HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

عثمان غنی رضی اللہ عنہ (۴)

[’’سیر و سوانح’’ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین
کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


۳۲ھ میں عبداﷲ بن عامر، قیس بن ہیثم کو خراسان کاوالی مقرر کر کے واپس ہوئے تو قارن ۴۰ ہزار کی فوج جمع کر کے طبسین سے خراسان روانہ ہوا۔قیس نے عبداﷲ بن خازم سے مشورہ کیا تو انھوں نے کہامیں یہاں رہ کر انھیں جنگ میں الجھاتا ہوں ،آپ ابن عامر کے پاس جا کر کمک لے آئیں۔قیسں نے ۴ ہزار کی نفری تیار کی ۔کوچ سے پہلے انھوں نے ہدایت جاری کی ہر شخص اپنے نیزے سے روئی یا کپڑے کا ٹکڑا باندھ لے اور اسے گھی یا زیتون کے تیل سے تر کر لے۔ رات ہوئی تو انھوں نے ان فلیتوں (فتیلوں)کو آگ سے روشن کرنے کا حکم دیا ۔نصف شب کے قریب اس لشکر نے قارن کی سوئی ہوئی فوج پر دھاوا بول دیا۔نیند میں مست فوجی ہڑبڑا کر اٹھے تو انھیں اوپر نیچے،آگے پیچھے ہر طرف آگ حرکت کرتی نظر آئی جس سے وہ خوف زدہ ہو گئے۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمان سپاہ نے قارن اور اس کے بہت سے فوجی قتل کر دیے اور بے شمار کو قید کر لیا گیا۔گورنر ابن عامر نے اس فتح سے خوش ہو کرابن خازم کو خراسان کا والی بنا دیا۔

۳۳ھ میں کوفہ کے ایک گروہ نے خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان ،گورنر سعید بن عاص اورقبیلۂ قریش کو علانیہ برا بھلا کہنا شروع کیا۔کمیل بن زیاد، اشتر نخعی (مالک بن یزید)، ثابت بن قیس ،علقمہ بن قیس ، جندب بن زہیر،جندب بن کعب ، صعصہ بن صوحان،عروہ بن جعد اور عمرو بن حمق اس میں شامل تھے۔ حضرت سعید نے ان کی خبر حضرت عثمان کو کی تو انھوں نے انھیں حضرت معاویہ کے پاس شام بھیجنے کا حکم دیا۔ حضرت معاویہ نے ان کوتقویٰ کی روش اپنانے کی تلقین کی اور تفرقہ ڈالنے سے منع کیا لیکن وہ ان پر پل پڑے اور ان کی ڈاڑھی اور بال نوچ لیے۔ فتنہ گروں نے حضرت عثمان سے درخواست کی ،انھیں کوفہ واپس بھیج دیا جائے۔واپس آ کر انھوں نے اپنی فتنہ انگیزی جاری رکھی تو امیر المومنین نے حمص بھجوا دیا۔ وہاں کے گورنر خالد بن ولید کے بیٹے عبدالرحمان کے ڈرانے دھمکانے پر انھوں نے اپنی حرکتوں سے باز آنے کا وعدہ کیا ۔انھی کے کہنے پر اشتر مدینہ گیا اور اپنے پورے گروہ کی جانب سے حضرت عثمان سے معافی مانگی۔ وہ واپس پہنچا تو عبدالرحمان نے انھیں ساحل سمندر پر لا بسایا اور ان کی روزی مقرر کر دی۔ اسی سال ایسے ہی ایک گروپ کو بصرہ سے شام اور مصر بھیجا گیا۔

