HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: بنی اسرائیل ۱۷: ۵۸- ۶۵ (۵)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَاِنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا نَحْنُ مُھْلِکُوْھَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ اَوْمُعَذِّبُوْھَا عَذَابًا شَدِیْدًا کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا(۵۸) وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّآ اَنْ کَذَّبَ بِھَا الْاَوَّلُوْنَ وَاٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃً فَظَلَمُوْا بِھَا وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا(۵۹)
وَاِذْ قُلْنَا لَکَ اِنَّ رَبَّکَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْ یَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَۃَ الْمَلْعُوْنَۃَ فِی الْقُرْاٰنِ وَنُخَوِّفُہُمْ فَمَا یَزِیْدُھُمْ اِلَّا طُغْےَانًا کَبِیْرًا(۶۰)
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓءِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ قَالَ ءَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا(۶۱) قَالَ اَرَءَ یْتَکَ ھٰذَا الَّذِیْ کَرَّمْتَ عَلَیَّ لَءِنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَاَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلاً(۶۲) قَالَ اذْھَبْ فَمَنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ فَاِنَّ جَھَنَّمَ جَزَآؤُکُمْ جَزَآءً مَّوْفُوْرًا(۶۳) وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْھُمْ بِصَوْتِکَ وَاَجْلِبْ عَلَیْہِمْ بِخَیْلِکَ وَرَجِلِکَ وَشَارِکْھُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ وَعِدْھُمْ وَمَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا(۶۴) اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطٰنٌ وَکَفٰی بِرَبِّکَ وَکِیْلاً(۶۵)
(یہ عذاب کے لیے جلدی نہ مچائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ) کوئی بستی۱۷۸؎ ایسی نہیں ہے جسے ہم قیامت کے دن سے پہلے ہلاک نہ کریں یا اُس کو سخت عذاب نہ دیں۔یہ خدا کے نوشتے میں لکھا ہوا ہے۱۷۹؎۔ ہم کو (عذاب کی) نشانیاں بھیجنے سے اِسی بات نے روک رکھا ہے کہ اگلوں نے اُنھیں جھٹلا دیا تھا۔ ثمود کو ہم نے اونٹنی (اِسی طرح کی) ایک آنکھیں کھول دینے والی نشانی کے طور پر دی تھی، لیکن اُنھوں نے (اپنی جان پر) ظلم کیا اور اُس کی تکذیب کر دی۱۸۰؎۔ (پھر نشانیاں بھیجنے سے کیا حاصل)؟ ہم نشانیاں اِسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ (عذاب سے پہلے لوگوں کو) متنبہ کر دیں ۱۸۱؎۔ ۵۸-۵۹
تم یاد کرو، جب ہم نے (اِسی تنبیہ و تخویف کے لیے) تم سے کہا تھا کہ تمھارے پروردگار نے اِن لوگوں کو گھیرے میں لے لیا ہے۱۸۲؎ (تو اِنھوں نے مذاق اڑایا)۔ ہم نے جورؤیا تمھیں دکھایا، اُس کو بھی ہم نے (اِن کے اِسی رویے کی وجہ سے) اِن لوگوں کے لیے بس ایک فتنہ بنا کر رکھ دیا۱۸۳؎ اور اُس درخت کو بھی جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے۱۸۴؎۔ ہم تو اِنھیں تنبیہ کر رہے ہیں، لیکن یہ چیز اِن کی غایت سرکشی ہی میں اضافہ کیے جاتی ہے۱۸۵؎۔۶۰
(اِس کی وجہ اِس کے سوا کچھ نہیں کہ اِنھوں نے ابلیس کی راہ اختیار کر لی ہے)۔ اِنھیں یاد دلاؤ، جب ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو تو وہ سب سجدہ ریز ہو گئے، مگر ابلیس نہیں ہوا۔ اُس نے کہا: کیا میں اُس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے؟ اُس نے مزید کہا: دیکھ تو سہی،۱۸۶؎ یہی ہے جس کو تو نے مجھ پر عزت دی ہے؟ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں تھوڑے لوگوں کے سوا اُس کی تمام اولاد کو چٹ کر جاؤں گا۱۸۷؎۔ فرمایا:اچھا توجا، پھر اِن میں سے جو تیری پیروی کریں گے،(وہ سب جہنم کا ایندھن ہیں)، اِس لیے کہ جہنم ہی تم سب لوگوں کے لیے پورا پورا بدلہ ہے۔ اِن میں سے جس پر تیرا بس چلے تو اپنے غوغا سے اُنھیں گھبرا لے،۱۸۸؎ اُن پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا۱۸۹؎، اُن کے مال اور اولاد میں اُن کا ساجھی بن جا ۱۹۰؎اور اُن سے وعدے کر لے۔۱۹۱؎ حقیقت یہی ہے کہ شیطان جو وعدے اُن سے کرتا ہے، دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ میرے بندوں پر ہرگز تیرا کوئی زور نہ چلے گا اور کارسازی کے لیے، (اے پیغمبر)،تیرا پروردگار ہی کافی ہے۱۹۲؎۔ ۶۱-۶۵

