HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الاعراف ۷: ۲۶- ۴۳ (۳)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ{۲۶} یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْطٰنُ کَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْکُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ یَنْزِعُ عَنْھُمَا لِبَاسَھُمَا لِیُرِیَھُمَا سَوْاٰتِھِمَا اِنَّہٗ یَرٰکُمْ ھُوَ وَقَبِیْلُہٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَھُمْ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآئَ لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ{۲۷}
وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْھَآ اٰبَآئَ نَا وَاللّٰہُ اَمَرَنَا بِھَا قُلْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ{۲۸} قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ وَاَقِیْمُوْا وُجُوْھَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کَمَا بَدَاَکُمْ تَعُوْدُوْنَ{۲۹} فَرِیْقًا ھَدٰی وَفَرِیْقًا حَقَّ عَلَیْھِمُ الضَّلٰلَۃُ اِنَّھُمُ اتَّخَذُوا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ مُّھْتَدُوْنَ{۳۰} یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ{۳۱} قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ ھِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃَ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ{۳۲} قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَالَا تَعْلَمُوْنَ{۳۳} وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ فَاِذَا جَآئَ اَجَلُھُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ{۳۴}
یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِیْ فَمَنِ اتَّقٰی وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ{۳۵} وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْھَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ{۳۶} فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ اُولٰٓئِکَ یَنَالُھُمْ نَصِیْبُھُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ حَتّٰٓی اِذَا جَآء َتْھُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَھُمْ قَالُوْٓا اَیْنَ مَاکُنْتُمْ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا وَشَھِدُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ اَنَّھُمْ کَانُوْا کٰفِرِیْنَ{۳۷} قَالَ ادْخُلُوْا فِیْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِی النَّارِکُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّۃٌ لَّعَنَتْ اُخْتَھَا حَتّٰٓی اِذَا ادَّارَکُوْا فِیْھَا جَمِیْعًا قَالَتْ اُخْرٰھُمْ لِاُوْلٰھُمْ رَبَّنَا ھٰٓؤُلَآئِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِھِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ{۳۸} وَ قَالَتْ اُوْلٰھُمْ لِاُخْرٰھُمْ فَمَا کَانَ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْسِبُوْنَ{۳۹}
اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْھَا لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَآئِ وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ{۴۰} لَھُمْ مِّنْ جَھَنَّمَ مِھَادٌ وَّ مِنْ فَوْقِھِمْ غَوَاشٍ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ{۴۱} وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ{۴۲} وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمُ الْاَنْھٰرُ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدٰنَا لِھٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْلَآ اَنْ ھَدٰنَا اللّٰہُ لَقَدْ جَآئَ تْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ وَنُوْدُوْٓا اَنْ تِلْکُمُ الْجَنَُّۃ اُوْرِثْتُمُوْھَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ{۴۳}
آدم کے بیٹو،۳۱۹؎ ہم نے تم پر لباس نازل کیا ۳۲۰؎جو تمھاری شرم گاہوں کو ڈھانکنے والا بھی ہے اور (تمھارے لیے) زینت بھی،۳۲۱؎ اور تقویٰ کا لباس ، وہ اِس سے بڑھ کر ہے۳۲۲؎۔ وہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے تاکہ لوگ یاددہانی حاصل کریں۳۲۳؎۔ آدم کے بیٹو، ایسا نہ ہو کہ شیطان تمھیں اُسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے، جس طرح اُس نے تمھارے ماں باپ کو اُس باغ سے نکلوا دیا، (جس میں خدا نے اُنھیں ٹھیرایا تھا) ، اُن کا یہی لباس اتروا کر کہ اُن کی شرم گاہیں اُن پر کھول دے۳۲۴؎۔ (یاد رکھو)، وہ اور اُس کے ساتھی تم کو وہاں سے دیکھتے ہیں، جہاں سے تم اُنھیں نہیں دیکھ سکتے۳۲۵؎۔ اِن شیطانوں کو ہم نے اُن لوگوں کا رفیق بنا دیا ہے جو ایمان نہیں رکھتے۳۲۶؎۔۲۶-۲۷
(تمھاری قوم کے لوگوں کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے، اے پیغمبر ۔ چنانچہ) یہ جب کسی بے حیائی ۳۲۷؎کا ارتکاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم نے اپنے باپ دادا کو اِسی طریقے پر پایا ہے اور خدا نے ہمیں اِسی کا حکم دیا ہے۔ (اِن سے) کہو، اللہ کبھی بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۳۲۸؎۔ کیا تم اللہ پر افترا کرکے ایسی باتیں کہتے ہو جنھیں تم نہیںجانتے؟ (اِن سے) کہو، میرے پروردگار نے (ہر معاملے میں) راستی ۳۲۹؎کا حکم دیا ہے۔ (اُس نے فرمایا ہے کہ ) ہر مسجد کے پاس اپنا رخ اُسی کی طرف کرو ۳۳۰؎اور اطاعت کو اُس کے لیے خالص رکھ کر اُسی کو پکارو۔ تم (اُس کی طرف) اُسی طرح لوٹو گے، جس طرح اُس نے تمھاری ابتدا کی تھی۔۳۳۱؎ ایک گروہ کو اُس نے ہدایت بخشی، (وہ اِن سب باتوں کو مانتا ہے) اور ایک گروہ پر گمراہی مسلط ہو گئی، (اِس لیے کہ) اُنھوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو اپنا رفیق بنا لیا اور سمجھتے ہیں کہ راہ ہدایت پر ہیں۳۳۲؎۔ آدم کے بیٹو، ہر مسجد کی حاضری کے وقت اپنی زینت کے ساتھ آئو،۳۳۳؎ اور کھائو پیو، مگر حد سے آگے نہ بڑھو۳۳۴؎۔اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۳۳۵؎۔ (اِن سے ) پوچھو، (اے پیغمبر)، اللہ کی اُس زینت کو کس نے حرام کر دیا جو اُس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی تھی اور کھانے کی پاکیزہ چیزوں کو کس نے ممنوع ٹھیرایا ہے۳۳۶؎؟ (اِن سے) کہو،وہ دنیا کی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہیں، (لیکن خدانے منکروں کو بھی اُن میں شریک کر دیا ہے) اور قیامت کے دن تو خاص اُنھی کے لیے ہوں گی، (منکروں کا اُن میں کوئی حصہ نہ ہو گا۳۳۷؎) ۔ہم اپنی آیتوں کی اِسی طرح تفصیل کرتے ہیں، اُن کے لیے جو جاننا چاہیں۔ کہہ دو، میرے پروردگار نے تو صرف فواحش کو حرام کیا ہے، خواہ وہ کھلے ہوں یا چھپے۳۳۸؎ اور حق تلفی اور ناحق زیادتی ۳۳۹؎کو حرام کیا ہے اور اِس کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرائو، جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی ۳۴۰؎اوراِس کو کہ تم اللہ پر افترا کرکے کوئی ایسی بات کہو جسے تم نہیں جانتے۳۴۱؎۔ (اِن سب حرمتوں کے معاملے میں تمھاری سرکشی کے باوجود وہ تمھیں نہیں پکڑتا تو اِس کی وجہ یہ ہے کہ) ہر قوم کے لیے ایک مدت مقرر ہے، پھر جب اُن کی مدت پوری ہو جاتی ہے تو نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکتے ہیں، نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۳۴۲؎۔۲۸-۳۴
آدم کے بیٹو، (میں نے پہلے دن تمھیں بتا دیا تھا کہ) اگر تمھارے پاس خود تمھارے اندر سے پیغمبر آئیں، تم کو میری آیتیں سناتے ہوئے تو جو خدا سے ڈرے اور اُنھوں نے اپنی اصلاح کر لی تو اُن کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ کبھی غم زدہ ہوں گے۔۳۴۳؎ (اِس کے برخلاف) جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور تکبر کرکے اُن سے منہ موڑ لیا،۳۴۴؎ وہی دوزخ کے لوگ ہیں، وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔ سو اُن سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھیںیا اُس کی آیتوں کو جھٹلادیں۔ (اُن کے) نوشتے میں جو کچھ اُن کے لیے (دنیا کی زندگی میں لکھ دیا گیا )ہے، اُس کا حصہ اُنھیں پہنچے گا۔ یہاں تک کہ جب ہمارے فرشتے اُن کی روحیں قبض کرنے کے لیے اُن کے پاس آئیں گے تو پوچھیں گے کہ اللہ کے سوا جن کو تم پکارتے تھے، وہ کہاں ہیں۳۴۵؎؟ وہ کہیں گے کہ وہ سب تو ہم سے کھوئے گئے اور اپنے خلاف خود گواہی دیں گے کہ وہ فی الواقع منکر تھے۔ اللہ فرمائے گا: جنوں اور انسانوں میں سے جو گروہ تم سے پہلے گزرے ہیں، اُن کے ساتھ تم بھی دوزخ میں داخل ہو جائو۳۴۶؎۔(اِن میں سے) ہر گروہ جب داخل ہو گا تو اپنے ساتھی گروہ پر لعنت کرے گا، یہاں تک کہ جب سب وہاں اکٹھے ہو جائیں گے تو اُن کے پچھلے اگلوں کے بارے میں کہیں گے:۳۴۷؎پروردگار، یہی لوگ ہیں جنھوں نے ہمیں گمراہ کیا ، اِس لیے اِنھیں آگ کا دہرا عذاب دے۔ ارشاد ہو گا: تم سب کے لیے دہرا (عذاب) ہے، مگر تم جانتے نہیں ہو۳۴۸؎۔ (اِس پر) اگلے پچھلوں سے کہیں گے: (ہم مجرم ہیں) تو تمھیں بھی ہم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوئی،۳۴۹؎ سو چکھو اپنے کیے کی پاداش میں عذاب کا مزہ۔۳۵-۳۹
یہ قطعی ہے کہ جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور تکبر کرکے اُن سے منہ موڑا ہے۳۵۰؎، اُن کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۳۵۱؎ اور وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے، جب تک اونٹ سوئی کے ناکے سے نہ گزر جائے۳۵۲؎۔ ہم مجرموں کو اِسی طرح سزا دیتے ہیں۔اُن کے لیے دوزخ کا بچھونا اور اوپر سے اُسی کا اوڑھنا ہو گا۔ ہم ظالموں کو اِسی طرح سزا دیتے ہیں۔ (اِس کے برخلاف) جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے اچھے کام کیے ہیں ـــ اور ہم(اِس باب میں) کسی جان پر اُس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے ۳۵۳؎ـــــ وہی جنت کے لوگ ہیں، وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اُن کے دلوں کی ہر رنجش ہم نکال دیں گے۳۵۴؎۔ اُن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی اور وہ کہیں گے: اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں اِس راستے کی ہدایت بخشی ، اور اگر اللہ ہدایت نہ بخشتا تو ہم یہ راستہ خود نہیں پا سکتے تھے۳۵۵؎۔ہمارے پروردگار کے بھیجے ہوئے رسول بالکل سچی بات لے کر آئے تھے۔( اُس وقت) ندا آئے گی کہ یہی وہ جنت ہے جس کے تم اپنے اعمال کے صلے میں وارث بنائے گئے ہو۳۵۶؎۔۴۰-۴۳

