HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : نعیم بلوچ

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

تہذیبی نرگسیت

مصنف: مبارک حیدر
صفحات: ۱۳۹،مجلد
قیمت : ۱۵۰ روپے
اشاعت: ۲۰۰۹
پبلشرز: سانجھ، ٹمپل روڈ لاہور


کم و بیش ہر معاشرے میں کوئی نہ کوئی فکر ی و نظری بحث جاری رہتی ہے ۔ اس کی نوعیت البتہ ایسی کبھی کبھار ہی ہو تی ہے کہ اس پر قوموں کی بقا کا دورومدار ہو ،مثلاًانقلاب فرانس (17891501799) میں نظام حکومت کی بحث، ابراہم لنکن( 1861 1501865 )کے دور میں غلامی کی بحث، جنگ عظیم دوم کے بعد ( 1945)آزاد انڈیا کو اقتدار کی منتقلی کی بحث وغیرہ ۔ قومیں اگر ان بحثوں کے بعد کسی متفقہ نتیجے پر نہ پہنچیں یا سامنے کی حقیقتوں کو قبول کرنے سے انکار کردیں تو پھرفرشتوں کے وہ خدشات مجسم حقیقت بن جاتے ہیں جو انھوں نے آدم کی خلافت کے خدائی منصوبے کے وقت ظاہر کیے تھے اور قتل وغارت گری کے ایک سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پاکستان بھی اس وقت ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری جنگ ہے یا امریکہ کی ، طالبان اسلامی انقلاب کا ہراول دستہ ہیں یامخصوص فہم اسلام کے بزور نفاذ کی انتہا پسندانہ اور منتقمانہ جدوجہد۔ اسلامی انقلاب، اسلام کا نعرہ ہے یا حقیقت کچھ اور ہے؟ زیر تبصر ہ کتاب میں ایسے ہی موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔

۲۶ ابواب پر مشتمل اس کتاب کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔پہلے آٹھ ابواب میں مصنف نے انتہائی مہارت سے ان تمام سیاسی ، تہذیبی اور مذہبی عقائد کا بے لاگ تعارف کرایا ہے جن کی بنیاد پر ہر’’ باشعور مسلمان‘‘ پاکستان اور پھر پوری دنیا پر غلبہ اسلام کے خوب دیکھ رہا ہے۔ عام طور پر ان نظریات کو مقدس قسم کی اصطلاحات کے لبادے میں بیان کیا جاتا ہے لیکن مصنف نے ’’ حکومت الہیہ‘‘ ’’ اظہار دین ‘‘ ’’ خلافت اسلامیہ ‘‘ وغیر ہ جیسی تراکیب کے تمام لبادے اتارکر اسلامی تحریکوں کی اصل منزل بیان کر دی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ ان افکار پر کاٹ دار تبصرے بھی کرتے ہیں اور طنز و تعریض کے نشتر بھی چلاتے ہیں ۔ ایک اقتباس ملاحظہ کریں :

’’یہ عجیب ہے کہ جب ہم موجودہ تحریکی نظر یا ت کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں تو عام قاری اسے طنز اور مزاح خیال کرتا ہے ۔ ممکن ہے کچھ لوگ برہم بھی ہوں کہ اسلامی تحریکوں کو طنز کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن یہ ایک سوے اتفاق ہے جبکہ درحقیقت یہ نقشہ طنزیہ نہیں بلکہ یہ نظریاتی خاکہ اور تحریک کے مستقبل کا یہ پلان ایک ریسرچ پر مبنی ہے جو مختلف دینی طلباء اور اساتذہ سے رجوع کرنے کے بعد تیار کیا گیا ہے ،جماعت اسلامی کے لٹریچر کے علاوہ اخوان المسلمین کے قائد سید قطب کی تحریروں کا مطالعہ کیا گیا ہے ، بھارت ، برطانیہ،سپین اور دیگر ممالک کی مسلم تنظیموں کے نعروں اور منشوروں کو دیکھا گیا ہے۔ یہ نظریاتی خاکہ حتی المقدور مبالغہ سے پرہیز کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے لیکن اس کے مبالغہ آمیز دکھائی دینے کی وجہ یہ ہے کہ آج کا عام پڑھا لکھا مسلمان جدید دور کی فکری تحریکوں سے متاثر ہوا ہے جن میں انسانی حقوق ، آزادی راے اور جمہوریت کے تصورات ایسے تصورات ہیں جن کے سامنے اسلام کے وہ تصورات ایک خاص ا نداز سے پس ماندہ دکھائی دیتے ہیں جو مدرسوں میں یا غلبہ اسلام کی تحریکوں میں پائے جاتے ہیں ۔ لہٰذا جب ان کا بیان ان کے اصل اور بے تکلف انداز سے کیا جاتاہے تو شاید مزاحیہ، غیر سنجیدہ یا مبالغہ آمیز دکھائی دیتا ہے۔ ‘‘ (صفحہ : ۲۶-۲۷)

