(مسلم ،رقم ۳۰)
عن معاذ بن جبل قال: کنت ردف النبی صلی اﷲ علیہ وسلم. لیس بینی وبینہ إلا مؤخرۃ الرحل. فقال: یا معاذ بن جبل. قلت: لبیک رسول اﷲ وسعدیک. ثم سار ساعۃ. ثم قال: یا معاذ بن جبل. قلت: لبیک رسول اﷲ وسعدیک. ثم سار ساعۃ. ثم قال: یا معاذ بن جبل. قلت: لبیک رسول اﷲ وسعدیک. قال: ہل تدری ما حق اﷲ علی العباد؟ قال: قلت: اﷲ ورسولہ اعلم. قال: فإن حق اﷲ علی العباد أن یعبدوہ ولا یشرکوا بہ شیئا. ثم سار ساعۃ. ثم قال: یا معاذ بن جبل قلت: لبیک رسول اﷲ وسعدیک. قال: ہل تدری ما حق العباد علی اﷲ إذا فعلوا ذلک؟ قال: قلت: اﷲ ورسولہ أعلم. قال: أن لا یعذبہم.
’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں (سواری پر )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور میرے اور آپ کے بیچ میں صرف کجاوے کی انی تھی۔ آپ نے فرمایا: معاذ بن جبل۔ میں نے کہا:حاضر، حاضر، رسول اللہ، میری خوش نصیبی۔ پھر آپ کچھ دیر چلتے رہے۔ پھر فرمایا: معاذ بن جبل۔ میں نے کہا: حاضر، حاضر، رسول اللہ، میری خوش نصیبی۔ آپ نے پوچھا: تم جانتے ہو کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے بتایا: اللہ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ پھر آپ کچھ دیر چلے۔ پھر کہا: معاذ بن جبل۔ میں نے کہا: حاضر، حاضر، رسول اللہ، میری خوش نصیبی۔ آپ نے فرمایا: جانتے ہو، جب اس کے بندے یہ کر لیں تو بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ کہ وہ انھیں عذاب نہ دے۔‘‘
عن معاذ بن جبل قال کنت ردف رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم علی حمار، یقال لہ عُفَیر. قال: فقال: یا معاذ، تدری ما حق اﷲ علی العباد وما حق العباد علی اﷲ؟ قال: اﷲ ورسولہ أعلم. قال: فإن حق اﷲ علی العباد أن یعبدوا اﷲ ولا یشرکوا بہ شیئا. وحق العباد علی اﷲ عز وجل أن لا یعذب من لا یشرک بہ شیئا. قال: قلت: یا رسول اﷲ، أفلا أبشر الناس. قال: لا تبشرہم فیتکلوا.
’’ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گدھے پر جسے عُفَیر کہتے ہیں، بیٹھا ہوا تھا کہ آپ نے مجھ سے پوچھا: معاذ، جانتے ہو اللہ کا بندوں پر اور بندوں کا اللہ پر کیا حق بنتا ہے۔ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:اللہ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ وہ ان کو عذاب نہ دے جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ کہتے ہیں: میں نے حضور سے پوچھا: کیا میں لوگوں کو خوش خبری نہ دوں۔ آپ نے فرمایا: انھیں یہ خبر نہ سناؤ، وہ اسی پر بھروسا کرنے لگیں گے۔‘‘
عن معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: یا معاذ، أتدری ما حق اﷲ علی العباد؟ قال: اﷲ ورسولہ أعلم. قال: أن یعبد اﷲ ولا یشرک بہ شئ. قال: أتدری ماحقہم علیہ اذا فعلوا ذلک؟ فقال: اﷲ ورسولہ أعلم. قال: أن لا یعذبہم.
’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: معاذ، جانتے ہوبندوں پر اللہ کا حق کیا ہے؟ کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ آپ نے پوچھا: جانتے ہو، اس پر ان کا حق کیا ہے جب وہ یہ کرلیں۔کہا:اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ کہ وہ انھیں عذاب نہ دے۔‘‘
عن الأسود بن ہلال قال: سمعت معاذا یقول:دعانی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فأجبتہ. فقال: ہل تدری ما حق اﷲ علی الناس نحو حدیثہم.
