HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

احکام قتال کی تحدید و تخصیص یا تعمیم کی بحث فقہی روایت کے ارتقا کا ایک جائزہ (۱۲)

(گذشتہ سے پیوستہ )


پاکستان میں بھی، جہاں اسلام مملکت کا سرکاری مذہب اور قانون سازی کا اعلیٰ ترین ماخذ ہے، غیر مسلموں کو ’اہل ذمہ‘ قرار نہیں دیا گیا اور نہ اہل علم کی جانب سے اس کا مطالبہ ہی کبھی سامنے آیا ہے، حتیٰ کہ سید سلیمان ندوی، مولانا مفتی محمد شفیع اور سید ابو الاعلیٰ مودودی جیسے اہل علم نے بھی اپنی تحریروں میں نظری طور پر جزیہ کے قانون کی وضاحت کرنے کے باوجود جب ۱۹۵۲ء میں ۳۱ سرکردہ علما کے ساتھ مل کر اسلامی ریاست کے لیے رہنما ۲۲ دستوری نکات مرتب کیے تو ان میں غیر مسلموں کی قانونی حیثیت پر گفتگو کرتے ہوئے ’جزیہ‘ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

معاصر تناظرمیں اسلامی ریاست کے عملی ڈھانچے اور اس کے خط وخال کو موضوع بحث بنانے والے اہل علم نے بھی بالعموم اس موقف سے اتفاق کو ضروری نہیں سمجھا اور یہ نقطۂ نظر عام ہے کہ جدید اسلامی ریاستوں میں غیر مسلموں کی حیثیت ’اہل ذمہ‘ کی نہیں ہے، چنانچہ ان پر جزیہ عائد کرنے پر اصرار نہیں کیا جا سکتا، تاہم اس نقطۂ نظر کے ترجمان اہل علم کے ہاں روایتی فقہی تصور سے اختلاف کی بنیاد کے حوالے سے مختلف رجحانات دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً ایک نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ عقیدہ ومذہب کی بنیاد پر اسلامی ریاست کے باشندوں کے مدنی حقوق میں امتیاز کا رویہ مخصوص تاریخی اسباب کا نتیجہ تھا اور سیدنا عمر نے اس وقت کی معاصر اقوام میں محکوم ومفتوح قوموں کے لیے رائج قانونی نظام ہی کو اہل ذمہ پرنافذ کر دیا تھا۔ (سید سلیمان ندوی، ’’کیا اسلام میں تجدید کی ضرورت ہے؟‘‘، مشمولہ ’’اسلامی تہذیب وثقافت‘‘، ۱/۱۰۴، شائع کردہ خدا بخش اورئنٹل پبلک لائبریری پٹنہ) تاہم ،یہ بات درست دکھائی نہیں دیتی، کیونکہ ’اہل ذمہ‘ اور ان کی مخصوص محکومانہ حیثیت کے فقہی تصور، بالخصوص انھیں محکوم بنا کر ان پر جزیہ عائد کرنے کی نہایت واضح اساسات خود قرآن وسنت کے نصوص میں پائی جاتی ہیں اور اگر جدید معاشرے میں اس کا تسلسل ضروری نہیں تو بھی شرعی و عقلی طور پر اس تصور کی توجیہ تاریخی نہیں، بلکہ مذہبی بنیادوں پر کی جانی چاہیے۔

اس ضمن میں ایک رائے یہ سامنے آئی ہے کہ جزیہ عائد کیے جانے کا حکم اصلاً اسلامی ریاست کے ایسے غیر مسلم باشندوں کے لیے ہے جو جنگ کے نتیجے میں مفتوح ہوئے ہوں یا جنھوں نے صلح کا معاہدہ کرتے وقت ’جزیہ‘ کی ادائیگی کی شرط منظور کی ہو۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں:

’’اسلامی حکومت میں غیر مسلموں سے جزیہ لینے کا حکم اس حالت کے لیے دیا گیا ہے جبکہ وہ یا تو مفتوح ہوئے ہوں یا کسی معاہدہ کی رو سے جزیہ دینے کی واضح شرط پر اسلامی حکومت کی رعایا بنائے گئے ہوں۔ پاکستان میں چونکہ یہ دونوں صورتیں پیش نہیں آئی ہیں، اس لیے یہاں غیر مسلموں پر جزیہ عائد کرنا میرے نزدیک شرعاً ضروری نہیں ہے۔‘‘ (رسائل ومسائل، ۴/ ۲۴۶)

سید حامد عبد الرحمن الکاف لکھتے ہیں:

’’معاصر اسلامی ریاستوں میں غیر مسلموں کے قانونی اور مدنی حقوق کے بارے میں وہی پرانا موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ وہ ’’ذمی‘‘ ہیں اور انھیں ’’جزیہ‘‘ ادا کر کے فوجی خدمات سے اپنے آپ کو مستثنیٰ کرنا ہے۔ یہ موقف ان دستوری اور قانونی دور رس تبدیلیوں کے عدم ادراک کا نتیجہ ہے جو خود مسلم معاشروں میں صدیوں تک بیرونی سامراج کی حکومت کے بعد وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ ان معاشروں کی مسلم اکثریت اور غیر مسلم اقلیت دونوں سامراج کے مظالم اور لوٹ کھسوٹ کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ دونوں ہی نے سامراجی نظاموں سے گلو خلاصی کی خاطر برابر کی جدوجہد کی اور قربانیاں دی ہیں۔ جب آزادی مل گئی تو مسلم اکثریت کیونکر اور کس طرح اچانک حاکم اور غیر مسلم اقلیتیں محکوم بن گئیں؟ حالانکہ جنگ آزادی میں دونوں برابر کے شریک تھے اور سامراج کے ظلم وستم کا دونوں ہی خمیازہ بھگت رہے تھے۔
ان تاریخی تبدیلیوں کو نہ سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس آیت کے معنی ومفہوم کو بھی نظر انداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کو ’’آیت جزیہ‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ .......آیت بالا صاف صاف جنگ کے بعد شکست خوردہ لوگوں پر جزیہ عائد کرنے کا حکم دیتی ہے۔ اس طرح جزیہ جنگ میں شکست کا نتیجہ ہوا۔ بالفاظ دیگر جنگ کے بغیر اور شکست کے بغیر نہ تو جزیہ فرض ہی کیا جا سکتا ہے اور نہ وصول ہی کیا جا سکتا ہے۔ صلح کے معاہدے کی شرائط میں یہ کوئی شکل ہو تو یہ بالکل الگ بات ہے۔ یہ صلح اور اس کی شرائط کا نتیجہ ہے نہ کہ جنگ کا۔ بات چیت میں شرائط پر اتفاق اسی وقت ہوتا ہے جب فریقین لین دین اور سودے بازی کریں، ورنہ بات چیت ناکام ہو جاتی یا کم از کم رک جاتی ہے۔ بعد میں، سیاسی فضا سازگار ہونے پر، اسے پھر شروع کیا جاتا ہے۔ جنگ آزادی کے طویل عرصوں میں مسلمانوں نے سامراجی طاقتوں اور حکومتوں سے جاں گسل کش مکش کی بلکہ بعض وقت ان سے جنگ بھی کی۔ بہرحال انھوں نے اپنے ہی ملک کی غیر مسلم اقلیتوں سے جنگ نہیں کی تھی اور نہ ان کو شکست دی تھی اور نہ ان پر فتح ہی پائی تھی کہ ان کو ’’ذمی‘‘ قرار دے کر جزیہ عائد کیا جا سکتا۔ اس وجہ سے اس آیت کے احکام کا اطلاق مسلمان ممالک کی موجودہ صورت حال پر نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ (ماہنامہ ترجمان القرآن، دسمبر ۲۰۰۲، ص ۶۵، ۶۶)

