HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : پروفیسر خورشید عالم

مسجد اور عورت: امام ابن حزم اندلسی کا مسلک (۱)

[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


امام ابن حزم کا نام علی بن احمد بن سعید بن حزم (۳۸۴۔۴۵۶) ہے۔ وہ فقہ کے امام اور مجتہد مطلق ہیں۔ وہ محدث، فقیہ، شاعر، ادیب، انساب اور ادیان ومذاہب کے ماہر ہیں۔عورت کی امامت کے مسئلہ پر امام ابن حزم نے ’المحلی‘ (مطبوعہ دارالجیل بیروت) کی جلد سوم صفحہ ۱۲۹ سے صفحہ ۱۴۰ تک تفصیل سے بحث کی ہے۔ میں اس کے مختلف اجزا کا اردو ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔ کہیں کہیں میں نے وضاحتی نوٹ دیے ہیں۔ طوالت کے خوف سے میں نے حدیث لکھتے وقت امام ابن حزم کا سلسلۂ سند حذف کر کے صرف تابعی یا صحابی راوی کا نام لکھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ترجمہ کرتے وقت مجھے ٹھوکر لگی ہو۔اگر کوئی صاحب علم اس کی نشان دہی کرے گا تو شکر گزار ہوں گا۔

—————

جب یہ معلوم ہو جائے کہ عورتیں مسجد میں نماز پڑھنا چاہتی ہیں تو کسی عورت کے سرپرست اورکسی لونڈی کے آقا کے لیے جائز نہیں کہ وہ انھیں مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے سے روکے۔ اور عورتوں کے لیے روا نہیں کہ (وہ مسجد جانے کے لیے) خوش بو لگا کر اور بڑھیا لباس پہن کر نکلیں۔ اور اگر وہ ایسا کریں تو انھیں روکا جا ئے۔ اوران کی باجماعت نماز اکیلے نماز پڑھنے سے افضل ہے۔

اس کے بعد امام موصوف نے اپنے موقف کی تائید میں نو احادیث پیش کی ہیں جن کا ترجمہ پیش خدمت ہے:

حدیث۱۔ ہم سے حدیث بیان کی ...ابن عمر نے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا:

لا تمنعوا اماء اللّٰہ مساجد اللّٰہ
(اللہ کی بندیوں کو مسجد وں میں جانے سے نہ روکو)۔

حدیث۲: اور انھی سے مروی مسلم کی روایت ہے۔ ہم سے حدیث بیان کی ...سالم بن عبداللہ بن عمر نے کہ عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا

لا تمنعوا نساء کم المساجد اذا استاذنکم الیھا
(اگر تمھاری عورتیں تم سے مسجدوں میں جانے کی اجازت طلب کریں تو ان کو مت روکو۔)


اس پر ان کے لڑکے بلال نے کہا: بخدا ہم تو انھیں ضرور روکیں گے۔ پس عبداللہ بن عمر اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے سخت برابھلا کہا۔ اتنا سخت کہ میں نے ان کو ایسا کہتے ہوئے کبھی بھی نہیں سنا۔ اور فرمایا: میں تجھے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بتا رہا ہوں اور تم کہتے ہو کہ بخدا ہم انھیں ضرور منع کریں گے۔ (یعنی رسول کی حدیث کے مقابلے میں اپنی رائے پیش کرتے ہو۔ )

وضاحتی نوٹ: سنن ابی داؤد کی شرح عون المعبود (۱ /۲۲۲) میں طبرانی کی روایت کا حوالہ دیا گیا ہے کہ اس روایت میں ’سَبّ‘ (برا بھلا کہا) سے مراد تین مرتبہ لعنت بھیجنا ہے۔ اور اسی کتاب میں مسند احمد کی ابن ابی نجیح کی روایت کا حوالہ دیا گیا ہے کہ اس کے بعد عبداللہ بن عمر نے جیتے جی اپنے اس لڑکے سے بات نہ کی۔