حُکیم بن حبلہ بصرہ کا لٹیرا تھا جو بھیس بدل کر لوگوں کو لوٹتا ۔اس کی شکایت حضرت عثما ن کو پہنچی تو انھوں نے اسے جیل میں ڈالنے کا حکم دیا۔ اہل کتاب میں سے ایک شخص ابن سودا(عبداﷲ بن سبا) کی سرگرمیاں بھی مشکوک تھیں،گورنر بصرہ عبداﷲ بن عامر نے اسے کوفہ سے نکلوا دیا۔ایسا ہی ایک کردار حمران بن ابان تھا،اس نے ایک عورت سے اس کی عدت گزرنے سے پہلے عقد کر لیاتو حضرت عثمان نے فسخ نکاح کے ساتھ اسے سزا دی اور بصرہ بھجوا دیا۔یہاں وہ ابن عامر کی صحبت میں رہنے لگا لیکن جب لایعنی بحثوں میں الجھنے لگا تو انھوں نے اسے شام روانہ کیا۔ کوفہ سے نکالے ہوئے لوگ شام پہنچے تو حضرت معاویہ نے انھیں ایک حویلی میں ٹھہرایااور کہا تم سب حماقت کا شکار ہوئے ہو ۔صعصعہ! تو سب سے بڑا احمق ہے۔تم جو چاہو کرتے رہو لیکن اﷲ کے احکام سے منہ نہ موڑو،امت سے چپکے رہو گے تو کامیاب ہو جاؤ گے ۔ان کے کہنے کا اتنا اثر ہوا کہ وہ نمازوں میں حاضر ہونے لگے ۔

۳۴ھ میں عمال کے اتنے تبادلے ہوئے کہ کوفہ میں کوئی بڑا لیڈر نہ رہا،ان حالات میں فتنہ گروں کو ابھرنے کا موقع مل گیا۔ عامر بن عبداﷲ تمیمی نے سیدنا عثمان سے ملاقات کی اور تمام گورنروں کو معزول کرنے کا مطالبہ کیاتوانھوں نے مشاورت کے لیے گورنروں کو طلب کیا۔عبداﷲ بن عامر نے مشورہ دیا لوگوں کو جہاد میں مشغول رکھیں اس طرح کی سرگرمیوں سے باز آ جائیں گے۔سعیدبن عاص نے کہا فتنہ گروں کے لیڈروں کوختم کر دیا جائے تو یہ خود ہی ختم ہو جائیں گے۔ حضرت معاویہ نے کہا گورنروں اور کمانڈروں پرذمہ داری ڈالیں کہ ان سے نمٹیں۔ ابن ابی سرح کا مشورہ تھا انھیں مال ودولت سے نوازا جائے تو یہ راضی ہو جائیں گے۔ عمرو بن عاص بھی موجود تھے انھوں نے سخت لہجے میں کہاجو بات عوام کو پسند نہ ہو ،اس میں اعتدال سے کام لینا چاہیے اور جب فیصلہ ہو جائے تو اس پر پختگی سے کاربند رہنا چاہیے۔ حضرت عثمان نے ان تمام مشوروں کو تسلیم کر کے ان پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ انھوں نے عطیات تقسیم کیے اور سرحدوں پر فوج جمع کرنے کا حکم دیا۔کوفہ میں یزید بن قیس گورنر سعید بن عاص کو ہٹانے کی مہم شروع کر چکا تھا اس لیے وہاں کے باشندگان نے ان کی قیادت میں لڑنے سے انکار کر دیا۔ مقامی کمانڈر قعقاع نے گرفت کی تو یزیدنے کہاہم حضرت سعید سے استعفا چاہتے ہیں۔اس نے منادی کرائی جو حضرت سعید کو ہٹاکر ابوموسیٰ اشعری کو گورنر بنوانا چاہتا ہے مجھ سے مل جائے پھر مختلف شہروں سے نکالے ہوئے اپنے ساتھیوں کو خط لکھے کہ وہ مصر میں جمع ہوجائیں ۔ عمروبن حریث نے فتنہ پردازوں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن قعقاع کا خیال تھاتلوار ہی ان کا علاج ہے۔اسی اثنا میں یزید اور اشتر جرعہ (قادسیہ کے قریب ایک جگہ ) پہنچ گئے، یہاں ان کی ملاقات حضرت سعید سے ہوئی تو انھوں نے خوب ہنگامہ کیا۔حضرت سعیدنے جنگ سے اجتناب کیا اور کہایہ مسئلہ حل کرنے کے لیے اتنا کافی تھا کہ تم اپنا کوئی نمائندہ امیر المومنین کے پاس بھیج دیتے۔وہ خود مدینہ پہنچے اور حضرت عثمان کو بتایا کہ اہل کوفہ ابو موسیٰ اشعری کو بطور گورنرواپس لانا چاہتے ہیں۔حضرت عثمان نے فرمایا: ہم ان کی مانگ پوری کیے دیتے ہیں کیونکہ ہم چاہتے ہیں کسی کے پاس کوئی عذر یا حجت نہ رہے۔ انھوں نے اسی مضمون کا خط یزید بن قیس اور اس کے ساتھیوں کو بھی بھیجا۔ ابوموسیٰ تقرری کے بعد کوفہ پہنچے اور لوگوں سے خطاب کیا، آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا اطاعت اور جماعت سے چپکے رہنا۔ انھوں نے نماز پڑھانے سے پہلے ان سے امیرالمومنین عثمان بن عفان کے لیے سمع و طاعت کا وعدہ لیا۔