تاہم ،نہ تو اس رائے میں قرآن مجید کی آیت سے کیا جانے والا استدلال درست ہے اور نہ فقہی ذخیرے میں اس طرح کی کوئی قید بیان کی گئی ہے۔ قرآن مجید کے حکم سے واضح ہے کہ اہل کتاب پر ’جزیہ‘ کرنے کے لیے قتال کو بطور ایک شرط کے ذکر نہیں کر رہا، بلکہ جزیہ کے نفاذ کو مقصود قرار دے کر ان اہل کتاب کے خلاف قتال کا حکم دے رہا ہے جو اس کو ادا کرنے سے کریں۔ اس سے یہ کسی طرح اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ جو اہل کتاب قتال کے بغیر صلح کریں، ان پر جزیہ عائد نہ کیا جائے، چنانچہ نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے مفتوح اور غیر مفتوح گروہوں میں کوئی فرق کیا ہے اور نہ صحابہ نے، بلکہ تاریخی بیانات سے واضح ہے کہ صحابہ صلح کے لیے پہلی شرط ہی یہ پیش کرتے تھے کہ ’اسلام قبول کرو یا جزیہ دو۔‘

ایک اور رائے یہ ہے کہ ’جزیہ‘ کے قانون میں فی ذاتہ یہ گنجایش موجود ہے کہ اگر اسلامی ریاست کے غیر مسلم معاہدین اس حوالے سے کسی حساسیت کا شکار ہوں تو ازروے مصلحت ان پر جزیہ کے نفاذ پر اصرار نہ کیا جائے۔ فقہا کے ہاں، بنو تغلب کے نصاریٰ کے ساتھ کیے جانے والے معاملے کی روشنی میں، ایک رائے یہ موجود رہی ہے کہ اگر عملی صورت حالات کسی غیر مسلم گروہ کے ساتھ اسی شرط پر صلح کرنے پر مجبور کر رہی ہو کہ ان سے جزیہ کے بجائے زکوٰۃ لی جائے جس کی مقدار جزیہ کے مساوی ہو تو ایسا کرنا جائز ہے۔ (ابن قدامہ المغنی، ۹/۲۷۷۔ ماوردی، الاحکام السلطانیۃ، ۱۸۴) مولانا امین احسن اصلاحی نے اس معاملے میں مزید وسعت پیدا کرتے ہوئے اسے ایک عمومی ضابطہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’اگر وہ اس بات پرمصر ہوں کہ ان پر بھی اسی طرح کے مالی واجبات عائد کیے جائیں جو مسلمانوں پر عائد ہیں تو حکومت ان سے اپنی صواب دید کے مطابق اس شرط پر بھی معاہدہ کر سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس فرق کو یوں سمجھیے کہ اگر جزیہ کی ادائیگی میں وہ عار اور ذلت محسوس کریں تو ان کو اس سے مستثنیٰ کر کے ان کے لیے کوئی اور مناسب شکل اختیار کی جا سکتی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن، ۵/ ۵۶۱)

یہی نقطۂ نظر الدکتور یوسف القرضاوی نے اختیار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’موجودہ دور میں اسلامی ممالک کے غیر مسلم (اہل کتاب) ’جزیہ‘ نہیں دیتے بلکہ اس لفظ پر بھی ناک بھوں چڑھاتے ہیں تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ جزیہ کے بدلے بطور ٹیکس ان سے زکوٰۃ لی جائے، اگرچہ نام اس کا زکوٰۃ نہ ہو مگر شرح زکوٰۃ کی ہو۔ بنی تغلب کے عیسائیوں کے بارے میں حضرت عمر کا جو موقف محدثین، مورخین اور فقہاے اسلام نے بیان کیا ہے، اس سے ہمیں اس معاملے کا اصل صورت حال اور مصلحت کے پیش نظر جائزہ لینے کی گنجایش نظر آتی ہے۔ (فقہ الزکوٰۃ، مترجم: ساجد الرحمن صدیقی، ۱/ ۱۳۶)
’’اس فیصلے کے پیش نظر دور جدید میں اگر اسلامی ممالک میں غیر مسلموں پر جزیہ کی جگہ کوئی ایسا ٹیکس عائد کر دیا جائے جو مسلمانوں پر اسلامی نظام کی جانب سے عائد شدہ دو فرائض کے مساوی درجے کا ہو۔ یعنی مسلمان ایک فریضہ -جہاد- میں جان کی قربانی دیتے ہیں اور دوسرے فریضہ -زکوٰۃ- میں مال کی قربانی دیتے ہیں تو کیا ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا؟ اگر مسلمانوں کے اور غیر مسلموں کے مشورے سے غیر مسلموں پر ایسا کوئی ٹیکس عائد کیا جائے اور اس کو زکوٰۃ اور صدقہ کا نام بھی نہ دیا جائے، جیسا کہ حضرت عمرؓ نے ان کے مطالبے پر دے دیا تھا تو کیا یہ اقدام جائز نہیں ہوگا؟‘‘ (ایضاً ص ۱۳۸)

بعض دیگر اہل علم اس ضمن میں عملی حالات کی رعایت اور ’مصلحت‘ کے عمومی اصول کو بنیاد بناتے ہیں۔ اس نقطہ نظر کی نمائندگی ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے یوں کی ہے:

’’دور جدید میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے سیاسی اور مدنی حقوق کا مسئلہ بھی نازک اور اہم ہے اور اگرچہ تحریک اسلامی کے رہنماؤں نے اس بارے میں خاصا حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا ہے مگر عام ذہنوں پر مغرب کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا کافی اثر ہے۔ موجودہ موقف یہ ہے کہ رائے دہندگی اور مجالس قانون ساز کی رکنیت نیز دوسرے مدنی حقوق میں ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ برتا جائے گا، البتہ یہ مجالس ازروے دستور اس بات کی پابند ہوں گی کہ وہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتیں۔ اسلامی ریاست کا صدر مملکت لازماً مسلمان ہوگا اور اس کی شوریٰ صرف مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ غیر مسلموں سے جزیہ لینا ضروری نہیں اور انھیں فوجی خدمات سے مستثنیٰ رکھنا مناسب ہوگا۔‘‘ (اسلام، معاشیات اور ادب، ص ۴۱۹)
’’مسلمانوں اور اسلام کے کسی اہم مفاد کو مجروح کیے بغیر غیر مسلموں کو ان تمام سیاسی اور مدنی حقوق کی ضمانت دی جا سکتی ہے جو دور جدید کی کسی ریاست کے شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں یا جن کا شمار مجلس اقوام متحدہ نے بنیادی انسانی حقوق میں کیا ہے۔ اپنے موقف کی تعیین اور اس کے بیان میں مزاج عصر کی رعایت رکھنے میں اس حد تک کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا جس حد تک نہ کسی متعین شرعی حکم کی خلاف ورزی لازم آتی ہو نہ اسلام اور مسلمانوں کا کوئی اہم مفاد مجروح ہوتا ہو۔
اس بارے میں مسلم ممالک میں اٹھنے والی اسلامی تحریکوں کے موقف کی تعیین میں دنیا کی رائے عامہ اور غیر مسلم ممالک میں بسنے والی مسلمان اقلیتوں کے مفاد ومصالح کی رعایت رکھنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ دنیا میں اسلام کے مجموعی مفاد کا ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کو جملہ سیاسی اور مدنی حقوق اور اسلام کی طرف دعوت دینے کے آزادانہ مواقع حاصل ہوں۔ زیر غور مسئلہ میں، شریعت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے فراخ دلانہ پالیسی اختیار کرنے اور اس کو مزاج عصر سے مناسبت رکھنے والے انداز میں سامنے لانے سے اس مفاد کے تحفظ میں مدد ملے گی۔‘‘ (اسلام، معاشیات اور ادب، ص ۴۲۰)