حدیث ۳: انھی سے مروی مسلم کی روایت ہے۔ ہم سے حدیث بیان کی ...مجاہد نے ابن عمر سے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا تمنعوا النساء من الخروج باللیل الی المساجد
(عورتوں کو رات کے وقت مسجدوں میں جانے سے مت روکو)۔

وضاحتی نوٹ: بعض علما خصوصاً احناف نے اس حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ مسجد کی طرف نکلنے کی اجازت رات کے وقت تھی۔ اپنی رائے کی تائید میں انھوں نے یہ عجیب وغریب منطق پیش کی ہے کہ رات کے وقت راستے خالی ہوتے ہیں۔ فاسق اپنے فسق میں مشغول ہوتے ہیں، جبکہ دن کے وقت وہ منتشر ہو جاتے ہیں۔ شارح بخاری کرمانی نے بخاری کی کتاب الجمعہ میں حضرت عمر کی بیوی کے بارے میں عبداللہ بن عمر کی روایت کے تحت اس منطق کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اگر عورت کورات کے وقت مسجد جانے کی اجازت ہے تو قرین قیاس یہی ہے کہ دن کے وقت ان کو لازماً اجازت دی جائے، کیونکہ رات کو فتنہ اور شرارت کااحتمال زیادہ ہوتا ہے۔ رات کا اندھیرا برائی کا باعث بنتا ہے۔ دن کو روشنی میں عام لوگوں کی موجودگی کے باعث شرارت کا احتمال نسبتاً کم ہوتا ہے۔ فتح الباری میں ابن حجر عسقلانی نے بھی اسی رائے کی تائید کی ہے۔

حدیث ۴: ہم سے حدیث بیان کی...عبدالرحمان بن عوف نے ابو ہریرہ سے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا تمنعوا اماء اللّٰہ مساجد اللّٰہ ولا یخرجن الا وھن تفلات‘،
(اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے مت روکو اوروہ خوش بو لگا کر اور بڑھیا کپڑے پہن کر نہ نکلیں)۔

وضاحتی نوٹ: اللہ کی بندیوں اور اللہ کی مسجدوں کی ترکیب سے اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ بندیاں بھی اللہ کی ہیں اورمسجدیں بھی اللہ کے گھر ہیں تو پھر کسی دوسرے کو یہ حق کیسے حاصل ہے کہ وہ اللہ کی بندیوں کواللہ کے گھروں میں جانے سے روکے۔ گویا حدیث کا مفہوم وہی ہے جو اس آیۂ مبارکہ کا ہے:

ومن اظلم ممن منع مساجد اللّٰہ ان یذکر فیھا اسمہ‘ (البقرہ ۲: ۱۱۴)
’’اس سے بڑا کون ظالم ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کیے جانے سے روکتا ہے‘‘۔

امام علی بن حزم کا قول ہے کہ ’التفلۃ‘ خوش بو نہ لگانے اورعام سا لباس پہننے کو کہتے ہیں۔

حدیث ۵: ہم سے حدیث بیان کی ...عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب نے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا:

اذا شھدت احدا کن المسجد فلا تمس طیبا‘،
(جب تم میں سے کوئی مسجد میں حاضر ہو تو خوش بو نہ لگائے)۔

حدیث ۶: مالک کے سلسلۂ سند سے یحییٰ بن سعید نے عمرہ بنت عبدالرحمان سے انھوں نے ام المومنین عائشہ سے روایت کی۔ انھوں نے کہا:

ان کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیصلی الصبح فینصرف النساء متلففات بمروطہن ما یعرفن من الغلس،
(اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھا چکتے تو عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی مسجد سے نکل جاتیں اور دھندلکے کی وجہ سے کوئی ان کو پہچان نہ سکتا)۔

حدیث ۷: ہم سے حدیث بیان کی ... جابر نے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

