HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: بنی اسرائیل ۱۷: ۸۵- ۱۱۱ (۷)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلاً(۸۵) وَلَءِنْ شِءْنَا لَنَذْھَبَنَّ بِالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَیْنَا وَکِیْلاً(۸۶) اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ اِنَّ فَضْلَہٗ کَانَ عَلَےْکَ کَبِےْرًا(۸۷) قُلْ لَّءِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا(۸۸)
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ فَاَبٰٓی اَکْثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوْرًا(۸۹) وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْبُوْعًا م(۹۰) اَوْ تَکُوْنَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ عِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْھٰرَ خِلٰلَھَا تَفْجِیْرًا(۹۱) اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآءَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللّٰہِ وَالْمَلٰٓءِکَۃِ قَبِیْلاً(۹۲) اَوْ یَکُوْنَ لَکَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْ قٰی فِی السَّمَآءِ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتٰبًا نَّقْرَؤُہٗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا(۹۳) 
وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَآءَ ھُمُُ الْھُدٰٓی اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوْلًا(۹۴) قُلْ لَّوْکَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓءِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَءِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَکًا رَّسُوْلًا(۹۵) قُلْ کَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًام بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ اِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرًام بَصِیْرًا(۹۶) وَمَنْ یَّھْدِ اللّٰہُ فَھُوَالْمُھْتَدِ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَھُمْ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِہٖ وَنَحْشُرُھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَلٰی وُجُوْھِہِمْ عُمْیًا وَّ بُکْمًا وَّ صُمًّا مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰہُمْ سَعِیْرًا(۹۷) ذٰلِکَ جَزَآؤُھُمْ بِاَنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا وَقَالُوْٓا ءَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا(۹۸) اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰٓی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ وَجَعَلَ لَہُمْ اَجَلاً لَّا رَیْبَ فِیْہِ فَاَبَی الظّٰلِمُوْنَ اِلَّا کُفُوْرًا(۹۹)
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِکُوْنَ خَزَآءِنَ رَحْمَۃِ رَبِّیْٓ اِذًا لَّاَمْسَکْتُمْ خَشْیَۃَ الْاِنْفَاقِ وَکَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا(۱۰۰)
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ اٰیٰتٍم بَیِّنٰتٍ فَسْءَلْ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اِذْ جَآءَ ھُمْ فَقَالَ لَہٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنُّکَ یٰمُوْسٰی مَسْحُوْرًا(۱۰۱) قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ ھٰٓؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَآءِرَ وَاِنِّیْ لَاَظُنُّکَ یٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا(۱۰۲) فَاَرَادَ اَنْ یَّسْتَفِزَّھُمْ مِّنَ الْاَرْضِ فَاَغْرَقْنٰہُ وَمَنْ مَّعَہٗ جَمِیْعًا(۱۰۳) وَّقُلْنَا مِنْم بَعْدِہٖ لِبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اسْکُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ جِءْنَا بِکُمْ لَفِیْفًا(۱۰۴)
وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰہُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا(۱۰۵) وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰیمُکْثٍ وَّنَزَّلْنٰہُ تَنْزِیْلاً(۱۰۶) قُلْ اٰمِنُوْا بِہٖٓ اَوْلَا تُؤْمِنُوْا اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہٖٓ اِذَا یُتْلٰی عَلَیْہِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا(۱۰۷) وَّیَقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا(۱۰۸) وَیَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُوْنَ وَیَزِیْدُھُمْ خُشُوْعًا(۱۰۹)
 قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِھَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاً(۱۱۰) وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا(۱۱۱)
وہ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں (جو تم پر وحی کی جاتی ہے)۲۱۵؎۔ اِن سے کہو، یہ روح میرے پروردگارکا ایک حکم ہے اور (اِس طرح کے حقائق کا)تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ (اِس میں، اے پیغمبر، تمھارے کسی ارادہ و اختیار کو کوئی دخل نہیں ہے)۔ اگر ہم چاہیں تو جو کچھ ہم نے تمھاری طرف وحی کیا ہے، وہ (چھین کر) لے جائیں، پھر اِس کے لیے تم ہمارے مقابلے میں اپنا کوئی مددگار نہ پاؤ، مگر یہ صرف تمھارے پروردگار کی رحمت ہے (کہ تم اِس سے سرفراز ہوئے ہو)۔ حقیقت یہ ہے کہ اُس کا فضل تمھارے اوپر بہت بڑا ہے۲۱۶؎۔ کہہ دو کہ اگر سارے انسان اور سارے جن اکٹھے ہو جائیں کہ ایسا قرآن بنا لائیں تو اِس جیسا قرآن نہ لا سکیں گے، اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں ۲۱۷؎۔۸۵-۸۸