اسلام کے سیاسی غلبے کے لیے برسر پیکار مجاہدین کو پوری دیانتداری سے تلخ حقائق کا ادراک ان الفاظ سے کراتے ہیں :

’’ اگر مسلم امہ کی فکری حالت نہیں بدلی تو اس کامطلب یہ نہیں کہ دنیا بھی نہیں بدلی ۔ صدیوں سے خود پسندی اور ملی فخر کے جس غار میں ہمیں سلایا گیا ہے وہ اس وقت ایک سفاری پارک میں بدل چکا ہے جس کے گردایک مضبوط باڑ ہے اور غالباً لوہے کی اس باڑ میں ہائی وولٹیج کرنٹ چھوڑ دیا گیا ہے جس کا کنٹرول روم ہمیں معلوم نہیں۔ ہم شیر ہیں ، ہم شاہین ہیں، ہم غازی ہیں اور شہادت ہماری آرزو ہے،لیکن اس دنیا کی اقوام اس جنگل سے نکل آئی ہیں جہاں ہم بادشاہ تھے۔اب ایک اور طرح کا جنگل ہے جہاں ہم سے بھی بڑی بلاؤں کی حکومت ہے ہم ان بلاؤں کی تفریح گاہ میں رہتے ہیں اور یہ بلائیں اپنے تفنن طبع کے لیے اس سفاری پارک میں کبھی چنے پھینکتی ہیں اور کبھی کنکر ،کیونکہ ان کے حساب سے ہم شیر بھی نہیں،بلکہ محض چنے چبانے والی کوئی مخلوق ہیں،جن سے وہ کبھی کبھی اپنے عوام کو ڈرانے کا کام لیتی ہیں ‘‘۔ ( صفحہ ۲۳- ۲۴)

کتاب کے اس حصے سے ہم ان دو اقتباسات ہی پر اکتفا کرتے ہیں ، ورنہ سچی بات یہی ہے کہ ان ابواب کا لفظ لفظ وہ آئینہ ہے جس میں بسم اللہ کے گنبد میں بند اسلامی تحریک کے دانشور اور کارکن، دونوں ہی اپنا وہ چہرہ دیکھ سکتے ہیں جو ان کے ناقدین کے ہاں ان کا اصل تشخص ابھارتا ہے ۔ مصنف نے جا بجا اپنے مخاطب سے چبھتے ہوئے سوالات بھی پوچھے ہیں اور زبان حال سے دریافت کیا ہے ان سامنے کے حقائق کونظر انداز کر کے کسی صائب فیصلے پر کیسے پہنچا جا سکتا ہے ۔ وہ پوچھتے ہیں :

’’کیا قومی آزادی کسی دوسری قوم سے نفرت کے بغیر ممکن نہیں؟ کیا جدید جاپان ،ملائیشیا یا چین کی ترقی کسی مخالف قوم سے نفرت کی بنیاد پر ہوئی ہے؟ کیا بھارت سے نفرت کے نتیجے میں یا اسلام کا بڑھ چڑھ کر نعرہ لگانے سے ہم نے پچھلے ساٹھ برس میں ترقی کی ہے ؟ ‘‘(صفحہ ۴۱)

تبلیغی جماعت سے پوچھتے ہیں :

