HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

اصل باپ سے نسبت

عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: لَیْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعٰی لِغَیْرِ أَبِیْہِ وَہُوَ یَعْلَمُہُ إِلَّا کَفَرَ. وَمَنِ ادَّعٰی مَا لَیْسَ لَہُ فَلَیْسَ مِنَّا وَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ. وَمَنْ دَعَا رَجُلاً بِالْکُفْرِ أَوْ قَالَ: عَدُوَّ اللّٰہِ وَلَیْسَ کَذٰلِکَ إِلَّا حَارَ عَلَیْہِ.
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جواپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی اور سے منسوب کرے، دراں حالیکہ وہ (اصل حقیقت) جانتا تھا، مگر یہ کہ اس نے کفر کیا۔ جو کسی ایسی چیز کا مدعی ہوا جو اس کی نہیں تھی تو وہ ہم میں سے نہیں اور وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنا لے۔ اور جس نے کسی آدمی کو کفر کی نسبت سے بلایا یا یہ کہا کہ تم اللہ کے دشمن ہو اور وہ ایسا نہ ہوا تو یہ اسی کی طرف پلٹے گا۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تَرْغَبُوْا عَنْ آبَاءِکُمْ. فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِیْہِ فَہُوَ کُفْرٌ.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے آبا سے انحراف نہ کرو۔ جس نے اپنے باپ سے انحراف کیا، وہ کفر ہے۔
عَنْ سَعْدِ ابْنِ أَبِی وَقَّاصٍ یَقُوْلُ: سَمِعَ أُذُنَایَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلََّی اللّٰہُ عَلَیْہَ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَقُوْلُ مَنِ ادَّعٰی أَبًا فِی الْإِسْلَامِ غَیْرَ أَبِیْہِ یَعْلَمُ أَنَّہُ غَیْرُ أَبِیْہِ فَالْجَنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَامٌ.
حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ ان کے کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ فرما رہے تھے: جس نے اسلام میں اپنے آپ کو کسی اور باپ سے منسوب کیا، جبکہ وہ جانتا تھا کہ یہ اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔


عَنْ سَعْدٍ وَأَبِی بَکْرَۃَ کِلَاہُمَا یَقُوْلُ: سَمِعْتُہُ أُذُنَایَ وَوَعَاہُ قَلْبِی مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: مَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیْہِ وَہُوَ یَعْلَمُ أَنَّہُ غَیْرُ أَبِیْہِ فَالْجَنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَامٌ.

حضرت سعد اور ابو بکرہ رضی اللہ عنہما، دونوں نے بیان کیا ہے کہ میرے ان کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد رکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: جس نے اپنے آپ کو کسی اور کا بیٹا قرار دیا، جبکہ وہ جانتا تھا کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو جنت اس پر حرام ہے۔
لغوی مباحث

حَارَ عَلَیْہِ‘ : ’حار ‘ ، ’ رجع ‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس روایت میں یہ اسی معنی میں آیا ہے۔

اِدَّعٰی‘: ’ اِدَّعٰی ‘ کا لفظ بالعموم دعویٰ کرنے کے معنی میں آتا ہے، لیکن اس روایت میں یہ ’ اِنْتَسَبَ ‘کے معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی اپنے آپ کو کسی شخص کی طرف منسوب کرنا۔روایت میں چونکہ باپ کے بارے میں غلط نسبت کا معاملہ زیر بحث ہے۔ چنانچہ ہم نے ترجمہ کرنے میں یہی پہلو ملحوظ رکھا ہے۔ یہ واضح ہے کہ اس معنی میں بھی دعوے کا پہلو موجود ہے۔

فَالْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ‘ : جملہ فعل امر سے شروع ہوا ہے۔ چنانچہ اس کا ترجمہ کرتے ہوئے اس اسلوب کو پیش نظر رکھا جاتا ہے، لیکن یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ امر کا صیغہ جہاں حکم یا اظہار تمنا وغیرہ کے لیے آتا ہے، وہاں بد دعا یا کسی امر کے یقینی نتیجے کو بیان کرنے کے لیے بھی آتا ہے۔ ہمارے خیال میں یہاں یہ اسلوب آخری معنی کے لیے اختیار کیا گیا ہے، یعنی پھر ایسا شخص اپنے آپ کو آگ کا مستحق بنا لے گا۔

