خیال و خامہ
o
لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے نذر صحرا کر دیا
ایک قطرہ تھا ، تری رحمت نے دریا کر دیا
سینۂ آدم میں اک آتش فشاں رکھا گیا
جی میں کیا آئی کہ پھر نقش سویدا کر دیا
اور کیا لینا تھا آنکھوں میں بسا لینے کے بعد
واے ناکامی ، زلیخائی نے رسوا کر دیا
مے کدے کا در نہیں کھلتا فقیروں پر تو کیا
موسم گل نے ہواے گل کو صہبا کر دیا
آسماں دیکھے ذرا ابلیس کا اعجاز بھی
جو کبھی زیبا نہ تھا ، اُس کو بھی زیبا کر دیا
کیا طبیعت ہے کہ گویا سرخوشی بھی کام تھا
جب ذرا فرصت ملی ، غم کا تقاضا کر دیا
زندگی جن سے عبارت تھی وہ اندھے ہی رہے
ریت کے ذروں کو لیکن ہم نے بینا کر دیا
____________