۳۱۹؎ خطاب اگرچہ قریش سے ہے، لیکن اُس کے لیے یہ اسلوب، اگر غور کیجیے تو نہایت بلیغ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔باپ کی زندگی کے حوادث و تجربات اولاد کے لیے سب سے زیادہ سبق آموز ہوتے ہیں۔ اُس کی سرگذشت کسی دوسرے کی کہانی نہیں، بلکہ اپنی ہی حکایت ہوتی ہے۔ باپ کے دوستوں سے دوستی، اُس کے دشمنوں سے دشمنی باوفا اولاد خاندان کی ناقابل فراموش روایت کی طرح محفوظ رکھتی ہے۔ اخلاف اُس کو یاد رکھتے ہیں اور اپنے بعد والوں کی طرف اُس کو منتقل کرتے اور برابر منتقل کرتے رہنے کی وصیت کرتے ہیں۔ اہل عرب میں تو یہ روایت اتنی محبوب رہی ہے کہ اُس میں حق و باطل کا امتیاز بھی باقی نہیں رہا تھا۔ باپ دادا کا دشمن بہرحال پشت ہا پشت دشمن ہی سمجھا جاتا، اگرچہ اُس کی دشمنی برحق ہی کیوں نہ رہی ہو۔ پھر کس قدر حیف کی بات ہے کہ آدم کی اولاد اپنے باپ کے ساتھ شیطان اور اُس کی ذریت کی اِس دشمنی کو بھول جائے جو سراسرکینہ اور حسد پر مبنی تھی، جو مخفی نہیں ، بلکہ بالکل علانیہ تھی اور جو صرف مخصوص آدم و حوا کے ساتھ ہی نہیں، بلکہ قیامت تک کے لیے اُن کی تمام ذریت کے ساتھ تھی۔ پھر معاملہ صرف بھول جانے ہی پر ختم نہیں ہو جاتا، بلکہ اولاد کی ناخلفی، ناہنجاری اور نابکاری اِس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ کتنے ہیں جو اُس دشمن اور اُس کے ساتھیوں ہی کو اپنا دوست، خیرخواہ اور معتمد بنائے بیٹھے ہیں اور اُس کے کہے پر ٹھیک ٹھیک اپنے لیے اُنھی تباہیوں کے گڑھے کھود رہے ہیں جن میں اُس نے آدم کو گرانا چاہا تھا اور وہ اُس میں گر چکے تھے، اگر اللہ کی رحمت نے اُن کو بچایا نہ ہوتا ــــــقرآن کی بلاغت بیان کے قربان جائیے کہ صرف ’یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ‘ کے خطاب کے دولفظوں کے اندر اُس نے یہ سارے مضمرات محفوظ کر دیے ہیں۔ آدم علیہ السلام کا جو غیور و باوفا بیٹا اِس خطاب کے ساتھ قرآن کی اِن یاددہانیوں کو سنتا ہے، اُس کی رگ رگ شیطان کے خلاف جوش حمیت و غیرت سے پھڑک اٹھتی ہے۔ صرف بے غیرت اور ناخلف ہی ہیں جو اِس خطاب کے بعد بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۲۴۵)   

