HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

دین میں ظاہر داری / جھوٹ کا اثر

دین داری عام طور پر ظاہری رکھ رکھاؤ یا رسوم و رواج کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ چنانچہ اعمال وکلمات کے پیچھے کارفرما اصل روح نظر انداز کر دی جاتی ہے۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نماز، روزہ اور صدقہ وخیرات کے لیے ظاہر ی آداب یا کچھ رسوم کی پاس داری کے لیے بہت کچھ زورجذبے سے کام لیا جاتاہے، لیکن ان کے ساتھ وابستہ وہ ذہنی اور قلبی کیفیت بالکل مفقود ہوتی ہے، جس کے بغیر کوئی نیکی بارگاۂ ایزدی میں شرف باریابی سے ہم کنار نہیں ہو سکتی۔

نماز میں ٹوپی سے سر ڈھانپنا، پائنچوں کا ٹخنوں سے اونچا ہونا اور قیام و سجود میں نمازی کی ہیئت جیسے ظواہر، بالعموم، زیر بحث آجاتے ہیں۔ لیکن اللہ کی یاد، اعتدال وتوازن، اور جو کچھ پڑھا جاتاہے اس کے فہم وادراک جیسی اصل اہمیت کی چیزیں کم ہی التفات کے قابل ٹھیرتی ہیں۔

اسی طرح روزے میں سحروافطار کے وقت کی تعیین اور کھانے پینے کی چیزوں کی خریدوفروخت پر پابندی جیسے مسائل ہماری توجہات کے زیادہ حق دار قرار پاتے ہیں، لیکن للٰہیت، ترک لذت کے جذبے اور تقویٰ کی آب یاری کے لیے کاوشوں کو کم ہی اہمیت دی جاتی ہے۔

صدقہ و خیرات کا عمل تو، بالعموم، ظاہری رسوم تک محدود ہو جاتاہے۔ یہ من گھڑت چہلم اور قل، گیارہویں اور میلاد کی مجلسیں، عید میلاد کے موقع پر جلوس اور بازاروں کی تزیین اور آرایش اور اسی طرح رمضان میں شان وشوکت کے اظہار پر مبنی افطاریاں، ہم مسلمانوں کے جذبۂ ایثار کی تکمیل کر دیتی ہیں۔ لیکن خیرات کا وہ عمل بالکل معدوم ہوتا جا رہا ہے جس میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ سے بے خبر رہتا ہے۔ بھوکا سونے والے ہم سائے کی خبر گیری کے لیے بے چینی، بے آسرا یتیموں اور بے سہارا بیواؤں کی مدد کے لیے سرگرمی اور دین کے فروغ کے لیے بڑھ چڑھ کر مالی تعاون کے جذبات ہمارے اہل خیر میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔

اذان سے پہلے درودوسلام، نماز کے بعد بعض کلمات کا ورد اور اسی طرح کے بعض دوسرے مسائل بہت کچھ بحث و جدال کا سامان بنتے ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی عقیدت کہ آدمی اس دین سے سرموانحراف یا اس پر ذرہ برابر اضافے کے لیے تیار نہ ہو جو نبی اکرم نے ہمیں سکھایا ہے، ناپید ہوتی جارہی ہے۔ آپ سے عقیدت ومحبت قلب وذہن کی زندگی ہے، لیکن اس کے خود ساختہ معیارات کی تبلیغ کچھ ایسے شدومد سے کی جاتی ہے کہ غالباً حقیقی دین یہی ہے۔ لیکن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ:

’’اللہ تعالیٰ تمھاری صورتوں اور تمھارے جسموں کو نہیں دیکھتے، ان کی نظر تو تمھارے دلوں پر ہے۔‘‘ (مسلم)

اگر ہمارے دل دین کی روح اور حقیقت سے خالی ہیں تو پھر ہمارے یہ ظاہری اہتمام کیسے شرف قبولیت سے بہرہ ور ہوں گے!

برا عمل دل پر برے اثرات مرتب کرتا ہے۔ دل کی طہارت اور صفائی کے لیے برائی کے سرزد ہونے کے فوراً بعد تائب ہونا ضروری ہے، خواہ یہ برائی بظاہر بہت معمولی کیوں نہ ہو۔ اس طرح بعض برائیاں دوسری برائیوں کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ چنانچہ ایسی برائیوں سے اجتناب بہت ضروری ہے، ورنہ آدمی برائیوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔

جھوٹ ایک ایسی برائی ہے۔ گھر کے معمولی معاملات سے لے کر تجارت اور سیاست تک، ہر شعبے میں ہونے والے بڑے بڑے جرائم کی بنا، بالعموم، جھوٹ ہی سے پڑتی ہے۔

اس کے برعکس سچ نیکی اور خیر کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔ ایک راست گو آدمی اپنے معاملات، لین دین اور تعلقات میں بھی سچا اور دیانت دار ثابت ہوتا ہے۔ جس طرح جھوٹ کی زنجیر میں برائیاں بندھی چلی آتی ہیں اور ان سے بچنا، بسااوقات، ناممکن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سچ نیکیوں کے جلو میں چلتا ہے اور آدمی کو برائیوں کے اثرات بد سے بچنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔

اس حقیقت کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی خوبی سے واضح کیا ہے:

’’ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سچ فرماں برداری کی راہ دکھاتا ہے اور فرماں برداری جنت کی راہ ہموار کرتی ہے۔ آدمی سچ کو اپنا معمول بنا لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے ’’صدیق‘‘ لکھ دیا جاتا ہے۔ جھوٹ نافرمانی کی بنیاد بنتا ہے اور نافرمانی آگ کی طرف لے جانے والی چیز ہے۔ آدمی جھوٹ بولتا رہتاہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں اسے ’’کذاب‘‘ لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘ (متفق علیہ)

قرآن مجید نے خدا اور بندے کے تعلق کو ’’بندگی‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے: ’وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون‘، ’ اور ہم نے انسانوں اور جنوں کو صرف ’’بندگی‘‘ کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔‘ ’’بندگی‘‘ عبادت اور فرماں برداری کی جامع ہے۔ یعنی، بندۂ مومن صرف پروردگار عالم کی پوجا اور پرستش ہی نہیں کرتا، اس کے احکامات کی بے چون و چرا تعمیل بھی کرتا ہے۔ اسی اطاعت گزاری کو اس حدیث میں فرماں برداری کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ کو اسی فرماں برداری کی کلید قرار دیا ہے۔

انبیا جب دعوت لے کر کھڑے ہوتے ہیں، تو ان کی دعوت قبول کرنے اور اس کے علم کو اٹھانے والے لوگوں کو قرآن مجید نے ’’صدیق‘‘ قرار دیا ہے۔ یہ کسی مومن کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے کہ وہ خدا کے ہاں صدیق قرار پائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو صدیق کے مرتبے پر فائز ہونے کی خوش خبری دی ہے جو سچ کے دامن کواپنی زندگی کے کسی گوشے اور کسی لمحے میں بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔

سچ جس قدر خیروبرکت کی چیز ہے، جھوٹ اسی نسبت سے باعث آلام اور اندوہناک ہے۔ اس کو اپنی زندگی بنا لینے والا شخص ’’کذاب‘‘ یعنی منکر دعوت ورسالت قرار پا سکتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ چیز آگ کے عذاب ہی کا باعث بنے گی۔

 _____________

B