روی ۱ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اذا قال الرجل لصاحبہ۲: ’’یا کافر‘‘ فانھا تجب علی احدھما. فان کان الذی قبل لہ کافر فھو کافر. والا رجع الیہ ما قال.۳
’’روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی آدمی اپنے ساتھی سے کہے: ’’اے کافر‘‘ ، تو دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ یہ (کفر) چپک جائے گا۔ وہ آدمی جسے کافر کہا گیا، اگر واقعتہً کافر ہوا ۱ پھر تو وہی کافر ہوگا وگرنہ کہنے والے نے جو کچھ کہا، وہ اسی کی طرف لوٹ آئے گا۔ ۲ ‘‘
۱۔یعنی خدا کے نزدیک اگر وہ کافر ہے۔
۲۔یعنی اگر کوئی آدمی کسی ایسے آدمی پر کفر کا الزام لگائے جو حقیقت میں کافر نہیں ہے تو الزام لگانے والے کو اس غلط الزام کا نتیجہ یہ بھگتنا ہوگا کہ اسے خدا کے ہاں کافر سمجھا جائے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ مختلف لوگوں اور گروہوں کے خلاف کفر کے فتووں نے لوگوں میں نفرت اور فرقہ بندی ہی کے بیج بوئے ہیں۔ ہر مذہبی گروہ اپنے آپ کو حق کا معیار سمجھتا ہے اور کسی فروعی اور فقہی معاملے میں بھی اپنے سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف کفر اور بے دینی کے فتوے جاری کر دیے جاتے ہیں۔ زیر بحث روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اسی غلط رویے کے نتائج سے خبردار کیا ہے کہ اگر انھوں نے اپنے بھائیوں کے خلاف کفر کے ایسے ہی غلط الزام لگائے تو خدا کی نظر میں الزام لگانے والے خود کافر قرار پا جائیں گے۔
۱۔ یہ روایت احمد بن حنبل، رقم ۵۸۲۴ ہے۔ بعض اختلافات کے ساتھ یہ درج ذیل مقامات پر نقل ہوئی ہے:
بخاری، رقم ۵۷۵۲، ۵۷۵۳۔ مسلم، رقم ۶۰۔ موطا، رقم ۱۷۷۷۔ ترمذی، رقم ۲۶۳۷۔ احمد بن حنبل، رقم ۶۴۸۷، ۴۷۴۵، ۵۰۳۵، ۵۰۷۷، ۵۲۵۹، ۵۲۶۰، ۵۹۱۴، ۵۹۳۳، ۶۲۸۰۔ ابن حبان، رقم ۲۴۸، ۲۴۹، ۲۵۰۔ بیہقی، رقم ۲۰۶۹۱۔ ابو داؤد، رقم ۴۶۸۷۔ حمیدی، رقم ۶۹۸۔
۲۔ بعض روایات مثلاً احمد بن حنبل، رقم ۵۰۳۵ میں ’لصاحبہ‘ (اپنے ساتھی سے) کے بجائے ’للرجل‘ (کسی آدمی سے) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
۳۔ بعض روایات مثلاً ابو داؤد، رقم ۴۶۸۷ میں مذکورہ روایت اس طرح نقل ہوئی ہے: ’ایما رجل مسلم اکفر رجلا مسلما فان کان کافرا والا کان ھو الکافر‘ (جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو کافر قرار دیتا ہے تو اگر وہ واقعی کافر ہے تو ٹھیک ہے وگرنہ ایسا کہنے والا کافر قرار پائے گا)۔
مسلم، رقم ۶۰ کے مطابق یہ روایت یوں نقل ہوئی ہے: ’اذا کفر الرجل اخاہ فقد باء بھا احدھما‘ (جب کوئی آدمی اپنے بھائی کو کافر قرار دیتا ہے تو دونوں میں سے کوئی ایک لازماً کفر کے ساتھ پلٹتا ہے)۔
احمد بن حنبل، رقم ۶۲۸۰ کے مطابق یہ روایت اس طرح روایت ہوئی ہے: ’من کفر اخاہ فقد باء بھا احدھما‘ (جو کوئی اپنے بھائی کو کافر قرار دیتا ہے تو دونوں میں سے کوئی ایک لازماً کفر کے ساتھ لوٹے گا)۔
بخاری، رقم ۵۷۵۳ کے مطابق یہ روایت یوں ہے: ’ایما رجل قال لاخیہ یا کافر فقد باء بھا احدھما‘ (جب کوئی آدمی اپنے بھائی سے کہتا ہے ’’اے کافر‘‘ تو دونوں میں سے کوئی ایک لازماً کافر ہوگا)۔
احمد بن حنبل، رقم ۴۶۸۷ کے مطابق یہ روایت اس طرح نقل ہوئی ہے: ’اذا احدکم قال لاخیہ یا کافر فقد باء بھا احدھما‘ (جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے کہے ’’اے کافر‘‘ تو دونوں میں سے کوئی ایک لازماً کفر کے ساتھ واپس آئے گا)۔
احمد بن حنبل، رقم ۵۲۶۰ کے مطابق یہ روایت اس طرح سے ہے: ’ایما رجل کفر رجلا فاحدھما کافر‘ (جب کوئی آدمی دوسرے کو کافر قرار دیتا ہے تو دونوں میں سے کوئی ایک لازماً کافر ہوگا)۔
بعض روایات مثلاً احمد بن حنبل، رقم ۵۲۵۹ میں ’رجل‘ (آدمی) کے بجائے اس کا ہم معنی لفظ ’امری‘ روایت ہوا ہے۔
بعض روایات مثلاً احمد بن حنبل، رقم ۵۰۳۵ کے مطابق مذکورہ روایت کا آخری حصہ یوں نقل ہوا ہے: ’ان کان کما قال والا رجعت علی الآخر‘ (اگر وہ ایسا ہی ہے کہ جیسا اسے کہا گیا تو ٹھیک ہے وگرنہ الزام دوسرے آدمی کی طرف پلٹ جائے گا)۔
ابن حبان، رقم ۲۴۸ کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اس طرح سے ہے:
ما اکفر رجل رجلا قط الا باء احدھما بھا ان کان کافرا والا کفر بتکفیرہ.
’’کبھی کوئی آدمی دوسرے کو کافر قرار نہیں دیتا، مگر یہ کہ دونوں میں سے کوئی ایک ضرور کافر ہو گا۔ جسے کافر کہا گیا، اگر وہ کافر ہے، (تو ایسا ہی ہو گا) لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو کافر کہنے والا اپنے کفر کے الزام کی وجہ سے کافر قرار پائے گا۔ ‘‘
تخریج : محمد اسلم نجمی
کوکب شہزاد
ترجمہ و ترتیب : اظہار احمد
_______________