َٰحضرت عثمان کے خلاف مہم چلانے میں عبداﷲ بن سبا(ابن سودا)نے بھی اہم رول ادا کیا۔ صنعا کا رہنے والا یہ یہودی عہد عثمانی ہی میں ظاہراً مسلمان ہوا۔ پہلے اس نے حجاز،بصرہ، کوفہ اور شام کے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔یہاں کامیابی نہ ملی تومصر جاپہنچاجہاں اسے اپنی ضلالت پھیلانے کا موقع مل گیا۔وہ لوگوں سے پوچھتاکیایہ ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں لوٹ کر آئیں گے؟ہاں میں جواب ملنے پر کہتا، تو کیا وجہ ہے کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم جو ان سے افضل ہیں نہ لوٹیں؟پھر کہتاہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے او ر حضرت علی، محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصی ہیں۔اس طرح محمدﷺ خاتم الانبیااور حضرت علی خاتم الاوصیا ہوئے لیکن عثمانؓ نے وصئ رسولﷺ کا حق چھین لیا ہے ۔ تنقید ہوئی تو اس نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا پرچار کرنا شروع کر دیا،اس کے ساتھ ساتھ حضرت عثمان کے گورنروں پر طعنہ زنی کرتا ۔ کئی مصری اس کے فتنے کا شکار ہو گئے تو اس نے کوفہ و بصرہ میں اپنے ہم خیالوں سے خط وکتابت کر کے خلیفۂ ثالث کے خلاف بغاوت میں ساتھ دینے کا وعدہ لیا۔اس کے ساتھیوں نے ہر شہر میں اپنے فسادی ساتھیوں سے مکاتبت کی ،اس طرح سبائی خیالات کی حامل چٹھیاں (پمفلٹ)ہر طرف پہنچ گئیں۔ حضرت عثمان کوان سرگرمیوں کا پتا چلا تو انھوں نے صحابہ کے مشورے سے محمدبن مسلمہ کو کوفہ،اسامہ بن زیدکو بصرہ،عمار بن یاسر کو مصر اور عبداﷲ بن عمرکو شام بھیجا تاکہ وہ ان صوبوں کی صورت حال کا جائزہ لے کر ان کو رپورٹ دیں۔ ان سب کو عوام کی طرف سے کوئی شکایت نہ ملی تاہم اہل مدینہ نے بتایاکچھ لوگوں کو مارا پیٹا گیا اور کچھ کو گالی گلوچ کی گئی ہے۔یہ دیکھتے ہوئے سیدنا عثمان نے ہر شہرمیں خط بھجوا دیے جس کسی کا مجھ پر یا میرے عمال پر کوئی حق نکلتا ہے ایام حج میں دعویٰ کرسکتا ہے ۔ انھوں نے گورنروں سے مشورہ بھی کیا۔گورنربصرہ سعید بن عاص نے حسب سابق افواہیں پھیلانے والے سازشیوں کو قتل کرنے کا سجھاؤ دیا۔ گورنر شام حضرت معاویہ نے نرمی کے ساتھ ساتھ سختی سے کام لینے کی ضرورت پر زور دیا۔ بوقت رخصت انھوں نے کہاامیر المومنین آپ شام منتقل ہوجائیں تو حالات قابو میں آ جائیں گے۔ حضرت عثمان نے فرمایا:میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا پڑوس کسی قیمت پر نہ چھوڑوں گاچاہے میر ی گردن کٹ جائے۔حضرت معاویہ نے شام سے ایک حفاظتی دستہ بھیجنے کی پیش کش کی توجواب ملا کیا میں نبئ اکرمﷺ کے ہمسایوں اوردار ہجرت و نصرت میں رہنے والوں کو تنگی میں مبتلا کردوں؟آخر کار انھوں نے کہا امیرالمومنین آپ کو قتل کر دیا جائے گا یا آپ سے جنگ کی جائے گی۔ حضرت عثمان نے فرمایا: مجھے اﷲ ہی کافی ہے وہ بہترین کارساز ہے۔اس موقع پر کچھ صحابہ نے عبداﷲ بن خالداور مروان کو عطیات دینے پر اعتراض کیا تو حضرت عثمان نے ان سے مذکورہ رقوم واپس وصول کیں۔

