HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

ہمارا دین

عن یحییٰ بن یعمر قال: کان أول من قال فی القدر بالبصرۃ معبد الجہنی. فانطلقت أنا وحمید بن عبدالرحمن الحمیری حاجین أو اعتمرین. فقلنا: لو لقینا أحدا من أصحاب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فسألناہ عما یقول ہؤلاء فی القدر. فوفق لنا عبداﷲ ابن عمربن الخطاب رضی اﷲ عنہما داخلا المسجد. فاکتنفتہ أنا وصاحبی، أحدنا عن یمینہ والآخر عن شمالہ۰ فظننت أن صاحبی سیکل الکلام إلی. فقلت: أبا عبد الرحمٰن، إنہ قد ظہر قبلنا ناس یقرؤن القرآن ویتقفرون العلم وذکر من شأنہم وأنہم یزعمون أن لا قدر وأن الأمر أنف. قال: فإذا لقیت أولئک فأخبرہم أنی برئ منہم وأنہم براء منی. والذی یحلف بہ عبداﷲ بن عمر لو أن لأحدہم مثل أحد ذہبا فأنفقہ ما قبل اﷲ منہ حتی یؤمن بالقدر ثم قال: حدثنی أبی عمر بن الخطاب قال: بینما نحن عند رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ذات یوم. إذ طلع علینا رجل شدید بیاض الثیاب شدید سواد الشعر. لایری علیہ أثر السفر. ولا یعرفہ منا أحد. حتی جلس إلی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم. فأسند رکبتیہ إلی رکبتیہ وضع کفیہ علی فخذیہ. قال: یا محمد أخبرنی عن الإسلام؟ فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: الإسلام أن تشہد أن لا إلہ إلا اﷲ وأن محمدا رسول اﷲ وتقیم الصلوۃ وتؤتی الزکوۃ وتصوم رمضان وتحج البیت إن استطعت إلیہ سبیلا. قال: صدقت. قال: فعجبنا لہ یسألہ ویصدقہ. قال: فأخبرنی عن الایمان. قال: أن تومن باﷲ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر وتؤمن بالقدر خیرہ وشرہ. قال: صدقت. قال: فأخبرنی عن الإحسان. قال: أن تعبد اﷲ کأنک تراہ فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک. قال: فأخبرنی عن الساعۃ. قال: ماالمسؤل بأعلم من السائل. قال: فأخبرنی عن أمارتہا. قال: أن تلد الأمۃ ربتہا، وأن تری الحفاۃ العراۃ العالۃ رعاء الشاء یتطاولون فی البنیان. قال: ثم انطلق، فلبثت ملیا. ثم قال لی: یا عمر، أتدری من السائل؟ قلت: اﷲ ورسولہ أعلم: قال: فأنہ جبریل أتاکم یعلمکم دینکم.
’’یحییٰ بن یعمر بیان کرتے ہیں کہ بصرہ میں سب سے پہلے معبد جہنی نے تقدیر کے بارے میں کچھ (اختلافی) رائے ظاہر کی تھی۔ (یہی زمانہ تھا کہ) میں اورحمید بن عبدالرحمن حج یا عمرے کے لیے نکلے۔ چنانچہ ہم نے سوچ لیا تھا کہ اگر اصحاب رسول میں سے کسی سے ملاقات ہوئی تو ہم اس سے تقدیر کے متعلق یہ لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے بارے میں پوچھیں گے۔ اتفاق ۱ کی بات ہے کہ ہمیں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی مسجد حرام میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے۔ چنانچہ ہم نے انھیں اس طرح گھیر لیا ۲ کہ ہم میں سے ایک ان کے دائیں اور دوسرا ان کے بائیں طرف تھا۔ میرا گمان تھا کہ میرے ساتھی بات کرنے کی ذمہ داری۳ مجھے ہی دیں گے ۔ چنانچہ میں نے کہا: ابو عبدالرحمن، معاملہ یہ ہے کہ ہماری طرف کچھ ایسے لوگ سامنے آرہے ہیں جو قرآن کا درس دیتے ہیں اور علم کی گہرائیوں میں اترتے ہیں۴ اور اس طرح ان کے کچھ دوسرے پہلووں کا ذکر کیا اور یہ بھی بتایا کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تقدیر کوئی چیز نہیں ہے، ہر معاملہ نیا ہوتا ہے (یعنی پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتا)۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جب تم ان لوگوں سے ملو تو انھیں میری طرف سے بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں۔ عبد اللہ بن عمر اس ذات کی قسم کھاتا ہے ، اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہواو روہ اسے خیرات کردے تو اللہ اسے قبول نہیں کریں گے یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان نہ لے آئے۔پھر کہا: میرے والد، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا تھا: ایک۵ روز ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک ایک آدمی نمودار ہوا۔ اس کے کپڑے انتہائی سفید اور بال بالکل سیاہ تھے۶ ۔ اس پر سفر کی کوئی علامت نظر نہ آتی تھی اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا۔ (آگے بڑھتے ہوئے) وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے اور اپنے ہاتھ اپنے زانووں پر رکھ لیے اور کہا: اے محمد، مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کا برملا اقرار کرے کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز کا اہتمام کرے، زکوٰۃ ادا کرے، ماہ رمضان کے روزے رکھے اور اگر زاد راہ۷ کی استطاعت ہو تو حج کرے۔(آپ کا جواب سن کر ) اس آدمی نے کہا:آپ نے درست فرمایا ہے۔ اس پر ہم حیران ہوئے کہ (عجیب آدمی ہے) آپ سے سوال بھی کر رہا ہے اور تصدیق بھی کر رہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: (ایمان یہ ہے کہ) تو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر۸ ، اس کی کتابوں پراور یوم آخرت پر ایمان لائے اور تقدیر کے اچھے اور برے پر بھی ایمان رکھے۔ (آپ کا یہ جواب سن کر بھی) اس نے کہا: آپ نے درست فرمایا ہے۔ پھر اس نے پوچھا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: (احسان یہ ہے کہ) تو اللہ کی اس طرح عبادت کرے جیسے کہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔ پھر اگر تم اسے نہیں دیکھ پاتے (تو کیا ہوا) وہ تو تمھیں دیکھ رہا ہے۹ ۔ اس نے پوچھا: مجھے قیامت (کا وقت) بتائیے۔ آپ نے فرمایا: جس سے پوچھا گیا ہے وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔ تب اس نے کہا: مجھے اس کی علامات سے آگاہ فرمائیے۔ آپ نے فرمایا: یہ کہ لونڈی اپنی آقا کو جنم دے اور یہ کہ تو ان برہنہ پا چلنے والوں، ۱۰ ڈھنگ کا لباس نہ رکھنے والوں ۱۱ اور بکریوں ۱۲ کے چرواہوں ۱۳ کو ایک سے بڑھ کر ایک اونچی عمارتیں تعمیر کرتے ہوئے دیکھے۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں: اس کے بعد وہ آدمی چلا گیا۔ میں کچھ دیر رکا رہا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر، جانتے ہو سائل کون تھا۔ میں نے کہا: اللہ اور اس کارسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ جبریل تھے جو تمھیں تمھارا دین سکھانے آئے تھے۔ ‘‘
معنی