معنی

ہم نے یہاں چار روایتوں کو ایک ہی عنوان کے تحت نقل کیا ہے۔ پہلی روایت میں تین گناہ بیان ہوئے ہیں۔ ایک غیر باپ کو اپنا باپ قرار دینا، دوسرا کسی شے کے مالک ہونے کا ناحق دعویٰ کرنا اور تیسرے کسی مسلمان بھائی کو کافر قرار دینا۔ تیسرے جرم کے بارے میں وہی بات کہی گئی ہے جو پچھلی روایت میں زیر بحث آچکی ہے۔ چنانچہ یہاں اس روایت کے تحت اس پر تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

باپ، یعنی نسب کے معاملے میں غلط بیانی کا معاملہ خود قرآن مجید میں زیر بحث آیا ہے۔ سورۂ احزاب میں ہے:

وَمَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَ کُمْ اَبْنَآءَ کُمْ ذٰلِکُمْ قَوْلُکُم بِاَفْوَاہِکُمْ وَاللّٰہُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَہُوَ یَہْدِی السَّبِیْلَ. اُدْعُوْہُْمْ لِاٰبَآءِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَآءَ ہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْ وَلَیْْسَ عَلَیْْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ وَلٰکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا.(۳۳: ۴۔۵)
’’ اور نہ تمھارے منہ بولے بیٹوں کو تمھارے بیٹے بنایا۔ یہ سب تمھارے اپنے منہ کی باتیں ہیں۔ اور اللہ حق کہتا اور صحیح راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت کے ساتھ پکارو۔ یہی اللہ کے نزدیک قرین عدل ہے۔اور اگر تم کو ان کے باپوں کا پتا نہ ہو تو وہ تمھارے دینی بھائی اور تمھارے شریک قبیلہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور اس باب میں تم سے جو غلطی ہوئی، اس پر تم سے کوئی مواخذہ نہیں، البتہ اس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا دل سے ارادہ کرو، اللہ درگذر کرنے والا اور رحیم ہے۔‘‘

اس آیت میں اصلاً متبنیٰ کا مسئلہ زیر بحث ہے، یعنی جس بچے کو اپنا بیٹا بنا لیا جائے، اس پر شریعت کے وہ احکام نہیں ہیں جو حقیقی بیٹے سے متعلق ہیں۔ مزید براں قرآن نے یہ ہدایت بھی کردی کہ جس بچے کے والدین معلوم ہیں، اس بچے کو انھی کی طرف منسوب کرنا چاہیے اور یہ تنبیہ بھی فرمادی کہ تمھارے رب کے نزدیک قرین انصاف بات یہی ہے۔ اس مقام پر یہ بات بھی فرما دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی بات پر گرفت فرمائیں گے جو دل کے ارادے سے کی جاتی ہے۔ اس جملے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جان بوجھ کر کسی کے نسب کو بدلنا گناہ ہے، لیکن اس مقام سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ اس جرم کی سزا ابدی جہنم ہے۔ اسی طرح اس مقام پر اس کو ایک گناہ تو قرار دیا گیا ہے، لیکن اس کے کفر ہونے کا کوئی اشارہ یہاں نہیں ہے۔ روایات میں اس کے برعکس اسے کفر بھی قراردیاگیا ہے اور اس کے مجرم کو جنت کے حرام ہونے کی وعید بھی سنائی گئی ہے۔

غیر باپ کی طرف انتساب کی برائی کیا ہے۔ متبنیٰ کے باب میں عرب جو غلطی کر رہے تھے، وہ اسے حقیقی بیٹے کے مانند قرار دینا تھا۔ اسے اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیاکہ متبنیٰ اصل بیٹا نہیں ہے۔ اس کے بعد کسی متبنیٰ کے اصل نسب کو بدلنے کی ممانعت ہے۔ اس کی خلاف ورزی بھی گناہ ہے، لیکن اس کی وجہ اللہ کی نافرمانی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور محرک کے تحت اگر نسب بدلنے کا معاملہ ہو تواس کے برے ہونے کی وجہ، مثلاً یہ ہو سکتی ہے کہ اس میں قذف، یعنی تہمت کا پہلو پیدا ہو جاتا ہے یایہ کہ یہ والدین کے حقوق ماننے سے انکار ہو سکتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ ایک جھوٹ ہے، لیکن یہ کوئی ایسا پہلو بھی نہیں ہے کہ اس کے مرتکب کو کافر قرار دیا جائے ۔

