HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

فی ملکوت اللہ ایک تعارف (۳)

[’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


(گذشتہ سے پیوستہ )


یہاں یہ بات بھی جان لیں کہ کسی قوم کے پاس اقتدار دائمی طور پر نہیں رہتا ہے۔ سنت اللہ کے مطابق اس کی ایک مدت متعیّن ہوتی ہے۔ قرآن میں اس کو ’اجل‘ کہا گیا ہے۔ جب وہ معیّنہ اجل آ جاتی ہے تو پھر اقتدار اس قوم کے ہاتھ سے لے لیا جاتا ہے، اس میں معمولی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی: مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّۃٍ أَجَلَہَا وَمَا یَسْتَأْخِرُونَ. (سورۂ المومنین: ۴۳)

اس بنا پر حکیمانہ طریقہ یہ ہو گا کہ پہلے غیر مسلم اقتدار کی معیّنہ اجل کا ٹھیک ٹھیک تعیّن ہو جو ان کے اخلاق و معاملات کی گہری جانچ سے ممکن ہے، اور پھر منظم طریقے سے سیاسی جد و جہد کا آغاز ہو اور اس کے لیے ضروری اسباب و وسائل فراہم کیے جائیں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا۔ ان دوکاموں کی انجام دہی کے بعد حکومت کے معاملے کو اللہ کے اوپر چھوڑ دیا جائے کہ وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

ملک کے اندر جہاد

علماء حق کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ جہاد ملک کے اندر جائز نہیں ہے۔ وہ جہاد نہیں، فساد فی الارض ہے۔ جہاد کے لیے آزاد علاقہ اور سیاسی قوت لازمی ہیں۔ اس کے علاوہ جہاد کی غرض و غایت عدل و قسط کا قیام ہے، اس لیے جو گروہ اس غرض سے اٹھے وہ پہلے خود عدل و قسط پر قائم ہو۔ مولانا فراہی لکھتے ہیں:

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی خاتم کی حیثیت سے مبعوث ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب کرنے والا تھا۔ اس مقصد کے لیے پہلے آپ کو حکم ہوا کہ لوگوں کو وعظ و تلقین فرمائیں کہ لوگ آپ کی باتوں کو سنیں اور مانیں اور اپنے حالات کی اصلاح کریں۔ آپ کو قتال کی اجازت اس وقت تک نہیں دی گئی جب تک لوگوں پر اللہ کی حُجت تمام نہیں ہو گئی اور تبلیغ کا فرض اچھی طرح ادا نہیں ہو گیا۔ جب فرض تبلیغ اچھی طرح ادا ہو چکا تب آپ کو حکم ہوا کہ آپ خانۂ کعبہ کو مشرکین کے قبضہ سے آزاد کرائیں اور عہد ابراہیمی کے بموجب دین حنیفی کو اس سرزمین میں ازسر نو تازہ کریں اور اگر ضرورت پیش آئے تو اس کے لیے قوت کو بھی استعمال کریں۔ قوت کے استعمال کی یہ اجازت بھی آپ کو ہجرت کے بعد دی گئی۔ ہجرت کے بعد اس لیے کہ ہجرت سے پہلے جہاد سوائے اس کے جو حفاظت نفس کے لیے ہو، سر تا سر ظلم و فساد ہے۔‘‘۵۶؂

انھوں نے مزید لکھا ہے:

’’جہاد کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ رفع فساد کی خاطر جو لوگ جہاد کے لیے اٹھیں ان کے لیے سب سے مقدم خود اپنے آپ کو شائبہ فساد سے پاک کرنا ہے۔ جب تک خلیفہ اور اس کے متّبین خود عدل پر قائم نہ ہوں اس وقت تک ان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ عدل قائم کرنے کے لیے تلوار لے کر اٹھیں۔ پھر اپنے ملک کے اندر بغیر ہجرت کے جہاد جائز نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سرگذشت اور ہجرت سے متعلق دوسری آیات سے یہی حقیقت واضح ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاد اگر صاحب جمعیت اور صاحب اقتدار امیر کی طرف سے نہ ہو تو وہ محض شورش و بدامنی اور فتنہ و فساد ہے۔ قتال کی اجازت حصول قوت کے بعد دی گئی ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی سرگذشت میں اس کی دلیل موجود ہے (اعراف: ۸۷) مذکورہ بالا تین شرطوں کے ساتھ جہاد قیامت تک کے لیے واجب ہے۔ دین کے معاملہ میں جبر اور شورش اور بدامنی جائز نہیں ہے۔ لیکن حق کی شہادت اور تبلیغ اور مجادلۂ حسنہ ہمیشہ ضروری ہے۔‘‘۵۷؂

مولانا فراہی کی اس تحریر کے بعد کسی کے لیے یہ کہنا مشکل ہو گا کہ وہ حکومتِ الٰہیہ کے قیام کے داعی یا اس تصور کے حامی تھے۔ مولانا نے ’فی ملکوت اللہ‘ میں تین مقامات پر حکومت الٰہیہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن ہر جگہ اس کا تعلق عالم تکوینی میں اللہ تعالیٰ کے اقتدار اعلیٰ سے ہے۔۵۸؂ اور اس کے ذکر کی غرض یہ ہے کہ عالم تکوینی میں اللہ کے قواعدِ حکومت اور آئین جہاں بانی کو ٹھیک طور پر سمجھا جائے اور جس وقت خدا کی طرف سے ارضی حکومت ملے تو ان ہی قواعد پر خلافت کی بنیاد رکھی جائے۔۵۹؂

ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ عالم تکوینی کی طرح عالم تشریعی میں بھی خدا کا اقتدارِ اعلیٰ قائم ہے۔ اس لیے حکومت الٰہیہ کی اقامت کی بات بالکل بے معنی اور طفلانہ طرزِ عمل ہے۔اللہ تعالیٰ کو اس بات کی مطلق حاجت نہیں کہ اس کے بندے عالم تشریعی میں اس کی حکومت قائم کرنے کے لیے جد و جہد کریں۔ کل کی طرح آج بھی دنیا میں جس قوم کے پاس ملک و حکومت ہے وہ اللہ کی مرضی سے اور ایک معینہ اجل تک کے لیے ہے۔ اس اجلِ معیّن سے پہلے حکومت چھیننے کی کوشش کرنا سنت اللہ کے خلاف چلنا ہو گا۔ ایسا کر کے کسی جماعت کو نہ پہلے کامیابی ملی ہے اور نہ آئندہ مل سکتی ہے۔ مختلف ملکوں میں سیاسی ذہن و مزاج رکھنے والی دینی جماعتوں کی مسلسل ناکامیوں کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ حکومتوں کے عزل و نصب کے خدائی قانون سے باخبر ہیں۔ وہ دنیا میں کامیابی کے لیے حالات و ظروف کی رعایت کے تاریخی اصول سے بھی نا آشنا ہیں۔ مناسب وقت پر اقدام کی اہمیت کے بارے میں مولانا فراہی لکھتے ہیں:

’’یہ ضروری ہے کہ موزوں وقت کو جانا جائے اور اس موقع پر جن امور کا اہتمام ضروری ہے ان کو ملحوظ رکھا جائے۔ اس لیے کہ کوئی اچھا کام بھی اگر ناوقت کیا جائے تو وہ وقت اور واجباتِ وقت دونوں کی تصنیع ہے۔ اور رہا امام قوم تو وہ وقتِ حاضر کے مصالح سے خوب واقف ہوتا ہے، اس لیے وہ مناسب وقت کو غنیمت جان کر اس میں سرگرم عمل ہوتا ہے۔‘‘۶۰؂

