HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

جامعہ الازہر اور مصر سے رخصتی پر

ڈاکٹر زاہد منیرعامر*

[جامعہ الازہر قاہرہ میں تین سال تک تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد یہاں

سے رخصت ہوتے وقت جامعہ کے کلیہ لغات و ترجمہ کی جانب سے ۲ جنوری

۲۰۱۱ء کو دی جانے والی الوداعی تقریب سے کیے گئے انگریزی خطاب کا اردو ترجمہ۔]


جناب ڈین صاحب ،صدر شعبۂ اردو،اساتذۂ کرام کلیہ لغات و ترجمہ جامعہ الازہر،رفقاے محترم، میں آپ سب حضرات کا شکر گزار ہوں کہ آپ آج اس موقع پر جو کہ تین سالہ قیام کے بعد جامعہ الازہر میں میرا آخری دن ہے تشریف لائے اور میرے لیے اس دن کو یادگار بنایا۔

آج اپنے اس تین سالہ قیام کی تکمیل پر بیتے ہوئے تین سالوں کے نقوش میری نگاہوں میں ابھر رہے ہیں، میں جب یہاں آیا تو ایک حد تک میرے لیے سب کچھ نیا تھا اور امکانات سے بھرپور، اور آج جب میں آپ سے رخصت ہورہا ہوں تو میرے لیے کچھ بھی اجنبی نہیں ہے سوائے خود میرے کہ میں آپ کے لیے اجنبی تھا اور ایک اجنبی ہی کی حیثیت سے رخصت ہورہا ہوں:

چو رخت خویش بربستم ازیں خاک

ہمہ گفتند با ما آشنا بود

و لیکن کس ندانست ایں مسافر

چہ گفت و با کہ گفت و از کجا بود

رفیقان محترم آج اس موقع کی مناسبت سے شاید یہ بتانا مناسب ہو گا کہ تین برس قبل میں نے مصر کا انتخاب کیوں کیا ۔۔۔؟ جامعہ الازہر میں مسند اردو و مطالعہ پاکستان کے لیے انتخاب کے موقع پر پاکستان کے وزیر تعلیم کی جانب سے مجھے بعض دوسری مساند اردو و مطالعہ پاکستان کی پیش کش بھی کی گئی تھی، لیکن میں نے موجود مساند میں سے اپنے لیے مصراور اس میں سے بھی جامعہ الازہر کو منتخب کیا تو اس کے پس پردہ میرے کون سے خیالات کارفرما تھے۔۔۔؟

میں بحمداللہ ایک مسلمان ہوں اور ایک مسلمان کی حیثیت سے قرآن حکیم کے الفاظ و مطالب پر غیر متزلزل یقین رکھتا ہوں قرآن کا فیصلہ یہ ہے کہ قرآن باقی رہے گا، سورۂ حجر۱۵: ۹’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ‘ قرآن باقی رہے گا تو اسلام بھی باقی رہے گا، اسلام باقی رہے گا تو اس کی تہذیب بھی باقی رہے گی تہذیب کی بقا زبان سے وابستہ ہوتی ہے اس لیے عربی زبان بھی باقی رہے گی، گویا اسلام اور عربی زبان و تہذیب کی بقا ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔۔۔یہ ہے وہ وجہ جس کی بنا پر ہم اہل پاکستان عربی اور عربوں سے والہانہ محبت رکھتے ہیں ۔ہمارے لیے مصر عالم عرب میں گل سرسبد کی حیثیت رکھتا ہے یہاں کا ادب ،یہاں کی تاریخ، تمدن اور عالم عرب میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ملک ہونا وہ حوالے ہیں جو ایک پاکستانی کو اس کی طرف مائل کرسکتے ہیں اور یہی وہ عناصر ہیں جنھوں نے میرے یہاں آنے کے فیصلے، یہاں کی قدیم ترین جامعہ الازہر کا انتخاب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔۔۔۔

حاضرین کرام !عالمی صورت حال پر نگاہ رکھنے والوں سے آج مسلمانوں کی صورت حال پوشیدہ نہیں تعلیم سائنس ٹیکنالوجی سیاست کسی بھی شعبے میں ہمارا شمار ترقی یافتہ قوموں میں نہیں ہورہااور مستقبل قریب میں بھی صورت حال تبدیل ہوتی دکھائی نہیں دے رہی اس لیے کہ ہمارے ذہین افراد اغیارکی خدمت میں مصروف ہیں ہماری جامعات جو علم و فن کے مراکز ہیں جہاں سے نئی نسلوں کے قافلوں کو امید اور روشنی کے پیامبر بن کر نکلنا چاہیے اپنی محلی سیاستوں کا شکار ہیں نوجوان فکر معاش سے بلند کسی سوچ کے حامل نہیں ہیں باصلاحیت نوجوانوں کا جوہر ادراک فروختنی مال بن چکا ہے اساتذہ اپنے مسائل کا شکار ہیں۔۔۔۔

ہم عجمی راہ نمائی کا تاج ہمیشہ سے عربوں کے سر پر رکھتے آئے ہیںآج بھی اہل عجم کی نگاہیں عربوں پر ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ چودہ صدیاں قبل جس قوم نے صحرا سے نکل کر روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا وہ شیر ایک بار پھر ہوشیار ہوگا اور دنیاکی تاریخ تبدیل کردے گا ۔۔۔لیکن بہت دیر ہوگئی شیر مسلسل خواب میں ہے ۔۔۔میں اسی خواب کے تین سال دیکھ کر واپس جارہاہوں اس خواب کے ساتھ کہ یہ شیر کبھی تو ہوشیار ہوگا۔۔۔۔