خیر صفوف الرجال المتقدم وشرھا المؤخر وشر صفوف النساء المتقدم وخیرھا المؤخر یا معشر النساء اذا سجد الرجال فاغضضن ابصارکن لا ترین عورات الرجال من ضیق الأزر‘،
(مردوں کی بہتر صفیں اگلی ہیں اور بدترین پچھلی جبکہ عورتوں کی بدترین صفیں اگلی ہیں اور بہترین پچھلی۔ اے عورتوں کی جماعت، جب مرد سجدہ کریں تو اپنی نظریں جھکا لیا کرو تاکہ تہہ بند کی تنگی یاچھوٹائی کی وجہ سے تم مردوں کی شرم گاہوں کو نہ دیکھ سکو)۔

وضاحتی نوٹ: اس وقت کپڑے کی قلت کی وجہ سے بعض لوگ ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھتے تھے۔ وہ اپنے تہہ بند گردن میں گرہ دے کر باندھ لیا کرتے تھے۔ اس طرح سجدہ کے وقت کبھی ان کا ستر کھل جاتا تھا۔ اس لیے نبی پاک نے یہ حکم دیا۔

حدیث ۸: ہم سے حدیث بیان کی ...نافع نے ابن عمر سے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا:

لو ترکنا ھذا الباب للنساء فلم یدخل منہ ابن عمر حتی مات‘،
(کاش، ہم اس دروازے کو عورتوں کے لیے چھوڑ دیں۔ ابن عمر جیتے جی اس دروازے سے داخل نہیں ہوئے)۔

وضاحتی نوٹ: یہ دروازہ مسجد نبوی میں آج تک قائم ہے اور مسلمان عورتیں اس مسجد میں نماز پڑھنے کی فضیلت سے محروم نہیں ہوتیں۔

حدیث۹: سنن ابی داؤد میں انھی سے مروی حدیث ہم سے بیان کی...(نافع نے کہ حضرت عمر بن الخطاب مردوں کو عورتوں کے دروازے سے داخل ہونے سے روکتے تھے)۔

امام علی بن حزم کا قول ہے کہ اگرعورتوں کے لیے گھروں میں نماز پڑھنا افضل ہوتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو اس حالت میں نہ چھوڑتے کہ وہ ایسی مشقت اٹھائیں جو انھیں زیادہ فضیلت دینے کی بجائے فضیلت میں کمی کردے۔ یہ تو کوئی خیر خواہی نہ ہوئی، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ’’دین تو نام ہی خیر خواہی کا ہے۔‘‘ آپ کی ذات اقدس سے یہ بات بعید ہے،بلکہ آپ تو اپنی امت کے سب سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں۔ اگرگھروں میں نماز پڑھنا افضل ہوتا توآپ عدم ممانعت کو فرض قرار نہ دیتے اور جب آپ نے عورتوں کو خوش بو نہ لگا کر نکلنے کا حکم دیا تو یہ حکم کم از کم مستحب ہے جس میں (عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کی ) ترغیب دلائی گئی ہے۔

امام ابو حنیفہ او ر مالک کا قول ہے کہ اپنے گھروں میں عورتوں کی نماز افضل ہے۔ ابو حنیفہ تو نماز با جماعت ، جمعہ اور عیدین کے لیے ان کا مسجدوں میں جانا مکروہ سمجھتے ہیں۔ انھوں نے خاص طور پر بوڑھی عورتوں کو (مسجد میں) عشا اور فجر کی نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ ابو حنیفہ سے ایک روایت یہ ہے کہ عیدین کے لیے ان کا نکلنا مکروہ نہیں ہے۔

(امام) مالک کا قول ہے کہ ہم ان کو مسجدوں میں جانے سے نہیں روکتے۔ انھوں نے عمر رسیدہ عورت کو عیدین اور نماز استسقا (بارش) کے لیے نکلنے کو مباح سمجھا ہے اور ان کا قول ہے کہ جوان عورت کبھی کبھی مسجد میں جائے اور انھی کا قول ہے کہ عمر رسیدہ عورت مسجد جائے، مگر کثرت سے نہ آئے جائے۔