غیر موزوں وقت میں اقدام کا نتیجہ بالعموم ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔ تاریخ کے صفحات سے اس کی واضح شہادتیں ملتی ہیں۔ اور یہی خدا کی سنت بھی ہے۔

خدائی نصرت اور تدابیر

عالم تشریعی میں سنت اللہ کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ انسان کی پوری زندگی، انفرادی بھی اور اجتماعی بھی، اللہ کے اقتدار و تصرف کے تحت ہے، ملک و حکومت کا تنہا وہی مالک ہے، وہی قادرِ مطلق اور مختار کل ہے۔ اس کے اذن و مرضی کے بغیر اس دنیا میں کوئی واقعہ ظاہر نہیں ہوتا۔ اس صورت حال کے پیش نظر یہ سوال لازماً پیدا ہو گا کہ انسان کی کامیابی اور ناکامی میں دنیوی اسباب و تدابیر کا بھی کوئی دخل ہے؟

اس معاملے میں انسان نے ہمیشہ افراط و تفریط کی روش اختیار کی ہے۔ اہل دنیا اسباب پر تکیہ کرتے ہیں اور ان کو انسانی معاملات میں واحد فیصلہ کن عنصر مانتے ہیں۔ لیکن جب ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں تو حیران و پریشان ہوتے ہیں اور اس کی حقیقی توجیہ سے قاصر رہتے ہیں۔ اس کے برخلاف اہل مذہب بالخصوص تصوف کے دلدادہ لوگ اسباب و تدابیر سے بے نیازی اختیار کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ فاعلِ حقیقی ہے اس لیے کامیابی و ناکامی سے اسباب و تدابیر کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ نتیجے کے طور پر جب وہ ناکام ہوتے ہیں تو بسا اوقات ان کے اعتقاد کی بنیاد تک ہل جاتی ہے اور ان کے دلوں میں اللہ کے وعدۂ نصرت کے بارے میں بدگمانی پیدا ہو جاتی ہے۔

بطور مثال جنگ اُحد کو لیں۔ معلوم ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں کو ہزیمت اٹھانی پڑی جو ان کے لیے ایک بالکل غیر متوقع واقعہ تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جس لشکر کی قیادت اللہ کے جلیل القدر نبی کر رہے ہوں وہ کفار مکہ کے مقابلے میں شکست سے دوچار ہو گا۔ جنگ بدر میں وہ اپنی آنکھوں سے اللہ کی نصرت دیکھ چکے تھے، اس لیے اس ناقابل تصور شکست سے بالکل بدحواس ہو گئے۔ ان میں جو ضعیف الایمان تھے ان کے دلوں میں اللہ کے بارے میں جاہلانہ سوء ظن پیدا ہو گیا۔ (سورۂ آل عمران: ۱۵۴)۔ خدا نے انھیں بتایا کہ اس شکست کے وہ خود ذمہ دار ہیں (آل عمران: ۱۶۵)۔ اس جنگ میں مسلمانوں سے جو بڑی غلطی سرزد ہوئی وہ تدبیر کی غلطی تھی یعنی درّے کی حفاظت سے بے پروائی اور دشمن کی جنگی قوت کو توڑنے سے پہلے مال غنیمت لوٹنے میں مصروف ہو جانا۔ ۶۱؂

اہل ایمان کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ نے اہل حق سے نصرت کا جو وعدہ کیا ہے وہ غیر مشروط نہیں ہے بلکہ اس کو اسباب دنیوی سے مربوط کیا ہے۔ فرمایا ہے:

یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِذَا لَقِیْتُمْ فِءَۃً فَاثْبُتُواْ وَاذْکُرُواْ اللّہَ کَثِیْراً لَّعَلَّکُمْ تُفْلَحُونَ. وَأَطِیْعُواْ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُواْ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ. (سورۂ الانفال: ۴۵۔۴۶)
’’اے ایمان والو، جب کسی دشمن گروہ سے تمھاری مڈبھیڑ ہو تو ثابت قدمی دکھاؤ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم کو کامیابی حاصل ہو، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور باہم نزاع نہ کرو ورنہ کم ہمت ہو جاؤ گے اور تمھاری ہوا خیزی ہو گی، اور ثابت قدمی دکھاؤ، بے شک اللہ ثابت قدمی دکھانے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘

اسی سورہ میں دوسری جگہ فرمایا ہے:

وَأَعِدُّواْ لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّۃٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَیْْلِ تُرْہِبُونَ بِہِ عَدْوَّ اللّہِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِیْنَ مِن دُونِہِمْ لاَ تَعْلَمُونَہُمُ اللّہُ یَعْلَمُہُمْ.(سورۂ الانفال: ۶۰)
’’تم جس قدر کر سکتے ہو (ان کے مقابلے کے لیے) قوت یعنی ہتھیار اور پلے ہوئے گھوڑے تیار رکھو۔ ان کے ذریعہ تم اللہ کے اور خود اپنے دشمن کو خوف زدہ رکھو گے اور ان کے علاوہ ان دوسروں کو بھی جن سے تم بے خبر ہو، اور اللہ انھیں جانتا ہے۔‘‘

ان آیات سے معلوم ہوا کہ دنیا میں کامیابی کے لیے حتی الوسع اسباب و تدابیر کی فراہمی ضروری ہے۔ ان سے چشم پوشی کے معنی ناکامی کو دعوت دینے کے ہیں۔

تدبیر اور توکّل

تدبیر اور توکّل میں تعلق کے بارے میں بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ بہت سے مسلمان بالخصوص اصحابِ تصوف خیال کرتے ہیں کہ تدبیر سے توکل کی نفی ہوتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اللہ نے توکل کے ساتھ تدبیر کا بھی حکم دیا ہے یعنی اسباب ضروری کی فراہمی کے ساتھ اللہ پر بھروسہ رکھنا۔ چنانچہ جب کوئی بندہ اپنے رب پر بھروسہ کرتا ہے اور ضروری تدابیر کے بعد گرد و پیش سے بے نیاز ہو جاتا ہے تو اللہ اس کی مدد کو اپنے اوپر لازم کر لیتا ہے۔ ۶۲؂ مثلاً فرمایا ہے:

الَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ إِیْمَاناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ. فَانقَلَبُواْ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّہِ وَفَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْہُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُواْ رِضْوَانَ اللّہِ وَاللّہُ ذُو فَضْلٍ عَظِیْمٍ.(سورۂ اٰل عمران: ۱۷۳- ۱۷۴)
’’وہ ہیں کہ لوگوں نے ان سے کہا کہ تمھارے لیے (تم سے مقابلہ کے لیے) انھوں نے کافی سامان جمع کیا ہے تو ان سے ڈرو۔ اس بات نے ان کا ایمان اور زیادہ کر دیا اور انھوں نے کہا کہ اللہ ہی ہمارے لیے کافی ہے اور وہی سب سے اچھا کارساز ہے۔ پس یہ لوگ اللہ کے فضل و کرم سے واپس آئے، ان کو کوئی گزند نہیں پہنچا۔ اور انھوں نے اللہ کی رضا کا اتباع کیا۔ اور اللہ بڑا فضل والا ہے۔‘‘

خدائی نصرت کے ذرائع

قرآن مجید کے بیان کے مطابق اللہ کی نصرت کے صرف دو ذریعے ہیں، صبر اور نماز، ایک جگہ فرمایا ہے:

یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَۃِ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ.(سورۂ البقرہ: ۱۵۳)
’’اے ایمان والو، صبر اور نماز سے مدد لو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘

’مع الصابرین‘ کا جملہ ظاہر کرتا ہے کہ صبر کو دین میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ دیکھیں، یہ نہیں کہا کہ اللہ نماز پڑھنے والوں کے ساتھ ہے بلکہ یہ کہا کہ وہ صبر و ثابت قدمی دکھانے والوں کے ساتھ ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ صبر کو زندگی میں اساسی حیثیت حاصل ہے، اس کے بغیر کوئی کام حتیٰ کہ قیام نماز بھی مشکل ہے۔ مولانا فراہی نے لکھا ہے کہ تقویٰ صبر ہی کا ایک حصّہ ہے کہ احکام و شرائع پر عمل صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ۶۳؂

تمام انبیاء کی زندگی میں جو چیز سب سے زیادہ نمایاں حیثیت رکھتی ہے وہ صبر اور استقامت ہے، جیسا کہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا ہے:

فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّہُمْ.(سورۂ احقاف: ۳۵)
’’صبر کرو جیسا کہ (تم سے پہلے) اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا ہے، اور ان کے معاملہ میں جلدی نہ چاہو۔‘‘

دوسری جگہ ہے:

وَاصْبِرْ عَلَی مَا یَقُولُونَ وَاہْجُرْہُمْ ہَجْراً جَمِیْلاً.(سورۂ المزمل: ۱۰)
’’جو کچھ وہ ( کفار) کہتے ہیں اس کو برداشت کرو اور ان سے بھلے ڈھنگ سے جدا ہو جاؤ۔‘‘

ان آیات سے واضح ہو گیا کہ صبر نفس کی شائستگی اور اوالعزمی کی علامت ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کسی قوم میں زندہ رہنے اور ترقی کرنے کی کتنی صلاحیت ہے۔ آیاتِ مذکورہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو نصیحت کی گئی ہے اس سے مسلمانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ صبر اور ثابت قدمی سے کبھی غافل نہ ہوں کہ اسی ذریعہ سے وہ اللہ کی نصرت حاصل کر سکتے ہیں۔ ۶۴؂

یہی وجہ ہے کہ شدائد و فتن کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو کثرت سے نماز اور صبر کی تلقین کی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو صراحت کے ساتھ حکم دیا گیا:

اسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَۃِ.(سورۂ البقرہ: ۱۵۳)
’’صبر اور نماز سے مدد چاہو‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ جب کوئی اُمّت مظلوم و مقہور ہو تو اس کو صبر اور صلوٰۃ کے دامن کو خوب مضبوطی کے ساتھ پکڑنا چاہیے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام سراپا صبر اور صلوٰۃ تھے، بالخصوص زندگی کے آخری ایّام میں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی صبر کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی۔ لیکن صبر کا مطلب عاجزی اور بزدلی نہیں جیسا کہ عام لوگ خیال کرتے ہیں بلکہ اس کا مفہوم عزم و استقامت ہے۔ راہ حق میں مصائب اور مشکلات کے سامنے ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑا رہنا اور ہر طرح کے شدائد کو خندہ لبی کے ساتھ جھیلنا ایک مومن صابر کا ہمیشہ سے طرّۂ امتیاز رہا ہے۔

عصری سیاسی نظامات

خلافت اور اس سے متعلق امور کی وضاحت کے بعد مولانا فراہی نے عصری سیاسی نظامات پر نقد و تبصرہ کیا ہے اور یہ بحث ’’افادات فراہی‘‘ کے عنوان کے تحت درج ہے۔۶۵؂

انسان کے اجتماعی معاملات کی تنظیم و تشکیل کی صورت ہر دور میں مختلف رہی ہے۔ تاریخ انسانی کا ایک طویل دور ایسا گزرا ہے جس میں حکومت شخصی اور موروثی رہی ہے۔ ایک شخص یا ایک خاندان کے لوگ ہی اس کے اہل سمجھے جاتے تھے کہ وہ حکومت کریں۔ چالاک بادشاہوں نے اس مقصد کے لیے بہت سے ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں۔ مثلاً انھوں نے عوام کو یقین دلایا کہ وہ عام لوگوں سے مختلف ہیں، ان کی رگوں میں دیوی دیوتاؤں کا خون ہے ، وہ سورج اور چاند کی اولاد ہیں وغیرہ۔ ہندوستان میں سورج بنسی اور چندر بنسی جیسے الفاظ اس کی یادگار ہیں، رام راج اور ظلِّ الٰہی بھی اسی قبیل کی چیزیں ہیں۔