’’دوسرے ملکوں میں جانے سے پہلے آپ اپنے ملک کے عوام کا کردار اور اخلاق کیوں نہیں سنوارتے ؟ اور جب تک یہ سنور نہ جائے ، کیاآپ کا بیرون ملک جانا جائز ہے ؟‘‘ (صفحہ ۴۴)

جہادی مذہبی قیادت سے پوچھتے ہیں :

’’ایسا (کیوں) دیکھنے میں نہیں آیا کسی چیرہ دست ظالم کو ، کسی ذخیرہ اندوز کو یا ہیبت ناک مالی سکینڈل کے ذریعے راتوں رات ارب پتی بن جانے والے کسی شخص یا گروہ کو ان جہادی تنظیموں نے نشانہ بنایاہو؟‘‘ ( صفحہ ۴۶)

کتاب کے دوسرے حصے میں مصنف نے اس مرض کی تشخیص کی ہے جو ان کے خیال میں ہم مسلمانوں کے ہاں ہر سطح پر پایا جاتا ہے ۔ باب نو سے سترہ تک وہ اپنے اسی مقدمے کے حق میں دلائل دیتے نظر آتے ہیں ۔ ان کے خیال میں مسلم ذہن میں خود پسندی اس حد تک سرایت کر چکی ہے ہم ’’ نر گسیت‘‘ کے نفسیاتی مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس کے حق میں متعدد علماے نفسیات کے حوالے سے انھوں نے ۱۶ ایسے خصائص بیان کیے ہیں جو نرگسیت کے مریض میں پائے جاتے ہیں۔ پھر انھوں نے تجزیہ کرکے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ ساری علامات مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں ۔ مصنف کو احساس ہے کہ ہر دور کی عالمی طاقت اسی طرح کی ذہنیت کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن ان کے نزدیک موجودہ عالمی طاقت امریکا کا معاشرہ اس کے مضر اثرات سے بوجوہ محفوظ ہے ۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ؛

’’ امریکہ میں بہترین جمہوری حقوق کے مروج ہونے کے باوجود یا شاید ان کی وجہ سے امریکی فرد کی انفرادی نرگسیت اور امریکہ کی ریاستی نرگسیت میں وہ یکسانیت پیدا نہیں ہو پاتی جو پاکستان یا سعودی عرب کے کرخت آمرانہ معاشروں میں ملتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اظہار راے کی آزادی اور اختلاف کا حق اس امر کی ضمانت بنتے ہیں کہ ہر طرح کی نرگسیت پر تنقید اور نگرانی ہوتی رہے چنانچہ فرد کی نرگسیت پر اجتماعی چھاپ نہیں لگتی۔اس کے برعکس آمرانہ معاشروں میں چونکہ قبائلی جبر اور آمرانہ نظام فرد ک آزادانہ نشوو نما کو روکتے ہیں اور معاشرہ تنوع سے محروم ہو جاتاہے لہذا فرد اور معاشرے کی نرگسیت میں یکسانیت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے‘‘( صفحہ ۶۴)

لیکن اس موقع پر قاری کے اس فطری سوال کا جواب نہیں دیا گیا کہ عراق کے خلاف بلا جواز جارحیت کے متوقع اقدام کو جب ان جمہوری معاشروں نے رد کیا توکیا تو اس کا لحاظ نہ کرنا کون سی جمہوری روایت کے مطابق تھا ؟کیا اس موقع پر امریکا کی ریاستی نرگسیت کے آگے امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور دوسری متعدد یورپی اقوام کی انفرادی نرگسیت کوئی موثر بند کیوں نہ باندھ سکی ؟البتہ انھوں نے مسلم نرگسیت کی یہ وجہ بہت خوب بیان کی ہے :