خلافت عثمانیہ کے آخری دور میں اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کے لیے مسلمان شہریوں کے مساوی سیاسی ومعاشرتی حقوق تسلیم کرنے کا اصول صرف جزیہ کے اسقاط تک محدود نہیں رہا، بلکہ بعض دوسرے اہم امتیازات کے حوالے سے بھی کلاسیکی فقہی قوانین پرنظر ثانی کی گئی۔ مثال کے طو پر فقہا نے مسلمان کے خلاف کسی غیر مسلم کی گواہی کو اس بنیاد پر ناقابل قبول قرار دیا ہے کہ اس سے مسلمانوں پر غیر مسلموں کی بالادستی قبول کرنا لازم آتا ہے جو کہ درست نہیں، تاہم ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ میں فقہی ذخیرے میں بیان ہونے والے، گواہ کے مطلوبہ اوصاف میں سے مسلمان ہونے کی شرط حذف کر دی گئی ہے۔ (مجلۃ الاحکام العدلیہ، مادۃ ۱۶۸۶، ۱۷۰۰۔۱۷۰۵) جدید جمہوری تصورات کے تحت قائم ہونے والی بعض اسلامی ریاستوں، مثلاً پاکستان میں اسی کے مطابق قانون سازی کی گئی ہے اور حدود وقصاص کے علاوہ کسی معاملے میں مسلم اور غیر مسلم گواہوں کے مابین تفریق نہیں کی گئی۔

اسی طرح روایتی فقہی تصور میں قاضی کا مسلمان ہونا اس منصب کے لیے اہلیت کی بنیادی شرائط میں شمار کیا گیا ہے اور ایک اسلامی ریاست میں کسی غیر مسلم کے منصب قضا پر فائز ہونے کی کوئی گنجایش تسلیم نہیں کی گئی۔ تاہم ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ میں قاضی کے مطلوبہ اوصاف کے ضمن میں، کلاسیکی فقہی موقف کے برعکس، اس کے مسلمان ہونے کی شرط کا سرے سے کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ (مجلۃ الاحکام العدلیہ، مادۃ ۱۷۹۲۔ ۱۷۹۴) اسی بنیاد پر بہت سے مسلم ممالک میں غیر مسلموں کو منصب قضا پر فائز کرنے کا طریقہ اختیار کر لیا گیا ہے۔ (وہبہ الزحیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ ۶/۷۴۴) مثال کے طور پر پاکستان میں دستوری طور پر صدر اور وزیر اعظم کے لیے تو مسلمان ہونے کی شرط موجود ہے، لیکن کسی دوسرے منصب کے لیے ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ غیر مسلم ججوں کا اعلیٰ ترین مناصب پر تقرر عملاً بھی قبول کیا گیا ہے اور کم از کم ایک قانونی ایشو کے طور پر یہ مسئلہ کبھی نہیں اٹھایا گیا، بلکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ۲۰۰۷ء اپنی سفارشات میں باقاعدہ یہ تجویز کیا ہے کہ ’’قانون کی باقاعدہ تدوین کے بعد جج کے مسلمان ہونے کی شرط غیر ضروری ہے۔ غیر مسلم جج بھی قانون کو پوری طرح سمجھ لینے کے بعد ہر نوعیت کے مقدمات کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔‘‘ (’’حدود و تعزیرات: اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کا جائزہ‘‘، شائع کردہ اسلامی نظریاتی کونسل حکومت پاکستان، ۹)

جاوید احمد غامدی کا نقطۂ نظر

گزشتہ سطور میں ہم نے امت مسلمہ کی علمی وفقہی روایت کے بعض ایسے پہلووں کا ذکر کیا ہے جن سے واضح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے اپنے دور میں منکرین حق کے خلاف جو قتال کیا، اس کی خاص نوعیت اور اس پر مرتب ہونے والے نتائج کو اہل علم کسی نہ کسی زاویے سے عمومی طور پر محسوس کرتے چلے آ رہے ہیں۔ تاہم اس بحث کو بالعموم چونکہ فقہی تناظر میں دیکھا گیا اور اس کو نسخ وتخصیص کی فنی اصطلاحات کے اسلوب میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی، اس وجہ سے الجھن برقرار رہی اور ہر دور میں اہل علم اس کے حل کے لیے نئی سے نئی توجیہات پیش کرنے پر مجبور ہوتے رہے۔ ہمارے علم کی حد تک اس سارے معاملے کو درست تناظر میں پہلی مرتبہ مولانا حمید الدین فراہی نے دیکھا اور اس کو فقہی اصطلاحات کے محدود اور ناکافی دائرے سے نکال کر قرآن مجید میں بیان کردہ سنن الٰہیہ کے دائرے میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی۔ مولانا نے رسولوں کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی ایک خاص سنت کو قرآن مجید سے دریافت کیا اور اس کے روبہ عمل ہونے کے مختلف مراحل نصوص کی روشنی میں متعین کیے۔ اس بحث کو بعد میں ان کے طریقے پر قرآن مجید پر غور کرنے والے اہل علم، مثلاً مولانا امین احسن اصلاحی اور جاوید احمد غامدی نے مزید منقح کیا اور اس کی روشنی میں احکام قتال کی ایک نئی تعبیر پیش کی۔ رسولوں کے باب میں زیر بحث سنت الٰہی کی وضاحت فراہی مکتب فکر کے نمائندہ تینوں اہل علم، مولانا فراہی، مولانا اصلاحی اور جاوید احمد غامدی نے کی ہے۔ ان حضرات کے ہاں اس حوالے سے اجمال وتفصیل کا فرق بھی موجود ہے اور مولانا فراہی سے جاوید احمد غامدی تک اس قانون کی تشریح وتفصیل میں ایک ارتقا بھی واقع ہوا ہے جس کے لیے ان اہل علم کی تصانیف کا براہ راست مطالعہ مفید ہوگا۔ یہاں ہم سہولت کی غرض سے اس ضمن میں جناب جاوید احمد غامدی کی تصریحات نقل کرنے پر اکتفا کریں گے۔

قرآن مجید کو ’’پیغمبر کی سرگزشت انذار‘‘ کا عنوان دیتے ہوئے انھوں نے عہد نبوی وعہد صحابہ میں جہاد وقتال کے مخصوص پس منظر اور ان احکام کی تحدید وتخصیص کی علمی اساس کو یوں واضح کیا ہے:

’’اپنے مضمون کے لحاظ سے قرآن ایک رسول کی سرگزشت انذار ہے۔ اسے شروع سے آخر تک پڑھیے۔ یہ حقیقت اس کے ہر صفحے پر ثبت نظر آئے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے محض ایک مجموعہ قانون وحکمت نہیں، بلکہ پیغمبر کے لیے اپنی قوم کو انذار کا ذریعہ بنا کر نازل کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:
واوحی الی ہذا القرآن لانذرکم بہ ومن بلغ.(الانعام ۶:۱۹) ’’اور میری طرف سے یہ قرآن اس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے میں تمھیں انذار کروں اور ان کو بھی جنھیں یہ پہنچے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق معلوم ہے کہ آپ نبوت کے ساتھ رسالت کے منصب پر بھی فائز تھے۔ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو خلق کی ہدایت کے لیے مبعوث فرماتے ہیں اور اپنی طرف سے وحی والہام کے ذریعے سے ان کی رہنمائی کرتے ہیں، انھیں نبی کہا جاتا ہے۔ لیکن ہر نبی کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ رسول بھی ہو۔ رسالت ایک خاص منصب ہے جو نبیوں میں سے چند ہی کو حاصل ہوا ہے۔ قرآن میں اس کی تفصیلات کے مطابق رسول اپنے مخاطبین کے لیے خدا کی عدالت بن کر آتا ہے اور ان کا فیصلہ کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ رسولوں کی دعوت میں یہ فیصلہ انذار، انذار عام، اتمام حجت اور ہجرت وبراء ت کے مراحل سے گزر کر صادر ہوتا اور اس طرح صادر ہوتا ہے کہ آسمان کی عدالت زمین پر قائم ہو جاتی ہے، خدا کی دینونت کا ظہور ہوتا ہے اور رسول کے مخاطبین کے لیے ایک قیامت صغریٰ برپا کر دی جاتی ہے۔ اس دعوت کی جو تاریخ قرآن میں بیان ہوئی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر بالعموم دو ہی صورتیں پیش آتی ہیں: ایک یہ کہ پیغمبر کے ساتھ بھی تعداد میں کم ہوتے ہیں اور اسے کوئی دار الہجرت بھی میسر نہیں ہوتا۔ دوسرے یہ کہ وہ معتد بہ تعداد میں اپنے ساتھیوں کو لے کر نکلتا ہے اور اس کے نکلنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کسی سرزمین میں اس کے لیے آزادی اور تمکن کے ساتھ رہنے بسنے کا سامان کر دیتے ہیں۔ ....... نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں یہی دوسری صورت پیدا ہوئی۔ چنانچہ آپ کی طرف سے انذار، انذار عام، اتمام حجت، ہجرت وبراء ت اور اپنے مخالفین وموافقین کے لیے جزا وسزا کی یہ سرگزشت ہی قرآن کا موضوع ہے۔ اس کی ہر سورہ اسی پس منظر میں نازل ہوئی ہے اور اس کے تمام ابواب اسی لحاظ سے مرتب کیے گئے ہیں۔ قرآن کی شرح وتفسیر میں جو چیزیں اس رعایت سے اس کے ہر طالب علم کے پیش نظر رہنی چاہییں، وہ یہ ہیں:
اولاً، اس کی ہر سورہ میں تدبر کر کے اس کا زمانہ نزول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے انھی مراحل کے لحاظ سے اس طرح متعین کرنا چاہیے کہ اس کے بارے میں یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جا سکے کہ مثال کے طور پر، یہ زمانہ انذار میں نازل ہوئی ہے یا زمانہ ہجرت وبراء ت اور جزا وسزا میں، اور اس کی ہر آیت کامدعا اسی پس منظر میں سمجھنا چاہیے۔
ثانیاً، اس کی ہر سورہ کے بارے میں یہ طے کرنا چاہیے کہ اس کے مخاطب اصلاً زمانہ رسالت کے مشرکین ہیں، اہل کتاب ہیں، منافقین ہیں یا پیغمبر اور اس کے ساتھیاہل ایمان یا ان مخاطبین کی کوئی خاص جماعت۔ اسی طرح طے کرنا چاہیے کہ تبعاً ان میں سے کس کی طرف اور کہاں کوئی التفات ہوا ہے۔ چنانچہ اس کی ہر ضمیر کا مرجع، ہر لام تعریف کا معہود اور ہر تعبیر کا مصداق پھر اسی روشنی میں واضح کرنا چاہیے۔
ثالثاً، اس میں غلبہ حق، استخلاف فی الارض اور جہاد وقتال کی آیات سے متعلق یہ بات بالخصوص پوری تحقیق کے ساتھ متعین کرنی چاہیے کہ ان میں کیا چیز شریعت کا حکم اور خدا کا ابدی فیصلہ ہے اورکیا چیز اسی انذار رسالت کے مخاطبین کے ساتھ خاص کوئی قانون ہے جو اب لوگوں کے لیے باقی نہیں رہا۔‘‘ (میزان، ص ۴۸، ۴۹)
’’قرآن میں یہ اسلوب جگہ جگہ اختیار کیا گیا ہے کہ بظاہر الفاظ عام ہیں، لیکن سیاق وسباق کی دلالت پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر دیتی ہے کہ ان سے مراد عام نہیں ہے۔ قرآن ’الناس‘ کہتا ہے، لیکن ساری دنیا کا تو کیا ذکر، بارہا اس سے عرب کے سب لوگ بھی اس کے پیش نظر نہیں ہوتے۔ وہ ’علی الدین کلہ‘ کی تعبیر اختیار کرتا ہے، لیکن اس سے دنیا کے سب ادیان مراد نہیں لیتا۔ وہ ’المشرکون‘ کے الفاظ استعمال کرتا ہے، لیکن انھیں سب شرک کرنے والوں کے معنی میں استعمال نہیں کرتا۔ وہ ’ان من اہل الکتاب‘ کے الفاظ لاتا ہے، لیکن اس سے پورے عالم کے اہل کتاب مراد نہیں ہوتے۔ وہ ’الانسان‘ کے لفظ سے اپنا مدعا بیان کرتا ہے، لیکن اس سے ساری اولاد آدم کا ذکر مقصود نہیں ہوتا۔ یہ قرآن کا عام اسلوب ہے جس کی رعایت اگر ملحوظ نہ رہے تو قرآن کی شرح و وضاحت میں متکلم کا منشا بالکل باطل ہو کر رہ جاتا ہے اور بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے، لہٰذا ناگزیر ہے کہ اس معاملے میں قرآن کے عرف اور اس کے سیاق وسباق کی حکومت اس کے الفاظ پر ہر حال میں قائم رکھی جائے۔‘‘(میزان ص ۲۳، ۲۴)

جزیرۂ عرب سے باہر صحابہ کے جہاد کی نوعیت اور اس کی شرعی اساس کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’قرآن نے بتایا ہے کہ شہادت کا یہ منصب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کو بھی اسی طرح حاصل تھا۔ لہٰذا آپ پر ایمان لانے کے بعد وہ جب ’’خیر امت‘‘ بن کر اٹھے تو ان کے ذریعے سے یہ جزیرہ نماے عرب سے باہر کی اقوام پر بھی قائم ہو گئی۔ قرآن نے صراحت کی ہے کہ ذریت ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے اس شہادت کے لیے اسی طرح منتخب کیا تھا، جس طرح وہ بنی آدم میں سے بعض جلیل القدر ہستیوں کو نبوت ورسالت کے لیے منتخب کرتا ہے۔‘‘(اشراق، مئی ۲۰۰۳، ۴۱، ۴۲)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت جزیرہ نماے عرب سے باہر قریب کی تمام قوموں کے سامنے بھی پیش کر دی اور ان کے سربراہوں کو خط لکھ کر ان پر واضح کر دیا کہ اب اسلام ہی ان کے لیے سلامتی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اس کے معنی یہ تھے کہ خدا کی جو حجت آپ کے ذریعے سے عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ پر قائم ہوئی ہے، وہ آپ کے دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے جزیرہ نما سے باہر کی ان قوموں پر بھی قائم ہو جائے گی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد دنیا ہی میں جزا وسزا کے قانون کا اطلاق ان قوموں پر بھی کیا جائے۔ چنانچہ یہی ہوا اور جزیرہ نما میں اپنی حکومت مستحکم کر لینے کے بعد صحابہ کرام اس اعلان کے ساتھ ان اقوام پر حملہ آور ہو گئے کہ اسلام قبول کرو یا زیردست بن کر جزیہ دینے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اس کے سوا اب زندہ رہنے کی کوئی صورت تمھارے لیے باقی نہیں رہی۔‘‘ (میزان، ص ۶۰۱)