میں نے اپنے زمانۂ قیام مصر میں اپنی زبان اور قلم سے مسلسل اس شیر کو بیدار کرنے کی کوشش کی میں نے اپنا پیغام اہل مصر کی سماعتوں تک پہنچا دیا ۔۔۔اس امید کے ساتھ اس خواہش کے ساتھ کہ وہ صبح ضرور طلوع ہوگی، جب عالم اسلام ایک نئی کروٹ لے گاآج کل بھی میرا جو سلسلۂ مضامین آپ کے ہاں شائع ہورہاہے جس کی آخری قسط میری مصر سے روانگی کے بعد شائع ہوگی ، اس میں بھی میں نے اپنے مصر آنے کے فیصلے اور یہاں قیام کے حوالے سے اپنے تاثرات بیان کیے ہیں اور بتایا ہے کہ :مصر آنے کا فیصلہ کرتے ہوئے میرے پیش نظر عالم عرب میں مصر کی اہمیت اور اس کی قدیم تہذیب و تاریخ تھی ۔یہاں کے تین سالہ قیام میں میرا ہدف اسلام ،عالم عرب اور پاکستانی زبان و تہذیب رہے۔جامعہ الازہر میں تدریس ہویا عرب ممالک کی سیاحت، میں نے عالم عرب کو وہ سبق یاد دلانے کی کوشش کی جو بظاہر فراموش کیا جاچکا ہے اس مقصدکے لیے سب سے موزوں آواز اقبال کی تھی جس نے عجمی ہونے کے باوجودخود کو عربوں کا شاعر قرار دیا۔قیام مصر کے زمانے میں مجھے کئی بار اقبال کی یہ آواز سنائی دی کہ’’ مصریان افتادہ در گرداب نیل‘‘ اورمیں یہ سوچنے پر مجبور ہوتا رہا کہ آخر اقبال جیسا شاعر جس نے اہرام مصر اور ابوالہول کو اپنے فنکارانہ تخیل کا لمس عطا کیااور نیل کے ساحل سے تا بہ خاک کاشغر مسلمانوں کے اتحاد کا خواب دیکھا ،رموز بے خودی میں’’ در معنی ایں کہ ملت محمدیہ نہایت زمانی ندارد کہ دوام ایں ملت شریفہ موعودہ است‘‘ کے زیر عنوان یہ کہنے پر کیوں مجبور ہواکہ مصری امتحا ن میں کامیاب نہیں ہوسکے اور ان کی ہڈیاں اہرام کے نیچے دبی رہ گئیں:

مصر ہم در امتحاں ناکام ماند

استخوانِ او تہ اہرام ماند

تاریخ عالم میں مصر کی اہمیت کو تسلیم کرنے اور مصرسے محبت کرنے والے ایک قاری کی حیثیت سے اس سوال کا جواب بھی مجھے اقبال ہی کے کلام میں ملا جس سے میں اپنے زمانۂ قیام مصر میں اپنے قارئین کو آگاہ کرتا رہا جس پر مصری گزٹThe Egyptian Gazette کے شمارے گواہ ہیں ۔

اب جبکہ اپنے تین سالہ قیام مصر کا دورانیہ مکمل کر کے واپس پاکستان جا رہاہوں تو میرا ضمیر اس بات سے مطمئن ہے کہ میں نے اپنے قارئین کو تصویر کا حقیقی روپ دکھایا اور ایک ایسے راستے کی نشان دہی کی جس پر چل کر آج بھی انسانیت اپنی بھولی ہوئی منزل کو پاسکتی ہے۔

گزشتہ تین برس تک یہاں شائع ہونے والی میری تحریروں کے قارئین جانتے ہیں کہ میراپیغام علم و فضل کی محبوبہ کوجوآج یورپ کے ہاتھوں میں جاکر شوخ و شنگ ہو چکی ہے واپس گھر لانے اورایمان آشنا کرنے کاپیغام ہے۔میں صورت حال سے مایوس ہونے کے بجاے اچھے مستقبل کی آمد پر یقین رکھتا ہوں۔۔۔اس لیے کہ اگر ہم سے رجائیت بھی چھن گئی تو گویا ہم سے ساری خیر ہی چھن جائے گی۔۔۔۔

جامعہ الازہر میں اپنے تین سالہ قیام کی یادگار کے طور پر میں آج اپنی جانب سے پانچ سو چونسٹھ اردو، عربی اور انگریزی کتابوں کاتحفہ آپ کی لائبریری کو پیش کر رہا ہوں۔ یہ کتابیں جو میں نے ذاتی حیثیت میں فراہم کی ہیں، پاکستان اور اہل پاکستان کاپیغام محبت آپ تک پہنچاتی رہیں گی اورجہاں یہ آپ کی فیکلٹی کے طلبہ و طالبات کی تحقیق کی ضروریات کو پورا کریں گی وہاں آپ کو یہ بھی یاددلاتی رہیں گی کہ کبھی ایک اجنبی آپ کی جامعہ میں آیا تھا جس نے تین برس آپ کی سماعتوں پر دستک دی تھی اورجو ایک اجنبی ہی کی حیثیت سے رخصت ہوا۔

_______________

* پروفیسر و صدر نشین مسند ظفر علی خان ، ادارہ علوم ابلاغیات، جامعہ پنجاب، لاہور

_______________

B