امام علی بن حزم کا قول ہے کہ جس کسی نے اس بات کو اس روایت کی بنیاد پر مکروہ سمجھا ہے جوہم نے ...حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ

لو رای رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما احدث النساء بعدہ لمنعہن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل‘،
(اگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ نئی نئی باتیں دیکھ لیتے جو عورتوں نے ان کے بعد ایجاد کیں تو وہ ان کو مسجد میں جانے سے ایسے روکتے جیسے بنو اسرائیل کی عورتوں کو مسجدوں میں جانے سے روکا گیا تھا)۔

تو اس نے ہنگامہ بپا کیا ہے۔

(اس نے بھی ہنگامہ بپا کیا ہے) جس نے اس بات کو اس حدیث کی بنا پرمکروہ سمجھا ہے جو عبدالحمید بن منذر انصاری نے اپنی پھوپھی(چچی)یا دادی ام حمیدسے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ان صلاتک فی بیتک افضل من صلاتک معی‘،
(تیرے لیے گھر میں نماز پڑھنا میرے ساتھ نماز پڑھنے سے افضل ہے)۔

(اس نے بھی ہنگامہ بپا کیا ہے) جس نے اس بات کو اس حدیث کی وجہ سے مکروہ سمجھا ہے جو عبداللہ بن رجا غدانی کی سند سے...ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لأن تصلی المراۃ فی مخدعہا اعظم لاجرھا من ان تصلی فی بیتھا وان تصلی فی بیتھا اعظم لاجرھا من ان تصلی فی دارھا وان تصلی فی دارھا اعظم لاجرھا من ان تصلی فی مسجد قومھا وان تصلی فی مسجد قومھا اعظم لاجرھا من ان تصلی فی مسجد جماعۃ وان تصلی فی مسجد جماعۃ خیرلھا من ان تخرج الی الصلاۃ یوم العید‘،
(عورت اگر اپنے شبستاں میں نماز پڑھے تو اس کا اجر گھر میں نماز پڑھنے سے زیادہ ہے اور گھر میں نماز پرھنے کا اجر آنگن میں نماز پڑھنے سے بڑھ کر ہے اور آنگن میں نماز پڑھنے کا اجر اپنے قبیلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے زیادہ ہے اور قبیلے کی مسجد میں نماز پڑھنے کا اجر جامع مسجد میں نماز پڑھنے سے بڑھ کر ہے اور جامع مسجد میں نماز پڑھنا اس کے لیے عید کے دن نماز کے لیے نکلنے سے بہتر ہے)۔

بعض (فقہا) کا قول ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو عید کے دن نکلنے کا حکم محض دشمن کو ڈرانے کے لیے دیا ہو، کیونکہ مسلمان ان دنوں تعداد میں تھوڑے تھے اور ہو سکتا ہے کہ یہ حکم اس لیے دیا ہو کہ وہ دیکھنے والے کی نگاہوں میں زیادہ معلوم ہوں۔

امام علی بن حزم کا قول ہے کہ یہ بہت بڑی جسارت ہے، کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان ہے اور لاعلمی پر مبنی قول ہے۔ آپ نے وضاحت کر دی ہے کہ عورتوں کو نکلنے کے لیے آپ کا حکم اس لیے ہے کہ وہ بھی کار خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شامل ہو جائیں۔ تف ہے اس پر جو اللہ کے رسول کے قول کو جھٹلاتا ہے اور اپنی رائے سے جھوٹ تراشتا ہے۔ پھر یہ قول سراسر جھوٹ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی بے ہودہ اور ضعیف ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی فوج نہ تھی کہ اس کو ڈراتے۔ سوائے منافقوں اور یہود مدینہ کے ان کا کوئی دشمن نہ تھا۔ اور وہ جانتے تھے کہ وہ عورتیں ہیں، وہ تو اس اختلاط کو حیرت اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے۔