اس طلسمِ اقتدار کو توڑنا عوام کے لیے ممکن نہ تھا۔ کسی بادشاہ کی حکومت کا خاتمہ صرف اس وقت ہوتا جب کوئی دوسرا بادشاہ حملہ کر کے اس کے تخت اقتدار پر قابض ہو جاتا تھا۔ بادشاہوں کی ہوسِ ملک گیری کی خونی داستانوں سے تاریخ کے صفحات بھرے ہوئے ہیں۔ اپنی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کے لیے عام لوگ ان بادشاہوں کے اقتدار کے آگے سرجھکانے کے لیے مجبور تھے۔

مطلق العنان بادشاہت کے اس طویل دور کا خاتمہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ہوا اور اس کی جگہ جمہوری اور اشتراکی نظامات نے لی۔ قدیم عہد میں یونان وہ واحد ملک تھا جہاں کے لوگ جمہوریت کے تصور سے آشنا ہوئے گوکہ وہ شہری جمہوریت تھی اور اس میں بھی آبادی کا ایک بڑا حصّہ شامل نہیں تھا۔ صحیح معنی میں جمہوریت کا آغاز انقلاب فرانس سے ہوا جو روسو کے معاہدۂ عمرانی پر مبنی تھی۔ اشتراکی نظام کا قیام بیسویں صدی عیسوی کے اوائل (۱۹۱۷ء) میں ہوا اور روس اس کا پہلا مولد و مسکن بنا۔

مولانا فراہی نے ان دونوں نظامہائے حکومت پر سخت تنقید کی ہے۔ ان کی نظر میں اشتراکی نظام کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں انسان کی فطری استعداد کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ نظام انسانی سماج کے مختلف طبقات کے درمیان بغض و عداوت کو ہوا دیتا ہے ا س لیے یہ ایک بڑا فتنہ ہے۔۶۶؂ جمہوری نظام کو مولانا نے ’فوضی۶۷؂ ‘کے مشابہ بتایا ہے جو عربوں کے نزدیک ایک ناپسندیدہ طریقۂ حکومت تھا۔ اس کو وہ احمقوں کی حکومت قرار دیتے تھے۔ آج دنیا کے بیشتر ملک بالخصوص اہل مغرب اس طرز حکومت کے حامی و شیدا ہیں لیکن اشتراکی نظام کی طرح یہ بھی ایک فتنہ او رانسانی معاشرہ کی تباہی کا باعث ہے۔۶۸؂

جمہوریت کے بارے میں مولانا فراہی کا خیال محلِّ نظر ہے۔ اس میں ان کے عہد کے حالات کا عکس صاف نظر آتا ہے۔ جمہوری نظام اپنی بعض خرابیوں کے باوجود دوسرے سیاسی نظامات پر برتری رکھتا ہے اور اگر سماج خواندہ ہو تو اس سے بہتر کوئی دوسرا نظام نہیں ہے۔ رہا خلافت کا معاملہ تو وہ خلافت راشدہ کے بعد پھر کبھی دنیا میں قائم نہیں ہو سکی۔ خلافت تو بڑی چیز ہے مسلمان تو اس سے کم تر درجہ کا نظام حکومت بھی دینے سے قاصر رہے۔ اسلامی تاریخ کا ایک طویل دور شخصی اور استبدادی نظام حکومت کا دور رہا ہے اور آج بھی بیشتر مسلم ملکوں میں مطلق العنان حکومتیں یا بادشاہتیں قائم ہیں۔ ان حالات میں جمہوری نظام حکومت کا کوئی متبادل نہیں ہے اور بادل نخواستہ ہی سہی اس کو اختیار کرنا ہو گا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے مخصوص مزاج کی وجہ سے ان کے لیے مغربی طرز کی جمہوریت موزوں نہیں ہے۔ اس لیے مناسب یہ ہو گا کہ مسلمانوں کے امیر (صدرِ مملکت) کا انتخاب براہِ راست عوام کے بجائے ان کے منتخب نمائندوں کے ذریعہ ہوجو اہل الرائے ہوں۔۶۹؂ امیر اور عوام کے نمائندوں کا ’علم اور جسم‘ کی صفات سے متصف ہونا لازمی ہے۔ اور ان کے مفہوم کی وضاحت کی جا چکی ہے۔

