HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: آل عمران ۳: ۱۴۴-۱۵۱ (۲۴)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)  


وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ، قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ، اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ، وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا، وَسَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ{۱۴۴}
وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ، کِتٰبًا مُّؤَجَّلاً، وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا، نُؤْتِہٖ مِنْہَا، وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ، نُؤْتِہٖ مِنْہَا، وَسَنَجْزِی الشّٰکِرِیْنَ{۱۴۵}
وَکَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ مَعَہٗ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ، فَمَا وَہَنُوْا لِمَآ اَصَابَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَکَانُوْا، وَاللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ{۱۴۶}وَمَا کَانَ قَوْلَہُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا: رَبَّنَا، اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا، وَاِسْرَافَنَا فِیْٓ اَمْرِنَا، وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا، وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ{۱۴۷}فَاٰتٰہُمُ اللّٰہُ ثَوَابَ الدُّنْیَا، وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَۃِ، وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ{۱۴۸}
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا، اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَرُدُّوْکُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ، فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ{۱۴۹}بَلِ اللّٰہُ مَوْلٰکُمْ، وَہُوَ خَیْرُ النّٰصِرِیْنَ{۱۵۰}سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَٓا اَشْرَکُوْا بِاللّٰہِ، مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا، وَمَاْوٰہُمُ النَّارُ، وَبِئْسَ مَثْوَی الظّٰلِمِیْنَ {۱۵۱}
محمدایک رسول ہی ہیں۔ (اُن کے شہید ہو جانے کی خبر نے تمھارے قدم ڈگمگا دیے)۔ اُن سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں، (اور موت وحیات کے یہ مراحل اُن پر بھی آئے)۔۲۱۷  پھر کیا وہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پائوں پھر جائو گے؟ ۲۱۸ (یاد رکھو)، جو الٹا پھرے گا، وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا اور اللہ عنقریب اُن کو صلہ دے گا جو ہر حال میں اُس کے شکر گزار رہے ہیں۔۲۱۹  ۱۴۴
(تم نے حوصلہ چھوڑ دیا) اور (اِس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے کہ) ہر شخص اللہ کے اذن سے ایک مقررہ نوشتہ کے مطابق ہی دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور (اِس کو بھی کہ) جو دنیا کا صلہ چاہے گا، اُس کو ہم اُسی میں سے دیں گے اور جو آخرت کا صلہ چاہے گا، اُس کو وہاں سے دیں گے اور اپنے شکر گزاروں کو ہم اُن کی جزا لازماً عطا فرمائیں گے۔ ۲۲۰ ۱۴۵
(اِن حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرو) اور (یاد رکھو کہ) کتنے ہی نبی گزرے ہیں جن کے ساتھ ہو کر بہت سے اللہ والوں نے جنگ کی ہے تو اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں انھیں پیش آئیں، اُن سے نہ تو وہ پست ہمت ہوئے، نہ انھوں نے کمزوری دکھائی اور نہ دشمنوں کے آگے سپر ڈالی ہے، ۲۲۱ (بلکہ ہر حال میں ثابت قدم رہے) اور اللہ ایسے ہی ثابت قدم رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اُن کی دعا بس یہ رہی کہ پروردگار، ہمارے گناہوں سے درگزر فرما؛ اپنے معاملات میں جو کچھ زیادتی ہم سے ہوئی ہے، اُسے معاف کر دے ؛ ہمارے قدم جما دے اور منکروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔ پھر اللہ نے اُن کو دنیا کا صلہ بھی دیا اور آخرت کا اچھا اجر بھی عطا فرمایا۔ (یہی ہیں جو خوبی سے عمل کرنے والے ہیں) اور اللہ ایسے ہی خوب کاروں کو پسند کرتا ہے۔ ۱۴۶۔۱۴۸
ایمان والو، اگر اِن منکروں کی بات مانو گے تو یہ تمھیں الٹا پھیر کر رہیں گے اور تم نامراد ہو جائو گے۔۲۲۲ (یہ لوگ نہیں)، بلکہ اللہ ہی تمھارا مددگار ہے اور اُسی کی مدد سب سے بہتر ہے۔ (تم دیکھو گے کہ) اِن منکروں کے دل میں ہم تمھارا رعب بٹھا دیں گے، اِس لیے کہ اِنھوں نے اللہ کے ساتھ اُن چیزوں کو شریک ٹھیرایا ہے جن کے حق میں اُس نے کوئی سند نہیں اتاری ہے۔ اِن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والوں کے لیے یہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔ ۱۴۹۔۱۵۱