امام علی ابن حزم کا قول ہے، رہی عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی حدیث تو کئی وجوہات کی بنا پر وہ قابل حجت نہیں۔

پہلی وجہ یہ ہے کہ نبی علیہ السلام نے عورتوں کو نئی نئی باتیں پیدا کرتے ہوئے نہیں پایا تو آپ نے ان کو (مسجدوں میں جانے سے) منع بھی نہیں کیا۔ جب آپ نے ان کو منع نہیں کیا تو ان کو منع کرنا بدعت ہے، خطا ہے۔ یہ قول ایسا ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یا نساء النبی من یات منکن بفاحشۃ مبینۃ یضاعف لھا العذاب ضعفین‘ (الاحزاب۳۳: ۳۰)
’’اے نبی کی بیویو! جو کوئی تم میں سے کھلی بے حیائی کرے گی، اس کو دوچند سزا دی جائے گی۔‘‘

ازواج مطہرات نے کبھی کھلی بے حیائی نہیں کی۔ اس لیے ’الحمد للّٰہ‘ انھیں دوچند سزا بھی نہیں ملی۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی مانند ہے کہ

ولو ان اھل القرٰی آمنو واتقوا لفتحنا علیھم برکات من السمآء والارض‘ (الاعراف۷: ۹۶)
’’اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر زمین و آسمان کی برکتیں کھول دیتے ۔‘‘


نہ وہ ایمان لائے او ر نہ ہی اللہ نے ان پر برکتیں کھولیں۔ ہم اس حجت سے بڑھ کر کوئی حجت نامعقول نہیں سمجھتے، جب حجت پکڑنے والا کہنے والے کے اس قول سے حجت پکڑے کہ اگر یوں ہوتا تو یوں ہوتا اور اس سے اس چیز کو واجب قرار دے جو ابھی ہوئی نہیں، اگر ایک چیز ہوتی تو دوسری بھی ہوتی۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو جانتا تھا کہ عورتیں کیا کیا نئی باتیں ایجاد کرنے والی ہیں۔ جواللہ کے اس علم کا انکار کرے، وہ تو کافر ہے پھر بھی اللہ نے اپنے نبی کو وحی نہیں کی کہ ان کو مسجد جانے سے روک دیا جائے، کیونکہ وہ نئے نئے کام کرنے والیاں ہیں او ر نہ کبھی اللہ نے ان کی طرف وحی کی کہ لوگوں کو بتا دو کہ اگر عورتوں نے نئی باتیں ایجاد کیں تو انھیں مسجد جانے سے روک دیں۔ اگر اللہ نے ایسا نہیں کیا تو اس قسم کے قول سے وابستگی عیب ہے، خطا ہے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ عورتوں نے کون سی ایسی نئی باتیں کیں جو انھوں نے عہد رسالت میں نہیں کی تھیں۔ نئی باتوں میں زنا سے بڑھ کر تو کوئی اور چیز نہیں ہو سکتی۔ یہ تو عہد رسالت میں بھی ہوتا رہا جس پر رجم اور کوڑوں کی سزا دی گئی۔ اس سبب کی وجہ سے تو کبھی عورتوں کو مسجد میں جانے سے نہ روکا گیا۔ زنا جیسا کہ عورتوں کے لیے حرام ہے بالکل اسی طرح مردوں پر بھی حرام ہے۔ اس میں قطعی کوئی فرق نہیں ۔ کون ہے جو زنا کو عورتوں کے مسجد جانے سے روکنے کا سبب گردانتا ہے اور اسے مردوں کو مسجد جانے سے روکنے کاسبب نہیں گردانتا؟ یہ ایک ایسی توجیہ ہے، جسے نہ اللہ پسند کرتا ہے نہ اللہ کا رسول۔

(باقی)

_______________

B