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں دین کے ظاہری اور باطنی پہلووں کو بڑی جامعیت سے بیان کر دیا ہے۔روایت میں مضمون ظاہری اعمال سے باطنی اعمال اور پھر باطن کی سب سے اعلیٰ حالت احسان کی طرف بڑھتا ہے اور اس کا اختتام علامات قیامت کے تذکرے پر ہوا ہے۔ اس اعتبار سے یہ تذکیرو موعظت کا جامع مجموعہ ہے۔ اس حدیث میں اسلام اور ایمان میں فرق اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کیا گیا ہے کہ جب کوئی فرد اسلام قبول کرتا ہے تو اس کے ظاہری اعمال اور اس کے ایمانیات میں کیا چیزیں ظاہر ہوتی ہیں۔ قرآن مجید میں یہ دونوں مترادف کی حیثیت سے بھی آئے ہیں اور اس طرح ظاہروباطن کی توضیح کے لیے بھی۔ ایمان واسلام کے فرق پر قرآن مجید کی درج ذیل آیت دلالت کرتی ہے:

قَالَتِ الْاَعْرَابُ آمَنَّا، قُلْ: لَمْ تُوْمِنُوا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا: اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوبِکُمْ. (الحجر۳۹: ۱۴)
’’ اہل بدو نے کہا: ہم ایمان لائے۔ ان کو بتادو کہ تم ایمان نہیں لائے، ہاں یوں کہو کہ ہم نے اطاعت قبول کی اور ایمان ابھی تک تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں کو ایمانیات کی حیثیت سے بیان کیا ہے ۔ قرآن مجید میں بھی یہ اسی طرح بیان ہوئیں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہاں اللہ پر ایمان کی ایک فرع تقدیر کا ذکر ہوا ہے ، جبکہ قرآن مجید کی اس آیت میں یہ پہلو مذکور نہیں ہے۔ سورۂ بقرہ میں ہے:

کُلٌّ اٰمَنَ بِاﷲِ وَمَلٰٓءِکَتِہٖ وَکُتُبِہِ وَ رُسُلِہٖ.(۲: ۲۸۵)
’’ہر ایک ایمان لایا اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر۔‘‘

اس روایت میں اسلام کے تحت جو اعمال بیان ہوئے ہیں ان کا ذکر قرآن مجید میں یکجا نہیں ہے،لیکن یہ وہ اعمال ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں بڑے اہتمام سے ہوا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ ان کی حیثیت لازمی اعمال کی ہے۔ہم یہاں ان سے متعلق آیات نقل نہیں کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے آگے ان کے متعلق الگ الگ عنوانات کے تحت احادیث جمع کی ہیں۔ ان سے متعلق آیات بھی وہیں نقل کرنا زیادہ موزوں ہو گا۔

احسان کی اصطلاح قرآن مجید سے ماخوذ ہے۔ خود قرآن مجید میں اس کی حقیقت سورۂ نساء میں بیان کی گئی ہے:

وَمَنْ اَحْسَنُ دیْناً مِّمَّنْ اسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ. (۴: ۱۲۵)
’’باعتبار دین اس سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے، جس نے اپنا چہرا خدا کے لیے براے تسلیم خم کر لیااور وہ خوب کار بھی ہو۔‘‘

یعنی دین میں احسان یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کے حوالے کردے۔ وہ اس کے ہر حکم کو بجا لائے اور تعمیل حکم اس طرح کرے جس طرح سے اس کا حق ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل کے سوال کے جواب میں اسی احسان کو پانے کا طریقہ بتایا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ جب تم اللہ کے کسی حکم کی تعمیل کر رہے ہو تو یہ خیال کرو کہ اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے ، لیکن اس بات کو بیان کرنے کے لیے آپ نے بلیغ اسلوب اختیار کیا ہے۔ آپ نے پہلے یہ کہا کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اس میں اگرچہ ’گویا کہ‘ کے لفظ سے یہ واضح تھاکہ ہمارے لیے اللہ تعالی کو دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ آپ نے خود ہی بیان کر دیا کہ اگرچہ تم اسے نہیں دیکھ سکتے، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے تم یہ خیال کرو کہ وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حاضر وناظر ہونے کا تصور اتنا قوی تاثر رکھتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو خدا کے سامنے محسوس کرنے لگ جاتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو ایک مومن کے عمل سے کوتاہی اور کمی کو دور کرنے میں اس کی مدد کرتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ایک مومن کی نیت اور محرکات کو درست کرکے اس کو اخلاص کی نعمت سے مالامال کرتی ہے۔ احسان اس کے سوا کچھ نہیں کہ عمل بھی درست ہو اور نیت بھی صالح ہو۔قرآن مجید میں بھی یہ بات بیان ہوئی ہے ، لیکن اس میں اسلوب بیان مختلف ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں تقریباًتمام احکام میں اللہ تعالیٰ کے سمیع وبصیر اور علیم ومحیط ہونے کے پہلو کو بیان کیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے اس بیان کے عملی پہلو کو واضح کیا ہے۔