۳۲۰؎ زمین کی ہر چیز خدا کے حکم سے پیدا ہوئی ہے، اِس لیے درحقیقت اُس کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ چنانچہ لوہے کے بارے میں بھی فرمایا ہے کہ ’اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ*‘۔

۳۲۱؎ پہلی چیز ضرورت ہے اور دوسری اتمام نعمت۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے جو چیزیں بھی بنائی ہیں، اُن میں بالعموم یہ دونوں پہلو ملحوظ ہیں۔ چنانچہ لباس سترپوش بھی ہوتا ہے ، سردی اور گرمی سے ہماری حفاظت بھی کرتا ہے اور ہمارے لیے ذریعۂ تزیین بھی ہے۔ ہم اِس سے اپنی شخصیت، اپنے حسن و وقار اور اپنی شان میں اضافہ کرتے ہیں۔

۳۲۲؎ مطلب یہ ہے کہ خدا نے جس طرح انسان کے لیے وہ چیزیں پید اکی ہیں جن سے اُس کا ظاہری لباس تیار ہوتا ہے، اُسی طرح وہ چیزیں بھی اُس کے نفس میں الہام کر دی ہیں جن سے اُس کا باطنی لباس تیار ہوتا ہے۔ یہ تقویٰ کا لباس ہے جو انسان کو پہنا کر دنیا میں بھیجا جاتا ہے۔ خدا نے اِس کے لیے اپنی خشیت، احساس عبدیت اور شرم و حیا کا جذبہ انسان کی فطرت میں ودیعت فرمایا ہے۔ یہ اِنھی اجزا سے بنتا ہے اور ظاہری لباس سے کہیں بڑھ کر ہے، بلکہ ظاہری لباس بھی اِسی باطن کی تحریک سے پیدا ہوتا ہے تو انسانوں کو انسانیت کا حسن عطا کرتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔جس کے قامت پر اللہ اپنی عنایت کی یہ ردا ڈال دیتا ہے، دیکھنے کے قابل وقار و جمال اُسی کا ہوتا ہے، یہ انسانوں کے لباس میں مقدس فرشتہ ہوتا ہے۔ جو بھی اُس کو دیکھتا ہے، بے تحاشا ’مَا ھٰذَا بَشَرًا، اِنْ ھٰذَا اِلاَّ مَلَکٌ کَرِیْمٌ‘پکار اٹھتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۲۴۵)

۳۲۳؎ یعنی اِس بات کی یاددہانی حاصل کریں کہ انسان کے ظاہری لباس کو بھی اِسی کے مطابق ہونا چاہیے۔ خدا کی آیتیں آفاق میں بھی ہیں اور انفس میں بھی۔ یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اُن سے رہنمائی حاصل کرے۔ قرآن کی آیتیں اُس کو جگہ جگہ اِنھی آیتوں کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔

۳۲۴؎ پیچھے جس لباس تقویٰ کا ذکر ہے، یہ اُسی کی طرف اشارہ ہے۔ شیطان چاہتا تھا کہ آدم و حوا کی شرم گاہوں کا وہ پہلو اُن پر کھول دے جو اُن سے چھپایا گیا تھا۔ اُس نے اپنا یہ مقصد اُن کا یہی لباس اتروا کر حاصل کیا۔ چنانچہ تنبیہ فرمائی ہے کہ اپنے آپ کو بچا کر رکھو، وہ یہ کام آج بھی اِسی طریقے سے کرتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔وہ اپنی وسوسہ اندازیوں سے پہلے لوگوں کو اُس لباس تقویٰ و خشیت سے محروم کرتا ہے جو اللہ نے بنی آدم کے لیے اِس ظاہری لباس کے ساتھ ایک تشریف باطنی کی حیثیت سے اتارا ہے اور جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ جب یہ باطنی جامہ اتر جاتا ہے تو وہ حیا ختم ہو جاتی ہے جو اِس ظاہری لباس کی اصل محرک ہے۔ پھر یہ ظاہری لباس ایک بوجھ معلوم ہونے لگتا ہے۔ بے حیائی صنفی اعضا میں ، جن کا چھپانا تقاضا ے فطرت ہے، عریاں ہونے کے لیے تڑپ پیدا کرتی ہے، پھر فیشن اُس کو سہارا دیتا ہے اور وہ لباس کی تراش خراش میں نت نئی اختراعات سے ایسے ایسے اسلوب پیدا کرتا ہے کہ آدم کے بیٹے اور حوا کی بیٹیاں کپڑے پہن کر بھی لباس کے بنیادی مقصد، یعنی سترپوشی کے اعتبار سے گویا ننگے ہی رہتے ہیں۔ پھر لباس میں صرف زینت اور آرایش کا پہلو باقی رہ جاتا ہے اور اُس میں بھی اصل مدعا یہ ہوتا ہے کہ بے حیائی زیادہ سے زیادہ دل کش زاویے سے نمایاں ہوں۔ پھر آہستہ آہستہ عقل اِس طرح مائوف ہو جاتی ہے کہ عریانی تہذیب کا نام پاتی ہے اور ساتر لباس وحشت و دقیانوسیت کا۔ پھر پڑھے لکھے شیاطین اٹھتے ہیں اور تاریخ کی روشنی میں یہ فلسفہ پیدا کرتے ہیں کہ انسان کی اصل فطرت تو عریانی ہی ہے۔ لباس تو اُس نے رسوم و رواج کی پابندیوں کے تحت اختیار کیا ہے۔ یہ مرحلہ ہے جب دیدوں کا پانی مر جاتا ہے اور پورا تمدن شہوانیت کے زہر سے مسموم ہو جاتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۲۴۶)

۳۲۵؎ مطلب یہ ہے کہ اُن راستوں سے حملہ آور ہوتے ہیں، جہاں سے تم سوچ نہیں سکتے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہ شیطان اور اُس کے جتھے کی چالاکی، کیادی اور فتنہ سامانی کی طرف اشارہ ہے کہ اُن کے حملے کے راستے اور اُن کے ظہور کے بھیس اتنے بے شمار ہیں کہ تم اُن سارے راستوں پر نہ پہرا بٹھا سکتے، نہ ہر بھیس میں اُن کو پہچان ہی سکتے ۔ اُس کے لشکر میں جن بھی ہیں اور انسان بھی۔ وہ وہاں سے گھات لگائیں گے، جہاں سے تم دیکھ نہیں سکو گے اور تمھارے لیے وہ بہروپ بھریں گے کہ تم پہچان نہ سکو گے۔ تم اُنھیں دوست، ناصح، خیرسگال، مرشد، لیڈر اور نہ جانے کیا کیا سمجھو گے اور وہ تمھارے دین و ایمان کی جڑیں کاٹ کر رکھ دیں گے۔ تم گمان کرو گے کہ وہ تمھارے لیے تہذیب و ترقی کی راہیں کھول رہے ہیں، لیکن وہ تم کو وہاں لے جا کر ماریں گے، جہاں پانی بھی نہ پائو گے۔ اُن کو تمھارے باطن کی ساری کمزور رگیں معلوم ہوں گی اور وہ اپنی اندرونی وسوسہ اندازیوں سے بھی تم کو شکار کرنے کی کوشش کریں گے اور اپنی ظاہری عشوہ گریوں سے بھی تم پر اپنے جال پھینکیں گے ــــ مطلب یہ ہے کہ اِس دشمن کو معمولی دشمن نہ سمجھنا، ہر وقت اِس سے چوکنے رہنا۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۲۴۷)

۳۲۶؎ یعنی شیطان کے یہ داؤں اُنھی پر چلتے ہیں جو خدا اور اُس کی ہدایت پر ایمان سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ وہی بات ہے جو سورئہ زخرف (۴۳) کی آیت ۳۶ میں اِس طرح بیان ہوئی ہے کہ جو رحمن کی یاد سے بے پروا ہو جاتے ہیں، اُن پر ہم ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں، پھر وہی اُن کا رفیق بن جاتا ہے۔ اِس سے آپ سے آپ واضح ہوا کہ خدا کے جو بندے ایمان و ہدایت پر مضبوطی سے جمے رہتے ہیں، اُن پر شیطان کا کوئی دائوں نہیں چلتا۔ اُن کا پروردگار اُنھیں اُس سے اور اُس کے ساتھیوں کے حملوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا ہے:’اِنَّہٗ لَیْسَ لَہٗ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ**‘۔

۳۲۷؎ اصل میں لفظ ’فَاحِشَۃ‘ استعمال ہوا ہے۔ آگے کی آیات سے واضح ہو جاتا ہے کہ اِس سے بے حیائی کے اُن کاموں کی طرف اشارہ کیا ہے جو مذہب کے نام پر کیے جاتے تھے۔ اِس طرح کی چیزیں مشرکین کے معبدوں اور صوفیانہ مذاہب کی درگاہوں اور عبادت گاہوں میں عام رہی ہیں۔ یہ پروہتوں، پجاریوں اور مجاوروں کی شیطنت سے وجود میں آتی تھیں۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب جاہلی میں بھی اِسی نوعیت کی ایک بدعت بیت اللہ کے برہنہ طواف کی رائج تھی۔ لوگ اِسے مذہبی فعل سمجھ کر کرتے تھے اور اُن کا خیال تھا کہ اُنھیں خدا نے اِس کا حکم دیا ہے۔ قریش بیت اللہ کے پروہت تھے اور اُنھوں نے فتویٰ دے رکھا تھا کہ اُن سے باہر کے عرب اپنے کپڑوں میں کعبے کا طواف نہیں کر سکتے۔ اُن کے لیے ضروری ہے کہ یا قریش میں سے کسی سے اِس کام کے لیے کپڑے مستعار لیں یا ننگے طواف کریں۔ گویا دوسروں کے کپڑے ایسی آلایش ہیں جن کے ساتھ یہ غیر معمولی عبادت نہیں ہو سکتی۔

