HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت جعفر طیار رضی ﷲ عنہ

حضرت جعفر بن ابو طالب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سگے چچا ابوطالب (اصل نام: عبد مناف بن عبدالمطلب بن ہاشم) کے بیٹے تھے۔ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم ان کی والدہ تھیں، ہاشم، جعفر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا ہونے کے ساتھ جعفر کے نانا بھی تھے۔ حضرت علی اور عقیل ان کے سگے بھائی تھے۔ حضرت علی ان سے دس برس چھوٹے تھے،عقیل بن ابوطالب جعفر سے دس سال اور طالب بیس سال بڑے تھے۔ حضرت جعفر کی کنیت ابوعبداﷲ تھی۔

مکہ میں ایک بار شدید قحط پڑا۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب اس وقت بھی بہت خوش حال تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اور فرمایا، آپ کے بھائی ابوطالب کثیر العیال ہیں،اس قحط میں ہم ان کا بوجھ بانٹ لیتے ہیں۔ ایک بیٹا میں لے لیتا ہوں ،ایک آپ لے لیں اور ہم ان کی پرورش کر دیتے ہیں۔ انھوں نے اس تجویزسے اتفاق کر لیا۔ابوطالب سے بات ہوئی تو انھوں نے کہا ،عقیل اور طالب کو میرے پاس رہنے دو۔تب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدنا علی کو اور عباس نے حضرت جعفرکو اپنی پرورش میں لے لیا۔اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے تک جعفرعباس ہی کے پاس رہے۔

حضرت جعفر ’’السابقون الاولون‘‘ میں شامل تھے، (۶۱۳ء میں)دعوت حق پر لبیک کہنے والوں کی تعدادپچیس (یا اکتیس) ہوچکی تھی کہ انھوں نے اسلام قبول کیا۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابھی دار ار قم میں منتقل ہو کر دعوت دین کا کام شروع نہ کیا تھا۔

ایک بار ابو طالب نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت علی کو نماز پڑھتے دیکھا، سیدنا علی آپ کے دائیں طرف تھے۔ انھوں نے جعفر سے کہا، اپنے تایا زاد کے ساتھ نماز پڑھو ، اس کے بائیں طرف کھڑے ہو جاؤ۔

حضرت جعفر بن ابو طالب کو حبشہ و مدینہ دونوں ہجرتوں کا شرف حاصل ہوا۔رجب ۵ نبوی(۶۱۵ء)میں رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش کی ایذا رسانیوں کو دیکھ کر صحابہ کو مشورہ دیا کہ حبشہ (Abyssinia, Ethiopia) کو ہجرت کر جائیں ۔فرمایا، وہاں ایسا بادشاہ (King of Axum) حکمران ہے جس کی سلطنت میں ظلم نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ سب سے پہلے عثمان بن عفان ،ابو حذیفہ بن عتبہ،زبیر بن عوام، عبدالرحمان بن عوف،مصعب بن عمیر،عثمان بن مظعون،عامر بن ربیعہ، ابوسبرہ،سہیل بن بیضا اور ابو سلمہ اپنے گھر والوں کو لے کر(کل تعداد پندرہ) روانہ ہوئے۔ اسے ہجرت اولیٰ کہا جاتا ہے۔ چند ماہ کے بعد دو کشتیوں پر سوار ۶۷ اہل ایمان کا دوسرا گروپ نکلا جس کی قیادت حضرت جعفر بن ابوطالب نے کی ۔کچھ لوگ اسے ہجرت ثانیہ کہتے ہیں، لیکن اصل میں یہ پہلی ہجرت ہی کا دوسرا مرحلہ تھا۔ دونوں گروپوں کے مہاجرین کی مجموعی تعداد تراسی ہو گئی۔ نجاشی اور اس کے مصاحبین حضرت جعفر کے ہاتھ پر ایمان لائے۔ انھوں نے امہری زبان(Amharic) میں مہارت حاصل کر لی اور نجاشی کے ترجمان کا کام بھی کرتے رہے۔

مشرکین مکہ کو علم ہوا کہ مہاجرین حبشہ میں اطمینان و سکون کی زندگی گزار رہے ہیں تو انھوں نے باہمی مشورہ سے عبداﷲ بن ابوربیعہ(یا عمارہ بن ولید) اور عمرو بن عاص کو بھیجا۔ نجاشی اور حبشہ کے تمام جرنیلوں اور مذہبی پیشواؤں کے لیے الگ الگ تحائف لے کر دونوں مکہ سے روانہ ہوئے۔تب مکہ کا چمڑا بہت قیمتی سمجھا جاتا تھا،انھوں نے بہت سا چمڑا اکٹھا کیا۔ ہر وزیر اورپیشوا کو تحفہ نذر کیا اور کہا،ہمارے کچھ نادان نوجوانوں نے تمھارے ملک میں پناہ لے لی ہے۔اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا ہے اور تمھارے دین کو بھی اختیار نہیں کیا۔ سرداران قوم نے انھیں واپس لے جانے کے لیے ہمیں ذمہ داری دی ہے ،ہم شاہ حبشہ سے یہ درخواست کریں گے تو ہماری تائید کرنا۔آخر میں وہ نجاشی کے پاس پہنچے، اسے سجدہ کیا ،عمرواس کے دائیں اور عمارہ بائیں طرف بیٹھ گیا اور اپنی بات دہرائی۔ درباریوں نے ان کا مطالبہ مان لینے کا مشورہ دیا تو نجاشی غصے میں آ گیا اور کہا ، چند افراد نے تمام ہمسایہ قوتوں کو نظرانداز کر کے میرے پاس پناہ لی ہے ۔میں ان کو بات کرنے کا موقع دیے بغیر کسی کے حوالے نہ کروں گا۔ چنانچہ مہاجرین کو دربار میں بلایا۔ حضرت جعفر بن ابوطالب نے اپنے ساتھیوں سے کہا ،تم میں سے کوئی نہ بولے ، آج میں گفتگو کروں گا۔انھوں نے بادشاہ کو سلام کرنے پر اکتفا کیا۔اہل دربار نے سجدہ نہ کرنے پر اعتراض کیا تو حضرت جعفر نے کہا، ہم صرف اﷲ ہی کو سجدہ کرتے ہیں پھر یہ گفتگو کی:

’’اے بادشاہ!ہم جاہلیت کی زندگی گزار رہے تھے، بتوں کی پوجا کرتے ، مردار کھاتے،بے حیائی کے کام کرتے، رشتے ناتے توڑتے ، پڑوسیوں سے برا سلوک کرتے اور ہمارا طاقت ور کم زور کو کھا جاتا تھا۔ان حالات میں اﷲ نے ہمارے اندر ہی سے ایک رسول مبعوث کیاجس کی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بشارت دی تھی اور ان کا نام احمد بتایا تھا۔ہم ان کے حسب و نسب، سچائی ، امانت داری اور پاک دامنی سے خوب واقف تھے۔انھوں نے ہمیں دعوت دی کہ اﷲ کو ایک جانیں، اسی کی عبادت کریں اور ان بتوں سے بیزاری کا اظہار کر دیں جن کی ہم اور ہمارے باپ دادا پوجا کرتے آئے تھے۔ صدق و امانت ،صلۂ رحمی ،پڑوسیوں سے حسن سلوک، حرام کاموں ،قتل و خون ریزی،فحش باتوں ، جھوٹ بولنے ،یتیم کا مال کھانے اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا۔اس رسول اللہ نے ہمیں خداے واحد کی بندگی کرنے اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرنے کا حکم دیا۔انھوں نے ہمیں نماز پڑھنے ،زکوٰۃ اداکرنے اوررو ز ہ رکھنے کا حکم دیا۔ہم نے ان کی تصدیق کی ، ایمان لائے اور ان کے احکام کی پیروی کی تو قوم نے ہم پر زیادتیاں کرنا شروع کر دیں۔ہمیں طرح طرح کی ایذائیں پہنچا کر بتوں کی پوجا کی طرف واپس لوٹاناچاہا۔تب ہم نے آپ کے ملک میں پناہ لی۔دوسروں کے بجاے آپ کو ترجیح دی، اس امید میں کہ آپ کے ہاں ہم پر ظلم نہ ہو گا۔ ‘‘

نجاشی نے پوچھا، کیا تمھیں اس رسول اللہ کے لائے ہوئے کلام الٰہی میں سے کچھ یاد ہے؟ جعفر نے کہا، ہاں۔اس نے تلاوت کرنے کو کہا تو سیدنا جعفر نے سورۂ مریم کی ابتدائی آیات سنائیں:

بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِےْمِ، آہٰیٰعٓصٓ ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَہٗ زَکَرِیَّا اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآءً خَفِیًّا.(۱۔۳)’’اﷲ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔ کھٰیٰعص۔ یہ تمھارے رب کی اپنے بندے زکریا پر مہربانی کا بیان ہے۔ جب انھوں نے اپنے پروردگار کو پست آواز میں پکارا۔‘‘

نجاشی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے حتیٰ کہ ڈاڑھی تربتر ہو گئی ،دربار میں موجود پادریوں کے گریہ سے ان کے مصحف بھیگ گئے:

تَرآی اَعْیُنَہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ‘، ’’تم دیکھتے ہوکہ حق کو پہچان لینے کی وجہ سے ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں ۔‘‘(سورۂ مائدہ:۸۳)

کا فرمان الٰہی اس صورت حال پرخوب منطبق ہوتا ہے۔نجاشی بولا ، یہ کلام اورموسیٰ علیہ السلام کا لایا ہوا کلام ایک ہی چراغ سے نکلی ہوئی روشنی ہیں۔میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اﷲ کے وہی رسول ہیں جن کا ذکر ہم انجیل میں پاتے ہیں اور جن کی بشارت عیسیٰ علیہ السلام نے دی۔ اگر میں بادشاہت کا اسیر نہ ہوتا تو ان کی جوتیاں اٹھاتا۔ پھر قریش کے ایلچیوں سے پوچھا ، کیا یہ تمھارے غلام ہیں؟ جواب ملا ، نہیں۔ کیا تمھارا کوئی قرض ان کے ذمہ ہے؟ جواب آیا ، نہیں۔نجاشی نے کہا، چلے جاؤ! میں انھیں کبھی تمھارے حوالے نہ کروں گا۔

نجاشی سے صریح انکار سننے کے باوجود عمرو بن عاص نہ ٹلا۔اس نے کہا، کل میں بادشاہ سے ایسی بات کروں گا کہ مسلمانوں کی خوشیوں پر پانی پھر جائے گا۔وہ پھر دربار میں پہنچ گیا اور کہا، یہ لوگ عیسیٰ ؑ بن مریم کے بارے میں بڑی غلط باتیں کرتے ہیں۔نجاشی نے سیدنا جعفرکو بلا کر اس باب میں اسلام کا نقطۂ نظر دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا، عیسیٰ ؑ اﷲ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں،اﷲ نے کنواری مریم ؑ کی طرف اسے القا کیا ،اس عفیفہ کو کسی بشر نے چھوا تھا نہ پہلے اس کا کوئی بچہ ہوا تھا ۔نجاشی نے ایک تنکا اٹھایا اور کہا،جو تم نے عیسیٰ علیہ السلام کی حقیقت بتائی ،اس میں اس تنکے جتنا اضافہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔اس پر پادریوں نے ناک بھوں چڑھائی۔نجاشی نے کہا،چاہے تم ناک بھوں چڑھا لو۔ پھر سیدنا جعفر اور ان کے ساتھیوں سے مخاطب ہوکر کہا،جاؤ! میرے ملک میں اطمینان و سکون سے رہو۔جو تمھیں برا بھلا کہے گا ،سزا جھیلے گا۔اس نے قریش کے دیے ہوئے تحائف واپس کرنے کا حکم دیا اور کہا، ہمیں ان کی چنداں حاجت نہیں۔ (مسند احمد: ۴۴۰۰،۲۲۴۹۸)

نجاشی کے مائل بہ اسلام ہونے کے بعد حبشہ کے ایک شخص نے اس کے خلاف بغاوت کر دی۔نجاشی نے مہاجرین کے لیے کشتیاں تیار کرائیں اور جعفر بن ابوطالب کو پیغام بھیجا، اگر باغیوں کے مقابلے میں مجھے شکست ہو گئی تو کشتیوں میں سوار ہو کر چلے جانا اور میں فتح یاب ہوا تو ٹھہرے رہنا۔باغیوں نے اعتراض کیا ، ہم عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں اور تم ان کو بندہ کہتے ہو۔نجاشی نے سینے پر ہاتھ رکھ کرکہا ، میں انھیں عیسیٰ ؑ بن مریم کہتا ہوں۔نجاشی نے اپنے دشمنوں پر غلبہ پا لیا تو عبداﷲ بن مسعوداور کچھ اصحاب مدینہ چلے گئے تاہم حضرت جعفر اور باقی مسلمان حبشہ میں مقیم رہے۔

۴ھ میں نواسۂ رسول حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو سیدنا علی نے ان کا نام اپنے بھائی کے نام پر جعفر رکھا۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو بلا کر فرمایا، مجھے حکم ہوا ہے کہ اس نام کو بدل دوں چنانچہ حسین تجویز فرمایا۔(مسند احمد، رقم۱۳۷۰)