علامات قیامت کے باب میں یہ روایت جن دو بنیادی نشانیوں کوبیان کرتی ہے۔ ان کے بارے میں بنیادی بات یہ واضح رہنی چاہیے کہ یہ سرزمین عرب سے متعلق ہیں۔ اس کا واضح قرینہ عہد کا الف لام ہے۔ یعنی’ الحفاۃ‘ اور’ العراۃ‘ پر لام عہدہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے عرب چرواہوں کی صفات ہیں۔ سرزمین عرب کے یہی غریب قبائل ہیں، جن کی نسلیں آج غیر معمولی دولت مند ہیں۔ وہ جنھیں سر چھپانے کے لیے چھت میسر نہ تھی ، آج محلات میں رہ رہے ہیں۔ یہ نشانی اپنے تمام مظاہر کے ساتھ تمام ہو چکی ہے۔حضرت ابوہریرہ کی روایت میں ان کے لیے عمارتوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ملوک الارض کی تعبیر بھی بیان ہوئی ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ اس زمانے کے وہ قبائل جو بھیڑ بکریاں چراتے تھے اور یہی ان کی معیشت کا بڑا ذریعہ تھا آج عرب کے بادشاہ ہیں۔

دوسری نشانی غلامی سے متعلق ہے۔ لونڈی کا اپنی آقا کو جنم دینا اپنے مصداق کے تعین کے اعتبار سے ایک مشکل نشانی ہے۔ شارحین نے ان الفاظ سے اقدار کی تباہی، اسلامی اقدار کی ترقی (یعنی لونڈی کی اولاد کو مراتب حاصل ہوں گے) اور اولاد کی نافرمانی کے معنی متعین کیے ہیں۔ موجودہ دور میں بعض اہل علم نے اس کا اطلاق کرائے کی ماں کی اولاد (ٹیسٹ ٹیوب بے بی) پر کیا ہے۔ اس نشانی کے الفاظ سے اس تاویل کی کوئی مناسبت نہیں ہے۔ البتہ اس کا کیا کیا جائے کہ ان الفاظ سے دوسرے شارحین نے جو نشانی سمجھی ہے اس کی مناسبت بھی الفاظ کے ساتھ ایسی ہی ہے۔استاد محترم جناب جاوید احمد غامدی کی رائے یہ ہے کہ جس طرح چرواہوں سے متعلق نشانی بھی سرزمین عرب سے متعلق ہے اسی طرح یہ نشانی بھی سرزمین عرب سے متعلق ہے۔ قرب قیامت میں غلامی کے معاملے میں سب سے بڑا واقعہ یہ ہوا ہے کہ اسے ختم کر دیا گیا ہے۔ پوری دنیا کے ساتھ ساتھ عرب میں بھی غلامی ختم کر دی گئی تھی۔ ایک رات پہلے جو غلام تھاوہ اب آزاد تھا۔ اپنے آقا کے برابر کی حیثیت کا شہری۔ استاد محترم کے نزدیک اس جملے میں ولادت کا فعل توسعاً استعمال ہوا ہے۔یعنی ایک نسل ایک دن پہلے تک غلام تھی اور غلام ہی پیدا کر رہی تھی، لیکن اب وہ آزاد ہے اور آزادوں ہی کو جنم دے رہی ہے۔اسی طرح وہ ’ربتہا‘ کی ترکیب کو بھی دوسرے طریقے سے کھولتے ہیں۔ ان کی رائے یہ ہے کہ یہ اضافت ’ام علی قلوب أقفالہا ‘ (محمد۴۷: ۲۴) کے اسلوب پر ہے۔جس طرح یہاں اس سے دلوں کے تالے مراد ہے، اسی طرح روایت میں لونڈیوں کے آقا یعنی آزاد مراد ہیں۔

عرب کی سرزمین میں موجودہ زمانے میں غلامی کا خاتمہ، عربوں کے لیے دولت کی فراوانی اور چرواہوں کے بادشاہ بننے کے واقعات کا ایک ہی زمانے میں ظہور اور زیر بحث جملے کی یہ تالیف اس جملے کی غلامی کے خاتمے سے تعلق کو بہت قوی بنادیتی ہے۔

متون

اس روایت کے دوحصے ہیں ۔ ایک حصہ یحییٰ بن یعمر کی حضرت ابن عمر سے ملاقات کے پس منظر کوبیان کرتا ہے۔یہ حصہ مسلم کے علاوہ ہمیں ابن مندہ کی کتاب الایمان میں بھی ملتا ہے۔ ابن مندہ کا بیان ذرا تفصیلی ہے:

عن یحییٰ بن یعمر قال: رجل من جہینۃ فیہ زہووکان یتوثب علی جیرانہ. ثم إنہ قرأ القرآن وفرض الفرائض وقص علی الناس ثم إنہ صار من أمرہ أنہ زعم أن العلم أنف. من شاء عمل خیرا ومن شاء عمل شرا. قال: فلقیت أبا الأسود الدبلی. فذکرت ذلک لہ. فقال: کذب، مارأینا أحدا من أصحاب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم إلا یثبت القدر. ثم إنی حججت أنا وحمید بن عبدالرحمن الحمیری. فلما حجنا. قال: قلنا نأتی المدینۃ فنلقی أصحاب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم. فنسألہم عن القدر. قال: فلما أتیت المدینۃ لقینا إنسانا من الأنصار. فلم نسألہ. قلنا حتی نلقی ابن عمر وأبا سعید الخدری. قال: فلقینا ابن عمر کفہ عن کفہ.قال: فقمت عن یمینہ وقام عن شمالہ. قال: قلت تسألہ أم أسألہ. قال: لا بل تسألہ. لأنی کنت أبسط لسانا منہ. قال: قلنا یا أبا عبد الرحمن، إن ناسا عندنا بالعراق قد قرؤوا القرآن وفرضوا الفرائض وقصوا علی الناس یزعمون أن العمل أنف. من شاء عمل خیرا ومن شاء عمل شرا. قال: فإذا لقیتم أولئک. فقولوا: یقول ابن عمر ہو منکم برئ وأنتم منہ براہ ، ابن عمر منکم برئ وأنتم منہ براء. فواﷲ لوجاء احدہم من العمل مثل أحد ما تقبل من حتی یؤمن بالقدر. (رقم اا )
’’یحییٰ بن یعمر بیان کرتے ہیں کہ جہینہ کا ایک آدمی جس میں کچھ تکبر تھا، اپنے ہمسائیوں کے ساتھ زیادتی بھی کرتا تھا ، اس کے ساتھ ساتھ قرآن بھی پڑھتا تھا اور فرائض ادا کرتا تھا۔لوگوں کے سامنے (اپنے خیالات) بیان کرتا تھا۔ پھر اس کا معاملہ یہ ہو گیا کہ اس نے یہ خیال ظاہر کیا کہ (ہر چیز)علم (الٰہی) میں نئے سرے سے آتی ہے۔ جو چاہے خیر کرے ، جو چاہے برا کرے۔ چنانچہ میں ابو اسود سے ملا اور انھیں یہ ساری بات بتائی۔ انھوں نے کہا: اس نے غلط کہا۔ ہم نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا ،مگر یہ کہ تقدیر کو ثابت کرتے تھے۔ اس زمانے میں میں نے اور حمید بن عبدالرحمان حمیری نے حج کیا۔ جب ہم نے حج کرلیا تو ہم نے سوچا کہ ہم مدینہ چلتے ہیں وہاں صحابہ سے ملاقات کریں گے اور ان سے تقدیر کے بارے میں پوچھیں گے۔جب ہم مدینہ آئے تو ہماری ملاقات ایک انصاری سے ہوئی، لیکن ہم نے ان سے نہیں پوچھا۔یہاں تک کہ ہماری ملاقات ابن عمر اور ابوسعید خدری سے ہوئی ۔چنانچہ ہماری ابن عمر سے ملاقات میں آمنا سامنا ہوا تو میں ان کے دائیں طرف اور وہ ان کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔میں نے پوچھا : میں پوچھوں یا تم پوچھو گے۔اس نے کہا: نہیں، بلکہ، تم ہی پوچھو، کیونکہ میں زیادہ واضح بات کرنے والا تھا۔ ہم نے کہا: ابو عبد الرحمن، ہمارے ہاں عراق میں کچھ لوگ ہیں۔ انھوں نے قرآن پڑھا ہے۔ فرائض ادا کیے ہیں۔ لوگوں کے سامنے دعوے کے انداز میں کہتے ہیں کہ عمل نیا ہوتا ہے۔ جو چاہے اچھا کرے اور جو چاہے برا کرے۔ ابن عمر نے کہا: جب ان لوگوں سے ملاقات ہو تو کہنا:ابن عمر کہتا ہے: وہ تم سے بری ہے اور تم اس سے بری ہو۔ ابن عمر تم سے بری ہے اور تم اس سے بری ہو۔بخدا اگر یہ احد پہاڑ کے برابر بھی عمل کرتے تو اللہ ان سے یہ عمل قبول نہ کرتا، یہاں تک کہ یہ تقدیر پر ایمان لے آئیں۔‘‘

مسلم کی روایت کی تمہید اور اس روایت میں تفصیل اور اجمال کا فرق ہے۔ اس سے معبد جہنی کے کردار پر کچھ روشنی پڑتی ہے اور اس کے افکار کے بارے میں بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس مخمصے کا شکار تھا، بظاہر روایت کے دونوں متون میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے اندازہ ہو کہ اس بحث کے آغاز کے اسباب کیا تھے، لیکن عراق کی تصریح یہ اندازہ کرنے میں مدد دیتی ہے کہ یہ بحث ایرانی طرز فکر کے اثرات کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور معبد جہنی کے طرز استدلال میں فرق بہت نمایاں ہے۔مزید برآں جس بحث کو اس واقعے میں بڑے تعجب سے دیکھا جارہا ہے بعد میں یہی بحث بڑے زوروشور سے ہوئی اور اس کی بنا پر کئی فرقے وجود میں آئے۔

روایت کا دوسرا حصہ حضرت جبریل علیہ السلام کے سوال وجواب پر مشتمل ہے۔ یہ حصہ ایک الگ روایت کی حیثیت سے حضرت عمر کے علاوہ حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنھم سے بھی مروی ہے۔ ان متون کے الفاظ باہم دگر بہت مختلف ہیں۔ ہم یہاں خوف طوالت کے پیش نظر صرف اہم اختلافات ہی کا ذکر کریں گے۔حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی روایت کے آغاز میں اس مکالمے کے زمانے کے بارے میں تصریح ہے۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ یہ مکالمہ اس وقت پیش آیا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھنے کے لیے مسجد نبوی میں چبوترہ بنا دیا گیا تھا۔ نسائی میں ہے:

عن ابی ہریرہ وابی ذر قالا: کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یجلس بین ظہرانی أصحابہ. فیجیء الغریب، فلا یدری ایہم ہو حتی یسأل. فطلبنا إلی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم أن نجعل لہ مجلسا یعرفہ الغریب إذا أتاہ. فبنینا لہ دکانا من طین کان یجلس علیہ. وإنا لجلوس ورسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فی مجلسہ، إذ أقبل رجل أحسن الناس وجہا وأطیب الناس ریحا کأن ثیابہ لم یمسہا دنس حتی سلم فی طرف البساط. فقال: السلام علیک یا محمد. فرد علیہ السلام. قال: أدنو یا محمد. قال: ادنہ. فما زال یقول أدنو مرارا ویقول لہ ادن حتی وضع یدہ علی رکبتی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم. قال یامحمد أخبرنی ...(رقم۴۹۰۵)
’’حضرت ابوہریرہ اور ابوذر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان بیٹھا کرتے تھے۔ کوئی اجنبی آتا تو یہ نہیں جان پاتا تھا کہ (ان میں سے ) وہ(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کون ہیں۔ چنانچہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ ہم ان کے بیٹھنے کی (نمایاں) جگہ بنا دیں تاکہ جب کوئی اجنبی آئے تو آپ کو پہچان لے۔اس غرض کے لیے ہم نے آپ کے لیے مٹی کا ایک تھڑا بنا دیا جس پر آپ بیٹھنے لگے۔ (ایک موقع پر ) ہم بھی بیٹھے ہوئے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا، جس کا چہرا سب سے خوب صورت تھا۔ جس کی خوشبو سب سے اچھی تھی، گویا کہ اس کے کپڑوں کومیل نے چھوا تک نہیں تھا۔ اس نے بچھونے کے ایک طرف کھڑے ہو کر سلام کیا۔اس نے کہا : یا محمد، السلام علیک۔ آپ نے جواب دیا۔ اس نے پوچھا: میں قریب آؤں؟ آپ نے کہا: اسے قریب آنے دو۔وہ یہ کہتا رہا اور آپ یہ دہراتے رہے یہاں تک کہ اس نے اپنے ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں پر رکھ دیے اور کہا: یا محمد، بتایئے...۔‘‘

