[’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
اکیسویں صدی میں جب دنیا خردمندی اور دانش آموذی کے بام بلند پر فائز ہے، ہر طرف جمہوریت، مذہبی رواداری اور ثقافتی تکثیریت (multiculturalism) کے چرچے ہیں، یہ بدنما اور خرد سوز منظر بھی گاہے گاہے دیکھنے کو ملتا ہے کہ کبھی مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن کے اوراق جلائے جاتے ہیں اور کبھی مختلف طریقوں سے پیغمبرِ اسلام کی توہین و تذلیل کی جاتی ہے، وہ پیغمبر جس کے ماننے والوں کی تعداد دنیا میں عیسائیوں کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
اس معاملے میں اہلِ مغرب کا رویہ حد درجہ مخاصمانہ ہے۔ ابھی حال ہی میں، قارئین واقف ہیں، ڈنمارک کے ایک اخبار میں ایسے کارٹون شائع کیے گئے جس میں پیغمبرِ اسلام کو جو دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے، ایک دہشت گرد کی صورت میں دکھایا گیا اور قرآن کی آیات کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ دوسرے مغربی ممالک کے کئی اخبارات نے ان مذموم کارٹونوں کو اظہار رائے کی آزادی کا بہانہ بنا کر اہتمام کے ساتھ شائع کیا اور اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ کر خوش ہوئے۔ ڈنمارک ہی میں دوبارہ ایک ٹی وی پروگرام میں پیغمبرِ اسلام کو نشانۂ استہزاء بنایا گیا۔
اس وقت اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت اور ان کی تحقیر میں امریکہ کو قیادت کا مقام حاصل ہے۔ اس کے سابقہ صدر جارج ڈبلیو بش کچھ زیادہ ہی اسلام کے مخالف ہیں۔ اسلامی فاشزم کی اصطلاح ان ہی کے مسموم ذہن نے اختراع کی ہے۔ یہ وہ ملک ہے جس کو اپنی جمہوری اور ثقافتی قدروں اور کارناموں پر ناز بلکہ غرور ہے۔ انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کا سب سے بڑا علم بردار بھی بزعم خود یہی ملک ہے، لیکن تہذیبی برتری کے تمام بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود محض اپنی اقتصادی قوت اور فوجی برتری کے نشے میں وہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ٹھٹول کرنے میں بدتہذیبی کی ساری حدیں پھلانگ چکا ہے۔
عراق کی ابو غریب جیل میں مسلمان قیدیوں کے ساتھ کیا جانے والا سفاکانہ سلوک اس کی تہذیبی برتری کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔ اتنا ہی نہیں، کیوبا کے جزیرہ گوانتا نامو بے میں قائم امریکی جیل میں جو صحیح معنی میں عقوبت خانہ ہے، سینکڑوں مسلمانوں کو بغیر مقدمہ چلائے قیدی بنا کر رکھا گیا ہے اور ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جا رہا ہے۔ اسی جیل میں قرآن کو بیت الخلا کے اندر بہائے جانے کا شرم ناک واقعہ پیش آ چکا ہے۔
خدا کی اس عظیم کتاب پر اسلام کے دشمن یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اس میں غیر مسلموں کے خلاف جنگ و جہاد کی تعلیم دی گئی ہے۔ ہم یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن میں جنگ و جہاد کی تعلیم دی گئی ہے لیکن یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ جنگ و جہاد کا حکم مطلق طور پر تمام غیر مسلمانوں کے خلاف ہے۔ قرآن میں صرف ان لوگوں کے خلاف لڑنے کا حکم دیا گیا ہے جو مذہبی آزادی کے دشمن، ظالم، جنگ باز اور مفسد ہو ں۔ انسانیت کے خلاف جرائم کرنے والوں سے جنگ کرنے کا حکم دے کر اسلام نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے جس کی مذمت کی جائے۔ اگر یہ حکم نہ دیا جاتا تو یقیناًیہ ناانصافی کی بات ہوتی۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ اس لڑائی کی اجازت ان مسلمانوں کو دی گئی ہے جو خود مختار ہوں، آزاد علاقہ اور ریاست رکھتے ہوں اور اس بات پر قادر ہوں کہ ظالموں اور شرپسندوں کی واجبی سرکوبی کر سکیں۔
پھر یہ بھی دیکھیں کہ کیا جنگ و جہاد کا حکم صرف قرآن میں ہے، دوسرے مذاہب کی کتابوں میں لڑائی کی تعلیم نہیں دی گئی ہے۔ کیا بائبل میں موسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیروؤں سے نہیں کہا گیا ہے کہ وہ ارضِ فلسطین پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیں ۱۔ خود قرآن میں اس کا ذکر ہوا ہے (سورۂ مائدہ: ۹۲۱۔) چنانچہ اس حکم کے مطابق موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ یوشوع علیہ السلام نے فلسطین پر حملہ کر کے اس کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ اس قبضہ کو عیسائی اربابِ علم کیا نام دیں گے؟
آگے بڑھیں، ایک طویل زمانی وقفہ کے بعد اس تاریخی عمل کو دوبارہ دہرایا گیا اور مغربی ممالک بالخصوص برطانیہ کی سرپرستی میں فلسطین کے اندر ایک یہودی ریاست قائم کر دی گئی۔ اس وقت یہ ناجائز یہودی ریاست جو ہٹلر کو ظالم کہتی ہے اور یہودیوں کے قتل عام (holocaust) کا افسانہ دنیا کو سناتی رہتی ہے، فلسطینی مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم اور سفاکیت کی علامت بن چکی ہے۔ لیکن عیسائی دنیا اس قتل و غارت گری پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
عیسائیوں کی مذہبی کتاب انجیل میں بلاشبہ جنگ و جہاد کا ذکر نہیں ہے۔ اس میں ظلم و ستم کے جواب میں عدمِ مدافعت بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ظالم کے آگے سرنگوں ہو جانے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا گال بھی اس کے آگے پیش کر دو۔
انجیل میں اس انتہائی ضبط و تحمل کی تعلیم کی وجہ یہ نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جنگ و جہاد کو سرے سے برا سمجھتے بلکہ یہ تعلیم اس لیے دی گئی ہے کہ وہ غلام ملک میں پیغمبر بنائے گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ غلامی کی حالت میں جب کہ ان کے پیروؤں کی تعداد چند نفوس سے زیادہ نہ تھی، رومی حکم راں کے خلاف جنگ و جہاد کا حکم خود کشی کے مترادف ہوتا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب دینے کا واقعہ محض یہودیوں کے اس غلط الزام کی وجہ سے پیش آیا کہ وہ رومی حکومت کے باغی ہیں۔
اس تاریخی حقیقت کے باوجود میں تسلیم کرتا ہوں کہ انجیل میں عفو و درگذر کی تعلیم اس کی ایک بڑی اخلاقی خوبی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عیسائیوں نے اس خوبی کا عملاً احترام کیا اور دشمنوں کے خلاف انتقامی کارروائی سے احتراز کیا؟ جواب نفی میں ہو گا۔ عفو و درگذر تو بڑی بات ہے، انھوں نے قتل و غارت گری کا وہ بازار گرم کیا کہ جس کی مثال تاریخ میں مشکل سے ملے گی۔ صلیبی جنگیں (crusades) انھوں نے شروع کیں۔ دو عالمی جنگیں، جس میں کروڑوں انسانوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا، ان کی ذات سے منسوب ہیں۔ جاپان پر، انسانی تاریخ میں پہلی بار ایٹم بم گرانے والا امریکہ ایک عیسائی ملک ہے، اس بم نے چشم زدن مں لاکھوں جاپانیوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ ویت نام پر وحشیانہ بمباری کرنے والا بھی یہی ملک ہے اور اس وقت افغانستان اور عراق کے معصوم مسلمانوں کو جنگ کی بھٹی میں جھونکنے والا بھی امریکہ اور اس کا طفیلی برطانیہ ہے۔ اس وقت ان دونوں بدنصیب ملکوں میں کشت و خون ہو رہا ہے وہ ان کی بربریت اور قلبی شقاوت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انجیل پر ایمان رکھنے والوں کا یہ اصلی چہرہ ہے اور یہ چہرہ کتنا خوفناک ہے۔ اس خونی چہرے کو دیکھ کر انسانیت بری طرح لرزہ براندام ہے۔ ایسے ظالموں اور قاتلوں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اسلامی جہاد پر معترض ہوں۔