۳۴ھ میں حضرت عثمان کے نکتہ چینوں کی تعداد بڑھ گئی ۔صحابہ میں سے حضرات زید بن ثابت ،ابو اسید ساعدی ،کعب بن مالک اور حسان بن ثابت ان کا دفاع کرتے۔ایک بار معترضین حضرت علی کے پاس آئے اور امیرالمومنین سے بات کرنے کو کہا۔ حضرت علی ،حضرت عثمان کے پاس پہنچے اورکہاجیسے اﷲ کے ہاں امام عادل سے بڑھ کر کوئی صاحب فضیلت نہیں ،اسی طرح غیر منصف حکمران سے زیادہ برا کوئی نہیں ہو سکتا۔ حضرت عثمان نے جواب دیا،علیؓاگر تم میری جگہ ہوتے تو میں تمہیں صلۂ رحمی کرنے پرکبھی ہدف ملامت نہ بناتا۔کیاحضرت عمر نے مغیرہ بن شعبہ کو اپنا رشتہ دار ہوتے ہوئے والی مقرر نہیں کیا تھا؟ حضرت علی نے کہاحضرت عمر جس کو ذمہ داری دیتے اس کے کان بھی کھینچتے جب کہ آپ اپنے رشتہ داروں سے نرمی برتتے ہیں۔حضرت عثمان نے کہا یہ تمہارے رشتہ دار بھی ہیں۔حضرت علی نے جواب دیاہاں!میرا ان سے قریبی رشتہ ہے لیکن دوسرے لوگ ان سے زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔اس پرسیدنا عثمان نے کہاتم جانتے ہو، حضرت عمر نے ساری خلافت حضرت معاویہ کو سونپ رکھی تھی۔حضرت علی نے جواب دیا،آپ کے علم میںیہ بھی ہو گا،معاویہ، عمرسے ان کے غلام یرفا سے بڑھ کر ڈرتے تھے۔ حضرت عثمان نے ا س بات کی تائید کی تو حضرت علی نے کہا حضرت معاویہ آپ سے پوچھے بغیر فیصلہ کرتے ہیں اور لوگوں کو بتاتے ہیں ،یہ امیر المومنین کا حکم ہے پھر آپ اس فیصلے کو تبدیل بھی نہیں کرتے۔ حضرت علی کے جانے کے بعد حضرت عثمان منبر پر چڑھے اور بڑے جوش سے کڑک کر لوگوں سے خطاب کیا،ہر شے کی ایک آفت اور ہر کام کے لیے کوئی مصیبت ہوتی ہے۔اس امت کی آفت عیب جو اور طعنہ زن ہیں،دکھاتے ہیں جو تمہیں بھلالگتا ہے اور جو تم کو پسند نہ ہوچھپا لیتے ہیں۔بخدا تم نے میرے وہ وہ نقص نکالے جو ابن خطاب کے لیے برداشت کرتے رہے۔وہ تمہیں ٹھوکر مارتے،پیٹتے اور برا بھلا کہتے اور تم ان کی بری بھلی بات تسلیم کرتے رہے۔ میں نے تمہارے لیے کندھے جھکا لیے ،ہاتھ اور زبان کو روکے رکھا ،اس لیے مجھ پر زبان درازی کرتے ہو۔ اس موقع پر مروان بن حکم نے کہا آپ چاہیں تو ہم اپنے اور ان کے بیچ تلوار کو فیصلے کا اختیار دے دیں۔حضرت عثمان نے فرمایا:خاموش!تمہارے بولنے کا کیا مطلب ؟ مجھے اپنے ساتھیوں سے بات کرنے دو۔

