HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عقیل احمد

کیا واقعی قیامت آنے والی ہے؟

کہا جا رہا ہے کہ سال ۲۰۱۲ء کے آخری مہینہ میں دنیا تباہ ہو جائے گی۔ یہ عقیدہ ایک قدیم تہذیب مایا کے ماننے والوں کا ہے۔ دنیا میں آباد ہر مذہب اور قوم کی اپنی ایک الگ تہذیب و ثقافت ہے، جبکہ کئی قدیم تہذیبیں بھی اس دنیا کی بنیاد ہیں۔ ایسی ہی ایک تہذیب جو مایا کہلاتی ہے، لاطینی امریکا کے بیشتر ممالک کی سب سے قدیم تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے۔یہ تہذیب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدایش سے بہت پہلے اس دنیا میں زندہ تھی۔ زیادہ مضبوط شواہد چھ سو قبل مسیح کو مایا تہذیب کے عروج کا نقطۂ آغاز بتاتے ہیں، جبکہ اس تہذیب کا دوسرا دور تیسری سے دسویں صدی عیسوی تک پھیلا ہوا ہے۔ جنوبی میکسیکو، گوئٹے مالا، ایل سلواڈور سے لے کر بے لائیز اور مغربی ہونڈراس تک کم و بیش ہزاروں کلو میٹر وسیع و عریض خطے پر اس عظیم الشان تہذیب نے جنم لیا۔میکسیکو ایک ایسی پراسرار جگہ ہے جہاں کئی ایسے راز ہیں جو ابھی تک دنیا پر کھل رہے ہیں، جبکہ اس کے کچھ باشندے اب بھی قدیم مایا زبانیں بول سکتے ہیں۔

مایا تہذیب زبان، حساب اور ستاروں کے علم میں بہت ترقی یافتہ تھی۔ ان کی تہذیبی اور ثقافتی برتری نے ارد گرد کی دیگر اقوام کو بھی متاثر کیا۔اس تہذیب کے باشندوں نے امریکا میں لکھائی کی ابتدا کی، جبکہ ان کے لکھنے کا طریقہ قدیم مصری زبان سے ملتا جلتا ہے۔ یہ لوگ الفاظ اور تصاویر کو ملا کر لکھی جانے والی زبان کے لیے جانوروں کے بالوں یا پروں سے بنا ہوا برش استعمال کرتے تھے۔ وہ درختوں کی چھالوں پر لکھتے تھے، جس کی چند کتابیں آج بھی محفوظ ہیں۔ مایا تہذیب کے کیلنڈروں میں اٹھارہ مہینے اور ہر مہینے میں بیس دن ہوتے تھے، یعنی سال میں تین سو ساٹھ دن۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے بنائے ہوئے کیلنڈر ہمارے آج کے عیسوی کیلنڈرز سے بہت زیادہ درست ہیں۔ ان کا حساب اتنا درست ہے کہ فوراً معلوم ہو جاتا ہے کہ سورج کب نصف النہار پر ہوگا، سال کے کن حصوں میں دن رات برابر ہوں گے، ہمارے نظام شمسی میں دیگر سیارگان کے گزرنے کے راستے اور اوقات کیا ہوں گے، زہرہ اور مریخ کے مدار کون کون سے ہیں وغیرہ۔