ہندو مذہب عیسائی مذہب سے زیادہ قدیم ہے۔ اس کی مشہور مذہبی کتاب مہابھارت ہے۔ اس کو یہ شہرت گیتا کی وجہ سے حاصل ہوئی جو اسی کا ایک حصہ ہے۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ اس کتاب میں تصوف (ویدانت) کی اعلیٰ تعلیم دی گئی ہے۔ لیکن اسی کتاب میں کسی اور کی زبان سے نہیں، ہندوؤں کے ایک بڑے اوتار اور معبود کا درجہ رکھنے والے شری کرشن جی کی زبان سے ارجن کو خود ان کے بھائی بندوں یعنی کورؤں کے خلاف تلوار اٹھانے کا اُپدیش دیا گیا ہے۔ ان کی دوسری مذہبی کتابوں میں بھی جنگ کی تعلیم موجود ہے۲ ۔
منو، ہندوؤں کے ایک بڑے مذہبی رہ نما اور قانون ساز گزرے ہیں۔ انھوں نے اپنے دھرم شاستر میں شودروں کو ایک ذلیل مخلوق قرار دے کر ان کی ہر طرح تذلیل کی ہے۳ ۔ اس میں صاف لفظوں میں لکھا ہوا ہے کہ اگر کسی شودر کے کان میں وید کے الفاظ پڑ جائیں تو اس میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جائے اور اگر وہ وید کو پڑھنے کی جسارت کر بیٹھے تو اس کی زبان کاٹ لی جائے وغیرہ۴ ۔
ان متذکرہ بالا مذہبی کتابوں میں جنگ و جہاد کی تعلیم کے باوجود آج تک یہ حادثہ کہیں رونما نہیں ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کا کوئی اہانت آمیز کارٹون کسی اخبار میں شائع کیا گیا ہو اور تورات کے اوراق بیت الخلا میں بہائے گئے ہوں۔ دوسرے مذاہب اور ان کی مذہبی کتابوں کے ساتھ بھی بدتمیزی اور بدسلوکی کا کوئی واقعہ آج تک پیش نہیں آیا۔ ہندوؤں کی مذہبی کتاب گیتا کی جنگی تعلیمات کو آج تک کسی نے ہدف تنقید نہیں بنایا، ان کے منو شاستر کو بیت الخلا میں ڈالنے کی شیطانی حرکت بھی کسی نے نہیں کی۔ کسی مغربی دانشور نے بھول کر بھی شری کرشن جی کو دہشت گرد قرار نہیں دیا۔
اس پس منظر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مغرب کے اربابِ علم و خرد نے صرف مذہب اسلام، اس کے پیغمبر اوراس کی مذہبی کتاب کے ساتھ ہر طرح کے ظلم و نا انصافی اور ناشائستہ حرکات کو کیوں جائز قرار دے لیا ہے؟
اس وقت اسلام کی مخالفت اس لیے نہیں ہو رہی ہے کہ اہلِ مغرب کو پہلی بار معلوم ہوا کہ قرآن میں جنگ و جہاد کی تعلیم دی گئی ہے اور اسی کتاب سے متاثر ہو کر مسلمانوں نے شدت پسندی اور مغربی تہذیب کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔
یہودیوں اور عیسائیوں کی اسلام دشمنی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ اسلام کے آغاز میں جن تین مذہبی گروہوں نے اسلام کی مخالفت کی اور اس کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنا چاہا ان میں عرب کے مشرکوں کے علاوہ یہودی اور عیسائی نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ عیسائیوں نے ابتدا میں اسلام کی کچھ زیادہ مخالفت نہیں کی۔ حبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی نے مکہ کے مظلوم مہاجر مسلمانوں کے ساتھ جو کریمانہ سلوک کیا اس سے اسلامی تاریخ کا ہر طالب علم واقف ہے۔
لیکن یہ حسن سلوک اس وقت ختم ہو گیا جب اسلام کو سیاسی عروج حاصل ہوا اور عہدِ خلافت میں ان رومی مقبوضات پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا جو سر زمینِ اسلام سے ملحق یا اس کے قریب واقع تھے۔ ان ہی ملکوں میں فلسطین بھی تھا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جاے پیدائش ہے۔ مسلمانوں نے اسی حصّۂ زمین پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آگے بڑھ کر یورپ کے حدود میں داخل ہو گئے۔ عبدالرحمن اموی (۷۵۶۔ ۷۸۸ء) نے اندلس (اسپین) میں عیسائیوں کو مغلوب کر کے اسلامی حکومت قائم کر دی، جس کی حدود میں جنوب مغربی فرانس کا علاقہ ایک مدت تک شامل رہا۔
خلافت عثمانی (۱۲۸۸۔ ۱۹۲۴ء) کے زمانے میں مشرقی یورپ کے بہت سے ملکوں پر ترک مسلمانوں نے تسلط حاصل کر لیا تھا۔ اس عرصہ میں سب سے بڑا واقعہ قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) کی فتح ہے۔ یہ تاریخی کارنامہ عثمانی حکم راں محمد فاتح نے ۱۴۵۳ء میں انجام دیا۔ سلیمان اعظم (۱۵۲۰۔۱۵۶۶) کے زمانۂ حکومت میں بلغراد شہر اور جزیرۂ رہوڈس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ ۱۵۳۲ میں سلیمان کی فوجوں نے آسٹریا اور جرمنی میں داخل ہو کر دور دور تک فوجی کار روئیاں کیں اور کئی بار یورپ کی متحدہ فوجی قوت کو شکست فاش دی۔
مسلمانوں کی اس غیر معمولی سیاسی اور فوجی برتری اور مذہبی غلبہ نے پوری عیسائی دنیا کو اسلام کے خلاف کھڑا کر دیا۔ اس تصادم کا آغاز صلیبی جنگوں (crusades) سے ہوا۔ پہلی صلیبی جنگ (۱۰۹۶۔ ۱۰۹۹) میں عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ لیکن تیسری صلیبی جنگ (۱۱۸۹۔ ۱۱۹۲) میں جو سلطان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں لڑی گئی، بیت المقدس پر دوبارہ مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ اس شکست کی خبر سے پورے یورپ میں صف ماتم بچھ گئی۔ جرمنی، اٹلی، فرانس اور انگلستان کی متحدہ فوجوں نے جن کی تعداد چھ لاکھ تھی، بیت المقدس کو واپس لینے کی جان توڑ کوشش کی اور تین سال تک یہ خونی معرکہ جاری رہا، لیکن صلاح الدین ایوبی نے ان کے عزائم خاک میں ملا دیے اور وہ ناکام و نامراد اپنے اپنے ملک کو واپس چلے گئے۔
اس شرم ناک شکست نے مسیحوں کے دلوں میں اسلام کے خلاف نفرت و عنادکے جذبے کو پوری طرح مستحکم کر دیا۔ اس کام میں ان کے مذہبی طبقہ نے کلیدی رول ادا کیا ہے۔ صلیبی جنگوں کی آگ بھڑکانے والے پوپ پادری ہی تھے۔ ان ایام کے مغربی لٹریچر کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ عیسائی اربابِ قلم نے کس کس عنوان سے اسلام اور اس کے پیغمبر کی توہین کی ہے۔ انھوں نے رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تک بگاڑ دیا یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مہاونڈ کہا، اس لٹریچر میں اپنے عوام کو گم راہ کرنے کے لیے انھوں نے یہ افسانہ گھڑا کہ مسلمان بت پرست ہیں، وہ مہاونڈ، ٹرواگانٹ اور اپولو کی عبادت کرتے ہیں۔ اس لیے اہلِ توحید یعنی عیسائیوں کا مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اس ’بت پرست مذہب‘ کے ماننے والوں سے جنگ کریں اور ان کو صفحہء ہستی سے نابود کر دیں۔ سبحان اللہ: برکس نہد نامِ زنگی کافور
جب تک دنیا میں مسلمانوں کو علمی اور سیاسی غلبہ حاصل رہا، اسلام کے مخالفوں نے منہ کی کھائی اور اہلِ مغرب کی ہر سازش ناکام ہو گئی۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ مسلمانوں کا علمی غلبہ بارہویں صدی عیسوی کے بعد کم ہوتا گیا اور چودہویں صدی تک پہنچ کر تقریباً ماند پڑ گیا۔ البتہ سیاسی غلبہ ترکی خلافت کی صورت میں اٹھارہویں صدی تک قائم رہا، اگرچہ ضعف و اضمحلال کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے۔ انیسویں صدی مسلمانوں کے مکمل سیاسی زوال کی صدی ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل (۱۹۱۴ء) میں جنگِ عظیم اوّل شروع ہوئی، جس میں ترکی کو شکست ہو گئی اور اس طرح اسلام کی سیاسی شوکت و حشمت کا دور ختم ہو گیا اور ذلت و محکومی کا دور شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔
اس شکست و نکبت کے ذمہ دار خود مسلمان ہیں۔ جس وقت یورپ ایک طویل اور گہری نیند سے بیدار ہو کر اپنے علمی و سیاسی عزائم کے پر تول رہا تھا، مسلمانوں نے غفلت کی چادر اوڑھ لی اور اس طرح گہری نیند سوئے کہ آج تک جاگنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ یہ سونا کیا تھا؟ یہ دراصل ان کے ذہنوں کا سونا اور ان کی اخلاقی قوت کا مائل بہ انحطاط ہونا تھا، اور یہی مہلک نیند مسلمانوں کو آج بھی عزیز ہے۔
بہرحال، جب مسلمانوں کی سیاسی بساط اہلِ مغرب نے الٹ دی اور اکثر مسلم ممالک مغرب کی استعماری قوتوں سے شکست کھا کر مغلوب و محکوم ہو گئے تو اسلام کے دشمنوں نے ایک بار پھر اس کی توہین و مخالفت کا بیڑا اٹھایا۔ لیکن یہ مخالفت عہد و وسطیٰ کے اعدائے اسلام سے بالکل مختلف طرز کی تھی۔ اوّل الذکر کے پاس علمی دلائل و براہین کی کمی تھی۔ اور صرف مذہبی تعصب اور دروغ گوئی کے ذریعے سے اپنا کام نکالنا چاہتے تھے۔ لیکن انیسویں صدی کی اسلام دشمن طاقتوں نے مذہب اسلام کے خلاف علمی حربے کا استعمال کیا۔
چنانچہ ان کی ایک جماعت نے جنھیں اصطلاحاً مستشرقین(orientalist)ہا جاتا ہے، اسلامی لٹریچر کا براہِ راست وسیع مطالعہ کیا اور اس میں سے جھوٹے سچے نقائص نکال کر اپنے اعتراضات کی عمارت کھڑی کی۔ اس اعتراض کا اصل نشانہ قرآن اور پیغمبرِ اسلام تھے۔ شاید ہی کوئی قابلِ ذکر مستشرق ہو جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نہ لکھی ہو۔ اس التفاتِ خسروانہ کا مقصد آپ کی سیرت میں داغ دھبّے تلاش کرنا تھا تاکہ مسیحیوں کو بتایا جائے کہ قرآن نہ خدا کی کتاب ہے اور نہ ہی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سچے رسول ہیں۔ وہ نعوذ باللہ ذہنی طور پر مریض تھے، یعنی مرگی کی بیماری میں مبتلا تھے۵ ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشینوں کے بارے میں بھی انھوں نے دروغ گوئی کی ہے۔ وہ سب سے زیادہ حضرت عمر فاروق ؓ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں اور اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ ان ہی کے عہد میں رومی سلطنت کا ایک طاقتور بازو ٹوٹ گیا اور فلسطین پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ اس کے علاوہ نظم حکومت کے اعتبار سے بھی عہد فاروق عہدِ وسطی کی تاریخ کا ایک روشن اور مثالی باب ہے۔ اس تابناک تاریخی حقیقت کو چھپانے کے لیے انھوں نے الزام لگایا کہ مصر میں اسکندریہ کی لائبریری کو خلیفۂ دوم کے حکم سے مسلمانوں نے جلا دیا تھا۔ ثابت یہ کرنا تھا کہ مسلمان اور ان کا خلیفہ دونوں علم کے دشمن اور جہل کے ہم نوا تھے۔
جرجی زیدان مصری ایک مشہور عیسائی عالم اور مؤرخ گزرا ہے۔ اس نے اپنی کتاب ’تاریخ التمدن الاسلامی‘ میں مستشرقین کے اس الزام کو نئے دلائل سے آراستہ کر کے پیش کیا ہے۔ علامہ شبلی نعمانی ؒ نے اس دروغ گوئی کا مدلّل جواب ایک رسالہ لکھ کر دیا، جس کا نام ’الانتقاد علی التمدن الاسلامی‘ ہے۔
لیکن مستشرقین کی اس علمی شرارت کے اثرات آج تک کام کر رہے ہیں اور بہت سے بے خبر اہلِ علم اب بھی وقفہ وقفہ سے یہ الزام دہراتے رہتے ہیں کہ اسکندریہ کی لائبریری مسلمانوں نے جلائی تھی۔ ابھی حال ہی میں ہندوستان کے ایک مقتدر سائنسی ادارہ انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی دہلی کے مؤقر جریدہ ’انڈین جرنل آف ہسٹری آف سائنس‘ میں ایک مضمون بعنوان: The Tragedy that the Library at Alexandria was finally burned by the Islamic Arabs in 638 AD during the Reign of the Second Caliph Hazrat Omar (581-644 AD)شائع ہوا ہے۔ اس عنوان کے تحت مضمون نگار نے کسی حوالے کے بغیر لکھا ہے:
“Omar is reported to have said: if the writings of the Greeks agree with the Quran, they are useless and need not be preserved; if they disagree, they are pernicious and ought to be destroyed.” ۶
’’بیان کیا جاتا ہے کہ (حضرت) عمر(رضی اللہ عنہ) نے کہا: اگر یونانیوں کی تحریریں قرآن کے موافق ہیں تو وہ از کار رفتہ ہیں اور اگر ناموافق ہیں تو پھر یہ مضر ہیں اور ان کو تباہ و برباد کر دینا چاہیے۔‘‘
اس مضمون نگار کا نام ڈاکٹر سسری مجمدار ہے اور وہ لندن میں مقیم ہے۔ اوپر کی عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ یہ شخص مستشرقین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمی کا شکار ہے اور اس کا مطالعہ ناقص اور ذہن مذہبی تعصب سے آلودہ ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ اسکندریہ لائبریری کو مسلمانوں نے نہیں، عیسائی مذہبی جنونیوں (fanatics) نے ۳۹۱ء میں جلا کر خاک کر دیا تھا۔ مشہور مؤرخ گبن نے اپنی کتاب ‘The Decline and Fall of the Roman Empire’ میں دلائل کے ساتھ اس تاریخی حقیقت کا ذکر کیا ہے۔
اس تفصیل سے ہمارا مقصود یہ دکھانا تھا کہ موجودہ دور میں اسلام کی مخالفت کوئی نیا واقعہ نہیں ہے، یہ تاریخی تسلسل رکھتا ہے۔ سموئیل ہن ٹنگٹن نے اپنی کتاب ’تہذیبوں کے ٹکراؤ‘ (Clash of Civilizations) میں لکھا ہے کہ مغرب کے لیے اصل مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی (IslamicFundamentalism) نہیں بلکہ اسلام ہے، جو اپنی ایک الگ تہذیب رکھتا ہے اور وہ تہذیب مغربی سے بالکل مختلف بلکہ متصادم ہے۔ اس تہذیب کے پیرو یہ پختہ یقین رکھتے ہیں کہ اسلامی تہذیب دوسری تمام تہذیبوں سے برتر ہے، ان پر فوقیت رکھتی ہے۔ لیکن اس شدید احساس سے بھی دوچار ہیں کہ وہ مغرب کے مقابلے میں بہت کمزور قوت رکھتے ہیں۷ ۔ اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ مستقبل میں اسلام مغرب کا اسی طرح حریف ہو گا جس طرح کبھی کمیو نزم تھا بلکہ اس سے زیادہ خطرناک حریف ثابت ہو گا۔
ہالینڈ کی پارلیمنٹ کے ایک ممبر جیرٹ وایلڈرس نے اسلام اور قرآن کے خلاف ایک فلم بنائی ہے اور اب وہ انٹرنیٹ پر دکھائی جار ہی ہے۔ اس بدباطن عیسائی سے جب پوچھا گیا کہ اس نے یہ فلم کیوں بنائی ہے تو اس نے کہا:
“Islam and Quran are part of fascist idealogy that wants to kill every thing we stand for in modern western democracy.” ۸
’’اسلام اور قرآن دونوں ایک فاشسٹ نظریہ کے حصّے ہیں اور وہ ہر اس چیز کو تباہ و برباد کر دینا چاہتے ہیں جس کو ہم جدید مغربی جمہوریت میں عزیز رکھتے ہیں اور اس کے علم بردار ہیں۔‘‘
اسلام کے بارے میں ہن ٹنگٹن اور وائلڈرس کے مذکورہ معاندانہ خیالات ماضی کی صدائے بازگشت نہیں تو کیا ہے۔
ہم لکھ چکے ہیں کہ اسلام کی مخالفت میں عیسائیوں کا مذہبی طبقہ ہمیشہ پیش پیش رہا ہے اور آج بھی یہ صورت برقرار ہے۔ ابھی حال میں عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ بینیڈکٹ نے جرمنی کی ایک یونیورسٹی جینس برگ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام جنگ اور جہاد کا حامی ہے اور دنیا میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے۔