۲۱۷؎  مطلب یہ ہے کہ دوسرے رسولوں کو جو آزمایشیں پیش آئی ہیں، وہ سب انھیں بھی پیش آسکتی ہیں اور جس طرح انھیں موت کے مرحلے سے گزرنا پڑا، اسی طرح انھیں بھی ایک دن اس مرحلے سے گزرنا ہے۔ ان کے رسول ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ انھیں موت نہیں آئے گی یا یہ کسی آزمایش سے دوچار نہیں ہوں گے۔

 ۲۱۸؎  یعنی اسلام کو چھوڑ کر ایک بار پھر جاہلیت کی طرف لوٹ جائوگے۔

 ۲۱۹؎  یعنی جاہلیت کی طرف لوٹنے کا خیال بھی ان کے ذہن میں نہیں گزرا اور وہ اس بات پر ہمیشہ اپنے پروردگار کے شکر گزار رہے کہ اس نے انھیں اسلام کی نعمت سے بہرہ یاب کیاہے۔

 ۲۲۰؎  یہ مخاطبین کو ان کمزوریوں کی طرف توجہ دلائی ہے جن کی وجہ سے وہ اللہ ورسول کے بارے میں ایسے گمانوں میں مبتلا ہوئے جن کا ذکر یہاں ہو رہا ہے۔ ان میں سے خاص طور پر دو چیزوں کو نمایاں کیا ہے: ایک یہ کہ وہ اس بات پر عقیدہ نہیں رکھتے کہ ہر شخص کی موت کا ایک دن مقرر ہے، اس کو نہ کوئی شخص پہلے لا سکتا ہے اور نہ آجانے کے بعد ایک لمحے کے لیے ٹال سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ان کی سعی و جہد کا مقصود یہی دنیا ہے۔ اپنے دنیوی مفادات سے آگے وہ کسی چیز کو بھی دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، لہٰذا انھیں باور نہیں آتا کہ دنیا کی محرومیوں کا ازالہ آخرت میں ہو جائے گا اور جو لوگ یہاں کھورہے ہیں، وہ فی الواقع اپنے ایثار کا بھر پور صلہ وہاں پا لیں گے۔

۲۲۱؎  اس مفہوم کے لیے اصل میں ’وھن‘، ’ضعف‘ اور ’استکانۃ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ اگرچہ کمزوری کے معنی میں کچھ مشترک سے ہیں، لیکن ان میں باریک سا فرق بھی ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس فرق کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے:

’’...موت سے خوف اور زندگی کی محبت سے دل میں جو بزدلی پیدا ہوتی ہے، یہ وہن ہے۔ اس وہن سے ارادے اور عمل میں جو تعطل پیدا ہوتا ہے، وہ ضعف ہے۔ اس ضعف سے حریف کے آگے گھٹنے ٹیک دینے کا جو نتیجہ ظہور میں آتا ہے، وہ استکانت ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۱۸۷)

آیت کا مدعا یہ ہے کہ جنگ وجدال کا پیش آنا اور اس کے نتیجے میں مصائب وشدائد سے گزرنا انبیا علیہم السلام کے لیے کوئی انوکھا معاملہ نہیں ہے کہ اسے دیکھ کر یہ لوگ بددل ہو رہے ہیں۔ اس طرح کے معاملات اس سے پہلے بھی بہت سے پیغمبروں کو پیش آچکے ہیں۔ داؤدوسلیمان اور موسیٰ علیہم السلام کی جنگوں کا ذکر بائیبل میں جگہ جگہ ہوا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے قانون ابتلا کا لازمی تقاضا ہے۔ اس سے کسی صاحب ایمان کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔

 ۲۲۲؎  یہ اس پروپیگنڈے کی طرف اشارہ ہے جو احد کی شکست کے بعد کیا گیا اور جس سے مکہ کے ائمۂ کفر نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ محمد اگر خدا کے فرستادہ ہوتے تو انھیں شکست نہ ہوتی۔ اس لیے یقین رکھو کہ یہ محض تدبیر اور وسائل کا کھیل ہے جس میں ایک مرتبہ انھیں فتح ہوئی اور اب ہم جیت گئے ہیں، اس کا خدا اور فرشتوں کی مدد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

[              باقی]

 ـــــــــــــــــــ

B