جاوید احمد غامدی کے نزدیک یہ اقدامات چونکہ دراصل ایک سنت الٰہی کا نفاذ تھے، اس لیے ان سے شریعت کا کوئی عمومی حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ لکھتے ہیں:

’’اس کا حکم قرآن میں دو صورتوں کے لیے آیا ہے:
ایک، ظلم وعدوان کے خلاف،
دوسرے، اتمام حجت کے بعد منکرین حق کے خلاف۔
پہلی صورت شریعت کا ابدی حکم ہے اور اس کے تحت جہاد اسی مصلحت سے کیا جاتا ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے۔ دوسری صورت کا تعلق شریعت سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت سے ہے جو اس دنیا میں ہمیشہ اس کے براہ راست حکم سے اور انھی ہستیوں کے ذریعے سے رو بہ عمل ہوتا ہے جنھیں وہ ’’رسالت‘‘ کے منصب پر فائز کرتا ہے۔ ...... اس قانون کی رو سے اللہ کی حجت جب ان رسولوں کے ذریعے سے کسی قوم پر پوری ہوتی ہے تو ان کے منکرین پر اسی دنیا میں عذاب آ جاتا ہے۔ یہ عذاب آسمان سے بھی آتا ہے اور بعض حالات میں اہل حق کی تلواروں کے ذریعے سے بھی۔ پھر اس کے نتیجے میں منکرین لازماً مغلوب ہو جاتے ہیں اور ان کی سرزمین پر حق کا غلبہ پوری قوت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد یہی دوسری صورت پیش آئی۔ چنانچہ آپ کو اور آپ کے صحابہ کو جس طرح ظلم وعدوان کے خلاف قتال کا حکم دیا گیا، اسی طرح اس مقصد کے لیے بھی تلوار اٹھانے کی ہدایت ہوئی۔ یہ خدا کا کام تھا جو انسان کے ہاتھوں سے انجام پایا۔ اسے ایک سنت الٰہی کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔ انسانی اخلاقیات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ’یعذبہم اللہ بایدیکم‘ (اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے سزا دے گا) کے الفاظ میں یہی حقیقت بیان ہوئی ہے۔‘‘ (میزان، ص ۵۷۹، ۵۸۰)
’’یہ محض قتال نہ تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب تھا جو اتمام حجت کے بعد سنت الٰہی کے عین مطابق اور ایک فیصلہ خداوندی کی حیثیت سے پہلے عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ پر اور اس کے بعد عرب سے باہر کی اقوام پر نازل کیا گیا۔ لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ منکرین حق کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کر کے انھیں محکوم اور زیر دست بنا کر رکھنے کا حق ان اقوام کے بعد اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے قتال کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے، اور وہ ظلم وعدوان کے خلاف جنگ ہے۔ اللہ کی راہ میں قتال اب یہی ہے۔ اس کے سوا کسی مقصد کے لیے بھی دین کے نام پر جنگ نہیں کی جا سکتی۔‘‘ (میزان، ص ۶۰۱)

مولانا مودودی کی تعبیر جہاد

عصر حاضر کے ممتاز عالم اور مفکر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے جہاد سے متعلق اسلامی شریعت کے تصور اور اس کے احکام کی تعبیر وتشریح کو ایک خاص زاویے سے موضوع بحث بنایا ہے۔ ان کا نقطۂ نظر اس حوالے سے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ انھوں نے فقہا کے روایتی موقف کے مطابق جہاد وقتال کے اس ہدف سے تو اتفاق کیا ہے کہ اس کے ذریعے سے دنیا کی غیر مسلم اقوام پر اسلام کی سیاسی حاکمیت قائم کر دی جائے، تاہم اس کی فکری اور فلسفیانہ اساس کے ضمن میں انھوں نے فقہا سے مختلف ایک متبادل تعبیر پیش کی ہے۔ مولانا نے اپنے فہم کے مطابق اسلام کے فلسفہ جہاد کو ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کے نام سے اپنی ابتدائی تصنیف میں بھی واضح کیا ہے اور اس کے بعد مختلف تحریروں میں اور بالخصوص ’’تفہیم القرآن‘‘ کے اہم مقامات پر بھی اس کے مختلف پہلووں کی وضاحت کی ہے۔ اس سارے مواد کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مولانا کے فکر وفہم میں ایک ارتقا پایا جاتا ہے، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ میں پیش کی گئی تعبیر اور ’’تفہیم القرآن‘‘ وغیرہ میں اختیار کیے گئے نقطۂ نظر میں زاویہ نگاہ کے لحاظ سے جوہری فرق پایا جاتا ہے۔ یہاں ہم ان کی تحریروں سے سامنے آنے والے ان مختلف زاویہ ہاے نگاہ کا الگ الگ مطالعہ کریں گے۔

الجہاد فی الاسلام

’الجہاد فی الاسلام‘ میں مولانا نے بنیادی طور پر اسلام کے تصور جہاد کی عقلی واخلاقی توجیہ کو موضوع بنایا ہے اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اخلاقیات کے مسلمہ اصولوں کے تحت جہاد کے اس تصور پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ مولاناواضح کرتے ہیں کہ جہاں تک ایمان وعقیدہ اور دین ومذہب کا تعلق ہے تو وہ سراسر انسان کے اپنے ارادہ واختیار پر مبنی ہے اور اس معاملے میں جبر واکراہ کا طریقہ ناجائز ہے۔ اس ضمن میں قرآن مجید میں دی جانے والی ہدایات میں کوئی نسخ واقع نہیں ہوا اور یہ ہدایات بدستور قابل عمل اور محکم ہیں۔ چنانچہ کسی شخص یا گروہ کو اسلام قبول نہ کرنے کے جرم میں تہہ تیغ نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس بنا پر اس کے خلاف اقدام جنگ کیا جا سکتا ہے۔ ان کے نزدیک جہاد وقتال کے لیے وجہ جواز اور نظری اساس دین ومذہب کا اختلاف نہیں، بلکہ معروف اور مسلمہ انسانی اخلاقیات ہے۔ اس ضمن میں مولانا کے استدلال کو حسب ذیل مقدمات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:

۱۔ انسانی تمدن کی بنیاد انسانی جان کی حرمت پر قائم ہے اور انسان کے تمدنی حقوق میں سب سے پہلا حق اس کے زندہ رہنے کا حق ہے۔ یہ نہ صرف تمدن کی تشکیل اور اس کی بقا وارتقا کے لیے ناگزیر ہے، بلکہ کسی فائدے یا عداوت کی خاطر کسی دوسرے انسان کی جان لے لینا فی نفسہ ایک بدترین اخلاقی جرم ہے۔ انسانی جان کی حرمت کا یہ اصول دنیا کے تمام مذاہب، اخلاقی تعلیمات اور تہذیبوں میں مانا گیا ہے اور قرآن مجید نے ناحق کسی ایک انسان کی جان لینے کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔ (ص ۲۳، ۲۴)

