کی نوعیت بیان کرنا ہے کہ وہ ایک ملکوتی آواز تھی۔ یہ بیان کرنا مقصود نہیں ہے کہ یہ ایک یاایک سے زیادہ فرشتوں کی آواز تھی۔

۷۵؎  اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ فرشتوں سے قرب واتصال اوراپنے پروردگار سے رازو نیاز اور دعا ومناجات کے لیے سب سے زیادہ موزوں وقت نماز ہی کا ہے۔ 

 ۷۶؎ یہ وہی یحییٰ پیغمبر ہیں جن کا نام بائیبل میں یوحنا آیا ہے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام سے یہ صرف ۶ ماہ پہلے پیدا ہوئے تھے۔

۷۷؎ اصل میں ’مصدقا بکلمۃ من اللّٰہ‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ اسی سورہ کی آیت ۴۵میں آگے قرآن نے صراحت کردی ہے کہ اس سے مرادسیدنا مسیح علیہ السلام ہیں۔انھیں ’کلمۃ من اللّٰہ‘ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ولادت عام ضابطۂ اسباب کے خلاف براہ راست اللہ تعالیٰ کے کلمہ ’کن‘ سے ہوئی تھی۔ نصاریٰ نے اسی سے سید نا مسیح علیہ السلام کی الوہیت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، دراں حالیکہ یہ ان کے دعوے کی تردید ہے۔ چنانچہ لفظ ’کلمۃ‘ کی تنکیر سے قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار کلمات میں سے حضرت مسیح بھی ایک کلمہ تھے۔ جس طرح اس عالم رنگ و بو کی ان گنت چیزیں محض کلمہ ’کن‘ سے پیدا ہوئی ہیں ،ا سی طرح وہ بھی اسی کلمہ سے پیدا ہوئے تھے۔

۷۸؎ یہ ان کی شخصیت کا بیان ہے کہ وہ اپنی ذات میں سرداری کی شان رکھنے والے ہوں گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں: 

’’نبی اپنی فطرت، اپنی دعوت اور اپنے مشن کے لحاظ سے سردار ہوتا ہے۔ وہ داعی بن کر لوگوں کو پکارتا، منذر بن کر لوگوں کو جگاتا اور ہادی و مرشد بن کر لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ اس کام کے لیے وہ قدرت کی طرف سے تمام لوازم و اسلحہ سے مسلح ہوتا ہے ۔اس کا سینہ خلق کے لیے شفقت و رأفت سے لبریز ہوتا ہے، اس کے کام میں بے پناہ سطوت و جلالت ہوتی ہے ،اس کی آواز اور اس کے اندازمیں ہیبت ہوتی ہے، اس کی تاب ناک پیشانی اس کی عظمت و صداقت کی گواہی دیتی ہے۔ اگرچہ وہ کمل کی پوشاک پہنتا ہو اور جنگلی شہد اور ٹڈیوں پر گزارہ کرتا ہو، لیکن اس کے رعب و دبدبہ سے بادشاہوں پر لرزہ طاری ہوتا ہے۔ وہ حق کے لیے ان کو بھی اسی طرح سرزنش کرتا ہے، جس طرح دوسروں کو کرتا ہے۔ انجیلوں میں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ، دونوں حضرات کے متعلق آتا ہے کہ و ہ با اختیارکی طرح با ت کرتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ ان کے کلام میں بااختیاری کی یہ شان ان کی اس منصبی سرداری ہی کا ایک جلوہ تھی۔ اس کی تحویل میں قدرت کی طرف سے ایک گلہ بھی ہوتا ہے جس کی چرواہی اس کے سپرد کی جاتی ہے اور اس بات سے اس کی حیثیت عرفی میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کہ گلے نے اس کی اطاعت کی یا نہیںکی ۔ اگر اس نے اپنا فرض ادا کیا تواس نے سرداری کا حق ادا کردیااور یہی اس سے مطلوب ہوتا ہے۔‘‘ ( تدبر قرآن ۲/ ۸۱)             