بصرہ و کوفہ میں سبائی فتنہ گروں کی دال نہ گلی تو انھوں نے مدینہ پر یلغار کرنے کا فیصلہ کیا۔صحابہ کی اولاد میں سے بھی کچھ لوگ ان کے ساتھ تھے۔یہ مصرمیں پروان چڑھے تھے اور ابن ابی سرح کی جنگی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے تھے۔محمد بن ابو بکر اور محمد بن ابو حذیفہ ان میں نمایاں تھے۔رجب ۳۵ھ کوقریباً ۶۰۰ افراد عمرو بن بدیل،عبدالرحمان بن عُدیس،کنانہ بن بشر اورسودان بن حمران کی سربراہی میں مدینہ کے لیے روانہ ہوئے ۔بظاہر عمرہ ،لیکن دراصل امیرالمومنین کے خلاف مہم چلانا ان کا مقصد تھا۔ محمد بن ابو بکر نے اس قافلے میں شمولیت کی جب کہ محمد بن ابو حذیفہ نے مصر میں رہ کر راے عامہ کو متاثر کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابن ابی سرح نے حضرت عثمان کو ان کی روانگی کی اطلاع دے دی۔جب وہ مدینہ کے قریب پہنچے تو انھوں نے حضرت علی کی ذمہ داری لگائی کہ ا نھیں مدینہ میں داخل ہونے سے روکیں۔وہ معززین کی ایک جماعت لے کر نکلے،حضرت عمار بن یاسر، حضرت عثمان کے اصراراور حضرت سعد بن ابی وقاص کے کہنے کے باوجود شامل نہ ہوئے ۔حضرت علی نے باغیوں کے تمام اعتراضات کا جواب دیا۔انھوں نے کہا، حضرت عثمان نے اپنے ڈھور ڈنگروں کے لیے نہیں بلکہ بیت المال کے اونٹوں کے لیے چرا گاہ بنائی۔انھوں نے مصحف کے وہ نسخے جلائے جو مختلف فیہ تھے اور متفق علیہ باقی رہنے دیے۔انھوں نے مکہ میں کامل نماز اس لیے ادا کی کیونکہ وہاں ان کا سسرال تھا اور وہ قیام کی نیت رکھتے تھے۔ انھوں نے نو عمر گورنراس لیے مقرر کیے کیونکہ وہ ذی صلاحیت اور عادل تھے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی ۲۰ سالہ عتاب بن اسید کو مکہ کا گورنر اور نوجوان اسامہ بن زید کوسپہ سالار مقرر فرمایا تھا۔سیدنا عثمان نے اگر اپنی قوم بنو امیہ کو ترجیح دی تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی اپنی قوم قریش کو باقیوں پر ترجیح دیتے تھے۔حضرت علی نے ان کو خوب ڈانٹااور برا بھلا کہا تو وہ شرمندہ ہوئے اور یہ کہتے ہوئے پلٹ گئے کیا ان کی وجہ سے تم امیر سے جنگ کر رہے ہو؟ان کے جانے کے بعد سیدنا عثمان نے لوگوں سے خطاب کیا اور ان اصحاب سے معذرت جنھیں ان کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچی تھی۔