۷ ھ میں عمرو بن امیہ ضمری حبشہ آئے تو وہاں موجود ابوسفیان کی بیٹی ام حبیبہ(رملہ بنت ابو سفیان)کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے شادی کا پیغام دیا۔وہ پہلے عبیداﷲ بن جحش سے بیاہی ہوئی تھیں اور انھی کے ساتھ حبشہ آئی تھیں۔ عبیداﷲ نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا تو ان میں علیحدگی ہو گئی۔ نجاشی نے آپ کے وکیل کی حیثیت سے اپنی باندی ابرہہ کے ذریعے یہ پیغام ان تک پہنچایا۔انھوں نے خالد بن سعید بن عاص کو اپنا وکیل مقرر کیا۔ حضرت جعفر بن ابو طالب اور دیگر مسلمان رسم نکاح میں شریک ہوئے ۔نجاشی نے خطبہ پڑھا اور چار سو دینار مہر ادا کیا۔خالد نے جوابی خطبہ دیا، ایجاب و قبول کے بعد نجاشی نے حاضرین کی کھانے سے تواضع کی۔

۱۳ جون ۶۲۲ء (۲۶ صفر) میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ کو ہجرت کی۔ حضرت جعفر ابھی حبشہ ہی میں تھے کہ آپ نے سیدنا معاذ بن جبل کے ساتھ ان کی مواخات قائم فرمائی۔ ان کی مدینہ آمد کے بعد مواخات والی روایت درست معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ بدر کے دن آیت میراث نازل ہوئی اور مواخات کے احکام ختم ہو گئے ۔قیام حبشہ کے دوران میں ایک بار نجاشی نے حضرت جعفر اور دوسرے صحابہ کو ایک کمرے میں بلایا جہاں وہ بوسیدہ کپڑے پہنے مٹی پر بیٹھا تھا۔اسے اس حال میں دیکھ کر سیدنا جعفر خوف زدہ ہو گئے، اس ہےئت کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا،عیسیٰ علیہ السلام نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ اﷲ اپنے بندوں کو کسی نعمت سے نوازے تو ان پر لازم ہے کہ تواضع اختیار کریں۔ میں نے تمھیں یہ خوش خبری سنانے کے لیے بلایا ہے کہ تمھاری سرزمین سے میرا ایک نمایندہ یہ اطلاع لے کرپہنچا ہے کہ اﷲ نے بدر کے میدان میں اپنے نبی کو نصرت سے نوازا اور اس کے دشمنوں کو ہلاک کیا ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ جنگ بدر میں فلاں فلاں شخص مارا گیا ہے اور فلاں فلاں مسلمانوں کی قید میں آ گیا ہے۔

ایک روایت کے مطابق نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے جنگ بدر کی غنیمتوں میں سے جعفر کا حصہ نکالا(مستدرک حاکم، رقم ۴۹۴۵) تاہم واقدی نے اس کی نفی کی ہے۔

(۶۲۶ء میں)ہجرت مدینہ کو سات برس بیت گئے تو سیدنا جعفر اور باقی مہاجرین نے یہ کہہ کر مدینہ جانے کی خواہش ظاہر کی کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم غالب آگئے ہیں اور دشمن مارے جا چکے ہیں۔ نجاشی نے زاد راہ اور سواریاں دے کر ان کو رخصت کیا۔ (المعجم الکبیر طبرانی، رقم ۱۴۷۸) عمرو بن امیہ ضمری مہاجرین حبشہ کو دو کشتیوں میں سوار کر کے لائے۔عمرو کونبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے نجاشی کے پاس اسی غرض سے بھیجا تھا۔آپ نے نجاشی کے نام جو خط ان کو دیا تھا ، اس کا متن ذیل میں درج ہے۔ابن کثیر کہتے ہیں ، یہ خط بادشاہوں اور سربراہان مملکت کو لکھے جانے والے خطوط کی ایک کڑی تھی۔ نجاشی پہلے ہی اسلام لا چکا تھا۔

’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم۔محمد رسول اﷲ کی طرف سے نجاشی اصحم(یا اصحمہ) بن ابجر شاہ حبشہ کی طرف۔تم پر سلام ہو۔میں تمھاری طرف اﷲ کی حمد بھیجتا ہوں جو حقیقی بادشاہ، ہر عیب سے پاک ، سلامتی پہنچانے والا،امن دینے والا اور نگہبان ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ عیسیٰ ابن مریم اﷲ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں جو اس نے کنواری، پاکیزہ اور پاک دامن مریم کی طرف القا کیاتو وہ حاملہ ہوئی۔ سیدنا عیسیٰ کو اﷲ نے اپنی روح اور اپنی پھونک سے تخلیق کیا جیسے آدم کو اپنے ہاتھ اور اپنی پھونک سے پیدا کیا۔میں تمھیں اﷲ یکتا کی بندگی اور مسلسل اطاعت کی دعوت دیتا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں۔میری پیروی کرو اور میرے لائے ہوئے دین پر ایمان لاؤ، کیونکہ میں اﷲ کا رسول ہوں۔ میں نے اپنے چچا زاد جعفر اور کچھ مسلمانوں کو تمھارے پاس بھیج رکھا ہے ۔ ا ب تمھیں اور تمھاری فوجوں کو اﷲ پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہوں۔میں نے بات پہنچا دی اور نصیحت کر دی ۔میری نصیحت قبول کرو۔ سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ ‘‘

نجاشی نے اس خط کے جواب میں لکھا ،ہم نے آپ کے چچا زاد اور صحابہ کی مہمان نوازی کی۔میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اﷲ کے سچے اور تصدیق شدہ رسول ہیں اس لیے آپ کے چچا زاد جعفر کی بیعت کی اور اس کے ہاتھ پر اﷲ رب العالمین پر ایمان لے آیاہوں۔میں نے اپنے بیٹے ارہا(ارمی) بن اصحم کو آپ کے پاس بھیجا ہے۔آپ نے چاہا تو میں آپ کے پاس آؤں گا ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ جو کہہ رہے ہیں حق ہے۔ابن اسحاق کہتے ہیں ، ارہا کی کشتی سمندر کے بیچ میں غرق ہو گئی اور اس میں سوار ساٹھ افراد لقمۂ اجل بن گئے۔

