خیال وخامہ
o
یہ مرا سرود کیا ہے؟ تری یاد کا بہانہ
کبھی علم کی حکایت ، کبھی عشق کا فسانہ
وہ خیال میں بھی آئے تو ہجوم عاشقاں تھا
نہ ہوئی وہاں بھی اُن سے رہ و رسم محرمانہ
تری ہر ادا سلامت ، یہ ذرا سی بات کہہ دوں
کبھی چاہیے جنوں کو بھی خرد کا تازیانہ
ترے عہد نو کی دانش نئے بت تراش لائی
مرا لا الٰہ الّا وہی یکتا و یگانہ
یہ جہاں بھی کیا جہاں ہے ، اِسے جس نظر سے دیکھیں
وہی مہر و ماہ و انجم ، وہی گردش زمانہ
تو وطن کا پاسباں ہے ، مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے
ترے ہر نفس سے لرزاں مری شاخ آشیانہ
مرے ہر سفر کی غایت وہی سرزمین یثرب
وہ ادب گہ محبت ، وہ دلوں کا آستانہ
____________