شارح مشکوٰۃ ملا علی قاری نے وضاحت کی ہے کہ یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانے میں پیش آیا۔ مسند امام اعظم میں بتایا گیا ہے کہ جبریل ایک نوجوان کی شکل میں آئے تھے۔ قیامت سے متعلق سوال کے جواب میں بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی قیامت کی علامات بتائیں اور دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جبریل کے کہنے پر یہ علامات بتائیں۔ اسی طرح بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اسی موقع پر بتا دیا تھا کہ آنے والے جبریل تھے اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تصریح تیسرے دن کی گئی تھی۔ اسی طرح کچھ روایات میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ حضور نے سائل کے جانے کے بعد صحابہ کو پیچھے بھی بھیجا تھا۔

اگر معنی کے پہلو سے دیکھیں تو حضرت عمر والی روایت جسے ہم نے اوپر نقل کیا ہے کے الفاظ زیادہ بہتر ہیں اور اگر معلومات کے پہلو سے دیکھیں تو حضرت ابوذر سے مروی روایت زیادہ بہتر ہے۔ بہرحال ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کو سائل کے پیچھے بھیجنا تو قرین قیاس ہے،لیکن تیسرے دن والی بات درست معلوم نہیں ہوتی ، البتہ یہ ممکن ہے کہ تیسرے دن اس واقعے کا دوبارہ ذکر ہوا ہو۔

کتابیات

بخاری، رقم۴۸، ۴۴۰۴۔ نسائی، رقم۴۹۰۴، ۴۹۰۵۔ ابوداؤد، رقم۴۰۷۵۔ترمذی، رقم ۲۵۳۵۔ابن ماجہ، رقم۶۲۔ احمد، رقم۱۷۹، ۳۴۶، ۳۵۲۔

— ۲ —

عن أبی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ قال:کان رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم یوما بارزا للناس. فأتاہ رجل، فقال: یارسول اﷲ، ما الایمان؟ قال: أن تؤمن باﷲ وملائکتہ وکتابہ ولقاۂ ورسلہ وتؤمن بالبعث الآخر. قال: یا رسول اﷲ، ماالاسلام؟ قال: الاسلام أن تعبد اﷲ ولا تشرک بہ شیئا وتقیم الصلوۃ المکتوبۃ وتؤدی الزکوۃ المفروضۃ وتصوم رمضان . قال: یا رسول اﷲ، ما الاحسان؟ قال: أن تعبد اﷲ کأنک تراہ فإنک ان لا تراہ فإنہ یراک.قال: یارسول اﷲ، متی الساعۃ؟ قال: ماالمسؤل بأعلم من السائل. ولکن سأحدثک عن أشراطہا. وإذا کانت العراۃ الحفاۃ رؤس الناس فذاک من أشراطہا.واذا تطاول رعاء البہم فی البنیان فذاک من اشراطہا. فی خمس لا یعلمہن الا اﷲ ثم تلا صلی اﷲ علیہ وسلم: إن اﷲ عندہ علم الساعۃ وینزل الغیث ویعلم ما فی الارحام وما تدری نفس ماذا تکسب غدا وما تدری نفس بأی أرض تموت ان اﷲ علیم خبیر. قال: ثم أدبر الرجل. فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: ردوا علی الرجل. فأخذوا لیردوہ، فلم یروا شیئا. فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: ہذا جبریل جاء لیعلم الناس دینہم.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن لوگوں کے لیے باہر۱۴ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا۔ اس نے کہا: رسول اللہ، ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتاب پر، اس سے ملاقات پر، اس کے رسولوں پر اور آخرت میں اٹھائے جانے پر ایمان لائے ۔ اس نے کہا: رسول اللہ، اسلام کیا ہے؟ آپ نے بتایا: اسلام یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائے، فرض۱۵ نماز پڑھے، فرض زکوٰۃ ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے۔ اس نے پوچھا: رسول اللہ، احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ کہ تو اللہ کی اس طرح عبادت کرے جیسے کہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔ پھر اگر تواسے نہیں دیکھتا (تو کیا ہوا) وہ تو تمھیں دیکھتا ہے۔اس نے سوال کیا: رسول اللہ، قیامت کب آئے گی؟ آپ نے کہا: جس سے پوچھا گیا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن میں تمھیں اس کی علامتیں ۱۶ بتاؤں گا۔ جب لونڈی اپنے آقا کو جنم دے تو یہ چیز اس کی علامتوں میں سے ایک ہے۔ جب تو دیکھے کہ یہ ننگ دھڑنگ لوگوں کے بادشاہ ہیں تو یہ اس کی علامتوں میں سے ایک ہے۔ جب تو دیکھے کہ یہ بھیڑوں کے چرواہے ۷ ۱ عمارتیں بنانے میں مقابلہ کر رہے ہیں تو یہ اس کی علامتوں میں سے ایک ہے۔ یہ ان پانچ چیزوں میں سے ہے جسے اللہ کے سواکوئی نہیں جانتا ۔ پھر آپ نے یہ آیات تلاوت کیں : ان اللّٰہ عندہ ... ۔ ’’اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش اتارتا ہے، اسے معلوم ہے رحموں میں کیا ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کل کیا کمائے گا۔ کوئی نہیں جانتا کہ کس علاقے میں اس کی موت ہو گی۔اللہ ہی علیم و خبیر ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ آدمی واپس چلا گیا۔ رسول اللہ نے لوگوں سے کہا: اس شخص کو واپس لے کر آؤ۔ لوگ اسے لوٹانے کے لیے نکلے، لیکن انھیں کچھ نظر نہیں آیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: یہ جبریل تھے۔ یہ لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘
معنی