۳۲۸؎ اِس لیے کہ جس چیز کو کوئی سلیم الفطرت انسان گوارا نہیں کر سکتا، اُسے خداوند قدوس کس طرح گوارا کر سکتا ہے، کجا یہ کہ وہ اُس کا حکم دے۔ اُس کے تمام احکام اُس کی صفات اور انسان کی فطرت کے تقاضوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ وہ کسی بے ہودگی کا حکم نہیں دے سکتا۔

۳۲۹؎ اصل میں لفظ ’قِسْط‘ آیا ہے، یعنی ٹھیک انصاف کی بات۔ یہ ظاہر ہے کہ وہی بات ہو سکتی ہے جو خدا کی صفات اور انسان کی فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہو، جس میں کوئی افراط و تفریط نہ ہو اور جو اُن مقاصد کو پورا کر دے جن کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پوری شریعت اِسی قسط پر مبنی ہے۔ وہ خود قائم بالقسط ہے اور اپنی کتابوں کے بارے میں بھی اُس کا ارشاد ہے کہ وہ اِس لیے نازل کی گئی ہیں کہ اُن کے ذریعے سے لوگ دین کے معاملے میں ٹھیک انصاف پر قائم ہو جائیں۔ چنانچہ آگے کے تمام احکام اِسی پر مبنی کرکے بیان فرمائے ہیں۔

۳۳۰؎ اصل الفاظ ہیں: ’وَاَقِیْمُوْا وُجُوْھَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ‘۔ اِن کے بعد ’الی اللّٰہ وحدہ‘ یا اِن کے ہم معنی الفاظ حذف کر دیے گئے ہیں۔ اگلے جملے میں ’مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ‘کے الفاظ اِسی کے مقابل میں آئے ہیں۔ اوپر جس قسط کا ذکر ہے، یہ اُس کا اولین تقاضا بیان ہوا ہے کہ ہر مسجد اللہ کی عبادت کے لیے خاص رہنی چاہیے اور بندئہ مومن کو بھی اپنا رخ ہر مسجد میں صرف اللہ وحدہ لاشریک کی طرف رکھنا چاہیے۔ استاذ امام کے الفاظ میں ، جب خالق و مالک خدا ہے تو یہ قسط کے خلاف ہے کہ عبادت کی پیشانی کسی اور کے سجدے سے آلودہ ہو۔

۳۳۱؎ یہ توحید کے مضمون کی توثیق مزید ہے۔ یعنی جس طرح تنہا آئے تھے، اُسی طرح تنہا خدا کی طرف لوٹو گے۔ جن کو تم شریکوں اور سفارشیوں کی حیثیت دیے بیٹھے ہو، اُن میں سے کوئی بھی تمھارے ساتھ نہیں ہوگا۔ آیت میں اِس کے لیے ’کَمَا بَدَاَکُمْ تَعُوْدُوْنَ‘کے الفاظ ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔قرآن کی اِس بلاغت کے قربان جائیے کہ کل دو لفظ ہیں اور دو لفظوں میں اُس نے آخرت اور توحید، دونوں کا تعلق بھی واضح کر دیا اور آخرت کی ایک نہایت واضح دلیل بھی بیان فرما دی۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۲۵۰)

۳۳۲؎ اِس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ ’اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآئَ‘ سے اوپر کا مضمون کس طرح پیدا ہوا تھا اور یہ بھی کہ اللہ شیاطین کو اُنھی کا رفیق بناتا ہے جو اللہ کو چھوڑ کر خود شیاطین کی رفاقت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔

۳۳۳؎ یعنی مسجد حرام ہو یا کوئی دوسری مسجد، اُس میں اپنا لباس پہن کر آؤ۔ لباس میں سادگی اور درویشی احرام کے آداب میں سے ہے اور جتنی مطلوب ہے،حج و عمرہ میں اختیار کر لی گئی ہے۔ خدا کے دین میں اِس کے سوا ہر موقع کے لیے یہی حکم ہے کہ معمول میں جو لباس پہنتے ہو، اُسے پہن کر عبادت کے لیے آئو۔ ایسی کوئی مسجد نہیں ہے جس کی حاضری کے لیے یہ شرط ہو کہ لوگ کپڑے اتار کر حاضر ہوں۔

۳۳۴؎ مطلب یہ ہے کہ پہننا ہو یا کھانا پینا، اِن میں سے کوئی چیز بھی ممنوع نہیں ہے۔ خدا کی شریعت میں ممنوع صرف اسراف ہے، اُس سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اللہ تعالیٰ ’قَائِمٌ بِالْقِسْطِ‘ ہے۔ اِس وجہ سے وہ ’مُقْسِطِیْن‘، یعنی عدل وا عتدال پر قائم رہنے والوں کو پسند کرتا ہے، ’مُسْرِفِیْن‘،یعنی عدل و اعتدال سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ یہ بے اعتدالی افراط کی نوعیت کی بھی ہو سکتی ہے، تفریط کی نوعیت کی بھی، اور یہ دونوں ہی باتیں خدا کی پسند کے خلاف ہیں۔ نہ وہ یہ پسند کرتا ہے کہ آدمی کھانے پینے پہننے ہی کو مقصود بنا لے اور رات دن اِسی کی سرگرمیوں میں مشغول رہے اور نہ وہ یہ پسند کرتا ہے کہ اِن چیزوں کو راہبوں اور جوگیوں کی طرح تیاگ دے۔ تبذیر اورتفریط، دونوں ہی شیطان کی نکالی ہوئی راہیں ہیں۔ خدا زندگی کے ہر پہلو میں عدل و اعتدال کو پسند فرماتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۲۵۱)

