HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عقیل احمد

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

انسانیت کے دشمن

کراچی میں آج ہنگاموں کا چوتھا دن تھا ہنگاموں کی وجہ سے پورا شہر بند تھا ۱۰۰ سے زائد بے گناہ لوگ قتل کر دیے گئے تھے انسانیت کے دشمن مورچہ بند ہو کر ایک دوسرے پر گولیاں برسا رہے تھے۔ حیدر ایک دیہاڑی دار مزدور تھا چار دن سے گھرمیں ہونے کی وجہ سے اس کے گھر میں فاقے ہو رہے تھے کبھی وہ اپنے بچے کی طر ف اور کبھی اپنی بیوی کی طرف دیکھ رہا تھا لیکن آج اس نے ایک فیصلہ کیا اور مزدوری کے لیے گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ شام کا دھندلکا رات کے گہرے دبیز اندھیرے میں گم ہو گیا، نیلگوں فلک پر ننھے ننھے ستارے مسکرا اٹھے افق کی مغربی سمت بادلوں کے بے ترتیب ٹکڑے پھیلنے لگے، اچانک ایک بہت بڑا جلوس آتا دکھائی دیا پھر آگے شعلے ہوا میں بھڑک اٹھے چاروں طرف گولیوں اور بموں کی آوازیں گونجنے لگیں جس کے درمیان کبھی کبھی کوئی چیخ سنائی دے دیتی۔ عورتوں اور بچوں کا شور، مردوں کے نعرے، کتوں کا بھونکنا، یہ سب مل کر کتنا وحشت انگیز ہو گیا تھا۔ سکون کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔

قائد کے شہر میں ایک دفعہ پھر قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو گیا تھا۔ اور وہ اپنی دہلیز پر بیٹھا اپنے بابا کا انتظار کر رہا تھا جو ان کی بھوک کو دیکھتے ہوئے مزدوری کے لیے نکل پڑا تھا وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں انسانیت کے دشمنوں نے اس کے بابا کو مار تو نہیں دیا، طرح طرح کی الٹی سیدھی باتیں اس کے معصوم ذہن میں چکر کاٹ رہی تھیں۔ اچانک اسے سامنے سے بابا آتے دکھائی دیے۔ وہ خوش ہو کر اٹھا اور دوڑ کر گھر کے اندر گیا۔ ماں! ماں!! بابا آگئے۔ ٹوٹی چارپائی پر بیٹھی اس کی ماں اپنے شوہر کا انتظار کر رہی تھی۔ جب اس نے یہ خبر سنی، تو دروازے کی طرف دوڑ پڑی لیکن یہ کیا؟ باہر تو منظر کچھ اور ہی تھا۔ اس کے شوہر کو دس پندرہ آدمی گھیرے ہوئے تھے ان سب کے پاس بندوقیں تھیں۔

اُنھوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اس کو گولیاں مار دیں۔ اور وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ ماں! ماں دیکھا ان ظالموں نے کتنی بے دردی سے میرے بابا کو مار ڈالا۔ میرے بابا نے ان ظالموں کا کیا بگاڑا تھا۔ نہ جانے آج پھر کتنے بابا اپنے معصوم بچوں سے جدا ہو گئے ہوں گے۔ وہ رو رو کر اپنی ماں سے بولے جا رہا تھا۔

ماں تم بولتی کیوں نہیں؟ ماں مجھے بھی ایک بندوق دو میں ابھی بابا کے قاتلوں سے بدلہ لے کر آتا ہوں۔ وہ گھوم کر اپنی ماں کی طرف دیکھتا ہے یہ کیا؟ اس کی ماں اس دنیا سے گزر چکی تھی کسی ظالم نے اس کو بھی گولی مار دی تھی۔ وہ اپنی ماں سے لپٹ کر زار و قطار رونے لگا۔ وہ لپٹ کر روتا رہا۔ یہاں تک کہ چاند کی چاندنی پھیکی ہو گئی۔ ستارے ماند پڑ گئے رات نے اپنا کالا آنچل سمیٹ لیا۔ صبح ہو چکی تھی۔ آ ج سارے شہر میں کرفیو نافذ تھا۔ کرفیو کی وجہ سے پورے شہر میں خاموشی کا راج تھا۔ پڑوس میں رہنے والا لڑکا اس کے قریب آیا۔ اور ہاتھ پکڑ کر رونے لگا۔ یوسف تم کیوں رو رہے ہو۔ کیا بتاؤں رحیم میرے اماں ابا کو تمہاری ذات والوں نے مار دیا ،یوسف نے روتے ہوئے کہا اور ادھر میرے ماں باپ کو تمہاری ذات والوں نے مار دیا ہے ، ذات برادری نے ہمیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا۔

ذات برادری کے نام پر یہاں انسان نفرتیں تقسیم کرتا ہے فساد برپا کر تا ہے اور بے گناہ انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتا ہے۔ یہاں کوئی پٹھان نہیں کوئی مہاجر نہیں،کوئی سندھی نہیں سبھی انسانیت کے دشمن ہیں۔ چلو ہم انسانوں کے اس جنگل سے کہیں دور چلیں۔

غموں سے لدے ہوئے، یوسف خان اور رحیم قریشی ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ ان کے معصوم ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات جنم لے رہے تھے مگر وہ اپنے سوالوں کے جواب کس سے پوچھیں، کس سے مانگیں؟

خاموش ہو چکا سارا شہر، مردہ ہو چکی ہے روح، دوڑ رہی ہیں جیپیں سارے شہر میں جلتے بجھتے لال بلب والی، اور جاگتے شہر کو نیند آ چکی ہے۔ دوڑتی ہوئی جیپ کو دیکھ کر بھاگ رہے ہیں دہی بھلے والے، پانی پوری والے اور ہوٹلوں کے چولہے بجھ چکے ہیں۔ سارے علاقے میں ایف سی اور رینجرز گشت لگا رہی ہیں۔ فائرنگ کرنے والے اب خاموش ہو چکے تھے۔ ایف سی اور رینجرز کا رعب اتنا زبردست تھا کہ سارا شہر چار دن بعد بالکل خاموش ہو گیا تھا۔ کیا مجال جوکوئی آواز نکالے۔ سڑک سنسان تھی، کتے بھونک رہے تھے لیکن وہ دونوں بھی اپنی آنکھوں میں ان گنت سوال لیے قانون کے محافظوں کی گولی کی زد میں آکر وہیں ڈھیر ہو گئے۔

 ______________

B