ہم نے اِس قرآن میں لوگوں کے لیے طرح طرح سے ہر قسم کی حکمت کی باتیں ۲۱۸؎بیان کی ہیں، پھر بھی اکثر لوگ انکار ہی پر جمے ہوئے ہیں۔اُنھوں نے کہہ دیا ہے کہ ہم تمھاری بات نہ مانیں گے، جب تک تم ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ نہ جاری کر دو یا تمھارے لیے کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ پیدا نہ ہو جائے، پھر اُس کے بیچ میں تم بہت سی نہریں نہ دوڑا دو۔ یا جیسا کہ تم کہتے ہو، ہمارے اوپر ٹکڑے ٹکڑے آسمان نہ گرا دو یا اللہ اور اُس کے فرشتوں کو لا کر ہمارے سامنے کھڑا نہ کردو۔یا تمھارے پاس سونے کا کوئی گھر نہ ہو جائے یا(ہماری آنکھوں کے سامنے) تم آسمان پر نہ چڑھ جاؤ۔ اور ہم تمھارے چڑھنے کو بھی ماننے کے نہیں ہیں، جب تک تم (وہاں سے) ہم پر کوئی کتاب نہ اتارو جسے ہم پڑھیں    اِن سے کہو، پاک ہے میرا پروردگار۲۱۹؎، کیا میں ایک انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا۲۲۰؎ ہے؟۸۹-۹۳
جب اِن کے پاس ہدایت ۲۲۱؎آ گئی تو اِن لوگوں کے ایمان لانے میں یہی چیز رکاوٹ بن گئی ہے کہ اِنھوں نے کہہ دیا کہ کیا اللہ نے ایک انسان کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ اِن سے کہو کہ اگر زمین میں فرشتے ہوتے کہ اطمینان کے ساتھ چل پھر رہے ہوتے۲۲۲؎ تو ہم آسمان سے اُن پر کسی فرشتے ہی کو رسول بنا کر نازل کرتے۲۲۳؎۔ کہہ دو کہ اللہ میرے اور تمھارے درمیان گواہی کے لیے کافی ہے۲۲۴؎۔ اِس میں شبہ نہیں کہ وہ اپنے بندوں کو جاننے والا ہے، وہ اُن کو دیکھ رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جس کو اللہ (اپنے قانون کے مطابق) ہدایت سے بہرہ یاب کرے گا، وہی ہدایت پانے والا ہو گا اور جس کو وہ گمراہی میں ڈال دے گا تو ایسے گمراہوں کے لیے تم اُس کے سوا کوئی مددگار نہ پاؤ گے۔۲۲۵؎ قیامت کے دن ہم اُن کو اُن کے منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے اکٹھا کریں گے۔۲۲۶؎ اندھے، گونگے اور بہرے، اُن کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اُس کی آگ جب کبھی دھیمی ہونے لگے گی، ہم اُس کو اُن پر مزید بھڑکا دیں گے۔ یہ اُن کا بدلہ ہے، اِس لیے کہ اُنھوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور کہا کہ جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو کر رہ جائیں گے تو کیا نئے سرے سے بنا کر اٹھائے جائیں گے؟ کیا اُنھوں نے سوچا نہیں کہ جس خدا نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے، وہ اِس پر قدرت رکھتا ہے کہ اُن جیسے پھر پیدا کر دے،لیکن اُس نے اُن کے لیے ایک مدت مقرر کر رکھی ہے جس میں کوئی شبہ نہیں۔ اِس پر بھی ظالم انکار پر ہی اڑے رہے۲۲۷؎۔ ۹۴-۹۹
(اِنھیں تعجب ہے کہ خدا نے یہ عنایت تم پر کیوں فرمائی ہے)۔ اِن سے کہو، اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمھارے ہاتھ میں ہوتے تو خرچ ہو جانے کے ڈر سے تم ضرور اُن کو روک رکھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی تنگ دل واقع ہوا ہے۲۲۸؎۔۱۰۰
(تم نشانیاں مانگتے ہو)۔ ہم نے موسیٰ کو نو کھلی ہوئی نشانیاں دی تھیں ۲۲۹؎۔ پھر بنی اسرائیل سے پوچھ لو۲۳۰؎ کہ جب موسیٰ اُن کے پاس آیا تو فرعون نے اُس سے یہی کہا تھا کہ اے موسیٰ، میں تو سمجھتا ہوں کہ تم پر جادو کیا گیا ہے۲۳۱؎۔ موسیٰ نے جواب دیا: تم خوب جانتے ہو کہ (تمھاری) آنکھیں کھول دینے کے لیے یہ نشانیاں زمین اور آسمانوں کے پروردگار ہی نے اتاری ہیں۔ (سو حجت پوری ہو گئی، اِس لیے) میں سمجھتا ہوں کہ اے فرعون، تم (اب) ایک ہلاکت زدہ آدمی ہو۔ اِس پر فرعون نے ارادہ کر لیا کہ بنی اسرائیل کو زمین ہی سے اکھاڑ پھینکے۔ سو ہم نے اُس کو اور جو اُس کے ساتھ تھے، سب کو غرق کر دیا اور اُس کے بعد بنی اسرائیل سے کہا کہ اب تم زمین پر (اطمینان کے ساتھ) رہو، پھر جب آخرت کا وعدہ آجائے گا تو ہم تم سب کو اکٹھا کرکے لا حاضر کریں گے۔ ۲۳۲؎۱۰۱-۱۰۴
ہم نے اِس قرآن کو حق کے ساتھ اتارا ہے اور یہ حق ہی کے ساتھ اترا ہے۲۳۳؎ اور ہم نے، (اے پیغمبر)، تم کوصرف اِس لیے بھیجا ہے کہ (ماننے والوں کو) خوش خبری دو اور (نہ ماننے والوں کو) متنبہ کردو۔ اور اِس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے اِس لیے نازل کیا ہے کہ تم ٹھیر ٹھیر کر اِسے لوگوں کو سناؤ اور (اِسی مقصد سے) ہم نے اِس کو نہایت اہتمام کے ساتھ اتارا ہے۲۳۴؎۔ اِن سے کہہ دو کہ تم اِس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ،جن لوگوں کو اِس سے پہلے (اُن کے پروردگار کی طرف سے) یہی علم دیا گیا تھا، اُنھیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں کہ ہمارا پروردگار پاک ہے، (یہ اُس کا وعدہ تھا اور) ہمارے پروردگار کا وعدہ تو ہر حال میں پورا ہونا ہی تھا۔ (اِس کو سن کر) وہ روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل گرتے ہیں اور یہ اُن کے خشوع میں اضافہ کر دیتا ہے۲۳۵؎۔۱۰۵-۱۰۹
(اِنھیں اِس پر اعتراض ہے کہ تم اللہ کو رحمن کیوں کہتے ہو)۲۳۶؎۔ اِن سے کہہ دو کہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر پکارو، جس نام سے بھی پکارو، سب اچھے نام اُسی کے ہیں ۲۳۷؎۔ اور (اوپر جو نماز خاص تم کو پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے)، تم اپنی اُس نماز کو نہ بہت زیادہ بلند آواز سے پڑھو، نہ بہت پست آواز سے، بلکہ اِن دونوں کے درمیان کا طریقہ اختیار کرو۲۳۸؎۔(یہ جس وادی میں چاہیں، ٹھوکریں کھاتے پھریں، تم اِسی خوب صورت طریقے سے اِس نماز کا اہتمام رکھو) اور اعلان کر دو کہ شکر اللہ ہی کے لیے ہے جو نہ اولاد رکھتا ہے، نہ اُس کی بادشاہی میں اُس کا کوئی شریک ہے، نہ اُس کو ذلت کے وقت کسی مددگار کی ضرورت ہے۲۳۹؎ اور تم اُس کی بڑائی بیان کرو، جس طرح کہ اُس کی بڑائی بیان کرنے کا حق ہے۔ ۱۱۰-۱۱۱