اس تہذیب کا اپنا حساب کتاب کرنے کا نظام بھی تھا۔ اس نظام میں فقط تین نشانات استعمال ہوتے تھے جس میں لکیر، نقطہ اور سیپ کا نشان شامل ہے۔ اس میں لکیر کے معنی پانچ، سیپ کے معنی صفر اور نقطہ کے معنی ایک ہیں۔ ان تین نشانوں کے ذریعے بغیر پڑھے لکھے لوگ بھی بڑے سے بڑا حساب کتاب کر لیتے تھے۔ مایا تہذیب بظاہر صدیوں پہلے ہی زوال پذیر ہو چکی ہے، مگر مایا قوم کی اولادیں آج بھی میسو امریکن علاقوں میں موجود ہیں۔ ان میں بہت سارے لوگ اب بھی مایا مذہب کی بہت سی رسومات پر عمل کرتے ہیں، مگر ان کے پیچیدہ رسم الخط کو وہ بھول چکے ہیں۔ اس تہذیب کی سب سے قابل ذکر ایجاد ان کا کیلنڈر مانا جاتا ہے۔ مایا کیلنڈر کے مطابق ۲۱دسمبر ۲۰۱۲ء کو پانچ ہزار ایک سو چھبیس برس پر مشتمل ایک دور کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ لہٰذا اس دن ایک بڑی قدرتی آفت کے ذریعے قیامت برپا ہو جائے گی، جبکہ مایا برادری پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دنیا پانچ عہدوں میں بٹی ہوئی ہے اور مایا لوگ چوتھے عہد میں جی رہے ہیں۔ ان کے کیلنڈر کے مطابق چوتھے عہد کو ہمارے آج کے عیسوی کیلنڈر کے حساب سے اکیس دسمبر میں ختم ہو جانا ہے اور پھر اس کے بعد دنیا کا آخری اور پانچواں عہد شروع ہو جائے گا۔

یہ تو ایک قدیم قوم ہے جس کا یہ عقیدہ ہے، لیکن مغرب میں پڑھا لکھا ایک طبقہ ہے جو اس خوف میں مبتلا ہے کہ ۲۰۱۲ء میں کچھ ہونے والا ہے۔ کچھ لوگو ں کو اس سال قیامت واقع ہوتی نظر آرہی ہے۔ بعض لوگوں کو دجال کی چاپ قریب سنائی دے رہی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سال بدی کی قوتوں کا امام’’ امریکا‘‘ قدرتی آفات وبلیات کی خوف ناک لپیٹ میں آکر سمندر برد ہوجائے گا۔ بعضوں کا خیال ہے کہ رواں سال ’’اسرائیل‘‘ صفحہ ہستی سے مٹ جانے والا ہے۔ مغربی معاشرے اس حوالہ سے کچھ زیادہ ہی خوف میں مبتلا ہیں، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس خوف کا اصل بخار مغربی معاشرہ کو ہی چڑھا ہوا ہے۔ان کے بعض حلقوں میں یہ بات عقیدہ کی حد تک راسخ ہوچکی ہے کہ ۲۰۱۲ء کے دوران میں یہ دنیا مختلف موسمیاتی یا ماورائی تبدیلیوں کا شکار ہوکر ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور یوں اس زمین پہ زندگی اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی۔ مغرب کے کئی مفکر اور اسکالرزاس نقطۂ نظر کے پرزور حامی ہیں۔ اس حوالہ سے جس تاریخ کا خصوصی طور پر ذکر کیا جاتا ہے، وہ ۲۱ دسمبر ۲۰۱۲ء ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ساٹھ ہزار ویب سائٹس ایسی ہیں جہاں اس تاریخ کے بارہ میں پیشین گوئیوں پر مبنی مواد موجود ہے۔ ان میں سے بعض ویب سائٹس پر باقاعدہ ڈاؤن کاؤنٹر لگے ہوئے ہیں جن کے ذریعہ ہر لمحہ بتایا جارہا ہے کہ دنیا کس طرح لمحہ بہ لمحہ اپنے خاتمہ کی طرف محوسفر ہے اور اس کے خاتمہ میں مزید کتنے لمحات باقی ہیں۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر مغرب میں بے شمار کتابیں بھی لکھی جاچکی ہیں۔ مشرق میں یہ خوف مغرب سے ہی برآمد ہوکر آیا ہے۔

دلائل اور حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس موضوع پر قلم اٹھانے والے لکھاریوں کے دعویٰ کے مطابق اہل دنیا کا یہ خوف بلاوجہ نہیں۔ ان کے مطابق اس بات کے کئی ماورائی اور سائنسی ثبوت موجود ہیں کہ ۲۰۱۲ء میں دنیا کے اندر کچھ غیر معمولی تغیرات اور تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں۔ ذیل میں ہم ان شواہد کا ایک جائزہ لیتے ہیں اور ان پہ راے زنی کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ آیا واقعی ان کی بنیاد پر ۲۰۱۲ء سے ڈرنا اور خوف کھانا درست ہے؟