انھوں نے اپنے اس الزام کی تائید میں چودھویں صدی کے بازنطینیی بادشاہ مینول دوم (Emmanuel II) کا درج ذیل قول نقل کیا:
“Show me just that Mohammad brought that was new, and there you will find things only evil and inhuman, such as his command to spread by the sword the faith he preached” ۹
’’مجھے دکھاؤ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے کیا نئی چیز پیش کی ہے۔ اس میں تم برائی اور انسانیت کے خلاف باتوں کے علاوہ اور کچھ نہیں پاؤ گے، مثلاً تلوار کے ذر یعے اسلامی عقیدے کو پھیلانے کا ان کا حکم۔‘‘
پوپ کی یہ تقریر جو جہل و بے خبری اور مذہبی تعصّب کی غماز ہے، اس گندی ذہنیت کو آشکارا کرتی ہے جس میں ان سے پہلے کے عیسائی مذہبی رہ نما مبتلا رہ چکے ہیں۔ اس تقریر کے ذریعے انھوں نے عیسائی دنیا کو اسلام کے خلاف صف آرا ہونے کی دعوت دی ہے اور انسانیت کے قاتل جارج بش کی اسلام مخالف فکر کی ہم نوائی کی ہے۔
موجودہ دور میں جب کہ مسلمان دنیا کے ہر خطے میں سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے مکمل طور پر مغلوب اور شدید نوعیت کے مذہبی اختلافات میں مبتلا ہیں، مغرب کی طرف سے اسلام کی مخالفت بظاہر عجیب لگتی ہے۔ اس مخالفت کے کئی اسباب کی نشاندہی کی گئی ہے، مثلاً یہ کہ وہ مسلمانوں کی مذہبی بیداری (religious revivalism) سے خائف ہے اور اسلامی تہذیب کو اسی طرح مغربی تہذیب اور جمہوری اقدار کا حریف سمجھتا ہے جس طرح کبھی کمیونزم اس کا مدِّ مقابل تھا۔ لیکن راقم کو اس خیال سے اتفاق نہیں ہے اور اس کو مسلمانوں کی خوش گمانی خیال کرتا ہے۔ ہم جس چیز کو مسلمانوں کی مذہبی بیداری سمجھتے ہیں وہ دراصل مذہبی بیداری نہیں ہے بلکہ اسلام کے نام سے سیاسی ہنگامہ آرائی اور بے روح ظاہری مذہبیت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ صحیح مذہبی بیداری ذہنی اور اخلاقی بیداری سے عبارت ہے اور اس میدان میں مسلمان ایک عرصۂ دراز سے محو خواب ہیں، اور یہی ان کے قومی زوال کی اصل وجہ ہے۔
رہی اسلام کی تہذیبی برتری تو وہ نظری اعتبار سے ایک حقیقت ہے۔ لیکن عملاً اس کا بھی کہیں وجود نہیں ہے۔ اکثر مسلم ممالک میں مغربی تہذیب حاوی ہے، ہماری زبانیں، ہمارے لباس اور ہمارے طرز معاشرت سب پر مغربی تہذیب کے اثرات بالکل نمایاں ہیں۔ جدید علوم و فنون کے میدان میں ہم دنیا کی بیشتر زندہ اقوام سے پیچھے ہیں۔ جمہوری طرز حکومت سے مسلمانوں کو ازلی بیر ہے۔ اکثر مسلم ملکوں میں مطلق العنان بادشاہی یا ڈکٹیٹرشپ قائم ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے دینی مدارس، مذہبی جماعتوں اور خانقاہوں تک میں جمہوریت ناپید ہے۔
میری نظر میں مغرب کے موجودہ اسلام مخالف رجحان کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ ایک سبب یہ خیال ہے کہ اسلام جمہوری قدروں بالخصوص سیکولرزم کا مخالف ہے۔ اور مذہبی حکومت کا مطلب مطلق العنانی اور ماضی کی پاپائیت (papacy) ہے۔ اس خیال کو ایران کے اسلامی شیعی انقلاب اور افغانستان میں طالبان کی مذہبی حکومت کی تنگ نظری اور مذہبی سخت گیری نے تقویت پہنچائی ہے۔ اس ریڈیکل اسلام کو اہلِ مغرب یورپی تہذیب کا اسی طر ح حریف سمجھتے ہیں جس طرح کبھی کمیونزم کو اس کا بدترین دشمن سمجھتے تھے۔
یہ بات صحیح ہے کہ اسلام سیکولرزم کے مغربی تصور کا مخالف ہے کیوں کہ اسلامی ریاست کی بنیاد خدا پرستی کے تصور پر قائم ہے، لیکن وہ جمہوری قدروں کا مخالف نہیں بلکہ اس کا حامی ہے۔ اس کا تاریخی ثبوت فاروقی خلافت ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام کا شورائی یا جمہوری نظام بہت جلد ملوکیت میں تبدیل ہو گیا۔ بدقسمتی سے آج تک یہ نظام دنیا میں کہیں قائم نہیں ہو سکا اور نہ مستقبل میں اس کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔
آج کل بہت سے مسلم ملکوں میں مختلف دینی جماعتیں جس طرح کے اسلامی نظام کے قیام کی داعی ہیں اور جس اسلامی شریعت کے نفاذ کی باتیں کرتی ہیں اس نے بھی مغربی ذہنوں کو غلط فہمی میں مبتلا کیا ہے۔ جس چیز کو آج اسلامی شریعت کہا جاتا ہے اس سے مراد وہ شریعت نہیں جو خدا کی کتاب میں بنیادی اصولوں کی شکل میں موجود ہے، بلکہ قیاسی احکام کا وہ مجموعہ مراد ہے جو قرآن کے بعض اصولوں کی روشنی میں ہزار سال سے پہلے عہدِعباسی یا اس کے قریب کے زمانے میں اس عہد کے مخصوص حالات میں وضع کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے جامد مذہبی احکام کے تحت قائم ہونے والی حکومت ماضی میں روم کے پوپ پادریوں کی متشدّد حکومت سے کچھ مختلف نہیں ہو گی۔ افغانستان میں طالبانی حکومت کی صورت میں اس کا بدترین نمونہ ہم دیکھ چکے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ خدا نے اس مذہبی حکومت کو قائم نہیں رہنے دیا، کیا وہ یہ چاہے گا کہ زمین میں اس کے حکم و قانون کی بالادستی قائم نہ ہو؟
قرآن میں جس نظام زندگی کا ذکر ہوا ہے اس کی صورت اس سے بالکل مختلف ہے۔ یہ ایک ایسا متحرک نظام حیات ہے جس کا مقصد زندگی کے ہر شعبہ میں عدل و قسط کا قیام ہے۔ فرمایا گیا ہے:
یَا دَاؤدُِ اَنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰی. (سورہ صٓ: ۲۶)
’’اے داؤد، ہم نے تمھیں زمین میں خلیفہ (حکم راں) بنایا ہے پس تم لوگوں کے درمیان حق و انصاف سے حکومت کرو اور خواہش نفس کی پیروی نہ کرو۔‘‘
اس نظام میں وحدتِ الہٰ (Unity of God) اور وحدتِ آدمیّت (unity of mankind) کے تصورات کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔ یہ امتیاز صرف مذہب اسلام کو حاصل ہے کہ اس کے تمام کلی قوانین (fundamental laws) عقل اور فطرت سے کامل ہم آہنگی رکھتے ہیں اور اس کے جزئی احکام میں لوگوں کے لیے بڑی سہولت اور نرمی ہے اور عفو و درگذر کا پہلو غالب ہے۔ یہ اس خدائے رحیم کا قانون ہے جو اپنے بندوں کی خطاؤں کے باوجود ان کو سزا دینے میں تاخیر سے کام لیتا ہے اور ان کو کھلاتا اور پلاتا ہے۔ کم عقل مذہبی لوگوں نے خدائی شریعت کے اس مزاج کو نظر انداز کیا ہے۔ انھوں نے اسلامی شریعت کے تعزیری قوانین (penal codes) کو یک لخت اور کسی تفریق کے بغیر ہر طرح کے خطا کاروں پر نافذ کرنے کی وکالت کر کے ان کی غلط تعبیر پیش کی ہے، جس نے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے۔ اسلامی سزاؤں کی اسی غلط تشریح و تعبیر کی وجہ سے مغرب کے اربابِ علم نے ان کو وحشیانہ سزا قرار دے کر رد کر دیا ہے۔ افسوس کہ انھیں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ سخت سزائیں صرف عادی مجرموں (habitual criminals)، ظالموں (tyrants) اور فسادی لوگوں کے لیے ہیں۔ قرآن میں سنگین جرائم کے ارتکاب کے لیے ’فساد فی الارض‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ فرمایا گیا ہے:
اِنَّمَا جَآٰؤُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَاداً اَنْ یُّقَتَّلُوْآ اَوْ یُصَلَّبُوْآ اَوْتُقَطَّعَ اَیْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الَارْضِ ذٰلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃعَذَابٌ عَظِیْمٌ. اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْہِمْ فَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(سورہ مائدہ: ۳۳، ۳۴)
’’جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرنے میں سرگرم رہتے ہیں، ان کی سزا یہی ہے کہ ان کو قتل کیا جائے، یا ان کو سولی دی جائے، یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف جانب سے کاٹ دیے جائیں، یا ملک بدر کر دیے جائیں۔ یہ ان کے لیے زیادہ بڑی سزا ہے۔ ہاں اگر اس سے پہلے کہ تم انھیں مغلوب کر لو وہ (ظلم و فساد سے) توبہ کر لیں (توان کے لیے معافی ہے)، جان لو کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
قرآن کی یہ آیات اسلام کے تعزیری قوانین کی روح و غایت کو واضح کر دیتی ہیں۔ دیکھیں، ظالموں اور جنگ بازوں کے لیے جو سزائیں تجویز کی گئی ہیں ان میں کڑی اور ہلکی دونوں سزائیں ہیں، کیوں کہ ظلم و فساد کے بھی درجے ہیں۔ سب ظالموں کے لیے ایک ہی سزا انصاف کے خلاف ہو گی۔ سب سے ہلکی سزا ملک بدری ہے (او ینفوا من الارض)۔ ان سخت سزاؤں کے بیان کے بعد کہا گیا ہے کہ اگر یہ ظالم اور فسادی لوگ اسلامی حکومت کے حکام کے ذریعے گرفتار ہو جانے سے پہلے ظلم و فساد سے توبہ کر لیں تو ان کے پچھلے جرائم معاف کر دیے جائیں گے۔ پھر فرمایا کہ اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔ مغرب کے اصحابِ دانش سزاؤں کو وحشیانہ کہتے ہیں، بتائیں کہ کیا دنیا کے کسی تعزیری قانون میں جرائم سے توبہ کرنے کی صورت میں عفو و بخشش کی گنجائش ہے؟
مغرب کی طرف سے اسلام کی مخالفت کی دوسری وجہ خالص مذہبی ہے۔ قرآن واحد مذہبی کتاب ہے جس میں دوسرے مذاہب کے عقاید و اعمال کا نہ صرف اجمالاً ذکر ہوا ہے بلکہ ان پر تنقید بھی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ غلط عقاید و اعمال ہر قوم کے مذہبی پیشواؤں نے خدا کی کتابوں میں تحریف کر کے اختراع کر لیے ہیں، اصل خدائی دین سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ دوسرے مذاہب پر قرآن کی تنقید اوران کی اصلاح کی وجہ یہ ہے کہ یہ آخری صحیفۂ ہدایت ہے، اس کے بعد نہ کوئی کتاب آنے والی ہے اور نہ کوئی رسول۔ یہی وجہ ہے کہ خدا نے اس کتاب کو ضائع ہونے سے بچایا اور آج قرآن واحد مذہبی کتاب ہے جو اسی شکل میں کامل طور پر محفوظ ہے جس شکل میں وہ چودہ سو سال پہلے نازل ہوا تھا۔
مذاہب عالم پر قرآن کی اسی شدید تنقید کی وجہ سے ہر دور میں اسلام کی مخالفت کی گئی ہے۔ موجودہ دور میں بھی اس کی مخالفت کی یہ ایک بڑی وجہ ہے۔ مختلف مذاہب بالخصوص یہود و نصاری کے مذہبی پیشوا اور ان کی حکومتیں یہ نہیں چاہتی ہیں کہ ان کے ہم مذہب قرآن کی تعلیمات سے واقف ہوں اور اس میں ان کے جن مذہبی نقائص کو اجاگر کیا گیا ہے ان سے آگاہ ہوں۔ یہ ٹھیک اسی طرح کی مخالفت ہے جو عہدِ نبوت میں مشرکین عرب کی طرف سے ہوئی تھی۔ قرآن میں ہے:
وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِہٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ. (سورہ حٓم سجدہ:۲۶)
’’کافر کہتے ہیں کہ اس قرآن پر کان نہ دھرو اور (جب وہ سنایا جائے تو درمیان میں) شور و غل کرو تاکہ (لوگ اسے سن نہ سکیں اور اس طرح) تم غالب رہو۔‘‘
اس وقت اہلِ مغرب قرآن کی آ واز کو دبانے کے لیے علمی اور غیر علمی ہر طرح کا شور و غل کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ معلوم ہے کہ یورپ کے بیشتر ملکوں اور امریکہ میں جمہوری نظام قائم ہے۔ اس نظام میں ہر شخص کو اظہارِ خیال اور اپنی پسند کا عقیدہ و مذہب رکھنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ اس میں یہ آزادی بھی دی گئی ہے کہ کوئی کسی بھی مذہب کو نہ مانے اور ملحد و بے دین بن کر زندگی گزارے۔ چنانچہ ان ملکوں میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو مذہب کے منکر ہیں۔
اس انکار مذہب کی دو بڑی وجہیں ہیں۔ ایک وجہ عیسائیوں کے مذہی طبقہ کا وہ ظلم و ستم ہے جو انھوں نے نشأۃ ثانیہ (Renaissance) کے زمانے میں اہلِ علم و تحقیق کے ساتھ روا رکھا۔ دوسری وجہ عیسائی مذہب کی غیر فطری اور غیر عقلی تعلیمات ہیں۔ مثلاً یہ بات کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا گال بھی پیش کر دو۔ اسی طرح انجیل میں طلاق کی ممانعت ہے۔ سب سے بڑھ کر عقیدۂ تثلیث (concept of trinity) ہے جو بالکل غیر عقلی ہے، یعنی خدا تین بھی ہو اور ایک بھی۔ واقعۂ صلیب بھی بے اطمینانی کا سبب ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ بیٹے کو انتہائی ذلت و خواری کے ساتھ صلیب بپر چڑھا دیا جائے اور باپ (خدا) اس کو بچانے سے قاصر ہو، وغیرہ۔
قرآن میں عیسائیوں کے مذہب کی ان تمام غیر فطری اور غیر عقلی باتوں کو مضبوط دلائل کے ساتھ رد کیا گیا ہے۔ جو شخص بھی سچائی کی تلاش میں مذہبی تعصب سے بلند ہو کر اس کتاب کو پڑھے گا وہ اس کو تسلیم کرے گا اور اس پر ایمان لائے گا۔ اور یہی وہ بات ہے جس کے اندیشہ سے اس وقت یورپ مضطرب ہے۔ اس کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ کہیں عیسائی بالخصوص ان ے اصحابِ علم مسیحی مذہب سے غیر مطمئن ہونے کی وجہ سے اسلام کی طرف مائل نہ ہو جائیں، جس کے آثار بالکل نمایاں ہیں۔ بکثرت عیسائی حلقہ بگوشِ اسلام ہو رہے ہیں۔ اسلام کی اس متوقع پیش قدمی کو روکنے کے لیے کٹر مذہبی عیسائی (Evangelist) اور اربابِ حکومت اس کوشش میں لگ گئے ہیں کہ اسلام اور قرآن کو بدنام کیا جائے۔ اس فطری اور عقلی مذہب کو دہشت گردی کا مذہب قرار دے کر مسلمانوں او رعیسائیوں کے درمیان نفرت کی ایک ایسی دیوار کھڑی کر دی جائے کہ اسلام کا اصلی چہرہ دکھائی نہ دے، ان کو صرف مسلمانوں کا چہرہ دکھائی دے جو اس وقت بدقسمتی سے مذہبی انتہا پسندی (religious extremism) کی علامت بن چکا ہے۔
مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان نفرت کا خوفناک ماحول بنانے کے لیے طرح طرح کی سازشیں ہو رہی ہیں جن میں یہودیوں کا فتنہ گر ذہن پوری طرح شریک ہے۔ ’نائن الیون‘ کا واقعہ (امریکہ کے عالمی تجارتی سنٹر پر حملہ) اس سازش کی ایک کڑی ہے۔ اس واقعہ کو بہانہ بنا کر بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ کیا گیا کہ مسلمان دہشت گرد ہیں اور ان کی مذہبی کتاب (قرآن) ان کو دہشت گردی سکھاتی ہے۔ یہ لوگ فسطائی ذہنیت رکھتے ہیں اور دنیا سے ہر اس مذہب اور ہر اس تہذیب کو ختم کر دینا چاہتے ہیں جو ان کے مذہب اور ان کی تہذیب سے جداگانہ ہو، جیسا کہ ہن ٹنگٹن نے لکھا ہے اور ہم اس کا ذکر کر چکے ہیں۔
اہلِ مغرب جان بوجھ کر وقفہ وقفہ سے کبھی قرآن کی توہین کرتے ہیں اور کبھی پیغمبرِ اسلام کی تذلیل کے حیلے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مسلمان طبعاً جذباتی اور مشتعل مزاج واقع ہوئے ہیں، اس لیے اہانتِ رسول اور تحقیرِ قرآن کے واقعات پر وہ یقیناً پُر تشدد احتجاج کریں گے اور اس طرح وہ اہلِ جہاں کو دکھا سکیں گے کہ مغرب کی طرف سے جو الزام اسلام اور اس کے پیروؤں پر لگایا جاتا ہے وہ صداقت رکھتا ہے۔ اس لیے جو قومیں حرّیتِ ضمیر اور اظہار رائے کی آزادی پر یقین رکھتی ہیں وہ متحد ہو کر اس فسطائی قوت کا مقابلہ کریں۔