۳۳۵؎ یہ الفاظ معمولی نہیں ہیں، اِس لیے کہ خدا جس کو پسند نہیں کرتا، لازماً اُسے مبغوض رکھتا ہے۔

۳۳۶؎ زینت کا لفظ عربی زبان میں اُن چیزوں کے لیے آتا ہے جن سے انسان اپنی حس جمالیات کی تسکین کے لیے کسی چیز کو سجاتا بناتا ہے۔ چنانچہ لباس، زیورات وغیرہ بدن کی زینت ہیں؛ پردے، صوفے، قالین، غالیچے، تماثیل، تصویریں اور دوسرا فرنیچر گھروں کی زینت ہے؛باغات، عمارتیں اور اِس نوعیت کی دوسری چیزیں شہروں کی زینت ہیں؛ غنا اور موسیقی آواز کی زینت ہے؛ شاعری کلام کی زینت ہے۔ دین کی صوفیانہ تعبیر اور صوفیانہ مذاہب تو اِن سب چیزوں کو مایا کا جال سمجھتے اور بالعموم حرام یا مکروہ یاقابل ترک اور ارتقاے روحانی میں سد راہ قرار دیتے ہیں، مگر قرآن کا نقطۂ نظر یہ نہیں ہے۔ اُس نے اِس آیت میںنہایت سخت تنبیہ اور تہدید کے انداز میں پوچھا ہے کہ کون ہے جو رزق کے طیبات اور زینت کی اُن چیزوں کو حرام قرار دینے کی جسارت کرتا ہے جو خدا نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں؟ یہ آخری الفاظ بطور دلیل ہیں کہ خدا کا کوئی کام عبث نہیں ہوتا۔ اُس نے یہ چیزیں پیدا کی ہیں تو اِسی لیے پیدا کی ہیں کہ حدودالٰہی کے اندر رہ کر اُس کے بندے اِنھیں استعمال کریں۔ اِن کا وجود ہی اِس بات کی شہادت ہے کہ اِن کے استعمال پر کوئی ناروا پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔ 

۳۳۷؎ اِن فقروں میں مقابل کے الفاظ عربیت کے اسلوب پر حذف کر دیے گئے ہیں۔ ہم نے ترجمے میں اِنھیں کھول دیا ہے۔ اِس سے مزید وضاحت ہو گئی ہے کہ اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا نہ ایمان کے منافی ہے ، نہ دین داری کے ، نہ تقویٰ کے۔ اللہ نے تو یہ چیزیں پیدا ہی اہل ایمان کے لیے کی ہیں، لہٰذا اصلاً اُنھی کا حق ہیں۔ اُس کے منکروں کو تو یہ اُن کے طفیل اور اُس مہلت کی وجہ سے ملتی ہیں جو دنیا کی آزمایش کے لیے اُنھیں دی گئی ہے۔ چنانچہ آخرت میں یہ تمام تر اہل ایمان کے لیے خاص ہوں گی، منکروں کے لیے اِن میں کوئی حصہ نہیں ہو گا، وہ ہمیشہ کے لیے اِن سے محروم کر دیے جائیں گے۔

قرآن کا یہ اعلان ، اگر غور کیجیے تو ایک حیرت انگیز اعلان ہے۔ عام مذہبی تصورات اور صوفیانہ مذاہب کی تعلیمات کے برخلاف قرآن دینی زندگی کا ایک بالکل ہی دوسرا تصور پیش کرتا ہے۔ تقرب الٰہی اور وصول الی اللہ کے لیے دنیا کی زینتوں سے دست برداری کی تلقین کے بجاے وہ ایمان والوں کو ترغیب دیتا ہے کہ اسراف و تبذیر سے بچ کر اور حدود الٰہی کے اندر رہ کر زینت کی سب چیزیں وہ بغیر کسی تردد کے استعمال کریں اور خدا کی اِن نعمتوں پر اُس کا شکر بجا لائیں۔

۳۳۸؎ یعنی بدکاری علانیہ کی جائے یا چھپ کر، ہر حال میں حرام ہے۔ اِس کے لیے جمع کا لفظ اِس لیے استعمال فرمایا ہے کہ یہ زنا، لواطت، وطی بہائم اور اِس نوعیت کے تمام جرائم کو شامل ہو جائے۔ جنسی اعضا دوسروں کے سامنے کھولے جائیں، جنسی معاملات کا افشا کیا جائے یا بدکاری کا ارتکاب ہو، لفظ ’فَوَاحِش‘،اِن سب کا احاطہ کرتا ہے۔

۳۳۹؎ زیادتی کے ساتھ ناحق کا اضافہ اُس کے گھنونے پن کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کوئی زیادتی برحق بھی ہوتی ہے۔ ہر زیادتی بجاے خود ناحق ہے۔ چنانچہ انبیا علیہم السلام کے قتل کے جرم کے ساتھ بھی یہ لفظ اِسی طرح استعمال ہوا ہے۔

۳۴۰؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ شرک کے حق میں کوئی عقلی یا نقلی یا فطری دلیل نہ کبھی پیش کی جا سکی ہے اور نہ پیش کی جا سکتی ہے۔

۳۴۱؎ اصل الفاظ ہیں:’اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَالَا تَعْلَمُوْنَ‘۔’تَقُوْلُوْا‘ کے بعد ’عَلٰی‘ کا صلہ بتا رہا ہے کہ یہاں تضمین ہے، یعنی ’مفترین علی اللّٰہ‘۔اپنی طرف سے حلال و حرام کے فتوے دیے جائیں یا اپنی خواہشات کی پیروی میں بدعتیں ایجاد کی جائیں یا اپنی طرف سے شریعت تصنیف کی جائے اور اُسے خدا سے منسوب کر دیا جائے تو یہ سب چیزیں اِسی کے تحت ہوں گی۔