مہاجرین کی دونوں کشتیاں صحیح سلامت حجازکے ساحل پر پہنچ گئیں پھر مہاجرین اونٹوں پر سوار ہو کر مدینہ پہنچے، جعفر بن ابو طالب کے ساتھ لوٹنے والوں میں شامل تھے ، جعفر کی اہلیہ اسما بنت عمیس ،ان کے بیٹے عبداﷲ بن جعفر،خالد بن سعید بن عاص،ان کی اہلیہ امینہ (یا ہمینہ) بنت خلف ، ان کے بیٹے سعید بن خالد اور بیٹی امہ بنت خالد ، خالد کے بھائی عمرو بن سعید بن عاص ، معیقیب بن ابو فاطمہ،ابو موسیٰ اشعری،اسودبن نوفل،جہم بن قیس اور ان کے بیٹے ،عمرو بن جہم اور خزیمہ بن جہم،عامر بن ابو وقاص،عتبہ بن مسعود، حارث بن خالد،عثمان بن ربیعہ،محمیہ بن جز،معمر بن عبداﷲ، ابوحاطب بن عمرو، مالک بن ربیعہ اور ان کی زوجہ عمرہ بنت سعدی اور حارث بن عبد قیس۔ ان کے علاوہ سر زمین حبشہ میں وفات پاجانے والے اہل ایمان کی بیوگان بھی کشتیوں میں سوار تھیں۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فتح خیبر سے فارغ ہوکر مدینہ لوٹے تو جعفرنے آپ کا استقبال کیا۔ آپ نے انھیں اپنے ساتھ چمٹا لیا، معانقہ کیا، آنکھوں کے درمیان پیشانی پر بوسہ لیا اور فرمایا، میں بہت خوش ہوں، معلوم نہیں ،جعفر کے آنے سے یا خیبر فتح ہونے پر۔ (مستدرک حاکم، رقم ۴۹۴۱) آپ نے انھیں خیبر کی غنیمت سے حصہ دیا اور مسجد نبوی کے پہلو میں گھر بنانے کے لیے جگہ عنایت فرمائی۔ سیدنا جعفر نے وہ تحائف آپ کو پیش کیے جو نجاشی اور اس کے بھتیجے ذومخمرنے بھیجے تھے۔

۷ھ ذی قعد کے مہینے میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ عمرۂ قضا کے لیے مکہ روانہ ہوئے۔اجح کے مقام پر پہنچ کر آپ نے جعفر بن ابوطالب کو بنوہلال کی میمونہ بنت حارث کی طرف نکاح کا پیغام دے کر بھیجا۔ ان کی طرف سے عباس بن عبدالمطلب کو وکیل مقرر کیا گیا جنھوں نے میمونہ کو آپ کی زوجیت میں دے دیا۔عمرہ سے واپسی پر سرف کے مقام پر آپ نے ولیمہ منعقد کیا۔ابن سعد کہتے ہیں ،مدینہ سے چلنے سے پہلے ہی آپ اوس بن خولی اور ابورافع کو یہ پیغام دے کر عباس کی طرف بھیج چکے تھے۔

عمرۂ قضا ادا کرنے کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ مکہ سے لوٹنے لگے تو سید الشہدا حمزہ کی بیٹی عمارہ چچا چچا کرتے ہوئے آپ کے پیچھے لپکی۔ سیدنا علی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر سیدہ فاطمہ سے کہا ،اپنے چچا کی بیٹی سنبھال لو! مدینہ پہنچنے پر علی ،زید اورجعفر میں جھگڑا ہو گیا۔ سیدنا علی نے کہا،میں اس پر زیادہ حق رکھتا ہوں،یہ میرے چچا کی بیٹی ہے۔ان کے بھائی جعفر نے کہا،یہ میرے بھی چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میری بیوی ہے۔ زید بن حارثہ نے کہا،یہ میری بھتیجی ہے (جنگ احد میں حمزہ نے اپنی وصیت پوری کرنے کی ذمہ داری زید کو سونپی تھی اس لیے ان کا خیال تھا کہ وہ اس کی پرورش کا حق رکھتے ہیں)۔ آپ نے یہ فرما کر کہ’’خالہ ماں ہی کی طرح ہوتی ہے‘‘بچی جعفر کے سپردکردی۔(یہ فیصلہ کرنے کے بعد آپ نے تینوں اصحاب کے لیے تسلی کے کلمات ارشاد فرمائے)۔ حضرت علی سے فرمایا، ’’تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں ‘‘۔جعفر سے کہا،’’ توجسمانی ساخت اور اخلاق میں مجھ سے مشابہت رکھتا ہے‘‘۔ زید سے ارشاد کیا،’’ تو میرا بھائی اور میرا مولا ہے‘‘۔ (بخاری، رقم ۲۶۹۹،مسند احمد، رقم ۷۷۰) ابن سعد کی روایت کے مطابق بچی گھوم پھر رہی تھی کہ سیدنا علی نے اس کا ہاتھ پکڑا اور فاطمۃ الزہرا کے ہودے میں بٹھا دیا۔ تب ان تین اصحاب میں نزاع ہوا۔ان کے شور سے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہو ئے اور فرمایا، ادھر آؤ !میں تمھارا جھگڑا نمٹاؤں۔ بچی جعفر کوملی تو وہ کھڑے ہو کرنبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے گرد گھومنے لگے ۔ آپ نے پوچھا ، یہ کیا؟جعفر نے جواب دیا، میں نے حبشہ میں لوگوں کو بادشاہوں کے ساتھ ایسا کرتے دیکھا ہے۔اسما بنت عمیس جعفر کی اہلیہ اور بچی کی خالہ تھیں، اس کی والدہ کا نام سلمیٰ بنت عمیس تھا۔

شاہ روم نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو تحفہ کے طور پراطلس کا ایک چوغہ بھیجا ۔آپ نے پہنا تو آپ کے ہاتھ اس( کی طویل آستینوں) میں اٹکنے لگے ۔آپ نے اسے جعفر بن ابو طالب کے پا س بھیج دیا۔جعفر اسے پہن کر آئے تو فرمایا، میں نے تمہیں پہننے کے لیے نہیں دیا۔پوچھا ،تو میں اس کا کیا کروں؟فرمایا، اپنے بھائی نجاشی کو بھیج دو۔ (ابو داؤد، رقم ۴۰۴۷،مسند احمد، رقم ۱۳۴۰۰) اس حدیث کے راوی علی بن جدعان کو ضعیف قرار دیا گیا ہے۔