۲۱۵؎ آیت کے سیاق و سباق سے واضح ہے کہ ’رُوْح‘ کا لفظ یہاں وحی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو چیزیں صادر ہوتی ہیں، اُن کی حقیقت قرآن میں اِسی لفظ سے بیان کی گئی ہے۔ یہ گویا امر الہٰی ہے جو کبھی لفظ اور کبھی نفس کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ جبریل امین بھی اِسی کا ظہور ہیں۔ چنانچہ اُن کو بھی اِسی اعتبار سے ’رُوْحُ الْقُدُس‘ یا ’الرُّوْح‘ کہا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جب قرآن نے یہ کہا کہ آپ پر ہم نے ایک روح وحی کی ہے، جس طرح کہ سورۂ شوریٰ(۴۲) کی آیت ۵۲ اور بعض دوسرے مقامات میں فرمایا ہے تو منکرین نے اِسے استہزا کا موضوع بنالیا اور پوچھا کہ یہ روح کیا چیز ہے جو تم پر نازل کی جاتی ہے؟ قرآن نے یہ اِسی سوال کا حوالہ دیا ہے۔

۲۱۶؎ اِن آیتوں میں خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، لیکن جو بات فرمائی ہے، وہ اُنھی لوگوں کو سنانا مقصود ہے جن کا سوال اوپر نقل ہوا ہے۔ اُ ن سے کہا گیا ہے کہ یہ کلام نہ پیغمبر نے گھڑا ہے، نہ اِس کے نزول میں اُس کی کسی کوشش کو کوئی دخل ہے۔ یہ سراسر ہمارا تصرف اور ہماری عنایت ہے اور اگر ہم اِس کو چھین لیں تو پیغمبر کی طاقت نہیں ہے کہ وہ اِس طرح کا کلام تصنیف کرکے پیش کر سکے۔