زینتوں کے بارے میں اوپر جو حکم بیان ہوا ہے، اُس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا کی شریعت میں حرام پھر کیا ہے؟ آیۂ زیر بحث میں قرآن نے اِس سوال کا جواب دیا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ اللہ نے صرف پانچ چیزیں حرام قرار دی ہیں: ایک فواحش، دوسرے حق تلفی، تیسرے ناحق زیادتی، چوتھے شرک اور پانچویں بدعت۔

خدا کی شریعت میں یہی پانچ چیزیں حرام ہیں۔ اِن کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں ہے۔ حلال و حرام کے معاملے میں یہ خدا کا اعلان ہے، لہٰذا کسی کو بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اِن کے علاوہ کسی چیز کو حرام ٹھیرائے۔ چنانچہ اب اگر کوئی چیز حرام ہو گی تو اُسی وقت ہو گی، جب اِن میں سے کوئی چیز اُس میں پائی جائے گی۔ روایتیں، آثار، حدیثیں اور پچھلے صحیفوں کے بیانات، سب قرآن کے اِسی ارشاد کی روشنی میں سمجھے جائیں گے۔ اِس سے ہٹ کر یا اِس کے خلاف کوئی چیز بھی قابل قبول نہ ہو گی۔

۳۴۲؎ اِس سے معلوم ہوا کہ جس طرح افراد کے لیے اجل ہے، اُسی طرح قوموں کے لیے بھی اجل ہے۔ یہ اجل علم و اخلاق میں اُن کے اضمحلال کی رعایت سے مقرر کی جاتی ہے۔ رسولوں کے ذریعے سے اتمام حجت ہو جائے تو اللہ اُن پر اپنا عذاب نازل کر دیتے ہیں اور نہ ہو تو علم و اخلاق میں زوال کی آخری حد کو پہنچ جانے کے بعد اُسی طرح ہلاک ہو جاتی ہیں، جس طرح افراد مرتے ہیں۔ سورئہ بنی اسرائیل (۱۷) کی آیت ۵۸ میں اِسی بنا پر فرمایا ہے کہ کوئی قوم ایسی نہیں جسے ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کر یں یا سخت عذاب نہ دیں۔ یہ نوشتۂ الٰہی میں لکھا ہوا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پہلے حام اور سام کی اولاد اِس قانون کی زد میں آئی اور اب یافث کی اولاد معرض امتحان میں ہے۔ یہ آخری اقوام ہیں جن پر تاریخ کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ اِس کے بعد قیامت برپا ہو جائے گی۔ یہاں مخاطب قریش ہیں۔ اُن کے لیے یہ فیصلہ اُس وقت صادر ہوا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد سورئہ توبہ (۹) میں اُن کے استیصال کا حکم دے دیا گیا۔

۳۴۳؎ یہ اُس وعدے کی یاددہانی ہے جس کا ذکر سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۳۸ میں ہوا ہے۔ یہاں مخاطب چونکہ قریش ہیں، اِس لیے مدعا یہ ہے کہ اُسی وعدے کے مطابق تمھارے اندر بھی ایک رسول کی بعثت ہو چکی ہے، لہٰذا شیطان کے فتنوں سے امان چاہتے ہو تو اُس کی پیروی کرو۔

۳۴۴؎ اصل میں ’استکبار‘ کا لفظ آیا ہے جس کے ساتھ ’عَنْ‘ کا صلہ ہے۔ یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ یہاں تضمین ہے۔ ہم نے ترجمے میں اِسے کھول دیا ہے۔

۳۴۵؎ اوپر جس ’افتراء علی اللّٰہ‘ کا ذکر ہے، یہ اُس کی وضاحت ہو گئی ہے۔

۳۴۶؎ یعنی شیطان کے یہ پیرو تمھارے ساتھی ہوں گے اور تمھارا ٹھکانا بھی اِنھی کے ساتھ دوزخ ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، گویا ساتھی بھی بدترین اور جگہ بھی بد ترین۔

۳۴۷؎ اصل الفاظ ہیں:’حَتّٰٓی اِذَا ادَّارَکُوْا فِیْھَا جَمِیْعًا، قَالَتْ اُخْرٰھُمْ لِاُوْلٰھُمْ‘۔ اِن میں ’اِدَّارَکُوْا‘ عربیت کے قاعدے سے’تدارکوا‘میں تبدیلی سے بنا ہے اور ’قَالَتْ اُخْرٰھُمْ لِاُوْلٰھُمْ‘ میں’ل‘’فی‘کے معنی میں ہے۔ آیت کا مدعا یہ ہے کہ پہلی مرتبہ دیکھیں گے تو ایک دوسرے پر لعنت کریں گے اور جب اکٹھے ہو جائیں گے تو اخلاف اپنے اسلاف کے بارے میں استغاثہ پیش کر دیں گے ۔ آگے اِسی کی وضاحت ہے۔

۳۴۸؎ یعنی ایک عذاب خود گمراہی اختیار کرنے کا اور دوسرا عذاب دوسروں کو گمراہ کرنے اور جرائم پیشگی کی میراث چھوڑنے کا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ نیکی اور بدی ، دونوں متعدی چیزیں ہیں۔ اِن کے اثرات سلف سے خلف تک منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ ہر قتل جس طرح قاتل کے حساب میں درج ہوتا ہے، اُسی طرح آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل کے حساب میں بھی آپ سے آپ درج ہو جاتا ہے، جس نے خدا کی زمین پر پہلا قتل کیا تھا۔ پھر یہ قاتل بعد میں آنے والوں کے لیے قابیل بن جاتا ہے اور سلف سے خلف تک یہ سلسلہ اِسی طرح چلتا رہتا ہے۔ اِسی بنا پر فرمایا ہے کہ ہر ایک کے لیے دہرا عذاب ہے۔ ہر گروہ کو اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ اُن گناہوں کا حصہ بھی لینا ہے جن کے ارتکاب سے اُس نے دوسروں کے لیے بری مثال قائم کی۔ اسلاف اگر اپنی چھوڑی ہوئی میراث کے برے نتائج سے نہیں بچ سکتے تو اخلاف کو بھی اپنے اُس تخم فساد کی فصل لازماً کاٹنی ہے جو اُنھوں نے دوسروں کے لیے بویا ہے، اِس لیے کہ ہر گروہ کسی کا خلف ہے تو کسی کا سلف بھی ہے۔