۷ ھ میں خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم نے قیصر روم ہرقل کو خط بھیج کر اسلام کی دعوت دی،اس نے درباریوں کے خوف سے اسلام قبول نہ کیا۔پھر آپ نے حارث بن عمیرکی سربراہی میں ایک وفد شاہ بُصری کے نام خط دے کر بھیجا۔یہ وفد شام کے سرحدی علاقے بلقا کے مقام موتہ سے گزر رہا تھاکہ وہاں کے حاکم شرحبیل بن عمروغسانی نے حارث کا گلا گھونٹا اور باقی ارکان کو شہید کردیا۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے کسی ایلچی کی جان لینے کا یہ ایک ہی واقعہ ہوا۔ آپ نے شہدا کا بدلہ لینا اور شرحبیل کی تادیب کرنا ضروری سمجھا ۔ عمرۂ قضا ادا کر کے آپ ذی الحجہ۷ ھ میں مدینہ پہنچے اوردو ماہ کے توقف سے جمادی الاولیٰ۸ھ (۶۲۹ء)میں تین ہزار کا لشکرتیار کر کے زید بن حارثہ کو اس کا امیر مقرر کیا ۔ خودجرف کے معسکر تشریف لے گئے اور لشکر کو روانہ فرمایا، زید کو سفید علم عطا کیا اور دعاے خیر و برکت کر کے فرمایا: ’’اگر زید شہید ہوئے تو جعفر بن ابوطالب امیر ہوں گے ، اگرجعفر شہادت پا گئے تو عبداﷲ بن رواحہ ان کی جگہ لیں گے۔وہ بھی شہادت سے سرفراز ہوئے تو مسلمان باہمی رضامندی سے اپنا امیر چن لیں‘‘ (بخاری، رقم ۴۲۶۱) جعفر نے اچھل کر کہا، یا رسول اﷲ!مجھے خیال نہ تھا کہ آپ زید بن حارثہ کو مجھ پر امیر بنائیں گے۔آپ نے فرمایا، چلے چلو! تمھیں نہیں معلوم ، کیا چیز بہتر ہے؟ (مسند احمد، رقم ۲۲۵۵۱) ثنےۃ الوداع کے مقام پر آپ نے لشکر کو الوداع کہا۔ ایک یہودی نعمان بن فنخص اس وقت موجود تھا۔اس نے زیدسے کہا،اگر محمد نبی ہیں تو تم ہر گز زندہ نہ لوٹو گے، کیونکہ بنی اسرائیل کے نبی اس طرح جب کسی کا نام لے لیتے تھے تو وہ ضرور شہید ہو جاتا تھا۔

شرحبیل کو جیش اسلامی کی روانگی کی خبر ملی تو اس نے مقابلے کے لیے دو لاکھ سپاہیوں(دوسری روایت:ایک لاکھ) پر مشتمل بڑی فوج تیار کی۔بحیرۂ مردار کے ساحل پر، دریاے اردن کے مغربی کنارے سرزمین بلقا(موجودہ کرک) میں مشارف کے مقام پر دونوں لشکروں کا سامنا ہوا۔ زید نے چھ دن تک ضرب و فرار (hit and run) کی اسٹریٹیجی سے کام لیا۔کبھی ایک مقام پر ،کبھی دوسری جگہ سے، کبھی سامنے سے ، کبھی پہلو سے آتے، دشمن کو جوابی کارروائی کرنے کا موقع نہ دیتے اور صحرا میں غائب ہو جاتے۔ ساتویں دن وہ سامنے (front) سے نمودار ہوئے، جوں ہی رومی فوج کے پرے بڑھنے لگے ، انھوں نے پسپائی اختیار کر لی۔رومی فوج نے ان کا پیچھا کیا، لیکن دو لاکھ کی فوج عجلت میں اپنی ترتیب قائم نہ رکھ سکی۔ موتہ کے مقام پر زید نے پلٹ کر بھرپور حملہ کرنے کا حکم دیا۔ سو صفوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا حصہ ان کا ہدف بناجو حملے کی تاب نہ لا سکا۔رومیوں نے راہ فرارپکڑی اور اپنے لشکر ہی کو روندتے ہوئے کھلے میدان کی طرف بھاگے۔ مسلمان سپاہی ان کے پیچھے پیچھے تھے ۔اسی اثنا میں زید بن حارثہ پر چاروں طرف سے وار ہو رہے تھے ، زیادہ خون بہہ جانے سے وہ گھوڑے سے گر پڑے اور جام شہادت نوش کیا۔ فرمان نبوی کے مطابق جعفر بن ابوطالب فوراً آگے بڑھے، اپنے سرخ گھوڑے سے اترے ، اسے ذبح کیا ،اسلحہ ہلکا کیا اور علم تھام کر پیادہ ہی لڑنا شروع کر دیا۔اسلامی تاریخ میں اپنے گھوڑے کو ذبح کرکے جنگ میں کود جانے کی یہ اولین مثال تھی۔ابن کثیر کہتے ہیں، ایسا انھوں نے اس لیے کیا کہ گھوڑا دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ انھوں نے نوے (بخاری، رقم ۴۲۶۰ :پچاس) سے زائد زخم کھائے، پہلے ان کا دایاں بازو کٹا ، انھوں نے علم بائیں ہاتھ میں تھام لیا پھر بایاں بازو کٹا، انھوں نے کٹے ہوئے بازووں سے اسے سہار لیا اور آخری دم تک جان فشانی سے لڑتے رہے۔ اسی لیے انھیں ذوالجناحین (دو پروں والا، یہ پر جنت میں عطا ہوں گے) کا لقب ملا۔ (مستدرک حاکم، رقم ۴۹۳۷) ایک عینی شاہد کا کہنا ہے،جعفر کے جسم میں نیزہ آ کر کھبا تو وہ اسی طرح چلتے ہوئے دشمنوں کے ایک فوجی سے جا ٹکرائے۔ نیزہ اس کے جسم سے پار ہوا تو بیک وقت دونوں موت سے ہم کنار ہوئے ۔ عباد اپنے رضاعی باپ سے روایت کرتے ہیں جو جنگ موتہ میں شریک تھے، میں نے جعفر کو شہادت سے پہلے یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا:

یاحبذا الجنۃ واقترابہا   
طیبۃ و باردا شرابہا
والروم روم قد دنا عذابہا   
کافرۃ بعیدۃ انسابہا
علیّ ان لاقیتہا ضرابہا

(کیا ہی خوش گوار ہے جنت اور اس کا قریب آنا جس کا حال یہ ہے کہ وہ پاک ہے اور اس کی شراب ٹھنڈی ہے۔رومی ،رومیوں کا انجام قریب آگیا ہے،کافر اور دور کا نسب رکھنے والے ہیں۔مجھ پر لازم ہے، ان کا سامنا ہو تو خوب تلوارزنی کروں۔)

عبداﷲ بن رواحہ بھی جان فشانی سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے تو خالد بن ولید نے علم تھاما اورایک دن مزید جنگ کرنے کے بعد لشکر کو بحفاظت مدینہ واپس لے آئے۔ عبداﷲ بن عمرکہتے ہیں،میں جنگ موتہ میں شریک تھا،ہم نے جعفر بن ابوطالب کو ڈھونڈا،وہ شہدا میں تھے۔ہم نے ان کے جسم پر تلواروں اور نیزوں سے لگے ہوئے نوے (یا پچاس)سے زائدزخم شمار کیے۔ان میں سے ایک بھی پشت پر نہ تھا۔ (بخاری، رقم ۴۲۶۰،۴۲۶۱) ایک روایت ہے کہ ایک رومی نے تلوار کا وار کر کے ان کے جسم کے دو ٹکڑے کر دیے۔(مستدرک حاکم، رقم ۴۹۳۱) جعفر نے اکتالیس (ابن ہشام: تینتیس)برس کی عمر پائی۔ انھیں ثنےۃ الکرک کے مقام پر دفن کیا گیا۔