اس روایت کے تمام اہم نکات اس سے پہلے کی روایت کے تحت زیر بحث آچکے ہیں۔ اس روایت میں اضافی بات قرآن مجید کی آیت سے استشہاد ہے۔ اس آیت میں ان امور کا تذکرہ ہے جن کا علم انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر اس آیت میں بیان کیے گئے معاملات میں قدر مشترک معین کریں تو وہ مستقبل کا علم ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے اپنے مستقبل کو جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں رکھا۔قیامت بھی مستقبل کا معاملہ ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح قرآن مجید نے یہ واضح کیا ہے کہ آدمی مستقبل میں پیش آنے والے ضرر اور نفع کو نہیں جان سکتا۔ جس طرح وہ موت کن حالات میں آئے گی اس سے واقف نہیں ہو سکتا اسی طرح وہ قیامت کے وقت سے بھی واقف نہیں ہے۔

متون

ابوہریرہ سے مروی یہ روایت کچھ اختلاف کے ساتھ دوسری کتب حدیث میں بھی نقل ہوئی ہے۔ ان متون میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے۔ کچھ لفظی فرق ہیں۔ مثلاً، ’فأتاہ رجل‘ کے بجائے ’إذ أتاہ رجل یمشی‘ یا ’فأتاہ جبریل ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ایک روایت میں ’الصلوٰۃ‘ کے ساتھ’ مکتوبۃ‘ کی صفت نہیں ہے۔ ایک روایت میں ’أمۃ‘ کے بجائے ’إمرأۃ‘ کا لفظ آیا ہے۔ زیر بحث روایت میں ’ربہا‘ ہے بعض روایتوں میں ’ربتہا‘ ہے۔ایک روایت میں ’رعاء البہم‘ کی جگہ ’رعاء الغنم‘ روایت ہوا ہے۔اسی طرح ایک روایت میں ’تطاول بنیان‘ والی نشانی بیان نہیں ہوئی۔ہم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کے ضمن میں حضرت ابوذر کی روایت کا حوالہ دیا تھااور اس کی تمہید کو اقتباس کیا تھا۔ یہاں ہم مسنداحمد کی روایت کے وہ حصے نقل کر رہے ہیں جس میں کچھ تفصیلات مختلف ہیں۔اس کی تمہید کچھ اس طرح سے ہے:

عن عامر أن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم بینما ہو جالس فی مجلس. فیہ أصحابہ. جاء ہ جبریل علیہ السلام فی غیر صورتہ یحسبہ رجلا من المسلمین.(رقم۱۶۵۴۱)
’’حضرت عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے ، جس میں آپ کے اصحاب بھی تھے کہ آپ کے پاس جبریل ایسی صورت بدل کر آئے کہ (دیکھنے والا انھیں) مسلمانوں میں سے ایک مرد خیال کرے۔‘‘

اس میں اسلام کی تفصیل میں روزہ اور حج نہیں ہیں ۔ ایمانیات کی تفصیل میں جنت ، جہنم، حساب اور میزان کا اضافہ ہے۔ ہر سوال کے جواب میں ’ إذا فعلت ذلک فقد أسلمت‘’...آمنت‘ اور ’...أحسنت ‘کا تاکیدی جملہ ہے۔روایت میں اس مکالمے کے اس حصے کے بعد راوی کا تاثر بیان ہوا ہے: ’نسمع رجع رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم إلیہ ولا یری الذی یکلمہ ولا یسمع کلامہ‘ یہ تاثر بے محل لگتا ہے۔ اس لیے کہ روایت کے شروع میں جبریل کے غیر فرشتہ کی صورت میں آنے ذکر ہوا ہے اور آخر میں اس کے جاتے ہوئے دکھائی نہ دینے کا معاملہ بیان ہوا ہے۔ یہ دونوں باتیں جبریل علیہ السلام کے انسانی صورت میں آنے کو واضح کرتی ہیں۔ اس صورت میں یہ کیسے مانا جا سکتا ہے کہ دیکھنے والوں کو نہ بولنے والا دکھائی دے رہا تھا اور نہ اس کی آواز آرہی تھی۔قیامت پر سوال کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی آیت پڑھی۔یعنی اس روایت میں ’ماالمسؤل...‘ والا جملہ نقل نہیں ہوا جو اس روایت کے تقریباً تمام متون میں نقل ہوا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب سن کر حضرت جبریل علیہ السلام نے خود قیامت کی نشانیاں بتائیں:

فقال السائل: یا رسول اﷲ إن شئت حدثتک بعلامتین تکونان قبلہا. فقال: حدثنی. فقال: إذا رأیت الأمۃ تلد ربہا ویطول اہل البنیان بالبنیان وعاد العالۃ الحفاۃ رؤس الناس. قال: ومن أولئک، یا رسول اﷲ؟ قال: العریب. قال: ثم ولی، فلما لم نر طریقہ بعد قال: سبحان اﷲ ثلاثا. ہذا جبریل جاء لیعلم الناس دینہم والذی نفس محمد بیدہ ماجائنی قط إلا وأنا نعرفہ إلا أن تکون ہذہ المرۃ.(ایضاً)
’’سائل نے پوچھا: یارسول اللہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس سے پہلے کی دونشانیاں بتاؤں۔ آپ نے کہا: بیان کرو۔ اس نے کہا: جب آپ دیکھیں کہ لونڈی اپنے آقا کو جنم دے، عمارتوں والے اپنی عمارتوں کو اونچا کرنے لگیں اوریہ ننگ دھڑنگ فقیر لوگوں کے سردار بن جائیں۔ آپ نے پوچھا : یہ کون ہوں گے۔ کہا: عرب۔ پھر وہ پلٹ گیا ۔ ہم نے جب بعد میں اسے راہ میں نہیں دیکھا تو حضور نے تین دفعہ سبحان اللہ کہا، یہ جبریل تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے ، یہ میرے پاس کبھی اس طرح نہیں آئے کہ میں انھیں پہچان نہ پاؤں۔ اس بار ایسا ہی ہوا ہے۔‘‘
کتابیات