۳۴۹؎ اِس لیے کہ تم نے بھی اُسی جرم کا ارتکاب کیا جو ہم نے کیا تھا۔ ہمارے مقابل میں تم یقینا ترجیح اور فضیلت کے حق دار ہوتے، اگر تم نے کوئی اچھی مثال قائم کی ہوتی۔ لیکن جب تم بھی وہی کچھ کر کے آئے ہو جو ہم کرکے آئے ہیں تو کسی فضیلت یا رعایت کا تقاضا کس طرح کر سکتے ہو؟

۳۵۰؎ لفظ’استکبار‘کے ساتھ یہاں بھی ’عَنْ‘ کا صلہ ہے۔ اِس کا فائدہ ہم اوپر واضح کر چکے ہیں۔

۳۵۱؎ یہ نفس فعل کی نہیں، بلکہ اُس کے لازم کی نفی ہے۔ یعنی آسمان میں اُن کا خیرمقدم نہیں ہوگا کہ اُس کے دروازے سلام و تحیت اور اہلاً و سہلاً کے ساتھ اُن کے لیے کھولے جائیں، بلکہ ذلت و فضیحت کے ساتھ وہ اُس کے پھاٹکوں میں دھکیل دیے جائیں گے۔

۳۵۲؎ یہ تعلیق بالمحال کا اسلوب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اُن کا جنت میں جانا اتنا ہی محال ہے، جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا محال ہے۔ قرآن نے یہ بات اُن کے اصل جرم، یعنی استکبار کے حوالے سے کہی ہے اور سیدنا مسیح علیہ السلام نے سبب استکبار ، یعنی دولت کے حوالے سے۔ اُن کا ارشاد ہے:

’’۔۔۔میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دولت مند کا آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونا مشکل ہے۔ اور پھر تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میںسے نکل جانا اِس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہی میں داخل ہو۔‘‘(متی ۱۹: ۲۳-۲۴) 

۳۵۳؎ یہ جملۂ معترضہ ہے جس سے برسرموقع اطمینان دلادیا ہے کہ ایمان اور عمل صالح کی جو ذمہ داری بندوں پر ڈالی گئی ہے، وہ اُسی حد تک ہے، جس حد تک اُن کے امکان میں ہے۔ وہ اُن کی حد وسع سے زیادہ نہیں ہے۔

۳۵۴؎ یہاں بھی لازم مراد ہے، یعنی دوزخ میں تو ایک دوسرے پر لعنت ملامت ہو رہی ہو گی، لیکن جنت میں اِس کے برخلاف لوگ آپس میں تبادلۂ مہر و محبت کریں گے، دنیا کی رنجشیں اور کدورتیں دور ہو چکی ہوں گی، ایک دوسرے کے لیے تپاک اور محبت کے سوا کچھ نہ ہو گا۔

۳۵۵؎ مطلب یہ ہے کہ جو کچھ حاصل ہوا ہے، خدا کی توفیق اور پیغمبروں کی تذکیر سے حاصل ہوا ہے۔ یہ عنایت اور یہ اہتمام نہ ہوتا تو ہم جنت کا یہ راستہ نہیں پا سکتے تھے۔ دنیا کا سفر ایک پر صعوبت سفر تھا، بہ خیروخوبی انجام کو پہنچ گیا۔ یہ خداکا فضل ہے کہ آج اُن نعمتوں سے بہرہ یاب ہورہے ہیں جو ہماری توقعات، قیاسات اور اندازوں سے اتنی زیادہ ہیں کہ اپنی سعی و عمل سے ہم کسی طرح اُن کا استحقاق پیدا نہیں کر سکتے تھے۔

۳۵۶؎ یہ شاباش کا جملہ ہے کہ بے شک ،تم نے بازی جیت لی اور اپنے باپ کی کھوئی ہوئی جنت دوبارہ حاصل کر لی۔ یہ تمھاری میراث تھی اور اپنی جدوجہد سے تم نے ثابت کر دیا ہے کہ تم حق دار ہو کہ تمھاری یہ میراث تمھیں لوٹا دی جائے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اہل جنت کا خود اپنا احساس تو اوپر یہ نقل ہوا ہے کہ وہ اِس جنت کو اپنی سعی و عمل کے بجاے صرف خدا کے فضل و احسان کا ثمرہ سمجھیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ اِس کو اُن کے سعی و عمل کا ثمرہ قرار دے گا۔ یہ تکمیل نعمت کی معراج ہے۔ بندوں کے اعمال کا درجہ اِس آیت نے اتنا اونچا کر دیا ہے کہ اِس سے زیادہ اونچے درجے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔دنیا میں ہم جو کچھ پاتے ہیں، خدا کے فضل ہی سے پاتے ہیں۔ آخرت میں بھی خدا کے فضل ہی سے پائیں گے، لیکن رب کریم اِس کو ہمارا حق اور ہماری محنت کا ثمرہ قرار دے گا۔ کون اندازہ کر سکتا ہے اُس ابدی بادشاہی کا جس کے متعلق ہر شخص کا شعور یہ ہو گا کہ یہ اُس نے اپنی کوششوں سے بنائی ہے اور یہ لازوال ہے! انسان صرف یہی نہیں چاہتا کہ اُس کو نعمتیں حاصل ہوں، بلکہ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ نعمتیں اُس کی اپنی ہوں۔ اِس احساس کے بغیر وہ کسی نعمت کا صحیح لطف نہیں اٹھا سکتا۔ اللہ تعالیٰ جنت میں اُس کی فطرت کا یہ تقاضا بھی پورا کر دے گا۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۲۵۹)   

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

  *الحدید ۵۷: ۲۵۔

** النحل ۱۶: ۹۹۔

B