۲۔ انسانی جان کو حاصل یہ حرمت مطلق نہیں بلکہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ انسان معاشرت اور تمدن میں جائز حدود کے اندر زندگی بسر کرے اور دوسرے انسانوں کے جان ومال، حقوق ومفادات اور آزادی پر دست درازی نہ کرے۔ اگر کوئی انسان ان حدود کو پامال کر کے کسی کی جان پر تعدی کرے یا فتنہ وفساد کا مرتکب ہو تو اس کی جان کو تحفظ حاصل نہیں رہتا بلکہ فتنہ وفساد کے خاتمے کے لیے اس کے شر سے تعرض کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ قصاص یعنی جان کے بدلے میں جان لینے کا طریقہ اسی اصول پر مبنی ہے اور اس کے بغیر دنیا میں شر وفساد کی جڑ کاٹنا، حق داروں کے حقوق کو محفوظ رکھنا اور سرکشوں کو ان کے جائز حدود میں رکھنا ممکن نہیں۔ (ص ۲۹۔۳۳)

۳۔ سرکشی، تعدی اور فتنہ وفساد کا مرض جس طرح افراد میں پیدا ہو سکتا ہے، اسی طرح گروہ اور جماعتیں بھی اس کی مرتکب ہو سکتی ہیں، چنانچہ قصاص کا یہ قانون جس طرح افراد کے لیے ہے، گروہوں او رجماعتوں کے لیے بھی ہے۔ اگر کوئی گروہ طاقت اور قوت کے بل بوتے پر دوسرے گروہوں کی مال ودولت اور تجارت ومعیشت کو برباد کرنے کی کوشش کرے یا کمزور اور پست طبقات پر اپنی بالادستی قائم کر کے انھیں ظلم وستم کا نشانہ بنائے یا جہانگیری اور کشور ستانی کے شوق میں دوسری قوموں کی آزادی اور خود مختاری کو سلب کرے یا بندگان خدا سے اپنے ارادے اور ضمیر کے مطابق عقیدہ ومذہب کے اختیار کرنے کی آزادی چھین لے تو اس کے خلاف جنگ کرنا اور اس کے ظلم وستم کا خاتمہ کر دینا ایک اخلاقی فرض کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ (ص ۳۴۔۳۶)

۴۔ اس بنیادی مقدمے کے تحت اسلامی شریعت میں دو صورتوں میں جنگ کو مشروع قرار دیا گیا ہے: ایک مدافعانہ جنگ اور دوسری مصلحانہ جنگ۔ مدافعانہ جنگ کا مطلب واضح ہے، یعنی یہ کہ کفار کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے حملوں اور ظلم وزیادتی کی مدافعت کی جائے اور مسلمانوں کے جان ومال اور دین ومذہب کو ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھا جائے۔ جنگ کی دوسری صورت ’مصلحانہ جنگ‘ ہے جس کا مقصد بنی نوع انسان کی اخلاقی تطہیر اور انسانی تمدن سے بدی، شر، منکرات اور فتنہ وفساد کا خاتمہ کرنا ہے۔

۵۔ مذکورہ دو صورتوں میں سے پہلی صورت میں جنگ کی نظری وجہ بھی مسلم اور واضح ہے اور اس پر مبنی شرعی حکم یعنی اپنے خلاف ہونے والی جارحیت کو روکنا اور دشمن سے اس کا انتقام لینا بھی انسانوں کے مابین متفق علیہ اور غیر متنازع فیہ ہے، البتہ دوسری صورت میں جنگ کا مقصد تو معروف اور مسلمہ اخلاقی تصورات سے متعلق ہے، لیکن اس مقصد کے لیے جنگ کا جائز ہونا اسلام کی ایک منفرد تعلیم ہے جو بذات خود اخلاقیات کے ایک اعلیٰ اور بے غرض تصور پر مبنی ہے۔ مولانا کی راے میں امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری اس کے مقصد وجود کے لحاظ سے عائد ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ’خیر امت‘ کا لقب دیا ہے اور اس کی ذمہ داری یہ بیان کی ہے کہ وہ اپنی قومی حیثیت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔ چنانچہ اگر منکرات کے شیوع اور برائیوں کے فروغ کے نتیجے میں دنیا کی قوموں کی اخلاقی، مادی اور روحانی زندگی برباد ہو رہی ہو تو ایک طرف نیکی کے ساتھ محبت اور بدی کے ساتھ نفرت اور دوسری طرف بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی او رخیر خواہی کا جذبہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان اقوام عالم کی اصلاح کے لیے ہر قسم کی صلاحیت اور قوت و طاقت کو استعمال میں لائیں اور بدی کو مٹانے اور نیکی کو قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔

۶۔ اقوام عالم کی اصلاح کا یہ ہدف محض وعظ ونصیحت اور دعوت وتبلیغ کے ذریعے سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ انسانی تمدن میں اجتماعی سطح پر پیدا ہونے والی تمام اخلاقی خرابیوں کا منبع اور مصدر ایک فاسد نظام حکومت ہوتا ہے۔ ایسا نظام حکومت حق شناسی اور خدا ترسی جیسے اوصاف سے محروم ہوتا ہے اور برائیوں کو پیدا کرنے اور ان کو بقا اور تسلسل دینے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ چنانچہ بدی کے استیصال اور بدکاری کے دفع وانسداد کے لیے ضروری ہے کہ محض دعوت وتبلیغ سے آگے بڑھ کر جنگ وقتال کے ذریعے سے ایسی تمام حکومتوں کو مٹا دیا جائے اور ان کی جگہ خوف خدا اور انسان دوستی پر مبنی ایک عادلانہ ومنصفانہ نظام حکومت قائم کیا جائے جس کا نصب العین نیکی کو پروان چڑھانا اور بدی کو مٹانا ہو اور جس کے کارکنان صرف انسانیت کی بہتری اور خدا کی خوشنودی کے لیے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ (الجہاد فی الاسلام ص ۱۱۷، ۱۲۰)

مولانا مودودی کے اصولی نقطۂ نظر کی وضاحت کے بعد اب ہم بحث کے بنیادی اور اہم نکات کے حوالے سے اس کا ایک تنقیدی جائزہ لیں گے:

۱۔ سب سے پہلا اور اہم سوال یہ ہے کہ مولانا سورۃ براء ۃ میں مشرکین کو قتل کرنے اور اہل کتاب سے جزیہ وصول کرنے کے احکام کا کیا محل بیان کرتے ہیں۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ ان نصوص میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے باجود آپ پر ایمان نہ لانے والے گروہوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا بیان کی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان احکام کے پس منظر میں عقیدہ ومذہب کا اختلاف واضح طور پر کارفرما ہے۔ تاہم ’الجہاد فی الاسلام‘ میں مولانا نے ان نصوص کی تعبیر کرتے ہوئے حکم کی اس اساس کی واضح طور پر نفی کی اور اس کی تشریح کفر وایمان کی اساس پر کرنے والے اہل علم کے موقف کو غلط ٹھہرایا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’اسلام کی تلوار ایسے لوگوں کی گردنیں کاٹنے کے لیے تو ضرور تیز ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں یا اللہ کی زمین میں فتنہ وفساد پھیلاتے ہیں——اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس تیزی میں وہ حق بجانب نہیں ہے——لیکن جو لوگ ظالم نہیں ہیں، جو بدکار نہیں ہیں، جو صد عن سبیل اللہ نہیں کرتے، جو دین حق کو مٹانے اور دبانے کی کوشش نہیں کرتے، جو خلق خدا کے امن واطمینان کو غارت نہیں کرتے، وہ خوہ کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں اور ان کے دینی عقائد خواہ کتنے ہی باطل ہوں، اسلام ان کی جان ومال سے کچھ تعرض نہیں کرتا۔ان کے لیے اس کی تلوار کند ہے اور اس کی نظروں میں ان کا خون حرام ہے۔‘‘ الجہاد فی الاسلام ص ۱۵۶)

ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:

’’مذہب کے معنی عام اصطلاح کے اعتبار سے بجز اس کے اور کیا ہیں کہ وہ چند عقائد اور چند عبادات اور مراسم کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے مذہب کو واقعی ایک پرائیویٹ معاملہ ہی ہونا چاہیے۔ آپ کو اختیار ہے کہ جو عقیدہ چاہیں رکھیں اور آپ کا ضمیر جس کی عبادت کرنے پر راضی ہو، اس کو جس طرح چاہیں پکاریں۔ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی جوش اور سرگرمی آپ کے اندر اس مذہب کے لیے موجود ہے تو آپ دنیا بھر میں اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے پھریے اور دوسرے عقائد والوں سے مناظرے کیجیے۔ اس کے لیے تلوار ہاتھ میں پکڑنے کا کون سا موقع ہے؟ کیا آپ لوگوں کو مار مار کر اپنا ہم عقیدہ بنانا چاہتے ہیں؟ یہ سوال لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے جبکہ آپ اسلام کو عام اصطلاح کی رو سے ایک ’’مذہب‘‘ قرار دے لیں، اور یہ پوزیشن اگر واقعی اسلام کی ہو تو جہاد کے لیے حقیقت میں کوئی وجہ جواز ثابت نہیں کی جا سکتی۔‘‘ (تفہیمات ۱/ ۷۶)

اس بنیادی نکتے کی روشنی میں انھوں نے سورۂ براء ۃ کے حکم ’فاقتلوا المشرکین‘ کا ذکر ’’دغا بازی وعہد شکنی کی سزا‘‘ کے زیر عنوان مدافعانہ جنگ کی ایک ذیلی صورت کے طور پر کیا ہے اور اس کی اساس عقیدہ ومذہب کے بجائے مشرکین کے فتنہ وفساد اور نقض عہد کو قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکم عرب کے تمام مشرکین کے بارے میں نہیں، بلکہ صرف ان مشرکوں سے متعلق تھا جنھوں نے مسلمانوں کے خلاف بار بار نقض عہد اور فتنہ وفساد کا ارتکاب کیا تھا۔ (ص ۶۷۔۷۰) مولانا یہاں قتل کے حکم کو بھی کوئی حتمی اور متعین حکم نہیں سمجھتے، بلکہ ان کی رائے میں حکم کامقصد یہ ہے کہ ’’جو لوگ بار بار بد عہدی ودغا بازی کریں اور جن کے عہد واقرار کاکوئی اعتبار نہ رہے اور جو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں اخلاق وانسانیت کے کسی آئین کا لحاظ نہ رکھیں، ان سے دائمی جنگ کا حکم ہے اور صرف اسی صورت میں ان سے صلح ہو سکتی ہے کہ وہ توبہ کریں اور اسلام لے آئیں، ورنہ ا ن کے اثر سے اسلام اور دار الاسلام کو محفوظ رکھنے کے لیے قتل، گرفتاری، محاصرہ اور ایسی ہی دوسری جنگی تدابیر اختیار کرتے رہنا ضروری ہے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۷۰) ’واحصروہم‘ کا ترجمہ انھوں نے یہ کیا ہے کہ ’’اور انھیں گھیر کر محصور کرو (تاکہ بلاد مسلمین میں نہ آ سکیں)‘‘۔ (الجہاد فی الاسلام ص ۶۸) ’فاقتلوا المشرکین‘ کی مذکورہ توجیہ ہی کا نتیجہ ہے کہ مولانا جزیہ قبول کرنے کے معاملے میں مشرکین عرب اور باقی کفار میں کوئی فرق تسلیم نہیں کرتے اور ان کے نزدیک کفا رکے تمام گروہوں سے جزیہ وصول کر کے انھیں اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۶۳، ۱۶۴)

جہاں تک اہل کتاب سے قتال کر کے ان سے جزیہ وصول کرنے کا حکم ہے تو مولانا نے اسے ’مصلحانہ جنگ‘ کے لیے ماخذ قرار دیا ہے اور اس کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ ’’اگر وہ دین حق کو نہیں مانتے تو انھیں اس امر کی آزادی تو دی جا سکتی ہے کہ ماتحت رہ کر اپنے غلط عقائد اور طریقوں پر قائم رہیں، لیکن اس امر کی آزادی نہیں دی جا سکتی کہ اپنے باطل قوانین کو نافذ کر کے اللہ کی زمین میں فتنہ وفساد برپا کریں۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ۱۲۱) مولانا اس حکم کا محرک بھی کفر و ایمان کے اختلاف کو تسلیم نہیں کرتے، چنانچہ انھوں نے آیت میں بیان ہونے اہل کتاب کے اوصاف یعنی ’لا یومنون باللّٰہ ولا بالیوم الآخر.....‘‘ کو قتال کا باعث ماننے کے بجاے محض ان ’’خصوصیات‘‘ کا بیان قرار دیا ہے جن کی وجہ سے اہل کتاب ’’فتنہ وفساد برپا کرنے لگے‘‘۔ (ص ۱۲۱) حکم کی غایت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’قتال کا یہ حکم کسی مذہبی عداوت کی بنا پر نہیں ہے، ورنہ یہ نہ ہوتا کہ اطاعت قبول کرنے سے پہلے جن کے ساتھ جنگ کرنا ضروری ہے، انھی کی جان ومال، اطاعت قبول کرنے کے بعد اس طرح قابل احترام ہو جائے، حالانکہ اطاعت کرنے والوں کے ساتھ مذہبی عداوت کی بھڑاس نکالنا زیادہ آسان ہے۔ علیٰ ہذا القیاس یہ بات بھی بعید از عقل ہے کہ اس حکم قتال کا مقصد محض جزیہ حاصل کرنا ہو۔ کیونکہ چند درہم سالانہ کے عوض اتنی بڑی ذمہ داری اپنے اوپر لے لینا کہ ان کی حفاظت کے لیے ہر دشمن کے سامنے اپنا سینہ سپر کر دیا جائے، کسی طمع پر مبنی نہیں ہو سکتا۔ ..... پس ادائے جزیہ پر قتال کی اباحت ختم کر دینے اور قبول جزیہ کے بعد قیام عدل وامن کی تمام ذمہ داریاں اپنے اوپر لے لینے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس جنگ کا مقصد دراصل ان لوگوں کو فتنہ وفساد سے روکنا اور امن وآئین کا پابند بنانا ہے اور ان پر جزیہ کے نام سے ٹیکس عائد کرنا صرف اس لیے ہے کہ وہ اس حفاظت وصیانت کے مصارف میں شرکت کریں جو انھیں بہم پہنچائی جاتی ہے، اور اطاعت وانقیاد پر قائم رہیں۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۲۳)
’’ٹھیک اسی لمحہ سے اس کا خون حرام ہو جاتا ہے، اس کے مال اور اس کی آبرو کی حفاظت مسلمانوں پر لازم ہو جاتی ہے اور اسلام کی پرامن حکومت میں اس کو پوری آزادی دے دی جاتی ہے کہ تمام جائز طریقوں سے اپنی دولت، اپنی صنعت وتجارت، اپنے علوم وآداب، اپنے تہذیب وتمدن، غرض اپنی اجتماعی وانفرادی زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کرے اور انسانیت کے بلند سے بلند مدارج تک پہنچنے کے لیے جن جن وسائل کی ضرورت ہو، انھیں آزادی کے ساتھ استعمال کرے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام ص ۱۲۶، ۱۲۷)