۱۷۸؎ اِس سے مراد وہ بستیاں ہیں جو کسی قوم کی دولت اور اقتدار کی علامت بن جاتی ہیں، جیسے بابل، نینوا، روم، قرطبہ، بغداد، دہلی اور دور حاضر میں لندن اور واشنگٹن وغیرہ۔

۱۷۹؎ مطلب یہ ہے کہ بقاے دوام کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ فنا کا قانون جس طرح افراد کے لیے ہے، اُسی طرح قوموں اور بستیوں کے لیے بھی ہے۔ چنانچہ دولت اور اقتدار کی سرمستی ہر بستی کو لازماً اِس انجام تک پہنچادیتی ہے کہ یا تو وہ دوسری قوموں سے مغلوب ہو کر اپنی حیثیت کھو بیٹھتی اور بالآخر صفحہئ ہستی سے مٹ جاتی ہے یا اُس کی طرف رسول کی بعثت ہوتی ہے اور اتمام حجت کے بعد وہ خدا کے عذاب سے ہلاک ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بار ی باری ہر قوم کے ساتھ یہی معاملہ کر رہا ہے اور قیامت کے دن تک کرتا رہے گا۔ یہ خدا کی غیر متبدل سنت ہے اور نوشتۂ الہٰی میں لکھ دی گئی ہے۔ چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ پہلے حام اور سام کی اولاد اِس کے لیے منتخب کی گئی اور پچھلے پانچ سو سال سے اب یافت کی اولاد منتخب کی گئی ہے۔ یہ آخری اقوام ہیں جن پر تاریخ کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ قرآن کے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس کے بعد قیامت برپا ہو جائے گی۔

۱۸۰؎ اصل الفاظ ہیں:’فَظَلَمُوْا بِھَا‘۔ اِن میں ’ب‘کا صلہ دلیل ہے کہ ’ظَلَمُوْا‘یہاں ’کذبوا‘ کے مفہوم پر متضمن ہو گیا ہے۔ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔

۱۸۱؎ یعنی جب لوگ نہیں ڈرتے، بلکہ اور زیادہ سرکش ہو جاتے اور اُنھیں جھٹلا دیتے ہیں تو اُن کو بھیجنے سے کیا حاصل؟ اِس تجربے سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ تنبیہ و تخویف اِس طرح کے سرکشوں کو کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ یہ اگر قائل ہو سکتے ہیں تو اصل عذاب ہی سے قائل ہو سکتے ہیں۔

۱۸۲؎ یہ اُن آیات کی طرف اشارہ ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ سرزمین مکہ کو اب ہم اُس کے اطراف سے کم کرتے ہوئے اُس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ اُس انجام کی صریح پیشین گوئی اور اُس کے حوالے سے قریش کو تنبیہ تھی جس سے وہ فتح مکہ کے موقع پر دوچار ہوئے*۔

۱۸۳؎ یہ اشارہ واقعہئ اسراکی طرف ہے جس کا ذکر سورہ کی ابتدا میں ہوا ہے۔ اِس میں چونکہ قریش اور بنی اسرائیل، دونوں کے لیے یہ تنبیہ مضمر تھی کہ مسجد حرام کے ساتھ اب بیت المقدس کی امانت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کی جا رہی ہے، اِس لیے اِس کا بھی مذاق اڑایا گیاکہ لیجیے، اب یہ بیت المقدس پر بھی قبضہ کرنے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ استاذ امام کے الفاظ میں، جو چیز اُن کی تنبیہ و تخویف اور اُن کو اِن کے مستقبل سے آگاہ کرنے کے لیے تھی، وہ اُن کی شامت اعمال سے اُن کے لیے فتنہ بن کے رہ گئی۔