’’اسود بن ہلال (مرحوم) بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آواز دی۔ میں نے جواب دیا تو آپ نے پوچھا: جانتے ہو اللہ کا لوگوں پر کیا حق ہے؟ سابقہ روایت کی طرح۔‘‘
ردف: سوار کے پیچھے بیٹھنے والا۔ اسی معنی میں ’ردیف‘ کا لفظ بھی آتا ہے۔
مؤخرۃ: کجاوے کا ابھرا ہوا پچھلا حصہ۔
تدری: ’دری‘ اہل لغت اس کے معنی: ’کوشش اور سعی سے جاننا‘ بیان کرتے ہیں۔ زمخشری کی رائے میں ’درایۃ‘ وہ معرفت ہے جو چالاکی یا فریب سے حاصل کی جائے۔ اردو میں جاننے کے مترادف کسی لفظ میں سعی اور کوشش کا پہلو شامل نہیں ہے۔
حق: حق کا لفظ اپنے اندر کئی پہلو رکھتا ہے۔ یہاں اردو کے لفظ حقوق کے مفہوم میں آیا ہے۔ یعنی وہ چیز جو کسی دوسرے کے پہلو سے ایک انسان پر واجب اور لازم آتی ہے۔
فیتکلوا : ’ اتکال ‘ تکیہ کرنا۔ یہاں اس سے وہ بھروسا مراد ہے جس کے ساتھ سعی وجہد موجود نہ ہو۔
اس روایت کا بنیادی مضمون شرک کی شناعت اور اخروی نجات کے لیے اس سے اجتناب کی اہمیت کو واضح کرنا ہے۔ دین کی تعلیمات سے آگاہ ہر شخص جانتا ہے کہ توحید کو اس میں اساس کی حیثیت حاصل ہے۔ مذہبی افکار میں انسان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ کائنات کے خالق ومالک کے ساتھ کسی دوسری ہستی کو کسی بھی پہلو سے شریک مانے۔چنانچہ تمام انبیا نوع انسانی کو اس غلطی اور اس کے خوف ناک انجام سے باخبر کرتے رہے ہیں۔ قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک ایک ایسا جرم ہے جس کے مرتکب کی جہنم سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں ہے۔
اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اللہ ہی کی عبادت کرنے اور شرک سے اجتناب کو اللہ کاحق قرار دیا ہے۔اس سے آپ کے پیش نظر یہ حقیقت واضح کرنا ہے کہ توحید کی حیثیت ایک علمی مسئلے کی نہیں ہے۔ شرک سے اجتناب اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا تمھارے اخلاقی وجود کا تقاضا ہے۔ انسان جب اپنی اور دوسری مخلوقات کی حقیقت سے آشنا ہوتا، اپنی بندگی کا شعور حاصل کرتا اور اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور یکتائی کا ادراک کرلیتا ہے تواس کا اخلاقی وجود شرک کی غلاظت کو جاننے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتا۔
اس روایت میں دوسرا سوال اور اس کا جواب دراصل ایک بشارت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص شرک کے گناہ سے بچا رہے گا، اس کا اللہ تعالیٰ پر یہ حق قائم ہوجاتا ہے کہ وہ اسے بخش دے۔ لیکن یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ بشارت صرف ان کے لیے ہے جو اصلاً ایمان اور عمل صالح کے حامل ہوں۔ ان سے وہ جرائم نہ ہوئے ہوں جو ایمان جیسی عظیم حقیقت کو بھی بے معنی کر کے رکھ دیں۔ قتل ، دوسرے کا حق کھا جانا اور زندگی بھر برائیوں کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھنا جیسے جرائم ایمان کی نعمت کے باوجود آدمی کو جہنم کا حق دار بنا دیتے ہیں۔ معلوم ہوتا کہ توحید اپنی اصل حیثیت میں بخشش کی ضامن ہے۔ لیکن اگر اس کے ساتھ ایسے جرائم جمع ہو گئے تو یہ اپنا یہ کردار ادا نہیں کر سکے گی۔
اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کی ایک جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ تعلیم کیا تھا۔ آپ کا طرز تخاطب کس قدر دل پزیر تھا۔ آپ کے ساتھی آپ کے ساتھ کس قدر والہانہ لگاؤ رکھتے تھے۔ ان کے اندر آپ کی عظمت کا احساس کس قدر شدت کے ساتھ موجود تھا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ توحید کو لوگوں کے دلوں میں اتارنے کے لیے آپ نے کیا کیا اسالیب اختیار کیے تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات دوسروں کو بتانے سے منع کر دیا تھا۔ اس سے آپ نے یہ واضح کر دیا کہ یہ نکتہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کی سیرت دین کے سانچے میں ڈھل چکی ہے۔
اس روایت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت معاذ بن جبل کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کیا حیثیت تھی۔ آپ کے دینی شعور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتماد آپ کے دین کے علم وعمل میں مقام کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔
اس روایت کے کچھ متون امام مسلم نے نقل کیے ہیں۔ ان متون سے واضح ہے کہ کچھ راویوں نے اختصار کا طریقہ اختیار کیا ہے اور کچھ نے تفصیل سے جزئیات بیان کی ہیں۔اس کے متون کے مطالعے سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ واقعہ کس سفر میں پیش آیا تھا۔ البتہ ایک متن میں یہ تصریح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سفر میں باری باری کسی نہ کسی کو اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے سفر کر رہے تھے۔ ایک روایت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ حضور کا ہر سفر میں معمول یہی تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھنے کو مختلف الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ امام مسلم کی مرویات میں ’ ردف ‘ کا لفظ آیا ہے۔ لیکن دوسری روایات میں اس کے لیے ’ ردیف‘ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ اور ایک روایت میں ’أردفنی‘ کافعل بھی آیا ہے۔
’ رحل ‘ یعنی کجاوہ عام طور پر اونٹ پر رکھا جاتا ہے۔ اس روایت کے بعض متون میں یہ تصریح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’ عُفَیر ‘ نامی گدھے پر سوار تھے۔ یہ ممکن ہے کہ یہ لفظ محض فاصلے کو بیان کرنے کے لیے تشبیہاً آیا ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ گدھے پر اس طرح کی کوئی چیز رکھی ہوئی ہو۔ بہر حال کجاوے کی ابھری ہوئی نوک یعنی انی کے لیے مسلم میں ’ مؤخرۃ ‘ کا لفظ آیا ہے۔ جبکہ بعض روایات میں اس کے لیے ’ آخرۃ ‘ کا لفظ اختیار کیا گیا ہے۔
کچھ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو ’ یا معاذ ‘ کہہ کر بلایا تھا اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے پورا نام یعنی ’ یا معاذ بن جبل ‘ کہہ کر آواز دی تھی۔اسی طرح بعض روایات میں آپ کے بار بار آواز دینے اور حضرت معاذ کے پوری طرح متوجہ ہونے کی تصریح ہے اور بعض میں نہیں ہے۔ علاوہ ازیں بعض روایات میں ’ لبیک یا رسول اللّٰہ وسعدیک‘ کا جواب نقل ہوا ہے اور بعض میں صرف اللہ اور بندوں کے حق سے متعلق سوال وجواب ہی نقل ہوئے ہیں۔ حق سے متعلق سوال وجواب کو نقل کرنے میں بھی راویوں نے دو طریقے اختیار کیے ہیں۔ کچھ رواۃ نے دونوں سوال اکٹھے کر دیے ہیں اور کچھ نے ہر سوال اور اس کے جواب کو الگ الگ بیان کیا ہے۔ عام طور پر راویوں نے روایت کے آخر میں ’ أفلا أبشر الناس...‘ کا جملہ روایت نہیں کیا۔
بخاری،رقم۱۲۸، ۵۶۲۲، ۶۱۳۵۔ مسلم، رقم۳۔ابوداؤد،رقم۲۵۵۹۔احمد، رقم۲۲۴۶، ۲۲۹۳، ۲۲۱۴۹، ۲۲۱۵۱۔ ابن حبان، رقم۳۶۲۔ سنن کبریٰ، رقم۱۱۴۔ المعجم الکبیر، رقم۸۴، ۸۷۔ الآحاد والمثانی، رقم ۱۸۳۹، ۱۸۴، ۱۸۴۳۔ الادب المفرد، رقم ۹۴۳۔ مسند عبد بن حمید، رقم۱۱۹۹۔
______________