۲۱۷؎ یہ چیلنج اِس لحاظ سے ہے کہ اپنی ہدایت، مضامین و مباحث اور اپنے اسلوب بیان اور طرزاستدلال کے لحاظ سے قرآن جس شان کا کلام ہے، اُس شان کی کوئی چیز تمام جن و انس مل کر بھی زور لگائیں تو کبھی پیش نہیں کر سکتے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ پچھلے چودہ سو سال میں کوئی شخص کبھی اِس کی جسارت نہیں کر سکا۔اِس طرح کی جتنی کوششیں کی گئی ہیں، وہ سب قرآن کو سامنے رکھ کر اُس کے اسلوب کی نقالی کی کوششیں ہیں جو بجاے خود اعتراف عجز ہے۔ تاہم یہ کوششیں بھی سراسرناکام ہوئیں اور اُن کے کرنے والے مضحکہ بن کر رہ گئے۔

۲۱۸؎ لفظ ’مثل‘اور’أمثال‘عربی محاورے میں علم و حکمت کی باتوں کے لیے بھی آتا ہے۔ قرینہ دلیل ہے کہ یہاں یہ اِسی مفہوم میں ہے۔

۲۱۹؎ یعنی اِس سے پاک ہے کہ کسی انسان کو اِس طرح کے اختیارات دے کر اپنی خدائی میں شریک کر لے۔

۲۲۰؎ یہ ایک مختصر سا جملہ ہے، مگر اِس قدر بلیغ ہے کہ اِس کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ مطلب یہ ہے کہ میں نے خدا ہونے کا دعویٰ کب کیا ہے؟ میں نے کب تم سے کہا ہے کہ میں ہر چیز پر قدرت رکھتا ہوں؟ میں نے کب کہا ہے کہ زمین و آسمان میری مٹھی میں ہیں اور میں اُن میں جو تصرف چاہوں، کر سکتا ہوں؟ میں نے پہلے دن سے صرف اتنی بات کہی ہے کہ میں ایک انسان ہوں اور خدا نے مجھے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ مجھے بتاؤ کہ میری اِس بات کا تمھارے اِن مطالبات سے کیا تعلق ہے؟ یہ سب تو خدا کے کام ہیں اور میں نے ایسا کوئی دعویٰ کبھی نہیں کیا ہے۔

۲۲۱؎ یعنی اللہ کی ہدایت اپنے تمام دلائل و براہین کے ساتھ۔

۲۲۲؎ یعنی اُسی طرح اطمینان کے ساتھ چل پھر رہے ہوتے، جس طرح انسان چل پھر رہے ہیں۔ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تنفیذ کے لیے تو اُن کا زمین پر آنا جانا رہتا ہی ہے، لیکن وہ اُس کے مستقل باشندے نہیں ہیں۔

۲۲۳؎ تاکہ وہ حجاب باقی رہے جو امتحان کے لیے ضروری ہے، ورنہ اگر فرشتوں کے لیے انسان اور انسانوں کے لیے فرشتے آسمان سے اترتے اور اُنھیں خدا کا پیغام پہنچاتے تو امتحان کے لیے کیا باقی رہ جاتا؟ پھر مزید یہ کہ اپنے ابناے نوع کے لیے اسوہ اور نمونہ بھی وہی بن سکتے تھے۔