مدینہ میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو شہداے جنگ موتہ کی اطلاع ملی تو منبر پر تشریف لائے اورالصلاۃ جامعۃ کی پکار لگانے کا حکم دیا۔لوگ اکٹھے ہو گئے تو فرمایا، میں تمھیں غزوۂ موتہ کے لشکر کی خبر دینے لگا ہوں۔دشمن سے ان کا مقابلہ ہوا ،’’ علم زید نے تھامااور شہید ہو گئے پھر جعفر نے پکڑا اور شہادت پائی۔ اس کے بعدیہ ابن رواحہ کے ہاتھ آیا، انھوں نے بھی جام شہادت نوش کیا ، آخرکار علم اﷲ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (خالد)نے امیر نہ ہوتے ہوئے بھی پکڑلیا اور اﷲ نے انھیں فتح دی۔‘‘ یہ بیان کرتے ہوئے آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔آپ نے زید،جعفر اورابن رواحہ کے لیے دعاے مغفرت فرمائی۔ (بخاری، رقم ۱۲۴۶، ۳۷۵۷، مسند احمد، رقم ۲۲۵۶۶) انس بن مالک کی روایت کے مطابق آپ کا ان شہدا کے آخری حالات بیان کرنا امور غیبیہ میں سے تھا، باقاعدہ اطلاع آنے سے پہلے ہی آپ نے اہل ایمان کو یہ سب بتا دیا۔ (بخاری، رقم ۳۶۳۰، نسائی، رقم ۱۸۷۹) آپ نے روتے ہوئے یہ بھی فرمایا ،وہ میرے بھائی،مجھ سے انس رکھنے والے اور میری باتیں کرنے والے تھے۔واقدی کی روایت ہے،نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، جعفر بن ابوطالب کے ہاتھ پرچم آیا تو شیطان ان کے پاس آیا اور زندگی کی محبت اور دنیا کی تمنا پیدا کرنے کی کوشش کی۔انھوں نے جواب دیا،اہل ایمان کے دلوں میں ایمان مستحکم ہو چکا ہے ،اب دنیا کی رغبت دلا رہے ہو؟

آپ نے حضرت جعفر کی اہلیہ اسماء بنت عمیس سے الگ تعزیت کی۔وہ بیان کرتی ہیں، میں نے چالیس کھالیں پکاکر تیارکیں ، آٹا گوندھااور بچوں کو نہلا دھلا کر تیل لگاکر فارغ ہوئی تھی۔آپ نے فرمایا، اسما!جعفر کے بچے کہاں ہیں؟میں انھیں لے کر آئی، آپ نے انھیں اس کیفیت میں پیار کیا کہ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔میں نے کہا، یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، کیا آپ کو جعفر کی کوئی خبر ملی ہے؟ فرمایا: ہاں ، آج یہ لوگ شہید ہو گئے ہیں۔میں چیخ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور عورتوں کو اکٹھا کرنے لگی تو آپ نے فرمایا: اسماء! واہی تباہی نہ بول اور سینہ مت پیٹ۔پھرگھر تشریف لے گئے۔ فاطمہ ہائے چچا! کہہ کر روتی ہوئی آئیں تو آپ نے فرمایا،جعفر جیسوں ہی کے لیے رونے والیوں کو رونا چاہیے۔ آپ نے آل جعفر کے لیے کھانا پکانے کا حکم دیا اور فرمایا،آج وہ اپنا انتظام نہ کر سکیں گے۔ (ترمذی، رقم ۹۹۸، مسند احمد، رقم ۲۷۰۸۶) آپ بہت غم زدہ تھے کہ جبریل علیہ السلام آئے اور خبر دی کہ اﷲ نے جعفر کو دو پر دیے ہیں جو خون سے لتھڑے ہوئے ہیں۔وہ ان کے ذریعے جبرئیل و میکائیل جیسے بڑے فرشتوں کے ساتھ اڑتے پھر رہے ہیں اور جنت کے پھلوں سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ (ترمذی، رقم ۲۷۶۳، مستدرک حاکم، رقم ۴۳۴۸، ۴۹۳۷)۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جعفر بن ابوطالب کے گھر جانے میں تین دن کا توقف کیا۔ ان کے گھر پہنچے تو فرمایا، آج کے بعد میرے بھائی پر مت رونا۔پھر فرمایا، میرے بھتیجوں کو لے آؤ۔وہ ابھی چھوٹے چھوٹے تھے۔آپ نے انھیں پیار کیا ،ساتھ چمٹایا اور نائی کو بلا کر ان کے سر منڈائے پھر فرمایا، محمد بن جعفر ہمارے چچا ابو طالب سے مشابہت رکھتا ہے۔عبداﷲ بن جعفر کی جسمانی ساخت اور اس کے اخلاق مجھ سے ملتے جلتے ہیں۔آپ نے عبداﷲ کا ہاتھ پکڑا،اسے بلند کیا اور تین باردعا فرمائی،اے اﷲ!توجعفر کے اہل خانہ میں اس کاقائم مقام ہو جا، بہترین طریقے سے جس طرح تو اپنے نیک بندوں میں سے کسی کی جگہ پرکر دیتا ہے۔ عبداﷲکے ہاتھوں میں برکت ڈال دے۔آپ نے اسما سے کہا، تو تنگ دستی سے ڈرتی ہے ، میں دنیا و آخرت میں ان بچوں کا ولی ہوں،ان کے باپ کی جگہ ہوں۔ (ابودؤد، رقم ۴۱۹۲، مسند احمد، رقم ۱۷۵۰) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خیبر سے حاصل ہونے والے مال فے میں سے آل جعفر کے لیے پچاس وسق (ایک وسق :ساٹھ صاع، پچاس وسق: پچاس اونٹوں پر لادا جانے والا غلہ) سالانہ مقرر فرمائے۔

سیدہ عائشہ فرماتی ہیں،جعفر،زید اور ابن رواحہ کی شہادت کی خبر آئی ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے،آپ کے چہرۂ مبارک پر غم کے آثار دیکھے جا سکتے تھے۔میں دروازے کی درز سے جھانک رہی تھی، ایک شخص آیا اور جعفر بن ابو طالب کے گھر کی عورتوں کے رونے دھونے کا ذکر کیا۔آپ نے انھیں منع کرنے کا حکم دیا۔وہ دوبارہ آیا اور بتایا، وہ کہا نہیں مان رہیں۔آپ نے اسے پھر روکنے کو کہا۔وہ تیسری دفعہ آیا اور کہا، ان عورتوں نے مجھے مغلوب کر دیا ہے ۔ آپ نے فرمایا،(اگر وہ باز نہیں آتیں تو)ان کے مونہوں میں خاک ڈال دو۔(بخاری، رقم ۱۲۹۹، مسلم، رقم ۲۱۱۷)