۷۹؎ اس کنارہ کشی کی وجہ یہ تھی کہ یحییٰ و مسیح، دو نوں بنی اسرائیل پر عذاب سے پہلے آخری اتمام حجت کے لیے آئے تھے۔ وہ اس بستی میں گھر کیا بناتے جو سیلاب کی زد میں تھی اور اس درخت کی بہار کیا دیکھتے جس کی جڑوں پر کلہاڑا رکھا ہوا تھا۔ ایک ایک دروازے پر دستک دے کر لوگوں کو آنے والے طوفان سے خبردار کرنے والے اپنا گھر بسانے اور اپنا کھیت اگانے میں لگ جاتے تو اپنے فرض سے کوتاہی کے مرتکب قرار پاتے۔ چنانچہ دونوں نے تجردو انقطاع کا طریقہ اختیار کیا، قوت لایموت پر اکتفا کی، درویشوں کا لباس پہنا اور زمین و آسمان ہی کو چھت اور بچھونا بنا کر زندگی بسر کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یہ نصاریٰ کی بد قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان جلیل القدر پیغمبروں کی اس منصبی ذمہ داری کو سمجھنے کے بجائے انھوں نے اسے رہبانیت کا رنگ دیا اور پھر اسی کو دین کا اصلی مطالبہ قرار دے کر رہبانیت کا ایک پورا نظام کھڑا کر دیا۔ ہمارے ہاں بھی صوفیوں نے پیغمبروں کی زندگی میں اسی طرح کی بعض چیزوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے اجنبی تصورات دین میں داخل کر دیے ہیں اور اب گزشتہ کئی صدیوں سے علما کو بھی ان سے متاثر کرلینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

۸۰؎ یعنی ان اوصاف و کمالات کے باوجود وہ زمرۂ صالحین میں سے ایک پیغمبر ہی تھے۔ یہ نہیں کہ انھیں الوہیت کا کوئی مقام حاصل ہوگیا تھا۔

۸۱؎ یعنی اسباب تو محض ظاہر کا پردہ ہیں۔ اصلی چیز اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہے۔ وہ چاہے تو دریا کو سراب بنا دے اور چاہے تو صحرا سے حباب اٹھادے۔ اس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔

۸۲؎ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زکریا کا گمان تو اگرچہ یہی تھا کہ یہ بشارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، لیکن دل کے کسی گوشے میں یہ کھٹک ضرور تھی کہ ممکن ہے یہ اپنے ہی گنبد دل کی صدا اور اپنی ہی آرزووں کے ہجوم میں شیطان کا کوئی القا ہو جسے وہ فرشتوں کا الہام سمجھ بیٹھے ہیں۔

۸۳؎ یہ چیز، ظاہر ہے کہ شیطانی تصرف کے ہر امکان کو ختم کر دیتی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’ ... کسی شیطانی اثر سے یہ بات پیدا ہوتی تو اس کا نتیجہ اس کے بالکل بر عکس ظاہر ہونا تھا، یعنی آدمی اپنی دنیا داری کی باتیں تو کر سکتا، لیکن اللہ اللہ کرنا اس پر شاق گزرتا۔ اگر حضرت زکریا پر یہ حالت غیر اختیاری طور پر طاری کردی گئی تو یقینا یہ اس بات کی ایک قطعی نشانی تھی کہ ان کو بیٹے کی جو بشارت ملی ہے ، من جانب اللہ ہے ،اس میں شیطانی دھوکے کو کوئی دخل نہیں ہے۔ قرآن نے یہاں ضمناً اس بات کی تردید بھی کر دی جو انجیل لوقا میں بیان ہوئی ہے کہ حضرت زکریا کو جو یہ حالت پیش آئی، وہ ان کے اس جرم کی سزا کے طور پر تھی کہ انھوں نے فرشتے کی بات کا اعتبار نہ کیا اور سوال کر بیٹھے کہ مجھے اس کی کوئی نشانی دی جائے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۸۳)

[باقی]

ــــــــــــــــــــ

B