بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ، لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا: اٰمَنَّا بِاَفْوَاہِہِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُہُمْ، وَمِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ، سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ لَمْ یَاْتُوْکَ، یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ، یَقُوْلُوْنَ: اِنْ اُوْتِیْتُمْ ہٰذَا فَخُذُوْہُ وَاِنْ لَّمْ تُؤْتَوْہُ فَاحْذَرُوْا، وَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰہُ اَنْ یُّطَہِّرَ قُلُوْبَہُمْ، لَہُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ{۴۱} سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ، اَکّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ، فَاِنْ جَآئُ وْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْہُمْ، وَ اِنْ تُعْرِضْ عَنْھُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْکَ شَیْئًا، وَاِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ، اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ{۴۲} وَکَیْفَ یُحَکِّمُوْنَکَ وَعِنْدَہُمُ التَّوْرٰۃُ، فِیْہَا حُکْمُ اللّٰہِ، ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ، وَمَآ اُولٰٓـئِکَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ{۴۳}
تمھیں آزردہ نہ کریں وہ لوگ، اے پیغمبر۹۹ جو(خدا کی شریعت کے ) منکر ہوجانے میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں،وہ بھی جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، دراں حالیکہ اُن کے دل ایمان نہیں لائے اور وہ بھی جو یہودی ہوچکے ہیں۔ یہ جھوٹ پر کان لگاتے ہیں، اُن لوگوں کے جھوٹ پرجو اِن سے الگ ایک دوسرا گروہ ہیں، جو کبھی تمھارے پاس نہیں آئے، ۱۰۰ بات کا موقع و محل متعین ہوجانے کے باوجود اُس کو اصل معنی سے پھیر دیتے ہیں،۱۰۱ کہتے ہیں کہ تمھارے معاملے کا فیصلہ یہ ہو تو مانو اور نہ ہو تو اُس سے بچ کر رہو۔ ۱۰۲ (یہ فتنے میں پڑچکے ہیں) اور جس کو اللہ فتنے میں ڈالنا چاہے، (وہ اُس میں پڑ کر رہتا ہے)، اِس لیے کہ اللہ کے مقابل میں تم اُس کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ ۱۰۳یہی ہیں جن کے بارے میں اللہ نے نہیں چاہا کہ اِن کے دلوں کو پاک کرے۱۰۴۔ اِن کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ایک بڑی سزا ہے۔ یہ جھوٹ پر کان لگاتے اور (جھوٹی گواہی کے لیے) بغیر کسی تردد کے حرام کھاتے ہیں، ۱۰۵ لہٰذا (فیصلوںکے لیے) تمھارے پاس آئیں تو تمھیں اختیار ہے کہ ِان کا فیصلہ کرویا ٹال دو۔ تم اِنھیں ٹال دوگے تو یہ تمھیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۱۰۶ اور اگر فیصلہ کروگے تو تم پر لازم ہے کہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ اللہ اُنھی لوگوں کو پسند کرتا ہے جو انصاف کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ تم سے کس طرح فیصلہ کراتے ہیں، دراں حالیکہ اِن کے پاس تورات ہے جس میں اللہ کا فیصلہ موجود ہے،۱۰۷ پھر فیصلے کے لیے رجوع کرلینے کے بعد اُس سے بھی برگشتہ ہوجاتے ہیں۔۱۰۸ حقیقت یہ ہے کہ یہ ماننے والے لوگ ہی نہیں ہیں۔ ۴۱-۴۳