افسوس کہ مغربی اقوام اور امریکہ کی اس سازش کو ناکام بنانا تو کجا مسلمان اس کو غیر شعوری طور پر کامیابی سے ہم کنار کر رہے ہیں۔ اس طرح کہ جب وہ ہم کو اہانتِ رسول یا توہینِ قرآن کے کسی واقعے کے ذریعے سے اشتعال دلاتے ہیں تو ہم فوراً مشتعل ہو کر وہ کام کر جاتے ہیں جو ان کو مطلوب ہے، یعنی یہ دکھانا کہ مسلمانوں میں صبر و برداشت کی کمی ہے۔ وہ اظہار رائے کی آزادی کا جو عصر جدید کے انسانوں کاجمہوری حق ہے، احترام نہیں کرتے اور تشدد کا ہتھیار استعمال کر کے اپنے مخالفوں کو دبانا چاہتے ہیں۔
اہلِ مغرب قرآن اور پیغمبر اسلام کے خلاف جو نازیبا حرکتیں کرتے ہیں ان کا ترکی بہ ترکی جواب تو یہ تھا کہ جس وقت وہ قرآن کے اوراق پھاڑیں یا اس کو بیت الخلا میں بہائیں تو مسلمان بھی ان کی مذہبی کتابوں کے ساتھ یہی سلوک کریں۔ اسی طرح جب وہ ان کے پیغبر کی اہانت کے مرتکب ہوں تو وہ بھی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی اہانت کریں۔ آخر الذکر کی اہانت کا مواد یہودیوں نے جمع کر دیا ہے۔ اس صورت میں اہلِ مغرب کا امتحان بھی ہو جاتا کہ وہ اظہارِ رائے کی آزادی پر کتنا یقین رکھتے ہیں اور ان میں کس قدر ضبط و تحمل ہے۔ راقم کو یقین ہے کہ یہ اس امتحان میں ناکام ہو جائیں گے۔ یہ دوغلے لوگ ہیں اور دہرا معیار رکھتے ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ کوئی مسلمان اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر بقیدِ ہوش و حواس کسی بھی نبی و رسول کی اہانت کی ہمت نہیں کرے گا۔ اہانتِ انبیاء تو بڑی چیز ہے اسلام تو اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ مسلمان کسی قوم کے مذہبی پیشواؤں کی تذلیل کریں حتی کہ انھیں بت پرستوں کے باطل معبودوں کی برائی کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے (سورہ انعام: ۱۰۸)
اب سوال یہ ہے کہ مسلمان کیا کریں، کیا وہ معاندینِ اسلام کی اشتعال انگیزی کے جواب میں خاموش ہو جائیں اور صبر کر کے بیٹھ رہیں۔ اس مسئلے کو قومی زاویۂ نگاہ سے دیکھیں تو تسلیم کرنا ہو گا کہ قرآن اور رسول اُمی صلی اللہ علیہ وسلم کی تذلیل و اہانت کے جواب میں سربہ زانو ہو کر بیٹھ رہنے کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ قوم یقیناًبے غیرت کہی جائے گی جو اس وقت بھی مہر بہ لب رہے جب اس کی مذہبی کتاب اور اس کے رسول کی علی الاعلان تحقیر و توہین کی جا رہی ہو۔
لیکن خالص مذہبی اور قرآنی زاویۂ نگاہ سے مذکورہ سوال کا جواب اس سے مختلف ہو گا۔ مسلمان یہ بات نہ بھولیں کہ وہ دوسری قوموں کی طرح محض ایک قوم نہیں ہیں۔ وہ اس سے کچھ زیادہ حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ خیرِ امّت ہیں (سورہ آل عمران: ۱۱۰) اس لیے غصہ اور رنج و تکلیف کے مواقع میں ان کا ردِّ عمل دوسری قوموں سے یقیناًمختلف ہونا چاہیے۔ قرآن میں مسلمانوں کو ’اُمّتِ وسط‘ کہا گیا ہے۔ ارشاد ہے:
وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنَکُمْ اُمَّۃً وَّسطاً لِّتَکُوْنُوْا شُہْدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا. (سورہ بقرہ: ۱۴۳)
’’اور اسی طرح ہم نے تمھیں ایک درمیان کی جماعت بنایا تاکہ تم لوگوں پر (اپنے عمل کے ذریعے میانہ روی کی) شہادت دینے والے بنو اور رسول تم پر گواہی دے (کہ اس نے اپنے قول و فعل سے تم کو اعتدال کی راہ دکھا دی)‘‘
اس آیت کی روشنی میں یہ سوال اٹھے گا کہ اسلام کے مخالفوں کے جواب میں مسلمانوں کا معتدل رویّہ کیا ہو؟ قرآن میں اس سوال کا جو جواب دیا گیا ہے وہ ملاحظہ ہو:
وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا.(سورہ فرقان: ۶۳)
’’جب نا سمجھ لوگ ان سے (یعنی رحمان کے بندوں سے جہالت کی) بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں، سلام (اور آگے بڑھ جاتے ہیں)‘‘
اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے مولانا شبیر احمد عثمانی نے ’موضح فرقان‘ کے حاشیہ پر لکھا ہے:
’’یعنی کم عقل اور بے ادب لوگوں کی بات کا جواب عفو و درگذر سے دیتے ہیں۔ جب کوئی جہالت کی گفتگو کرے تو ملائم بات اور صاحب سلامت کہہ کر الگ ہو جاتے ہیں۔ ایسوں سے منہ نہیں لگتے۔ نہ ان میں شامل ہوں، نہ ان سے لڑیں۔ ان کا شیوہ وہ نہیں جو جاہلیت میں کسی شاعر نے کہا ہے:
اَلا لا یجہلن احدً علینافنجہلْ فوق جہلِ الجاہلینا.
’’سن لو، ہم سے کوئی سخت کلامی نہ کرے ورنہ ہم جواب میں جاہلوں سے بڑھ کر جہالت کا مظاہرہ کریں گے۔‘‘ ۱۰
اس باب میں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ کون مسلمان نہیں جانتا کہ معاندین اسلام نے رسول خدا کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ انھوں نے آپ پر ہر طرح کے ظلم و ستم ڈھائے اور آپ کی تذلیل میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے دشمنوں کا مقابلہ جس ہتھیار سے کیا وہ صبر اور اعراض ہے۔ فرمایا گیا ہے:
وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُرْہُمْ ھَجْراً جَمِیْلاً. (سورۂ مزمل: ۱۰)
’’وہ جو کچھ (تکلیف دہ باتیں) کہتے ہیں ان کو برداشت کرو اور ان سے بھلے ڈھنگ سے اعراض کرو۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے اس حکم پر مکمل طور سے عمل کیا۔ صبر اور اعراض کا معاملہ صرف مکہ ہی تک محدود نہیں رہا بلکہ جب مدینہ میں ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست قائم ہو گئی تو بھی اسی ربّانی تعلیم پر عمل کیا گیا۔ ہم کو ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جس میں اسلام کے مخالفوں کے خلاف تشدد کی راہ اختیار کی گئی ہو بلکہ ہر مخالف کا جواب صبر و تحمل سے دیا گیا۔ میں یہاں چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔
(۱) مدینہ کے یہودی علانیہ اپنی مجلسوں میں قرآن اور رسول خدا کا مذاق اڑاتے لیکن اس کے جواب میں مسلمانوں سے یہ نہیں کہا گیا کہ وہ ان کے خلاف مظاہرہ کریں یا ان سے تشدد کے ساتھ پیش آئیں بلکہ یہ کہا گیا کہ جب ان کی مجلسوں میں اللہ کی آیات کا مذاق اڑایا جائے تو وہ وہاں اس وقت تک نہ بیٹھیں جب تک کہ موضوع گفتگو بدل نہ جائے۔ قرآن کے الفاظ ہیں:
اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُ بِہَا وَ یُسْتَہْزاُ بِہَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَہُمْ حَتّی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ. (سورۂ نسآء: ۱۴۰)
’’جب تم سنو کہ اللہ کی آیات کا انکار کیا جار ہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو یہاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں مشغول ہو جائیں۔‘‘