اہل مصر کی سازشیں ختم نہ ہوئی تھیں۔انھوں نے کوفہ و بصرہ میں اپنے ساتھیوں سے پھر سے مراسلت کی ،کچھ جعلی خط حضرت علی ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کی جانب سے تحریر کیے گئے جن میں قتال پر اکسایا گیا تھا۔ ۲۵ شوال ۳۵ھ کو مصر سے ۶۰۰سے زیادہ اشخاص غافقی بن حرب کی قیادت میں بظاہر حج کے لیے روانہ ہوئے ۔اصل میں یہ ۴ فوجی دستوں میں منظم تھے،عبدالرحمان بن عُدیس،کنانہ بن بشر،سودان بن حمران اور قتیرہ بن فلان کے پاس دستوں کی سربراہی تھی۔ابن سودا(عبداﷲ بن سبا)بھی ان کے ساتھ تھا۔اسی طرح کوفہ سے بھی۶۰۰ افراد پر مشتمل ۴ دستے عمرو بن اصم کی سرکردگی میں نکلے۔دستوں پر زید بن صُوحان ،اشتر نخعی ،زیاد بن نصر اورعبد اﷲ بن اصم مقرر تھے۔بصرہ سے خروج کرنے والی ۴ ٹولیوں کا لیڈر حُرقوص بن زہیر تھا۔ان کی مجموعی تعداد پہلے دونوں گروہوں جتنی تھی۔حُکیم بن حبلہ،ذریح بن عباد،بشر بن شریح اور ابن محرش ٹولی کمانڈر تھے۔ اہل مصر حضرت علی کو بصرہ والے حضرت طلحہ کو اور کوفی حضرت زبیر کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے۔ ایک مقصد ہونے کے باوجود وہ الگ الگ سفر کر رہے تھے ہر ایک کو اپنی کامیابی کا یقین تھا ۔ مدینہ کے قریب آئے توبصری ذو خشب میں ٹھہرے کوفی اعوص میں اترے جب کہ اہل مصر نے ذو المروہ میں قیام کیا۔ پہلے دوآدمیوں نے مدینہ جا کر حضرت علی،حضرت طلحہ،حضرت زبیراور امہات المومنین سے ملاقات کی۔پھر ہر گروپ کا وفد مذکورہ اصحاب رسول ﷺسے ملا، تینوں نے ان کی مدد کرنے سے انکار کیا اور انھیں لعنت ملامت کی۔باغیوں نے یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ وہ اپنے شہروں کوواپس جا رہے ہیں اپنی قیام گاہیں چھوڑدیں لیکن پھر پلٹ کرشہر پر حملہ آور ہو گئے۔ انھوں نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیااور اعلان کیا جو مزاحمت نہ کرے گا امن پائے گا۔ایام حج ہونے کی وجہ سے مدینہ پہلے ہی خالی تھا،باقی لوگ بھی گھروں میں بیٹھ گئے۔صحابہ باغیوں کو سمجھاتے رہے لیکن انھوں نے ایک نہ مانی۔ اسی دوران میں حضرت عثمان دوسرے شہروں میں مدد کے لیے خطوط لکھ چکے تھے چنانچہ حضرت معاویہ نے حبیب بن مسلمہ فہری اور ابن ابی سرح نے معاویہ بن حدیج کو بھیجا،کوفہ سے قعقاع بن عمرو آئے۔ باغیوں کے خروج کے بعد پہلا جمعہ آیا تو حضرت عثمان نے خطبہ دیا،او دشمنو! اﷲ سے ڈرو۔اہل مدینہ جانتے ہیں حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان سے تم پر لعنت کی گئی ہے۔محمد بن مسلمہ تائید کے لیے اٹھے تو حُکیم بن حبلہ نے انھیں بٹھا دیا۔ زید بن ثابت اٹھ ہوئے تو محمد بن ابو قتیرہ ان کی طرف لپکا۔اب تمام باغی اٹھ کھڑے ہوئے اور نمازیوں پر سنگ باری شروع کر دی۔ حضرت عثمان کو بھی پتھر لگا اور وہ بے ہوش کر منبر سے گر پڑے۔ مدینہ پر یورش کے ایک ماہ بعد تک وہ نماز کی امامت کرتے رہے پھر انھیں روک دیا گیا اور غافقی بن حرب نے مصلّا سنبھال لیا۔

مطالعۂ مزید:تاریخ الامم والملوک(طبری)،البدایہ والنہایہ(ابن کثیر)

________________

B