۹۹؎ اصل الفاظ ہیں: ’یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ‘۔اِن میںلفظ رسول سے خطاب اِس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ دین کی تبلیغ اور انذار وبشارت سے زیادہ کوئی ذمہ داری آپ پر عائد نہیں کی گئی۔ آپ نے رسالت کا یہ فرض ادا کردیا تو اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے۔ لوگ نہیں مانتے تو اِس کی پرسش اُنھی سے ہوگی۔ آپ کو اِس معاملے میں آزردہ ہونے کی ضرورت نہیںہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔یہاں چونکہ مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقین اور یہود کی مخالفانہ اور سازشانہ روش پر تسلی دینا اور اِس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ جن کا فتنہ میں پڑنا سنت الہٰی کے بموجب مقدر ہوچکا ہے،وہ فتنہ میں پڑ کے رہیں گے، اِس وجہ سے ’یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ‘ کے خطاب سے آپ کو مخاطب کرنا موزوں ہوا تاکہ خطاب ہی سے آپ کی ذمہ داری کی حد آپ پر واضح ہوجائے۔ آگے خطاب کی یہی مضمر حقیقت الفاظ میں یوں واضح فرما دی گئی ہے: ’مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ فِتْنَتَہٗ، فَلَنْ تَمْلِکَ لَہْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا‘۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۵۲۱)
۱۰۰؎ اشارہ ہے یہود کے اُن علما اور لیڈروں کی طرف جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شب و روز جھوٹ گھڑتے اور سامنے آکر بات کرنے کے بجاے پردے کے پیچھے بیٹھ کر اپنے پیرووں کو آپ کی مخالفت میںسرگرم رکھتے تھے۔
۱۰۱؎ اصل میں ’یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ‘ کے الفاظ آ ئے ہیں۔ اِن میں ایک مضاف عربیت کے عام قاعدے کے مطابق حذف ہوگیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بات کا موقع و محل اور محمل و مصداق متعین ہوجانے کے باوجود اُس کو موقع و محل سے ہٹا دیتے ہیں، اِس لیے صریح تحریف کے مرتکب ہیں۔ ایسا نہیںہے کہ موقع و محل واضح نہیں ہوتا اور اُس کے انطباق میں غلطی کرجاتے ہیں، لہٰذا معذور ٹھیرائے جاسکتے ہیں۔
۱۰۲؎ یعنی خدا کی شریعت کے مطابق اور حق و انصاف کا فیصلہ نہیں چاہتے، بلکہ اپنی مرضی کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ چنانچہ آپس میں کہتے ہیں کہ فیصلہ حسب منشا ہو تو قبول کرلیں گے، ورنہ کترا جائیں گے۔
۱۰۳؎ یہ اُس سنت الہٰی کا بیان ہے جو ہدایت و ضلالت کے باب میں ہمیشہ سے قائم ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔سنت الہٰی یہ ہے کہ جو لوگ جانتے بوجھتے اور دیکھتے سنتے شر کو خیر پر اور باطل کو حق پر ترجیح دیتے ہیں، نہ خدا کی تنبیہات سے سبق حاصل کرتے، نہ اہل حق کی نصیحتوں سے، وہ آہستہ آہستہ اپنے ضمیر اور اپنے عقل و ارادے کو اِس درجہ کند اور بے حس بنا لیتے ہیں کہ اُن کے اندر حق کی طرف بڑھنے کا کوئی عزم و حوصلہ سرے سے باقی رہ ہی نہیں جاتا، باطل ہی اُن کا اوڑنا بچھونا بن جاتا ہے۔ اُن کو کتنا ہی جھنجھوڑیے اور جگایے، لیکن وہ یہ بستر چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ یہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اِن کو اِس فتنے ہی میں اوندھے منہ پڑے چھوڑ دیتا ہے جس میں وہ پڑچکے ہوتے ہیں۔‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۵۲۳)