بخاری، رقم۴۸، ۴۴۰۴۔ ابن ماجہ، رقم۶۲، ۴۰۳۴۔ نسائی، رقم۴۹۰۵۔ احمد ، رقم ۹۱۳۷، ۱۶۵۴۱۔

— ۳ —

عن أبی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: سلونی. فہابوہ أن یسألوہ. فجاء رجل . فجلس عند رکبتیہ. فقال: یارسول اﷲ، ما الاسلام؟ قال: لا تشرک باﷲ شیئا وتقیم الصلاۃ وتؤتی الزکاۃ وتصوم رمضان. قال: صدقت۰قال: یارسول اﷲ، ماالایمان؟ قال: أن تؤمن باﷲ وملائکتہ وکتابہ ولقاۂ ورسلہ وتؤمن بالبعث وتؤمن بالقدر کلہ. قال: صدقت . قال: یا رسول اﷲ، ما الاحسان؟قال: أن تخشی اﷲ کأنک تراہ فأنک إن لاتکن تراہ فإنہ یراک. قال: صدقت. قال: یارسول اﷲ، متی الساعۃ؟ قال: ماالمسؤل عنہا بأعلم من السائل وسأحدثک عن أشراطہا. إذا رأیت المرأۃ تلد ربہا فذاک من اشراطہا. وإذا رأیت الحفاۃ العراۃ الصم البکم ملوک الأرض فذاک من أشراطہا. وإذا رأیت رعاء البہم یتطاولون فی البنیان، فذاک من أشراطہا فی خمس من الغیب لا یعلمہن إلا اﷲ ثم قرأ: إن اللّٰہ عندہ علم الساعۃ وینزل الغیث ویعلم ما فی الأرحام وماتدری نفس ما ذا تکسب غدا وما تدری نفس بأی أرض تموت إن اﷲ علیم خبیر. قال: ثم قام الرجل . فقال رسول اﷲصلی اللّٰہ علیہ وسلم ردوہ علی فالتمس فلم یجدوہ. فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہذا جبریل أراد أن تعلموا إذ لم تسألوا.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاکرتے تھے کہ مجھ سے پوچھو، لیکن لوگ آپ سے سوال کرنے سے ڈرتے تھے۔پھر ایک آدمی آیا اور آپ کے گھٹنوں کے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے آپ سے پوچھا:یا رسول اللہ، اسلام کیا ہے؟ آپ نے کہا: اسلام یہ ہے کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائے، نماز کا اہتمام کرے، زکوۃ ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے۔اس نے کہا: آپ نے درست فرمایا۔ پوچھا: یا رسول اللہ، ایمان کیا ہے؟ آپ نے کہا: ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر ایمان لائے، اس کے فرشتوں، اس کی کتاب ، اس سے ملاقات اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔تو دوبارہ اٹھائے جانے اور تمام تر تقدیر پر ایمان رکھے۔ اس نے کہا: آپ نے درست فرمایا۔ پوچھا: یا رسول اللہ، احسان کیا ہے؟ آپ نے کہا: احسان یہ ہے کہ تو اللہ سے اس طرح ڈرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔ پھر اگر تم اسے نہیں دیکھتے (تو کیا ہوا) وہ تو تمھیں دیکھتا ہے۔ اس نے کہا: آپ نے درست فرمایا۔ پوچھا: یا رسول اللہ، قیامت کب ہو گی۔ آپ نے کہا: جس سے پوچھا گیا ہے وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا اور میں تمھیں اس کی نشانیاں بتاؤں گا۔ جب تو دیکھے کہ عورت اپنے آقا جنم دینے لگی ہے تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے۔ اور جب تو دیکھے کہ یہ برہنہ پا،ننگ دھڑنگ اور گونگے بہرے اس سرزمین کے بادشاہ بن گئے ہیں تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے۔ اور جب تو دیکھے کہ یہ گلوں کے چرانے والے عمارتیں اونچی کرنے میں ایک دوسرے سے مسابقت کر رہے ہیں تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے۔ قیامت ان پانچ چیزوں میں سے ہے، جنھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اسی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش اتارتا ہے، اسے معلوم ہے رحموں میں کیا ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کل کیا کمائے گا۔ کوئی نہیں جانتا کہ کس علاقے میں اس کی موت ہو گی۔اللہ ہی علیم خبیر ہے ۔پھر وہ آدمی کھڑا ہوا (اور چلا گیا)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:اسے میرے پاس واپس لاؤ۔ اسے تلاش کیا گیا ، مگر لوگوں نے اسے نہیں پایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جبریل تھے۔ انھوں نے چاہا کہ تم سیکھو جبکہ تم سوال نہیں کر رہے ہو۔‘‘
معنی

اس روایت کے اہم مباحث پچھلی روایات میں زیر بحث آچکے ہیں۔ اس روایت میں دو باتیں سابقہ روایتوں سے مختلف ہیں۔ ایک یہ کہ اس کے آغاز میں حضرت جبریل کے آنے کی وجہ بیان کی گئی ہے اور روایت کا انجام بھی اسی سبب کی طرف اشارے پر ہوا ہے۔مزید یہ کہ روایت کا یہ آخری جملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے بیان ہوا ہے۔ممکن ہے یہ اضافہ درست ہو ، لیکن پچھلی روایات میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ روایت کے مضمون سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔ خیال ہوتا ہے کہ راوی نے دوالگ سے موجود مختلف چیزوں کوخود سے ملا دیا ہے۔

دوسری چیز لونڈی کے بجائے عورت کے لفظ کا آناہے۔ یہ فرق درست نہیں ہے۔ اس نشانی کی جو بھی وضاحت کی جائے لونڈی کا لفظ ہی موزوں محسوس ہوتا ہے۔

کتابیات

اس روایت کے مختلف متون کے حوالوں کے لیے دیکھیے حدیث ۹ اور ۱۰ کی کتابیات ۔

____________

۱؂ اصل میں’وفق لنا‘ ہے۔ یہ ’وفق‘ سے مجہول ہے۔ اس کا مطلب ہے توفیق دینا، موافق کرنا، عین موقع پر ہونا یا آنا۔ ہم نے آخری معنی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس جملے کے معنی: ’اتفاق کی بات ہے ‘کیے ہیں۔