(۲) یہودی منافق جب رسول اللہ کی مجلس میں آتے تو آپ کو ایسے الفاظ سے مخاطب کرتے جو ذومعنی ہوتے۔ مثلاً وہ کہتے: اِسْمَع غیر مسمع ’’ذرا ہماری بات بھی سن لیں جو بڑی اہم ہے اور ابھی تک یہ بات نہیں کہی گئی ہے۔‘‘ لیکن اس کے دوسرے معنی یہ بھی تھے کہ ’’ہماری بات بھی سن لیں جو بڑی اہم ہے، یوں تم اس قابل نہیں کہ تمھیں یہ اہم بات سنائی جائے۔ اسی طرح وہ ’راعنا‘ کہتے جو ایک مجلسی فقرہ ہے اور عربوں کی مجلسی گفتگو میں مستعمل تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ ’’ذرا ہماری طرف بھی توجہ ہو یا ہماری بھی رعایت کی جائے۔‘‘ لیکن یہودی اس فقرے کو زبان مروڑ کر اس طرح ادا کرتے کہ ’راعینا‘ ہو جاتا، یعنی اے ہمارے چرواہے۔ (سورہ نسآء: ۴۶)
وحی نے یہودیوں کی اس پوشیدہ گستاخی سے پردہ اٹھا دیا لیکن اُن نے کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی گئی۔ مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ مذکورہ مجلسی الفاظ کے استعمال میں احتیاط کریں اور یہودیوں کے برخلاف رسول خدا کو مخاطب کرتے وقت ’راعنا‘ کی جگہ صرف ’انظرنا واسمعوا‘ (بقرہ۔ ۱۰۴) کہیں یعنی ’’ہماری طرف بھی توجہ فرمائیں، ہماری بھی سن لیں۔‘‘
(۳) عبداللہ بن ابی بن سَلُوک کے نام سے قارئین واقف ہوں گے۔ یہ شخص مدینہ کے منافقوں کا سردار اور ایک انصاری قبیلہ خزرج کا رئیس تھا۔ مدینہ میں رسول اللہ کی آمد سے پہلے انصار کے دونوں قبیلوں (اوس اور خزرج) نے اس کو اپنا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا تاکہ دونوں قبائل کی باہمی لڑائی کو ختم کیا جا سکے۔ لیکن رسول اللہ کی تشریف آوری نے اس کا کھیل بگاڑ دیا اور وہ بادشاہ نہ بن سکا۔ اس محرومی نے اس کے اندر رسول خدا اور اسلام کے خلاف بغض و عناد بھر دیا تھا۔ چنانچہ وہ کبھی علانیہ اور کبھی پوشیدہ طور پر معاندانہ کارروائیاں کرتا رہتا۔ لیکن رسول اللہ اس سے چشم پوشی کرتے۔
ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہیں سے گزر رہے تھے کہ ابن اُبی نے آپ سے سخت بدتمیزی کا برتاؤ کیا، جس سے آپ کو بہت تکلیف پہنچی۔ آپ نے سعد بن عبادہ سے اس بدکلامی کی شکایت کی تو انھوں نے کہا، اے اللہ کے رسول، اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں۔ آپ کے آنے سے پہلے اس کی تاج پوشی ہونے جا رہی تھی۔ وہ سمجھتا ہے کہ آپ نے اس سے یہ بادشاہی چھین لی ۱۱۔
اس رئیس المنافقین نے عزوۂ بنی المصطَلِق کے موقع پر انصار مدینہ اور مہاجرین مکہ کو باہم لڑانے کی کوشش کی۔ واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ اسلامی لشکر بنی المصطلق کو شکست دینے کے بعد ابھی دشمن ہی کے علاقہ میں ٹھہرا ہوا تھا کہ ایک انصاری (سنان بن و براالجہنی) اور ایک مہاجر (جہجاج بن مسعود) کے درمیان ایک کنویں سے پانی لینے پر تکرار ہو گئی اور پھر نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ ایک نے انصار کو اور دوسرے نے مہاجرین کو مدد کے لیے پکارا۔ ابن اُبی کو جیسے ہی اس ہنگامہ کی خبر ملی اس نے اوس و خزرج کے لوگوں کو یہ کہہ کر بھڑکانا شروع کیا کہ ایک مہاجر کی یہ ہمت کہ اس نے ایک انصاری کی تذلیل کی۔ خدا کی قسم، یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے۔ دوڑو اور اپنے ہم قبیلہ کی مدد کرو۔ کچھ مہاجر بھی باہر نکل آئے اور قریب تھا کہ مسلمانوں کے یہ دو گروہ باہم لڑ پڑیں۔ جوں ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر ملی آپ فوراً اپنے خیمے سے نکلے اور معاملہ کو رفع دفع کیا۔
یہ صلح و صفائی دیکھ کر ابن اُبی اور اس کے ساتھیوں کو بہت غصہ آیا۔ اس نے کہا کہ اے انصار کے لوگو، ابھی وقت ہے۔ اگر تم لوگ مہاجر کنگالوں کی امداد و اعانت سے ہاتھ کھینچ لو تو یہ تین تیرہ ہو جائیں۔ عہد کرو کہ مدینہ پہنچ کر ہم میں سے جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو نکال باہر کرے گا۔ (سورہ منافقون: ۷، ۸)
جب ابن اُبی کی اس دریدہ د ہنی کا چرچا ہوا تو مہاجرین میں کافی اشتعال پیدا ہوا۔ حضرت عمر نے رسول اللہ سے فرمایا کہ مجھے اجازت دیں تو اس منافق کو قتل کر دوں۔ اور اگر آپ یہ کام مجھ سے نہ لینا چاہیں کہ وہ انصار کا آدمی ہے اور میں مہاجر ہوں تو کسی انصاری مسلمان، مثلاً معاذ بن جبل یاسعد بن معاذ وغیرہ کو بلا کر کہہ دیں وہ اس کو قتل کر دیں گے۔ آپ نے مشورہ قبول نہیں کیا ۱۲ ۔
ان تمام واقعات سے جن کا اوپر ذکر ہوا، مسلمانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ اسلام کے دشمنوں کے ساتھ عفو و درگذر کا معاملہ کریں اور ان کی ناشایستہ حرکات کے جواب میں حتی الامکان صبر و اعراض کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔
دشمنانِ اسلام اور اعدائے رسول کی یاوہ گوئیوں اور دشنام طرازیوں کے جواب میں صبر و اعراض کی مذکورہ اسلامی تعلیم کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمان اپنے ہونٹ سی لیں اور کسی شکل میں بھی اپنے جذبات کا اظہار نہ کریں۔ صبر اور اعراض کی تعلیم تو اس لیے دی گئی ہے کہ گندگی کو گندگی سے دھونا غیر اخلاقی بات ہے اور اس میں خیر و صلاح کے بجائے شرپوشیدہ ہے۔ گندگی کو پانی سے دھونے میں کوئی حرج نہیں اور اس کی اجازت دی گئی ہے۔
بلاشبہ ہر قوم کی طرح مسلمان بھی اپنے مذہب اور اپنے پیغمبر سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں اور جب ان کی توہین کی جاتی ہے تو فطری طور پر ان کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور اس کا اظہار وہ ہنگامہ خیز جلوس اور جلسوں کی صورت میں کرتے ہیں اور اس سے اسلام اور مسلمانوں دونوں کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ اگر اعتدال کے اندر رہ کر پُرامن طریقے سے غم و غصہ کا اظہار کیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن قرآن نے ہم کو اس سے اچھا طریقہ بتایا ہے، جس سے کام لے کر ہم اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔
یہاں میں عہدِ نبوی کے اس واقعہ کا ذکر کروں گا جس کا تعلق زید بن ثابت کے واقعۂ طلاق سے ہے۔ عربوں میں قدیم سے دستور چلا آتا تھا کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا۔ وہ نہ صرف مال و جائداد کا صلبی بیٹے کی طرح وارث ہوتا تھا بلکہ اس کی بیوی سے بصورتِ طلاق و وفات اس شخص کا نکاح حرام تھا جو کسی کو منہ بولا بیٹا بناتا تھا۔ اللہ نے اس غیر ضروری دستور کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ جب زید بن ثابت جو آپ کے منہ بولے بیٹے تھے، اپنی بیوی زینب بنت حجش کو طلاق دے دیں تو وہ ان سے عقد کریں۔ کام آسان نہیں تھا لیکن آپ نے عواقب سے قطع نظر کر کے اللہ کے حکم کی تعمیل کی۔ اس شادی کا ہونا تھا کہ آپ کے خلاف ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ اسلام اور رسولِ خدا کے دشمنوں کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا ایک اچھا موقع مل گیا۔ چنانچہ انھوں نے منظم طریقے سے پیغمبر اسلام کی کردار کشی کی مہم چلائی اور ہرطرح کا پروپیگنڈہ کیا۔
اس نازک وقت میں جب کہ پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے جذبات بری طرح مجروح تھے، خدا کی طرف سے مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ اس اہانت کے جواب میں اپنے رسول کے حق میں دعائے رحمت کریں اور آپ پر کثرت سے درود و سلام بھیجیں۔ فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِ۔ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّ لَہُمْ عَذَاباً مُّہِیْناً۔ (سورہ احزاب: ۵۶: ۵۷)