سوال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر اور جہنم کی وعید کی بات کس معنی میں فرمائی ہے؟ اس سوال کے متعدد جواب دیے گئے ہیں۔ یہ کہا گیا ہے کہ جنت کے حرام ہونے کا مطلب صرف یہ ہے کہ یہ لوگ قیامت کے دن فائز المرام لوگوں میں شامل نہیں ہوں گے اور ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی ملنے تک معلق رہے گا۔ تکفیرکی توجیہ یہ بات کہہ کر کی گئی ہے کہ باپ سے غلط نسبت کا فعل دور جاہلیت کا فعل ہے، گویا یہ کفار والا کام ہے۔

بعض شارحین کے نزدیک تکفیر سے محض یہ واضح کرنا پیش نظر ہے کہ اس طرح کے اعمال اہل دین کے طریقے سے انحراف ہیں اور کسی مسلمان کو ان کا مرتکب نہیں ہونا چاہیے۔ ہم پچھلی روایت کے تحت یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ یہ بیانات قانونی نہیں ہیں، ان سے مقصود کسی برائی کی شناعت اور ان کے مسلمانوں کے کردار سے انتہائی عدم مناسبت واضح کرنا ہوتا ہے، لیکن یہاں ہم قرآن مجید کے حوالے سے ایک اور پہلو بھی واضح کرنا چاہتے ہیں۔ سورۂ بقرہ میں ابلیس کے سجدہ نہ کرنے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے انکار کا محرک اور نتیجہ، دونوں بیان کیے ہیں۔ ارشاد ہے:

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلآءِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلاّآاِبْلِیْسَ اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ.(۲: ۳۴)
’’اور(یادکرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو۔ سوائے ابلیس کے سب نے سجدہ کیا۔ اس نے انکار کیا اور استکبار کیا اور کافروں میں سے ہو گیا۔‘‘

واقعہ اصل میں امر الٰہی کی تعمیل نہ کرنے کا ہے۔ اس صورت میں یہ ایک معصیت ہے، لیکن یہاں اس عدمِ تعمیل کے پیچھے انکار اور استکبار تھا۔ چنانچہ اسے کفر قرار دے دیا گیا۔اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ معصیت کا محرک نتیجے کو تبدیل کر دیتا ہے۔ ہر معصیت اپنے ساتھ یہ خطرہ رکھتی ہے کہ وہ توبہ وانابت کے بجاے ابا واستکبار پر منتج ہواور یہ استکبار اسے کفر تک پہنچا دے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی اخلاقی خرابیوں کے ساتھ غیر مسلم ہونے، کافر ہونے یا ایمان سے محرومی جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ان اسالیب سے جہاں ان خرابیوں اور ایمان میں منافات واضح ہوتی ہے، وہاں ان کے اپنالینے اور توبہ واصلاح سے محرومی کے باعث نکلنے والے نتیجے پر بھی روشنی پڑتی ہے۔

پہلی روایت میں ناحق مدعی بننے پر بھی ایمان سے محرومی اور جہنم کی وعید بیان ہوئی ہے۔ یہ وعید بھی وہ تمام پہلو اپنے اندر رکھتی ہے جو ہم نے اوپر بیان کیے ہیں۔ اس وعید کو بھی ہم قرآن مجید کے ایک مقام سے متعلق کر کے سمجھ سکتے ہیں۔ قرآن مجید میں وراثت کے احکام مکمل کرنے کے بعداللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ. وَمَنْ یَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْہَا وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ.(النساء۴: ۱۳۔۱۴)
’’ یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حدیں ہیں۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہیں گے، اللہ ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گاجن میں نہریں جاری ہوں گی، ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کریں گے اور اس کے مقرر کردہ حدود سے تجاوز کریں گے، ان کو ایسی آگ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔‘‘

ان آیات سے پہلے کی آیات میں خدا نے وارثوں کے حق طے کر دیے ہیں۔ اب وراثت کے قانون کے معاملے میں کسی طرح کا ہیر پھیر دراصل کسی کو اس کے حق سے محروم کرنا ہے۔ یہی معاملہ ناحق دعوے کا ہے۔ جب ہم کسی ناحق دعوے پر کھڑے ہوتے ہیں تو کسی کو اس کے حق سے محروم کررہے ہوتے ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے وراثت میں حصے مقرر کیے ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کسی کا مال باطل طریقے سے کھانے سے منع کیا ہے۔ جس طرح وراثت میں تبدیلی خدا کے حکم کی نافرمانی ہے، اسی طرح غلط دعویٰ بھی خدا کے حکم کی نافرمانی ہے۔ وہ چیز کیا ہے جو جنت سے محرومی کا باعث بنتی ہے، وہ ان آیات میں اللہ کے قائم کردہ حدود سے تجاوز ہے۔ گویا نافرمانی جب خدا کی اطاعت کے دائرے سے نکل جانے پر منتج ہو جاتی ہے تو انسان خدا کی رحمت اور بخشش کے حق سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔

اسی روایت میں ’عدو اللّٰہ‘ کہنے پر بھی وہی وعید بیان ہوئی ہے جو تکفیر کے ساتھ متعلق ہے۔ ’ عدواللّٰہ ‘ کی تعبیر قرآن مجید سے ماخوذ ہے۔ سورۂ بقرہ میں ہے:

مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّلّٰہِ وَمَلٰٓءِکَتِہٖ وَرُسُلِہٖ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکٰلَ فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوٌّ لِّلْکٰفِرِیْنَ. (۲: ۹۸)
’’ جو اللہ، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں اور جبریل و میکائیل کے دشمن ہوئے تو ایسے کافروں کا اللہ دشمن ہے۔‘‘

یہ آیت دو باتیں واضح کرتی ہے: ایک یہ کہ اللہ، اس کے رسولوں اور اس کے فرشتوں سے دشمنی رکھنے والا کافرہے اور دوسرے یہ کہ اللہ بھی ان کا دشمن ہے۔ چنانچہ کسی شخص کو اللہ کا دشمن قرار دینا، درحقیقت اس کی تکفیر ہی ہے۔

متون

امام مسلم نے اس مضمون کی جو روایتیں دی ہیں، ان سے واضح ہے کہ کسی روایت میں ایک ہی بات بیان ہوئی ہے، کسی میں زیادہ۔ دیگر کتب حدیث میں بھی اس روایت کے متن اسی طرح نقل ہوئے ہیں، کسی میں دو باتیں ہیں، کسی میں تین، کسی میں کوئی ترتیب ہے اور کسی میں کوئی۔ اسی طرح بات کو ادا کرنے کے لیے مختلف اسالیب بھی اختیار کیے گئے ہیں، لیکن مفہوم چونکہ ایک ہی ہے، لہٰذا اختلاف محض لفظی ہے۔ مثلاً ’اِدَّعٰی ‘ کے بجاے ’اِنْتَسَبَ ‘ آیا ہے۔ اسی طرح یہی بات ادا کرنے کے لیے ’لاَ تَرْغَبُوْا عَنْ آبَاءِکُمْ ‘کی تعبیر بھی اختیار کی گئی ہے۔ جنت سے محرومی کو بیان کرنے کے لیے جنت کے حرام ہونے کے الفاظ بھی آئے ہیں اور جنت کی خوشبو نہ پانے کے الفاظ بھی روایت ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ تصریح بھی ہے کہ جنت کی خوشبو ستر سال کی مسافت سے آجاتی ہے۔

کتابیات

بخاری، رقم۳۳۱۷، ۶۳۸۵۔ ۶۳۸۶؛ مسلم، رقم۶۱۔ ۶۳؛ ابن حبان، رقم۴۱۵۔۴۱۷، ۱۴۶۶؛ ابوداؤد، رقم ۵۱۱۵؛ ابن ماجہ، رقم۲۶۰۹۔ ۲۶۱۱؛ سنن بیہقی، رقم۱۵۱۱۲۔۱۵۱۱۴؛ سنن دارمی، رقم۲۵۳۰، ۲۸۶۰؛ مسند احمد بن حنبل، رقم۱۴۵۴، ۱۴۹۹، ۶۵۹۲، ۶۸۳۴، ۱۰۸۲۵، ۱۷۲۵۱، ۲۱۵۰۳؛ مسند عبد بن حمید، رقم۴۳۳؛ مسند ابو یعلیٰ، رقم۷۰۰، ۷۰۶، ۷۶۵؛ مسند طیالسی، رقم۱۹۹، ۸۸۵، ۲۲۷۴؛ المعجم الاوسط، رقم۵۶۱؛ مصنف عبد الرزاق، رقم۱۶۳۱۷؛ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۲۶۱۰۴، ۲۶۱۰۵؛ الادب المفرد، رقم۴۳۳۔

_______________

B