۲۲۴؎ یعنی اِس بات کی گواہی کے لیے کہ جانتے بوجھتے محض ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے انکار کر رہے ہو یا تم پر فی الواقع بات ہی واضح نہیں ہوئی ہے۔

۲۲۵؎ یہ ہدایت و ضلالت کے باب میں سنت الٰہی کا بیان ہے۔ آیت میں آگے ’عُمْیًا وَّبُکْمًا وَّصُمًّا‘کے الفاظ اشارہ کر رہے ہیں کہ وہ اِسی لیے گمراہی میں پڑیں گے اور بالآخر جہنم کا ایندھن بن جائیں گے کہ دنیا میں اندھے، گونگے اور بہرے بنے رہے۔

۲۲۶؎ اصل میں ’نَحْشُرُھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَلٰی وُجُوْھِھِمْ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’عَلٰی‘ جس مفہوم پر دلالت کر رہا ہے، ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔

۲۲۷؎ یعنی اُس کے لیے تیاری کرنے کے بجاے وہ اِس طرح کی باتیں کرتے رہے کہ اُس کا وقت بتاؤ کہ کب آئے گی اور آنی ہے تو آ کیوں نہیں جاتی؟ آخر کہاں رہ گئی ہے؟

۲۲۸؎ مطلب یہ ہے کہ اگر تم تنگ دل ہو تو تم نے خدا کو اپنے جیسا کیوں گمان کر رکھا ہے؟ استاذ امام کے الفاظ میں، اُس نے جن خزف ریزوں کا اہل تم کو پایا، وہ تمھارے حوالے کیے اور جس فضل عظیم کے لیے میرا انتخاب فرمایا، تمھارے اور بنی اسرائیل کے علی الرغم، اُس سے مجھ کو نواز دیا ہے۔ یہ اُس کی عنایت ہے اور وہ اپنی عنایتوں کے لیے تمھارے تعصبات کی پابندی کیوں کرے گا؟ ہاں، اگر یہ سب تمھارے ہاتھ میں ہوتا تو تم یقینا یہی کرتے کہ اِسے اپنے ہی گروہوں کے لیے جمع کر لیتے اور اِس میں سے کچھ بھی دوسروں کے پاس جانے نہ دیتے۔

۲۲۹؎ اِس سے پہلے سورۂ اعراف (۷) میں اِن نشانیوں کا ذکر ہو چکا ہے۔ یعنی عصا جو اژدھا بن جاتا تھا، یدبیضا جو بغل سے نکلتے ہی سورج کی طرح چمکنے لگتا تھا، جادوگروں کی برسرعام شکست، پورے ملک میں قحط، پھر طوفان، ٹڈی دل، سرسریوں، مینڈکوں اور خون کی آفات جو یکے بعد دیگرے نازل ہوئیں۔

۲۳۰؎ اِس میں یہ لطیف تلمیح ہے کہ قرآن نے اُنھی لوگوں کو گواہی کے لیے پیش کر دیا ہے جن کی شہ پر قریش یہ معجزات کے مطالبے کر رہے تھے۔

۲۳۱؎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی قریش یہی کہتے تھے۔ چنانچہ مدعا یہ ہے کہ اگر تمھاری طلب کے مطابق معجزے دکھا بھی دیے گئے تو کیا مان لو گے؟ نہیں، اُس کے بعد بھی انکار ہی کرو گے، جس طرح کہ تم سے پہلی قوموں کے لوگ اِس طرح کی باتیں بنا کر کرتے رہے ہیں۔

۲۳۲؎ یہ قرآن نے اپنے اسلوب کے مطابق ساتھ ہی آخرت کی یاددہانی کر دی ہے کہ اِس وقت جو کامیابی تمھیں حاصل ہوئی ہے، اُس کی خوشی میں اُسے بھول نہ جانا، اِس لیے کہ اصلی کامیابی تو آخرت ہی کی کامیابی ہے۔

۲۳۳؎ یعنی اِس طرح اترا ہے کہ اِس میں کسی باطل کی آمیزش نہ آگے سے ہوئی ہے، نہ پیچھے سے۔ اِس کی ہر بات قطعی ہے اور یہ علم حقیقی لے کر آیا ہے۔