ماورائی شواہد کے ضمن میں مختلف مذاہب کی مذہبی روایات ذکر کی جاتی ہیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان مذہبی روایات میں سے بعض کے اندر تو سرے سے کوئی ایسا اشارہ ہی نہیں ملتا، جس سے معلوم ہو کہ بنی نوع انسان کو ۲۰۱۲ء سے ڈرنے کی ضرورت ہے، بلکہ اس کے برعکس ان پیشین گوئیوں میں (مجمل الفاظ میں) یہ خوش خبری اور نوید نظرآتی ہے کہ ۲۰۱۲ ء میں حق اور سچائی کا آفتاب طلوع ہونے والا ہے۔ مثلاً ہندومت کی روایات کے مطابق ۲۰۱۲ء سے حق اور صداقت کے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ بدھ مت کے بعض راہبوں کے مطابق ’’بدھا‘‘ کی پیشین گوئی کی رو سے ۲۰۱۲ء میں ایک سنہری دور (golden age) شروع ہونے والا ہے۔ تاہم یہودی اور عیسائی روایات کے مطابق اگرچہ ۲۰۱۲ء کے دوران یا اس سے پہلے دنیا کے اندر قتل وغارت ‘ خوں ریزی اور فتنہ و فساد کے کچھ واقعات رونما ہوں گے، مگر ان میں بھی انجام کار حق کے پیروکار صاف بچ جائیں گے اور منکرین حق پر عذاب الٰہی نازل ہوگا۔ یوں اپنی اپنی روایات کی روشنی میں عیسائیوں اور یہودیوں کو بھی ۲۰۱۲ء سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ اپنے ہی عقیدہ کے مطابق خدا کے محبوب اور لاڈلے ہیں اور ان کی اپنی روایات کے مطابق خدا اس سال اپنے فرماں برداروں کو ’’فتحِ مبین‘‘ عطا فرمائے گا۔ نہ جانے پھر مغرب اور خصوصاً امریکا میں ایسی باتیں کیوں روز بروز مقبول ہوتی جارہی ہیں جو ۲۱ دسمبر ۲۰۱۲ء کی تباہی سے بچنے کے لیے زیر زمین پناہ گاہیں تیار کرکے فروخت کرتی ہیں اور نہ جانے انھیں خریدار کہاں سے میسر آجاتے ہیں!رہ گئے مسلمان تو دوسرے مذاہب کی روایات پر ان کا سرے سے ایمان ہی نہیں اور ان کا اپنا مذہب اس حوالہ سے بالکل خاموش ہے۔ لہٰذا ان کا ۲۰۱۲ء سے ڈرنااور گھبرانا تو بالکل ہی کوئی معنی نہیں رکھتا۔

سائنسی انکشافات اور شواہد کے ضمن میں جن امور کا ذکر کیا جاتا ہے، ان میں بھی کوئی ایسا نہیں جسے اطمینان بخش، حتمی اور قطعی کہا جا سکے۔ سائنسی شواہد کے ضمن میں جو ’’معتبر نام‘‘ لیا جاتا ہے، وہ امریکی خلائی ادارے ’’ناسا‘‘ کا ہے۔ اس سلسلہ میں ’’ناسا‘‘ کی طرف بہت کچھ منسوب کیا جاتا ہے، مگر میں نے خود ’’ناسا‘‘ کی ویب سائٹ پر اس حوالہ سے جو کچھ دیکھا، اس کی ایک جھلک آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ:

’’۲۰۱۲ء میں دنیا کے اندر کوئی برا واقعہ پیش نہیں آئے گا۔ ہمارا سیارہ چار ارب سال سے زیادہ عرصہ کے لیے بالکل فٹ فاٹ ہے۔ معتبر سائنس دان ۲۰۱۲ء میں پوری دنیا کو لاحق کسی بھی خطرہ کے بارہ میں کچھ نہیں جانتے۔‘‘