۲؂ اصل میں ’اکتنفتہ‘ ہے۔ ’کنف‘ کے معنی کنارے یا ناحیہ کے ہیں۔ اس اعتبار سے ’اکتنف‘ کے ایک معنی ساتھ لگنے کے ہیں۔اسی طرح یہ لفظ باڑھ لگانے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ چنانچہ اس کے ایک معنی احاطہ کرنے کے بھی ہیں ۔سیاق وسباق کی مناسبت سے ہم نے اس کا ترجمہ ’گھیر لیا‘ کیا ہے۔

۳؂ اصل میں’ سیکل الکلام إلی ‘ہے۔ ’وکل یکل‘ کا مطلب ذمہ داری دینا ہے ۔ اسی طرح یہ موقع دینے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اس روایت کے ایک دوسرے متن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہلے معنی میں ہے۔

۴؂ اصل میں’ یتقفرون‘ ہے۔’ قفر‘ اور’ تقفر‘ پیروی کرنے کے معنی میں آتے ہیں۔یہاں اس سے مراد گہرے نکتوں تک پہنچنا ہے۔

۵؂ اصل جملہ ’ بینما‘ سے شروع ہوا ہے۔ اس کی ایک لغت ’ بینا‘ بھی ہے۔یہ ظرف زمان ہے اور دو جملوں کی طرف مضاف ہوتا ہے۔ دوسرے جملے پر کبھی ’اذ ‘ آتا ہے اور کبھی نہیں۔

۶؂ اصل میں’شدید بیاض الثیاب شدید سواد الشعر‘کے الفاظ ہیں۔ یہ تراکیب ’ رجل ‘کی صفت ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اجنبی ہونے کے باوجود اس پر سفر کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے۔

۷؂ اصل میں ’سبیلا‘ ہے ۔ یہ تمییز ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ۔ یہاں اس سے مراد زاد راہ ہے۔

۸؂ فرشتوں کے لیے عربی لفظ ’ملائکۃ‘ ہے ۔ایک تحقیق کے مطابق اصل ’مألک‘ ہے ۔ ’ الک ‘ کا مطلب پیغام پہنچانا ہے۔ مصدر ’الالوکۃ‘ ہے۔ اس سے ’ملئک‘ بنا۔ جو ’ملاک‘ اور ’ملک‘ میں بدلا۔ لیکن جمع میں ہمزہ واپس آجاتی ہے: ’ملائک ‘اور ’ملائکۃ‘ ۔

۹؂ حدیث میں یہ بات ’ان تعبد اللّٰہ کأنک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک‘ سے ادا کی گئی ہے۔ ’ کأنک تراہ‘ حال یا مصدر کے محل پر ہے۔ ’فان لم تکن تراہ ‘کے’ فانہ یراک ‘جواب شرط نہیں ہے ، بلکہ مقدر جواب ’لابأس‘ پر عطف ہے۔ ترجمے میں ہم نے ’تو کیا ہوا‘ کے الفاظ سے قوسین میں اسی مقدر کو کھولا ہے۔

۱۰؂ عربی کا لفظ ’الحفاۃ‘ ہے۔ ننگے پاؤں ’ الحافی‘ کی جمع ہے۔ اس پر الف لام عہد کا ہے ۔ مراد عرب کے چرواہے ہیں۔

۱۱؂ اصل میں ’العراۃ ‘ہے۔ مراد ہے بے لباس لوگ،یہ ’العاری ‘کی جمع ہے۔ اس پر بھی الف لام عہد کا ہے۔یہ انھی چرواہوں کی ایک دوسری نشانی ہے۔یعنی یہ آج ڈھنگ کے لباس سے بھی محروم ہیں۔

۱۲؂ حدیث میں بکریوں کے لیے ’الشاء‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ بھی جمع ہے اور اس کا واحد ’شاۃ ‘ہے۔

۱۳؂ اصل میں ’ رعاء ‘ہے۔ مراد ہے: چرواہے، یہ ’الراعی‘ کی جمع ہے۔

۱۴؂ ’ بارزا للناس‘: ’ برز ‘کے معنی ہیں ظاہر ہونا۔ قرآن مجید میں زمین کے لیے ’ بارزۃ ‘کی صفت بالکل نمایاں کے معنی میں آئی ہے یعنی اس پر کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے گی۔اسی طرح ’برزوا لجالوت ‘ میں یہ فعل سامنا ہونے کے معنی میں آیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس روایت میں یہ لفظ آپ کے لوگوں کے درمیان بات چیت اور ملاقات کے لیے موجود ہونے کے معنی میں آیا ہے۔

۱۵؂ روایت میں نماز کے ساتھ ’المکتوبۃ‘ لازم کی گئی،زکوۃ کے ساتھ ’المفروضہ‘ فرض کی گئی‘ کی صفت آئی ہے۔ قرآن مجید میں نماز کو ’کتابا موقوتا ‘قرار دیا گیا ہے۔ اسی مناسبت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ’مکتوبۃ ‘قرار دیا ہے۔ یہاں اس صفت کے بیان سے نفلی نمازاور فرض نماز اور نفلی صدقات اور فرض صدقات کی حیثیت کو واضح کرنا ہے۔

مکتوبۃ ‘اور ’مفروضۃ ‘ہم معنی الفاظ ہیں۔

۱۶؂ عربی میں علامتوں کے لیے ’اشراط‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ شرط کی جمع ہے۔ جو کسی چیز کی علامت یا اس کے پہلے سامنے والے حصے کے معنی میں آتا ہے۔

۱۷؂ صل میں ہے: ’رعاء البھم‘ ۔ ’رعاء‘ کا لفظ پچھلی روایت میں زیر بحث آچکا ہے۔ ’بھم‘ کا لفظ بھیڑوں کے لیے آتا ہے، لیکن اس میں گائے اور بکری بھی شامل ہے۔ یعنی عربوں کے جانور جنھیں وہ ریوڑوں کی صور ت میں چراتے تھے۔ اس لفظ سے وہ جانور مراد نہیں ہیں جو محض بار برداری کے کام آتے ہیں۔

______________

B