حکومت میں مساوات

مولانا فراہی نے لکھا ہے کہ حکومت میں مساوات کا تصور اصولِ حکمرانی کے خلاف ہے۔ اس سے نہ تو فردکی عائلی زندگی کے قیام و انصرام میں مدد مل سکتی ہے اور نہ ہی اجتماعی امور صحیح ڈھنگ سے انجام دیے جا سکتے ہیں۔ اگر مختلف امور کی انجام دہی کے لیے ایک سے زیادہ حاکم ہوں تو ضروری ہے کہ وہ سب ایک حاکم اعلیٰ کے ماتحت ہوں اور معاملات کی انجام دہی میں سب اسی کی طرف رجوع ہوں۔۷۰؂

مولانا فراہی نے سماجی مساوات کے تصور سے جسے آج کل مغرب میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور اشتراکی ملکوں میں تو کبھی اس کی حیثیت دین و مذہب کی رہ چکی ہے، کوئی بحث نہیں کی ہے۔ اسلام میں سماجی مساوات کا تصور مغربی اور اشتراکی تصور مساوات سے مختلف ہے۔

یہ بات معلوم ہے کہ سماج کا ہر فرد یکساں جسمانی اور ذہنی قوت و استعداد نہیں رکھتا اس لیے ان کی جد و جہد کے نتائج یکساں نہیں ہو سکتے ( إِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتَّیٰ، سورۂ اللیل: ۴)۔ پھر سماجی ضرورتیں بھی مختلف النوع ہیں، اس لیے لازماً سماج میں مختلف طبقات پیدا ہوں گے اور یہ ایک فطری حالت ہو گی جو اس کی مختلف سماجی ضروریات کی تکمیل کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بات فراموش نہ ہو کہ وہ غیر مساواتی حالت جو سماج کے طاقتور طبقات کے ظلم و استحصال کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ ہرگز قابل قبول نہیں اور اس کا استیصال ناگزیر ہے۔ سماج کا ہر فرد یکساں طور پر عزت اور ترقی کا حقدار ہے، رنگ و نسل اور زبان و علاقہ کی بنیاد پر کسی طرح کا امتیاز جائز نہیں ہے۔ اسلامی حکومت یا خلافت کی ایک اہم غرض یہ ہے کہ انسانی تمدن مضبوط بنیاد پر قائم ہو اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد کی فطری صلاحیتوں کی نمود و ترقی کے لیے یکساں مواقع موجود ہوں۔ فطری قابلیت کے اعتبار سے جو شخص جہاں تک جا سکتا ہے اس کو جانے دیا جائے۔ اس معاملے میں کسی فرد یا سماج کے کسی طاقت ور طبقہ کی طرف سے کسی طرح کی رکاوٹ بالکل ممنوع ہے۔ بالفاظ دیگر خدائی قوانین کے دائرے میں سماج کے ہر فرد کو فکر و عمل کی یکساں آزادی حاصل ہے۔

سماجی عدل کے اس تصور کو روبہ عمل لانے کے لیے ضروری ہے کہ نظام حکومت مرکزی سطح پر وحدانی ہو یعنی حکومت کے سارے عمّال ایک حاکم اعلیٰ (خلیفہ) کے ماتحت ہوں جیسا کہ اوپر بیان ہوا، اور حاکم اعلیٰ قوم کے اصحاب الرائے کے مشورہ سے حکومت کے فرائض انجام دے۔