ایک مسلمان کا ایمان ہے کہ یہ دنیا تباہ ہونے کے لیے بنی ہے اور ایک دن تباہ ہوکر ہی رہے گی۔ ایک صاحب ایمان کے نزدیک اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس تباہی کا مقررہ وقت معلوم کیا جائے، یہ تباہی تو کسی بھی وقت آسکتی ہے، عین اس وقت بھی کہ جب ’’ناسا‘‘ والے بالکل مطمئن اوربے خوف بیٹھے ہوں کہ ابھی چار ارب سال تک تو اس دنیا کے تباہ ہونے کے کوئی امکانات نہیں، کیونکہ یہ تباہی ناسا والوں کی نہیں، اللہ کی اجازت اور مرضی سے آنی ہے جو بحر وبر کا بادشاہ اور بلا شرکت غیرے مالک ہے۔ اس کے ایک ہی اشارہ سے ہوائیں، پہاڑ، سمندر، ستارے، زلزلے، وبائیں، سیلاب، آفتیں اور سینکڑوں قسم کی بلائیں پلک جھپکتے میں اس دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر تہس نہس کرسکتی ہیں۔ایک مسلمان کی نگاہ میں اصل مسئلہ یہ ہونا چاہیے کہ میں نے تباہی کے اس دن کے لیے کیا تیاری کی جب ماں بیٹے کو بھول جائے گی اور اولاد والدین کو۔آسمان پھٹ پڑے گا، زمین میں خوف ناک زلزلے ہوں گے، ایسی خوف ناک اور ہیبت ناک آندھیاں چلیں گی کہ پہاڑ روئی کے گالے بن جائیں گے، قبریں شق ہونے لگیں گی اور اندر سے مردے نکل رہے ہوں گے، ستارے بکھرتے ہوئے نظر آئیں گے، سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی، صور اسرافیل کی دہشت ناک آواز کانوں کے پردے پھاڑ رہی ہوگی اور دہشت ووحشت کے اس عالم میں چھ فٹ کے انسان کو اپنی اوقات یاد آجائے گی۔تب بدحواسی اور وحشت زدگی کی حالت میں اس کی آنکھیں تن جائیں گی اور وہ سوچنے پہ مجبور ہوجائے گا کہ کیا اس نے آج کے دن کے لیے کوئی نیکیاں ذخیرہ کی تھیں یا لہو ولعب اور شغل ومستی کے اندر ہی اپنی ساری زندگی برباد کرآیا ہے۔ایک طرف شرمندگی، افسردگی اور خوف زدگی کی خوف ناک تصویریں ہوں گی، جن کی کتاب ان کے بائیں ہاتھ میں پکڑائی جائے گی۔ ان کے چہرے ہیبت ناک حدتک سیاہ اور تاریک پڑجائیں گے۔ دوسری طرف کچھ کھلکھلاتے اور مسکراتے چہرے ہوں گے، جن کے دائیں ہاتھ میں ان کا اعمال نامہ پکڑایا جائے گا۔ خوشی اور مسرت ان کے انگ انگ سے پھوٹ رہی ہوگی اور لوگ ان کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھیں گے۔ ان کا بس نہیں چل رہا ہوگا کہ کس طرح خوشی کا اظہار کریں اور سب محشر والوں کو بتائیں کہ انھیں کتنی بڑی کامیابی کا پروانہ مل گیا ہے۔ جب نفسانفسی کا عالم ہوگا، زمین دہکتا توا بن جائے گی، دنیا میں گزری زندگی کے پل پل کا حساب ہوگا، شعلے اگلتی جہنم سامنے ہوگی، پل صراط بڑے بڑوں کا پِتہ پانی کردے گی، میزان اعمال کے پاس عجیب مناظر ہوں گے۔ اس دن صرف وہی بچ پائے گا جسے خدا کی رحمت اپنی آغوش میں لے لے گی۔ اس رحمت کو متوجہ کرنے اور اپنا مقدر سنوارنے کا آج بہت انمول موقع اس زندگی کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ہمیں ہر جہت اور ہر پہلو سے اللہ کے رنگ میں رنگ جانا چاہیے اور ہر اس چیز سے ڈرنا چاہیے جس سے اس مالک الملک نے ہمیں ڈرایا ہے۔ یہی ڈرنے کی اصل باتیں ہیں۔

____________

B