۱۰۴؎ اِس لیے نہیں چاہا کہ دلوں کی تطہیر کے لیے اللہ تعالیٰ کا ایک خاص ضابطہ ہے جس کے مطابق یہ اِس کے مستحق نہیں رہے کہ اللہ اِن کے دلوں کو پاک کرے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔جو لوگ نیکی اور تقویٰ کی راہ پر چلتے ہیں، اگر اثناے راہ میں اُن کو کوئی ٹھوکر لگ جاتی ہے، وہ گر پڑتے ہیں، لیکن گرنے کے بعد پھر اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور توبہ و اصلاح کے ذریعے سے دامن جھاڑ کے پھر چل کھڑے ہوتے ہیں، تو خواہ ہزار بار گریں اور اُٹھیں، لیکن اُن کے دامن دل پر میل جمنے نہیں پاتا، اللہ اُن کی توبہ و اصلاح کو اُن کے لیے کفارۂ سیئات بناتا رہتا ہے۔ لیکن جو لوگ برائی اور نافرمانی ہی کو اپنا پیشہ بنا لیتے ہیں اور گناہوں کی کیچڑ ہی میں لت پت رہتے ہیں، اُن میں لذت و راحت محسوس کرتے ہیں، آہستہ آہستہ اُن کے دلوں پر اتنی سیاہی جم جاتی ہے کہ اُن پر کوئی صیقل بھی کارگر نہیں ہوتا، پھر خدا اُنھیں جہنم کی بھٹی ہی کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۵۲۴)
۱۰۵؎ یعنی جھوٹ کے رسیا ہیں۔ چنانچہ جھوٹی گواہی دین و شریعت کے کسی معاملے میں دینی پڑے یا کسی مقدمے میں، یہ ہر وقت تیار رہتے اور اس کے لیے رشوت لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
۱۰۶؎ مطلب یہ ہے کہ اِن کی تمام سازشیں بے نقاب ہوجائیں گی۔ اللہ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اِن کا پردہ اٹھا دے گا۔ چنانچہ تم اِنھیں ٹال بھی دو تو اِس کی بنا پر تمھارے خلاف پروپیگنڈا کرکے یہ تمھیں اور تمھاری دعوت کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔
آیت کے الفاظ سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اہل کتاب اگر مسلمانوں کی حکومت میں اپنی شریعت کے مطابق اور اپنے علما و فقہا کی عدالتوں سے فیصلہ کرانا چاہیں تو اِس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ آگے کی آیتوں سے معلوم ہوتاہے کہ یہی طریقہ اللہ تعالیٰ کو پسند بھی ہے۔ اِس لیے کہ جب تک وہ قرآن پر ایمان نہیں لاتے، اُن کے لیے زیبا یہی ہے کہ وہ تورات و انجیل کی طرف رجوع کریں۔ یہ اللہ کی کتابیں ہیں اور کوئی مسلمان اُنھیں اللہ کی کتابوں پر عمل کرنے سے روکنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔
۱۰۷؎ یہ اِس بات پر اظہار تعجب ہے کہ تورات کو مانتے ہیں اور تم کو نہیں مانتے، لیکن محض اِس وجہ سے کہ تورات کا قانون کسی معاملے میں قابل قبول نہیں ہوتا تو اپنے مقدمات تمھارے پاس لے آتے ہیں تاکہ حسب منشا کوئی فیصلہ اگر حاصل ہوجائے تو کہہ سکیں کہ تورات کو چھوڑ کر ہم نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ ہم نے تو خدا کے پیغمبر کا فیصلہ قبول کیا ہے۔
اِس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ خداکا قانون اگر قانون کی حیثیت سے دیا گیا ہے تو اُس پر عمل بجاے خود مطلوب ہوتا ہے۔ اُس کے مقاصد کو سامنے رکھ کر کوئی شخص اُس کی جگہ کوئی دوسرا قانون نہیں بناسکتا۔ آیت میں دیکھ لیجیے، نزول تورات کے کم و بیش پندرہ سو سال بعد بھی اللہ تعالیٰ کا اصرار ہے کہ اُس کے ماننے والے اُس کے احکام کے پابند ہیں۔ اِس کے بعد کسی مسلمان کے لیے یہ بات کس طرح جائز ہوسکتی ہے کہ اللہ کے قانون کو ایک طرف رکھ کر وہ اُس کے مقاصد کی رعایت سے اپنے لیے خود کوئی قانون بنالے؟ آیت کے سیاق و سباق سے واضح ہے کہ یہ حدود ہی کے احکام تھے جن سے فرار کے لیے یہود نے مختلف قسم کے حیلے نکالنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا ہے کہ یہ صرف ظالم، فاسق اور کافر ہی ہیں جو اُس کے احکام سے اِس طرح فرار کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔
۱۰۸؎ یعنی حق و انصاف کا فیصلہ حاصل کرنے کی خواہش چونکہ شروع ہی سے نہیں تھی، اِس لیے پہلے رجوع کرتے ہیں، مگر تمھارا فیصلہ اگر مرضی کے مطابق نہ ہو تو اُس سے بھی برگشتہ ہوجاتے ہیں۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