’’مملکت سے بغاوت کے جو مظاہرپاکستان میں دکھائی دے رہے ہیں وہ صرف ایک ایسے نرگسی معاشرے میں ممکن ہے جہاں فرد یا گروہ خود کو مملکت سے بڑا یا برابر سمجھتا ہے اور دوسری طرف مملکت فرد کو کسی آےئنی اور قانونی اصول سے تبدیلی کا موقع فراہم نہیں کرتی،یعنی فرد اور مملکت اپنی اپنی نرگسیت کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب قوم اور مملکت کے تصورات افراد کی نظر میں قبل احترام تصورات نہ ہوں بلکہ ان کی جگہ کسی دوسرے تصور اجتماعیت کو تقدس حاصل ہو ۔ چونکہ پاکستانی معاشرے میں فکری طور پر مذہبی حکمرانی کو تقدس حاصل ہے اور عملی طور پر جابر اور عسکری قوت کو یہ حق حاصل ہے لہٰذا قومی اور ملکی تشخص بتدریج بے معنی ہوتا جا رہا ہے ۔‘‘ (صفحہ۶۳۔۶۴)

کتاب کے آخری نو ابواب میں مصنف نے اپنی راے کے مطابق ان غلط افکار کی نشان دہی کی ہے جس کی وجہ سے مصنف کے بقول مسلمان نرگسیت کا شکا ر ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے کے خود ساختہ عقیدے کو بجا طور پر ہدف تنقید بنایا ہے ۔ غلبہ اسلام کے عنوان سے انھوں نے اس بات کو سادہ انداز سے رد کر دیا ہے بھلا آج کے دور میں سر فتح کرکے غلبے کی آرزو کیسے پوری کی جا سکتی ہے؟ اور ان کا یہ کہنا بھی سوفی صد درست ہے کہ آج اگر حضور ﷺ خود موجود ہوتے تو وہ نام نہادجہادیوں کی پر تشدد تحریکوں کے بجاے سفارت اور مکالمے کے ذریعے دل و دماغ کو فتح کرنے کو ترجیح دیتے ۔ جہاد اور سنت کے مروجہ تصورات پر بھی ان کی تنقیدات جان دار اور قاری کو اپنے دل کی بات محسوس ہوں گی البتہ انھوں نے دین اسلام میں سنت اور جہاد کا جو تصور بیان کیا ہے اس سے اتفاق کرنا مشکل محسوس ہو گا۔