’جزیہ‘ کو ذلت اور رسوائی کی علامت اور کفار کے کفر کی سزا قرار دینے کے فقہی موقف سے اختلاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’غیر مسلموں پر جو جزیہ عائد کیا جاتا ہے، وہ درحقیقت کوئی سزا نہیں ہے، بلکہ اس کا مدعا صرف یہ ہے کہ امن و آئین کے پابند ہوں، رضا ورغبت کے ساتھ قانون عدل کی اطاعت کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق اس حکومت کے مصارف ادا کریں جو انھیں پر امن زندگی بسر کرنے کا موقع دیتی ہے، ظلم وتعدی سے محفوظ رکھتی ہے، انصاف کے ساتھ حقوق تقسیم کرتی ہے، قوت والوں کو کمزوروں پر ظلم کرنے سے روکتی ہے، کمزوروں کو قوت والوں کا غلام بنانے سے بچاتی ہے، اور تمام سرکش عناصر کو اخلاق وانسانیت کے حدود کا پابند بناتی ہے۔‘‘(الجہاد فی الاسلام، ص ۱۲۵)

اس تفصیل سے واضح ہے کہ مولانا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے جہاد سے متعلق جملہ نصوص اور واقعات کی توجیہ اصلاً ان کی منصوص اساس سے ہٹ کر بلکہ اس کی نفی کرتے ہوئے کی ہے اور اس ضمن میں ان کا نقطہ نظر متعلقہ نصوص کے علاوہ مسلمہ فقہی موقف سے بھی بالکل مختلف ہے، اس لیے کہ فقہا جہاد کا مقصد اعلاء کلمۃ اللہ اور اعزاز دین کو قرار دیتے ہیں اور اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ کفر اسلام کے مقابلے میں سربلند ہو کر نہیں بلکہ ذلیل اور پست ہو کر رہے اور کفار کو سیاسی لحاظ سے اس طرح خود مختار، مجتمع اور طاقت ور ہونے کا موقع نہ ملے کہ وہ اہل اسلام کے خلاف فتنہ وفساد کا بازار گرم کر سکیں۔ گویا فقہا جہاد کے باب میں کفر وایمان کے اختلاف کو ظلم وعدوان اور فتنہ وفساد سے علیحدہ ایک مستقل علت اور وجہ جواز قرار دیتے ہیں اور ان کی رائے میں مشرکین کو قتل کرنے کا حکم بھی ایمان نہ لانے کی بنیاد پر دیا گیا تھا اور اہل کتاب پر محکومی ومغلوبیت کی سزا بھی دین حق کی پیروی اختیار نہ کرنے ہی کی پاداش میں مسلط کی گئی تھی، جبکہ مولانا مودودی کی تعبیر کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ ایک مخصوص ’عقیدے‘ کی حیثیت سے اسلام کو بالجبر لوگوں سے منوانا یا اس کے نہ ماننے پر انھیں کوئی سزا دینا اپنے لیے کوئی وجہ جواز نہیں رکھتا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا جنگ کی وجہ فتنہ کو قرار دیتے ہوئے ’وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ‘ کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں، لیکن اس سے اگلے جملے ’ویکون الدین للّٰہ‘ سے کوئی تعرض نہیں کرتے، حتیٰ کہ متعدد مقامات پر اس آیت کو نقل کرتے ہوئے انھوں نے ’ویکون الدین للّٰہ‘ کا جملہ کاٹ کر اسے نقل کیا ہے۔ (الجہاد فی الاسلام ص ۴۰، ۱۰۴، ۱۲۶) جبکہ ’کلمۃ اللہ ہی العلیا‘ کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ’’کافروں کے خود ساختہ قوانین کا منسوخ ہو جانا اور ان کی جگہ اللہ کے اس قانون عدل کا بول بولا ہونا جو بنی نوع انسان کے درمیان ہر قسم کے شیطانی امتیازات کو مٹا کر صرف حق وباطل اور بدی وتقویٰ کا امتیاز قائم کرتا ہے اور ظالموں کے سوا ہر شخص کو امن وآزادی کی خوشخبری دیتا ہے۔‘‘ (ص ۱۲۶)

اہل ذمہ کے حوالے سے عہد صحابہ اور بعد کی فقہی روایت میں جو قوانین اور احکام بیان ہوئے ہیں، ان کی تعبیر میں بھی مولانا کا طرز فکر معروضی نہیں۔ مثال کے طور پر صحابہ نے آیت جزیہ میں ’وہم صاغرون‘ سے استنباط کرتے ہوئے اپنے دورمیں مفتوح ہونے والے غیر مسلموں کے لیے بہت سے امتیازی قوانین اور علامات مقرر کی تھیں جس کا مقصد انھیں توہین وتحقیر کا احساس دلانا تھا۔ مولانا ان کے اس اقدام کی توجیہ بالکل الٹ کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں:

’’اس میں شک نہیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے زمانہ کے بعض معاہدات میں اس قسم کی شرط موجود ہے کہ اہل الذمہ ایک خاص قسم کا لباس نہ پہنیں اور مسلمانوں سے مشابہت نہ اختیار کریں۔ .... امام ابویوسف نے بھی اپنی کتاب الخراج میں اس قسم کے احکام بیان کیے ہیں کہ ذمیوں کو مسلمانوں کے ساتھ وضع قطع میں مشابہت اختیار نہ کرنی چاہیے۔ یہ سب احکام بلاشبہ ہمارے ائمہ سے منقول ہیں، لیکن ان کا مقصد دراصل تحقیر نہیں ہے بلکہ مختلف ملتوں کے لوگوں کو باہم خلط ملط ہونے سے روکنا ہے۔ چنانچہ جس طرح ذمیوں کو مسلمانوں کے ساتھ تشبہ اختیار کرنے سے روکا گیا ہے، اسی طرح مسلمانوں کو بھی ذمیوں کے مشابہ بن کر رہنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ لباس کے تشبہ میں جو مفاسد پوشیدہ ہیں، ان سے اسلام غافل نہیں ہے۔ خصوصیت کے ساتھ محکوم قوموں میں اکثریہ عیب پیدا ہو جایا کرتا ہے کہ وہ اپنے قومی لباس اور اپنی قومی معاشرت کو ذلیل سمجھنے لگتے ہیں اور حاکم قوم کا لباس اور طرزمعاشرت اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ...... نفسیات محکومیت کے اس نکتہ کو ائمہ اسلام خوب سمجھتے تھے، اس لیے نھوں نے اہل الذمہ کو تشبہ بالمسلمین سے منع کر کے ان کی تذلیل وتحقیر نہیں کی بلکہ ان کی قومی عزت وشرافت کو برقرار رکھا۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ۲۹۸-۳۰۱)
’’بد قسمتی سے فقہاے متاخرین نے بھی اس کی غرض تحقیر ہی سمجھی ہے اور اسی لیے اپنی کتابوں میں لکھ دیا ہے کہ ہذا لاظہار آثار الذلۃ علیہم، لیکن ائمہ سلف سے اس قسم کا کوئی قول منقول نہیں ہے۔‘‘ (حاشیہ ص ۳۰۰)

_________________

B