جعفر کی اہلیہ اسماء بنت عمیس خود روایت کرتی ہیں، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم تیسرے دن میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’آج کے بعد سوگ نہ کرنا۔‘‘ (مسند احمد، رقم ۲۷۰۸۳، ۲۷۴۶۸) مسند احمد کے اس متن میں جو حمزہ احمد زین نے مرتب کیا ہے ، یہ حدیث یوں ہے،آپ نے اسماء سے فرمایا: ’’تین دن سوگ کا لباس پہن لو پھر جو جی چاہے کرو۔‘‘ (رقم ۲۷۳۴۱) ابن عربی کہتے ہیں ، یہ حدیث باطل ہے ، آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک بیوہ کو آنکھ آنے پر بھی سرمہ لگانے کی اجازت نہیں دی۔ (ابن ماجہ، رقم ۲۰۸۴) یہ حدیث صحیح بھی ہوتی تو اتنا ثابت ہوتا کہ تین دن کے بعد بیوہ کو سوگ کا لباس اتار دینا چاہیے۔ابن حزم اسے منقطع کہتے ہیں، طحاوی منسوخ قرار دیتے ہیں۔ ابن حجر بھی اس کو معمول بہ نہیں سمجھتے، کیونکہ اس کا متن دیگر احادیث صحیحہ کے خلاف ہے جن کے مطابق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیوہ کا سوگ چار ماہ دس دن قرار دیا ہے۔تاہم وہ کہتے ہیں،یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے منسوخ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ۔اسی حدیث کی بنیاد پر حسن بصری تین دن گزرنے کے بعد بیوہ کے لیے خوشبو لگانا اور زیب و زینت کرنا جائز قرار دیتے ہیں۔

ہجرت حبشہ سے پہلے جعفر کی شادی بنوخثعم کی اسما بنت عمیس سے ہوچکی تھی ۔اسما ان کے ساتھ حبشہ گئیں،قیام حبشہ کے دوران میں ان کے تین بیٹے عبداﷲ، محمد اور عون پیدا ہوئے۔ ان میں سے عبداﷲ مشہور ہوئے جن کے نام پر جعفر کنیت کرتے تھے ۔جعفر کی شہادت کے بعد اسما ء بنت عمیس کی شادی سیدنا ابوبکر سے ہوئی، ان سے محمد بن ابوبکر پیدا ہوئے۔ سیدنا ابوبکر کی وفات کے بعد وہ سیدنا علی سے بیاہی گئیں اوریحیےٰ بن علی نے جنم لیا۔ایک بار اسما نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا،جعفر کے لڑکوں کو نظر بہت جلد لگتی ہے ،کیا میں ان کے لیے جھاڑ پھونک کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں! کیونکہ اگر کسی چیز کے تقدیر پر غلبہ پانے کا امکان ہوتا تووہ نظر ہی ہوتی ۔‘‘(ترمذی، رقم ۲۰۵۹، مسند احمد، رقم ۲۷۴۷۰)

نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی جعفر کی اولاد سے شفقت برقرار رہی ۔عبداﷲ بن جعفر کہتے ہیں،رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سفر سے واپس آتے تو آپ کے گھرانے کے بچوں سے آپ کا استقبال کرایا جاتا۔ایک بار آپ کسی غزوہ سے لوٹے تو مجھے لے جایا گیا ۔آپ نے مجھے آگے بٹھا لیا پھر سیدہ فاطمہ کے ایک بیٹے (حسن یا حسین) کو لایا گیا۔آپ نے اسے اپنے پیچھے سوار کر لیا۔ہم تینوں اسی طرح مدینہ میں داخل ہوئے۔ (مسلم، رقم ۶۳۴۹)

ابو طالب کی وفات ہوئی توان کی وراثت طالب اور عقیل کو مل گئی ۔تب عقیل نے اسلام قبول نہ کیا تھا۔ حضرت جعفر اور سیدنا علی کو کوئی حصہ نہ ملا، کیونکہ یہ اسلام لا چکے تھے۔ اسامہ بن زید نے فتح مکہ کے موقع پرنبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا ، کیا آپ اپنے مکہ کے گھر میں قیام کریں گے؟یہ مکان اصل میں ابو طالب کا تھا، طالب اور عقیل کو ملا تو کسی مرحلے پر عقیل نے بیچ دیا ۔ اسی لیے آپ نے فرمایا، کیا عقیل نے ہمارے لیے وہاں کوئی گھر چھوڑا بھی ہے؟ (مسلم، رقم ۳۲۸۱، ابن ماجہ، رقم ۲۷۳۰)

اسماء بنت عمیس کی حضرت علی سے شادی ہونے کے بعد ان کی موجودگی میں محمد بن جعفر اور محمد بن ابوبکر باہم مفاخرت کرنے لگے۔دونوں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے ، میں تم سے زیادہ عزت دار ہوں اور میرا باپ تمھارے باپ سے بہتر ہے۔اسماء دونوں کی ماں تھیں، جعفر اور ابوبکرکے عقد میں رہنے کے بعد سیدنا علی کی زوجیت میں آئی تھیں اس لیے سیدنا علی نے ان سے کہا،ان کے بیچ فیصلہ کرو۔ اسما نے کہا،میں نے عربوں میں جعفر سے زیادہ اچھا جوان اور ابوبکر سے بہتر متوسط العمر نہیں دیکھا۔ سیدنا علی نے کہا، تم نے میرے لیے کوئی صفت نہیں چھوڑی۔تب انھوں نے کہا،ان تینوں (جعفر، ابوبکر اور علی) میں سے کم ترین بھی بہترین ہے۔ سیدنا علی نے کہا، تم یہ بھی نہ کہتیں تو میں تم سے سخت ناراض ہوتا۔

عبداﷲ بن عمر عبداﷲ بن جعفر کو سلام کرتے تو یوں کہتے ،’السلام علیک یا ابن ذی الجناحین، تم پر سلامتی ہو ،اے دو پروں والے کے بیٹے! ‘ ۔ (بخاری، رقم ۳۷۰۹) عبداﷲ بن عباس کہتے ہیں ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف فرما تھے،اسما بنت عمیس قریب بیٹھی ہوئی تھیں کہ آپ نے ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دیا ۔پھرفرمایا،’’جعفر بن ابوطالب جبرئیل اور میکائیل علیہما السلام کی معیت میں گزرے ہیں اور مجھے سلام کیا ہے۔اسماء! تو بھی انھیں سلام کا جواب دے۔‘‘ (مستدرک حاکم، رقم ۴۹۴۵) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا،’’مجھے جعفر، زیدبن حارثہ اور عبداﷲ بن رواحہ اس طرح دکھائے گئے کہ موتیوں سے بنے ہوئے خیمے میں سونے کی چارپائیوں پر بیٹھے ہیں ۔میں نے دیکھا کہ زید اور ابن رواحہ کی گردنوں میں کچھ کجی ہے جب کہ جعفر کی گردن سیدھی ہے اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں۔ میں نے پوچھا تو بتایا گیا ،ان دونوں پر موت غلبہ پانے لگی تو انھوں نے رخ موڑ لیا، جبکہ جعفر نے ایسا نہیں کیا۔‘‘ (الاستیعاب بروایت سعید بن مسیب)