۲۳۴؎ یہ منکرین کے اِس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ خدا کو تو کسی تیاری کی ضرورت نہیں تھی، پھر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے کیوں نازل کیا جاتا ہے؟ کیا اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ یہ حالات کے مطابق سوچتے ہیں اور جتنا تیار کر پاتے ہیں، اتنا سنا دیتے ہیں؟ فرمایا کہ یہ تمھارے حالات اور تمھاری قوت فہم کی رعایت سے ہے اور اِس لیے ہے کہ ہم اِسے بتدریج تمھارے فکر و عمل کا جزو بنانا چاہتے ہیں۔ پھر یہ بھی ملحوظ ہے کہ یہ تنبیہ و انذار اور تزکیہ و تطہیر کے جس مقصد کو سامنے رکھ کر نازل کیا گیا ہے، وہ اِسی طرح ٹھیر ٹھیر کر اور تدریج و اہتمام کے ساتھ لوگوں کو سنانے ہی سے حاصل ہو سکتا تھا، اُسے بہ یک وقت پورا قرآن تمھارے ہاتھوں میں پکڑا دینے سے حاصل نہیں کیا جا سکتا تھا۔

۲۳۵؎ یہ صالحین اہل کتاب کا ذکر ہے جو اپنے نبیوں اور صحیفوں کی پیشین گوئیوں سے واقف تھے اور اُن کی روشنی میں ایک رسول اور ایک کتاب موعود کا انتظار کر رہے تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...یہ اِسی مبارک گروہ کی طرف اشارہ ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت ہوئی کہ تم قریش اور بنی اسرائیل کے مکذبین کو سنا دو کہ تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ،میرے اطمینان کے لیے یہ کافی ہے کہ اہل علم کا ایک ایسا گروہ بھی موجود ہے جو اِس قرآن کو سن کر بے تحاشا سجدے میں گر پڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اِس ایفاے وعدہ کو دیکھ کر اُس پر گریۂ مسرت و شکر اور گریۂ خشوع کی دوگونہ کیفیت و حالت طاری ہو جاتی ہے۔ گریہئ شکر و مسرت کا پہلو تواِس میں ظاہر ہی ہے، زیادت خشوع کا اِس میں یہ پہلو ہے کہ اِس سے آخرت کے وعدے کی ازسرنو یاددہانی ہوئی ہے کہ جس رب نے اپنا یہ وعدہ پورا کیا، لازماً وہ اپنا آخرت کا وعدہ بھی پورا کر کے رہے گا۔“(تدبرقرآن۴/ ۵۴۶)


۲۳۶؎ یہ اعتراض کیوں پیدا ہوا؟ اِس کی وجہ یہ تھی کہ اہل عرب بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ کے لیے اللہ اور رحمن، دونوں نام استعمال کرتے تھے، لیکن اسم رحمن اہل کتاب کے ہاں زیادہ معروف تھا۔ اِس سے یہ نکتہ پیدا کر لیا گیا کہ یہ ہمارے مذہب اور ہماری روایات پر اہل کتاب کے مذہب اور روایات کو مسلط کرنے کی سازش ہے جس میں کچھ اہل کتاب درپردہ اِن کی مدد کر رہے ہیں۔


۲۳۷؎ یعنی ایک رحمن ہی نہیں، اُس کے نام اور بھی ہیں۔ یہ محض حماقت ہے کہ کسی نام کو قبول حق کے راستے کی رکاوٹ بنا لیا جائے۔ اہل حق مجرد کسی نام کے لیے متعصب نہیں ہو سکتے، اِس لیے اللہ کہو یا رحمن، تم خدا کو اُس کے شایان شان ہر نام سے پکار سکتے ہو۔

۲۳۸؎ یعنی نماز تہجد میں، جس کا حکم خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اوپر بیان ہو چکا ہے۔ آیت میں ’صَلَاتِکَ‘ کا لفظ اِسی لحاظ سے آیا ہے۔ عام نمازوں سے اِس حکم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اُن کے لیے سروجہر کا طریقہ معلوم و معروف ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ میں سے جو لوگ اِس نماز کا اہتمام کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کے بعد اُن کو بھی اِسی طریقے کا پابند کیا*۔تہجد کی نماز کے لیے، اگر غور کیجیے تو یہی طریقہ ہر لحاظ سے موزوں بھی ہے۔

۲۳۹؎ یہ وہی اسلوب ہے جو امرؤالقیس نے ’لایھتدی بمنارہ‘میں اختیار کیا ہے۔ یعنی اُس کو کوئی ذلت یا مقہوریت کبھی لاحق ہی نہیں ہوتی کہ اُس سے بچانے کے لیے اُس کو کسی حمایتی کی ضرورت پیش آئے۔

کوالالمپور

۰۲نومبر۲۰۱۲ء

____________

*             ابو داؤد، رقم ۱۳۲۹۔ ترمذی، رقم ۴۴۷۔

______________

B