۱۸۴؎ اِس سے شجرۂ زقو.ّم مراد ہے جس میں نہ سایہ ہو گا نہ پھل،بلکہ کانٹوں کا ایک ڈھیر ہو گا جس کو دوزخی بھوک سے بے تاب ہو کر کھائیں گے تو اُن کے پیٹ میں وہ ایسی آگ لگا دے گا، جیسے اُن کے پیٹ میں پانی کھول رہا ہو۔ اِس درخت کی یہی صفت ہے جس کے لیے آیت میں ’مَلْعُوْنَۃ‘کا لفظ آیا ہے۔ یعنی اُس کو خدا نے پھول، پھل اور سایے کی برکتوں والا نہیں بنایا، بلکہ اِن سب چیزوں سے محروم کرکے اپنی لعنت کا ایک نشان بنا دیا ہے۔ قرآن نے لوگوں کی تنبیہ و تخویف کے لیے جب اِس کا ذکر کیا تو قریش کے لال بجھکڑوں نے اِس کو بھی استہزا کا موضوع بنا لیا اور کہا کہ ذرا اِس شخص کو دیکھو، ایک طرف کہتا ہے کہ دوزخ میں ایسی آگ ہو گی جو پتھروں کو جلا دے گی اور دوسری طرف اُسی زبان سے خبر دے رہا ہے کہ وہاں درخت بھی اگتے ہیں۔

۱۸۵؎ مطلب یہ ہے کہ اِن کا مسئلہ نشانی نہیں ہے کہ دکھا دی گئی تو ایمان لے آئیں گے۔ یہ جس مرض میں مبتلا ہیں، وہ ضد اور ہٹ دھرمی کا مرض ہے۔ اِن کی تنبیہ و تخویف کے لیے یہ سب باتیں ہم نے کی ہیں، مگر اِس سے کیا فائدہ ہوا؟ یہ تینوں مثالیں بتا رہی ہیں کہ اِس کے سوا کچھ نہیں ہوا کہ اِن کی سرکشی میں اضافہ ہو گیا اور ہماری اِن نشانیوں کے ساتھ اِنھوں نے بھی وہی کیا جو ثمود نے اونٹنی کے ساتھ کیا تھا۔

۱۸۶؎ اصل میں ’اَرَءَ یْتَکَ‘کا لفظ آیا ہے۔ یہ طنز و تحقیر کے موقع پر بھی آتا ہے۔ یہاں اِسی مفہوم میں ہے۔

۱۸۷؎ یعنی اپنے مقاصد کے لیے شکار کر لوں گا اور وہ صرف میرے ہو کر رہ جائیں گے۔

۱۸۸؎ یہ اُس شور و غوغا کی طرف اشارہ ہے جو شیطان کے اٹھائے ہوئے لیڈر، رہنما، دانش ور اور مذہبی پیشوا حق اور اہل حق کے خلاف ہمیشہ برپا کیے رہتے ہیں۔

۱۸۹؎ یعنی اپنے لشکروں کے ساتھ اُن پر حملہ آور ہو جا۔ یہ محض استعارہ نہیں ہے، بلکہ امر واقعی بھی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں بارہا ایسا ہوا ہے کہ شیطان کے پیرو لوگوں کو دین حق سے پھیرنے کے لیے اپنی فوجیں بھی چڑھا لائے ہیں۔

۱۹۰؎ یہ اُس وقت ہوتا ہے، جب شیطان لوگوں کو مشرکانہ اوہام میں مبتلا کرکے توہمات کے بت تراشتا اور لوگوں کو اُن کی پرستش کے آداب سکھاتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے مال میں سے اُن کا حصہ نکالتے، اُن کے آستانوں پر جا کر نذریں پیش کرتے، اپنی اولاد کے نام اُن کے نام پر رکھتے اور اُن کی رضا جوئی کے لیے بعض اوقات اپنی اولاد کو قربان تک کر دیتے ہیں۔

۱۹۱؎ یعنی جو وعدے کرنے ہیں، کر لے۔ یہ اُن غلط توقعات، جھوٹی امیدوں اور بے بنیاد وعدوں کی طرف اشارہ ہے جن کے سبز باغ شیطان دکھاتا ہے اور لوگوں کو اپنے جال میں پھانس لیتا ہے۔

۱۹۲؎ یہ اُن لوگوں کے لیے تسلی ہے جو شیطان کی ترغیبات کے مقابلے میں اپنے ایمان پر قائم رہنا چاہیں گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...یعنی اللہ کے جو بندے شیطان کے فتنوں کے علی الرغم اپنے ایمان پر قائم رہنا چاہیں گے اور اپنے آپ کو پورے اعتماد کے ساتھ اپنے رب کے حوالے کر دیں گے، خدا اُن کا کارساز ہے اور وہ کارسازی کے لیے کافی ہے۔ وہ سخت سے سخت حالات کے اندر بھی اپنے بندے کی حفاظت فرمائے گا اور اُس کے ایمان کو بچا لے گا۔“ (تدبرقرآن۴/ ۵۲۱)   

[باقی]

_____________

*ملاحظہ ہو: الرعد۱۳: ۴۱۔ الانبیاء۲۱: ۴۴۔

____________________

B