جعفر مسکینو ں غریبوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ان کے پاس بیٹھتے ، ان سے باتیں کرتے، وہ انھیں اپنے حالات بتاتے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم انھیں ابو المساکین کی کنیت سے پکارتے۔ (ترمذی، رقم ۳۷۶۶) سیدنا ابوہریرہ فرماتے ہیں، میں بھوک کی شدت کم کرنے کے لیے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتا تھا۔اپنے پاس بیٹھے ہوئے صحابہ سے قرآن کی آیات سنتا اور ان کے بارے میں سوالات کرتا ،محض اس لیے کہ وہ مجھے لے جاکرکچھ کھلا پلادیں۔ مسکینوں کے لیے سب سے بھلے جعفر بن ابوطالب تھے۔ہمیں ساتھ لے جاتے اور گھر میں موجود کھانا کھلا تے ۔یہ بھی ہوا کہ وہ گھی کا خالی مشکیزہ اٹھا لائے اور ہم نے اسے پھاڑ کر اس میں چپکا ہوا گھی چاٹ لیا۔ (بخاری، رقم ۳۷۰۸) سیدنا ابوہریرہ فرماتے تھے، کوئی جوتی پہننے والا ،سواری پر سوار ہونے والا اور اونٹ کے کجاوے میں بیٹھنے والاشخص ایسا نہیں جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعدجعفر سے افضل ہو۔ (ترمذی، رقم ۳۷۶۴، مسند احمد، رقم ۹۳۵۳) محدثین کہتے ہیں، اس سے مراد سخاوت میں فضیلت رکھنا ہے، کیونکہ یہ ان کا خاص وصف تھا۔حقیقت تو یہ ہے کہ امت نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد خلفاے راشدین ہی کو سب سے زیادہ صاحب فضیلت سمجھتی ہے۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جعفر سے فرمایا،’’تو جسم کی ساخت اور اخلاق و عادات میں مجھ سے ملتا جلتا ہے۔‘‘ (بخاری، رقم ۴۲۵۱، مسند احمد، رقم ۸۵۷) ’’تو مجھ سے اور میرے شجرہ سے ہے۔‘‘(مسند احمد، رقم ۲۱۷۷۷) سیدنا علی سے نقل کی جانے والی یہ روایت ضعیف اور منقطع ہے،’’مجھ سے پہلے ہر نبی کو سات معزز رفقا وزیر بنا کر دیے گئے تھے، جبکہ مجھے چودہ نقیبوں کی معیت حاصل ہے۔ان کے نام یہ ہیں، حمزہ، جعفر، علی، حسن، حسین، ابوبکر،عمر، مقداد،عبداﷲ بن مسعود، حذیفہ، سلمان، عمار، بلال اور ابوذر۔ (مسند احمد، رقم ۱۲۶۳)

عبداﷲ بن جعفر کہتے ہیں ، میں نے اپنے تایاعلی سے کچھ مانگا اور انھوں نے نہ دیا تو میں نے اپنے والد جعفر کے حق کا واسطہ دیا تو انھوں نے میری مانگ اسی وقت پوری کر دی۔ (المعجم الکبیر طبرانی، رقم ۱۴۷۶)

جعفر بن ابو طالب نے براہ راست نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے حدیث روایت کی۔ان سے روایت کرنے والوں میں شامل ہیں، ان کے بیٹے عبداﷲ بن جعفر،عبداﷲ بن مسعود، ابو موسیٰ اشعری، عمرو بن عاص اور ام المومنین ام سلمہ۔ جعفر سے مروی ایک حدیث ’سنن نسائی‘ میں موجود ہے۔

جعفر بن ابو طالب دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے۔ (المعجم الکبیر طبرانی، رقم ۱۴۵۸)

چین کے مسلمان دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے ہاں اسلام ۶۱۶ء یا ۶۱۷ء(۶ یا ۷ نبوی) میں آیا جب سعد بن ابی وقاص ، جعفر بن ابو طالب اور جحش حبشہ (Abyssinia) سے کشتی پر سوار ہو کر چٹاگانگ ،کمروپ اورمنی پور کے راستے خوتان (تبت) پہنچے۔ تاریخ اسلامی کے ماخذ جعفر کی اس مہم کے ذکر سے خالی ہیں۔ سعد بن ابی وقاص بعد میں بھی دو مرتبہ آئے، انھیں تیسری دفعہ خلیفۂ سوم عثمان نے ۲۹ھ (۶۵۱ء) میں چینی شاہ یونگ وی (Yung-Wei) کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے بھیجا۔خوتان کے لوگ اپنا نسب بھی جعفر سے ملاتے ہیں۔

جعفر بن ابو طالب کا مقبرہ اردن کے ضلع کرک(Kerak) کی بستی مزارجنوبی میں ہے جو موجودہ دارالخلافہ عمان سے ۴۰ا کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔جعفر کے مزارکوداؤدی فرقہ کے۵۲ویں امام محمد برہان الدین نے سونے اور چاندی سے مزین کرایا۔

عبداﷲ بن جعفرکی شادی زینب بنت علی سے ہوئی۔عون بن جعفرکا بیاہ ام کلثوم بنت علی سے ہوا۔عبداﷲ کے بیٹے عبید اﷲ، عون اور محمدکربلا میں شہید ہوئے ،محمدبن جعفر اور عون بن جعفر کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔

مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویہ(ابن ہشام)، الطبقات الکبری(ابن سعد)،تاریخ الامم والملوک(طبری)، الجامع المسند الصحیح (بخاری)، المسند الصحیح المختصر من السنن(مسلم)،المحلّی(ابن حزم)،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، احکام القرآن(ابن عربی)،اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (ابن اثیر)،الکامل فی التاریخ(ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)، البدایہ والنہایہ(ابن کثیر)،تاریخ الاسلام (ذہبی)،سیراعلام النبلا (ذہبی)، فتح الباری (ابن حجر)، الاصابہ فی تمییز الصحابہ (ابن حجر)،حلےۃ الاولیاء (ابو نعیم اصفہانی)، Wikipedia۔

_______________

B