مغربی ملکوں میں سماجی مساوات کا تصور ابھی نظریہ کی حد سے آگے نہیں بڑھا ہے۔ نسلی برتری کا قدیم تصور اب تک ان کے ذہنوں سے نہیں نکل سکا ہے۔ امریکہ میں آج بھی کالوں کو گورو ں سے فروتر سمجھا جاتا ہے اور ان کو سماجی مساوات حاصل نہیں ہے۔ اشتراکی ملکوں کا حال بھی اچھا نہیں ہے۔ کبھی روس سماجی مساوات کے تصور کا سب سے بڑا علم بردار تھا، لیکن عملاً اس کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ خود حکومت کے کار پردازوں کی شکل میں مخصوص حقوق کا حامل ایک طبقہ پیدا ہو گیا جو بالآخر اس کے زوال کا باعث ہوا۔ دنیا نے دیکھا کہ ایک بڑی سلطنت چشم زدن میں اس طرح بکھر گئی جس طرح رشتۂ تسبیح کے ٹوٹنے سے اس کے دانے بکھر جاتے ہیں۔

اس حادثہ سے دنیا کو یہ سبق ملا کہ غیر طبقاتی سماج کا تصور ایک شاعرانہ تصور سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا اور اس طرح کا سماج نہ پہلے کبھی وجود میں آیا اور نہ آئندہ اس کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اصل مسئلہ سماج میں طبقات کی موجودگی نہیں کہ وہ ایک ناگزیر سماجی ضرورت ہے، بلکہ بنیادی مسئلہ سماج کے مختلف طبقات کے درمیان مصنوعی امتیاز اور ان کا استحصال ہے۔ اس مسئلہ کا حال نہ مغرب کے پاس ہے اور نہ اشتراکی ملکوں کے پاس، اس کا حل صرف اسلام کے پاس ہے۔

لیکن مشکل یہ ہے کہ آج اسلامی نظام دنیا میں کہیں عملاً نافذ نہیں ہے، وہ اب کتابوں کی زینت اور تاریخِ اسلام کے ایک روشن باب کے حوالے کی حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا منتظر ہے کہ اسلام کے ماننے والے اس کو ایک بار پھر متشکٰل کر کے دکھائیں تاکہ خدا کی زمین امن و راحت کا گہوارہ بن سکے۔

___________

۵۶؂ مقدمہ نظام القرآن، (تفسیر نظام القرآن)، ص۵۷۔

۵۷؂ مقدمہ نظام القرآن، (تفسیر نظام القرآن)، ص۵۷۔

۵۸؂ فی ملکوت اللہ، ص۲۰۔ ۲۱۔

۵۹؂ فی ملکوت اللہ، ص۲۰۔

۶۰؂ فی ملکوت اللہ، ص۲۹۔

۶۱؂ تفصیل کے لیے دیکھیں، سورۂ اٰل عمران، آیات ۱۶۷۔۱۷۸۔

۶۲؂ فی ملکوت اللہ، ص۴۱۔

۶۳؂ فی ملکوت اللہ، ص۴۲۔

۶۴؂ فی ملکوت اللہ، ص۴۵۔

۶۵؂ فی ملکوت اللہ، ص۴۶۔۴۷۔

۶۶؂ فی ملکوت اللہ، ص۴۶۔

۶۷؂ فوضی، اس حکومت کو کہتے ہیں جس میں سب کی حیثیت مساوی ہو۔

۶۸؂ فی ملکوت اللہ، ص۴۶۔

۶۹؂ تفصیل کے لیے دیکھیں، راقم کی کتاب ’اسلامی ریاست‘۔

۷۰؂ فی ملکوت اللہ، ص۴۷۔

 ________________

B