’’اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں، اے ایمان والو، تم بھی اس پر بکثرت درود و سلام بھیجو۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو (اپنی نازیبا باتوں سے) تکلیف پہنچاتے ہیں، اللہ نے دنیا اور آخرت دونوں میں ان کو اپنی رحمت سے محروم کر دیا ہے اور ان کے لیے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعائے رحمت کا اتنا ہی مطلب نہیں کہ کچھ مخصوص الفاظ کے ذ ریعے انفرادی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیج دیا جائے بلکہ اس کا مفہوم اس سے کچھ زیادہ ہے۔ آیت کے موقعِ نز ول کو سامنے رکھیں کہ اسلام کے دشمن ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نفس پرستی کا گھناؤنا الزام لگا کر آپ کی کردار کشی کر رہے تھے اور دوسری طرف اسلام کی دعوت کو مشکوک بنانے کے درپے تھے۔ اس لیے دشمنوں کے لیے مسکت جواب یہ ہو گا کہ جہاں انفرادی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجا جائے وہاں آپ کے اعلیٰ اخلاق اور مثالی کردار کا بھی نمایاں طور پر اظہار و اعلان ہو اور اس روحانی خیر و برکت سے اقوام عالم کو آگاہ کیا جائے جو آخری رسول کی بعثت سے اہلِ جہاں کو پہنچا، بالخصوص وحدتِ الٰہ اور وحدتِ آدمیّت کی آفاقی تعلیم جس سے آج بھی دنیا ٹھیک طور پر آگاہ نہیں ہے۔
اس مقصد کے لیے دور جدید کے تمام ذرائعِ نشر و اشاعت کا استعمال ناگزیر ہے۔ اخبارات و رسائل، ریڈیو اور ٹیلی ویژن اس کام میں بہت زیادہ مددگار ثابت ہوں گے۔ اس کے علاوہ ’’سیرت النبی‘‘ کے عنوان سے معیاری عالمی سیمینار اور مجالس مذاکرہ کا اہتمام بھی نتیجہ خیز ہو گا۔ لیکن سب سے زیادہ ضروری کام یہ ہے کہ مسلمان اسلام کے سچے داعی بنیں۔ ان کے قول و فعل دونوں سے اہلِ دنیا کو معلوم ہو کہ حقیقی اسلام یہ ہے اور یہ لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں جو خیرِ مجسم اور پیکرِ رحمت تھا۔ (سورۃ الانبیآء: ۱۰۷)
حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور اس کے پیغمبر کی اہانت وہی شخص کر سکتا ہے جو تہذیب و متانت سے معرّا، اخلاق باختہ، تعصب گزیدہ، دل کا اندھا اور حق نا آشنا ہو گا۔ اسے نہیں معلوم کہ وہ چاند پر تھوکنے اور سورج پر خاک ڈالنے کی حماقت میں مبتلا ہے۔ فی الحقیقت اس طرح کے نادان لوگ ہماری ہم دردی اور دل سوزی کے مستحق ہیں۔ ان کے ساتھ مسلمان وہ معاملہ کریں جو رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر طائف کے ستم گروں کے ساتھ کیا تھا۔
معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کی گلیوں میں ناقابلِ بیان ظلم و ستم کا سامنا کرنے اور اہانت کے بھاری پتھر کھانے کے باوجود ظالموں کے حق میں بد دعا نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ اے اللہ، یہ نادان ہیں، یہ نہیں جانتے، تو انھیں ہدایت دے۔ ہم مسلمان بھی دعا کریں کہ: اے رحیم و کریم خداے دو جہاں، سارے انسانوں کے خالق اور معبود حقیقی، تو اہلِ مغرب کے کور چشموں اور دل کے اندھوں کو بینائی دے، انھیں حق گوئی، عدل پروری اور تمیز خیر و شر کی توفیق عطا کر، انھیں حق و راستی دکھا تاکہ وہ قرآن اور محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کے جرم میں روزِ آخرت خدائے ذوالجلال کی دردناک سزا سے دوچار نہ ہوں کہ اس دن کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا:
وَمَآ اَدْرٰکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ۔ ثُمَّ مَآ اَدْرٰکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ۔ یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْئاً وَالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِّلّٰہِ۔ (سورۂ انفطار: ۱۷-۱۹)
’’تم کیا جانو کہ روزِ جزا کیا ہے، ہاں تم کیا جانو کہ روزِ جزا کیا ہے، (سن لو کہ) اس دن کوئی شخص کسی کے کچھ کام نہ آئے گا اور فیصلہ اللہ کے اختیار میں ہو گا۔‘‘
____________
۱؎ تورات میں ہے:
’’جب تم یرون سے پار ہو کر زمینِ کنعان میں داخل ہو تو ان سب کو جو اس زمین کے باشندے ہیں اپنے سامنے سے بھگاؤ، ان کی مورتیں فنا کر دو، ان کے سب اونچے مکان ڈھا دو اور ان کو جو اس زمین کے بسنے والے ہیں، خارج کرو اور وہاں آپ بسو کیونکہ میں نے وہ سرزمین تم کو دی ہے کہ اس کے مالک بنو۔‘‘ (کتاب اعداد، باب ۳۳: ۵۰- ۵۴) مزید دیکھیں، کتاب استثناء، باب ۳: ۲۴، باب ۲: ۳۰- ۳۵
۲؎ بھگوت گیتا میں ہے:
’’اے ارجن (پارتھ) تو بزدل نہ بن، یہ تیرے شایانِ شان نہیں ہے۔ اے دشمنوں پر فتح پانے والے، اپنے دل کی کمزوری کو چھوڑ کر جنگ کے لیے اٹھو۔‘‘
یہ عبارت بھی دیکھیں:
’’جنگ کرنے کے بعداگر تو مارا جائے تو تجھے جنت (سورگ) ملے گی اور فتح یاب ہو گا تو زمین تیرے اقتدار میں ہو گی۔ اس لیے اے کنتی کے بیٹے! جنگ کا عزم کر کے اٹھ۔‘‘(دیکھیں، شریمد بگوت گیتا، اردو ترجمہ: حسن الدین احمد، قومی کونسل برائے فروغ اردو نئی دہلی ۱۹۹۷ء باب دوم ص ۲۴، ۲۸)
’’اے اندر! ہم کو بہادرانہ سطوت عطا کر، آزمودہ کاری اور اس روز افزوں قوت کے ساتھ جو مالِ غنیمت حاصل کرتی ہے، تیری مدد سے ہم جنگ میں اپنے دشمنوں کو مغلوب کریں، چاہے وہ اپنے ہوں یا پرائے، ہم دشمن پر فتح مند ہوں۔ اے بہادر، ہم تیری مدد سے دونوں قسم کے دشمنوں کو قتل کر کے خوش حال ہوں، بڑی دولت کے ساتھ۔‘‘(رگ وید، باب ۶: ۱۱، باب ۸:۱۳)
منو کے ’دھرم شاستر‘ میں ہے:
’’جس راجہ کی فوجیں ہر وقت جنگ کے لے تیار رہتی ہیں، اس سے تمام دنیا خوف زدہ و مرعوب رہتی ہے۔ پس ایسے راجہ کو اپنی مستعد فوج کے ساتھ تمام مخلوقات کو اپنا تابعِ فرمان بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘ (منو دھرم شاستر، باب ۷: ۱۰۳)
۳؎ منو کے دھرم شاستر میں شودر کے بارے میں یہ حقارت آمیز الفاظ لکھے ہوئے ہیں:
’’ہاتھی گھوڑا، شودر، شیر، سور۔۔۔۔۔۔ادنیٰ مدارج ہیں جو تاریکی سے حاصل ہوتے ہیں‘‘ (دھرم شاستر، باب ۱۲: ۴۳)
یہ عبارت بھی ملاحظہ ہو:
’’جو کوئی شودر کو تعلیم دے گا وہ اس شودر کے ساتھ ہی اسم وات نامی جہنم میں جائے گا۔‘‘ (دھرم شاستر، باب ۴: ۸۱)
۴؎ شودر اور وید کے تعلق سے لکھا ہے: ’’اگر شودر بالارادہ، وید کے الفاظ سن لے تو اس کے کان میں پگھلی ہوئی رانگ ڈال دی جائے اور اگر وہ وید کی عبارت پڑھے تو اس کی زبان کاٹ لی جائے (گوتم باب ۱۳: ۴- ۶)
۵؎ ہسٹری آف انٹلکچول ڈیویلپمنٹ آف یورپ، جان ولیم ڈریپر، ۱۸۶۴، ج۱، ص ۳۲۰
۶؎ انڈین جرنل آف ہسٹری آف سائنس، انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی نئی دہلی، جلد نمبر ۱۴، شمارہ نمبر ۳، ماہ ستمبر ۲۰۰۶ء
۷؎ کالیش آف سویلائزیشن (Clash of Civilizations)، ہن ٹنگٹن، ۱۹۹۶ء، ص ۲۱۷
۸؎ سنڈے ٹائمز لندن، بحوالہ دی ٹائمز آف انڈیا نئی دہلی، (ٹائمز گلوبل)، ۲۴ مارچ ۲۰۰۸ء، ص ۲۲
۹؎ دی سنڈے ٹائمز آف انڈیا نئی دہلی، ۱۴؍ ستمبر ۲۰۰۶، ص ۲۹
۱۰؎ عربی شعر کا ترجمہ راقم سطور نے کیا ہے۔
۱۱؎ سیرت ابن ہشا، ابن ہشام، طبع مصر، ج ۲، ص ۲۳۷، ۲۳۸
۱۲؎ ایضاً، ج ۳، ص ۱۵۰
بخاری و مسلم اور حدیث کی دوسری کتابوں میں یہ واقعہ مختلف سندوں سے نقل ہوا ہے۔
__________________________