یہ درست ہے کہ مصنف نے عمومی طور پر عقل عام ہی کے ذریعے اپنے تجزیے کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ بہت حد تک کامیاب رہے ہیں لیکن بعض جگہوں پر انھوں اس مناسب روش سے ہٹ کر خالص علمی و فنی نوعیت کی تنقید بھی کی ہے لیکن ایک تو کتاب کا اسلوب اس کے لیے مناسب نہیں ہے دوسرے یہ کہ شاید زیر بحث موضوعات سے انصاف کے تقاضے پورے کرنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا ۔ مثلاً صفحہ۹۲ پر انھوں ایک عربی مقولے کو حدیث قرار دیا ہے کہ علم حاصل کرو چاہے تمھیں چین جانا پڑے ( ملاحظہ ہو کتاب :مقالات عبدالقدوس ہاشمی )، اسی طرح نوشیرواں عادل ایرانی ضرور تھا لیکن اس کا عدل کسی تہذیبی روایت سے ماخوذ نہیں تھا بلکہ اس کی ساری اخلاقیات کا منبع اللہ کی دی ہوئی فطرت اور اس کے انبیاء کی تبلیغ کردہ تعلیمات تھیں اور قرآن نے اس کا ذکر ذوالقرنین کے لقب سے کیا ہے ۔ اور اس کی حکومت ہر گز عربوں نے ختم نہیں کی ( تفسیرترجمان القرآن از مولانا ابوالکلام آزاد ) سنت کے حوالے سے ان کے ارشادات خلط مبحث کاشکار ہیں ۔ یہ تو بالکل درست ہے کہ بطور نبی آپ کا اسوہ مبارک اور بطور انسا ن آپ کے وہ اعمال جو آپ نے ذاتی حیثیت سے انجام دیے ، ان میں فرق کیا جائے گا ، لیکن سنت کی متعین تعریف کیا ہو گی ، اسے انھوں نے بیان نہیں کیا ۔ بدر کے قیدیوں کے متعلق حضور ﷺکا فرمان سورہ محمد کے عین مطابق تھا ، اور اس پر اللہ تعالیٰ نے نعوذباللہ کسی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا ، ناپسندیدگی والی روایت درست نہیں ۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے ’’حیات رسول امی ‘‘ از خالد مسعود ) حضرت عائشہ صدیقہ سے کنارہ کشی حضور ﷺ کا فیصلہ نہیں بلکہ ازواج مطہرات سے متعلق خاص قانون کا ایک مرحلہ تھا، جسے اللہ کے حکم سے اختیار کیا گیا تھا۔ (دیکھیے میزان از جاوید احمد غامدی ، صفحہ ۴۷۱) ۔ اسی طرح صفحہ ۹۷ میں بیان کردہ اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ جید صحابہ نے حضرت عثمان کو خلافت سے دست بردار ہونے کا مشورہ دیا تھا۔ دراصل وہ تو فسادی اور باغی یہ کہہ رہے تھے کہ آپ خلافت سے علیحدہ ہو جائیں۔(تفصیل کے لیے دیکھیں ’’خلافت معاویہ و یزید از علامہ عباسی )روح کے حوالے سے بھی انھوں نے جو بیان کیا ہے اس سے متفق ہونا مشکل ہے ۔ قرآن میں روح کا لفظ چار دفعہ آیا ہے ، وہاں یہ لفظ پھونک، امر ربی،و حی اور جبریل علیہ السلام کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ،جبکہ فلسفے میں روح کا لفظ اس اصل ا نسانی شخصیت کے معنوں میں استعمال ہوتاہے جو جسم سے ماورا ہے۔ یونانی اسے soulکہتے تھے اور قرآن میں اسے ’’نفس‘‘ کہا گہا ہے ، لیکن مصنف کے مطابق : ’’ جسے ہم روح کہتے ہیں ، وہ غالباًذہن کا ایسا طبقہ ہے جو اجتماعی شعور کو عالم نا معلوم سے جوڑتا ہے ‘‘۔ یوں ’’مذہب بطور روحانیت ‘‘ میں ان کے خیالات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا اور یہ قاری کے لیے خاصی الجھن کا باعث ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ڈارون کی کتاب Origion of Species جس دن (24نومبر 1859) مارکیٹ میں آئی اسی دن فروخت ہو گئی ۔غیر معیاری نثر میں لکھی گئی اور انتہائی متنازعہ موضوع کی حامل کتاب ہو نے کے باوجود اس کی پذیرائی نے ثابت کر دیا تھا کہ آیندہ صدی میں یو رپ علم و فنون کا امام ہو گا ۔ زیر تبصرہ کتاب اگرچہ خوب صورت نثر کا ایک معیاری نمونہ ہے اور اس میں بیان کے گئے تلخ حقائق ، اٹھائے گئے لا جواب سوالات ، دکھی دل کے ساتھ بیان کیے گئے تیکھے نکات اور مستقبل میں پیش آنے والے چونکا دینے والے تباہ کن نتائج کو جس مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے، اس کے باوجود اس کی جتنی پذیرائی عوامی حلقوں میں ہوئی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے آ نے والے وقتوں میں ہمارا کیا حشر ہو گا۔ بلاشبہ اپنی تمام خامیوں کے باوجود یہ کتاب اس قابل ہے کہ اسے پاکستان کا ہروہ فرد غور سے پڑھے جو یہ جاننے کا مشتاق ہے کہ قومیں قرآن کے الفاظ میں ’’مغضوب ‘‘ اور ’’ضالین ‘‘ کیسے بنتی ہیں ۔اپنے آپ کو فکری اور علمی احتساب سے ماورا سمجھنے والے اذہان جہالت کی کن پستیوں میں جا گرتے ہیں اور ان کے دل سامنے کی حقیقتوں کو قبول کرنے سے کیسے گریزاں ہو جاتے ہیں ۔

خوب صورت طباعت اور بامعنی سرورق کی حامل اس کتاب میں چھیڑے گئے موضوعات پر اس طرح کی کئی کتب منظرعام پر آنے چاہییں تاکہ فکری گھٹن میں کچھ تو کمی ہو ۔ اس سلسلے میں مصنف کی یہ کاوش انتہائی مبارک اورقابل صد ستایش ہے ۔

 _________________

B