HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

’’مسلم ریاست جدید کیسے بنے؟‘‘

خطباتِ غامدی

اخذ و تحریر: محمد یاسر عرفات

نظر ثانی: منظور الحسن


[جناب محمود مرزا کی کتاب’’مسلم ریاست جدید کیسے بنے ؟‘‘
کی تقریب رونمائی میں جناب جاوید احمد غامدی کا خطاب ]


محمود مرزا صاحب کی کتاب ’’ مسلم ریاست جدید کیسے بنے ؟‘‘ اپنے موضوع ، مدعا اور ترتیب مقالات کے لحاظ سے غیر معمولی توجہ کی مستحق ہے۔ ہم جب اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہیں تو اس کی ترتیب و تالیف کو بھی دیکھ سکتے ہیں اور اس کی زبان و بیان کا جائزہ بھی لے سکتے ہیں، لیکن یہ مستحق ہے کہ ان چیزوں سے قطع نظر کر کے یہ دیکھا جائے کہ اس میں مصنف نے اپنے کیا نتائج فکر پیش کیے ہیں اور ان نتائج فکر کو پیش کرنے کے لیے اپنے کس ذہنی پس منظر کو ہمارے سامنے کھول کر رکھا ہے۔ اس کتاب میں ایسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے کہ جن پر کئی پہلووں سے گفتگو ہو سکتی ہے۔ مرزا صاحب کے لکھنے کا اسلوب بھی ایسا ہے کہ وہ جب ایک موضوع پر گفتگو کرتے ہیں تو بعض اوقات اس کی کئی سمتوں کی طرف اشارے کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان سے کوئی صاحب فکر اختلاف بھی کر سکتا ہے اور اتفاق بھی کر سکتا ہے۔ اس موقع پر میں اس کتاب میں بیان کیے گئے مرزا صاحب کے چند نتائج فکر کو اپنا موضوع بناؤں گا اور ان چیزوں سے قطع نظر کر لوں گا جن میں انھوں نے وقت کے احوال کا تجزیہ کیا ہے، کسی تاریخی معاملے پر کوئی تبصرہ کیا ہے یا مسلم معاشرے کے بعض عوامل کو نمایاں کیا ہے۔ ان میں سے بہت سی چیزیں ہیں جن سے ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص اختلاف کرے یا انھیں کسی دوسرے زاویۂ نظر سے دیکھے۔

کتاب کا اہم ترین حصہ بعض وہ نتائج فکر ہیں جو اس کے عنوان کے لحاظ سے بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے پہلی چیز جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا، وہ یہ ہے کہ کتاب میں جگہ جگہ انھوں نے اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہم نے جب پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بناناچاہا تو ہمارے پاس اسلام کی طرف سے بظاہر چند اقدار تو تھیں اور کچھ اصول بھی تھے، لیکن کیا فی الواقع اس کے لیے ہم ایک باقاعدہ نظام رکھتے تھے جو بالخصوص سیاست، معیشت اور معاشرت کے حوالے سے ہو اور جسے ہم جیب سے نکالیں اور ملک میں نافذ کر دیں۔ یہ سوال اس وجہ سے پیدا ہوا کہ موجودہ زمانے میں، بالخصوص پچھلی صدی میں بعض ایسے مفکرین پیدا ہوئے جنھوں نے اسلام کی علمی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسلامی نظام کی اصطلاح بھی استعمال کی اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ اسلام سیاست، معیشت اور معاشرت کے بارے میں ایک منظم نظام لے کر آیا ہے اور اس نظام کے غلبے کا داعی ہے۔ مرزا صاحب نے اس معاملے میں جو سوالات اٹھائے ہیں، آپ ان کی کتاب پڑھیے، وہ اس سے واضح ہو جائیں گے۔ میں ان کے اس بنیادی نکتے کی تائید کرتا ہوں۔ اسلام کے پورے مشمولات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سیاست، معیشت اور معاشرت کے معاملے میں اس نے ہرگز کوئی نظام نہیں دیا۔ یہ بات آپ کے سامنے ایک ایسا شخص کہہ رہا ہے جس نے اپنی زندگی کے پچیس تیس سال اسی مطالعے میں صرف کیے ہیں ۔ اسلام کی نوعیت اس معاملے میں یہ نہیں ہے کہ اس نے آپ کے سامنے ایک پورا سسٹم بنا کر رکھ دیا ہو اور پھر لوگوں کا کام اس کے سوا کچھ نہ ہو کہ وہ اس کو اٹھائیں اور کسی معاشرے پر لاگو کر دیں۔ اسلام کے مشمولات میں دو چیزیں آپ کو ملیں گی۔ ایک وہ اخلاقی اقدار ملیں گی جن کو وہ انسان میں اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لحاظ سے پیدا کرنا چاہتا ہے اور دوسرا قانون ملے گا جس کا میں آگے چل کر ذکر کروں گا۔ نظام نام کی کوئی چیز آپ کو اس میں میسر نہیں آئے گی۔ نظام کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی جسے آپ خاص طور پر بنا کر لوگوں کو دے دیں اور وہ ہر دور کے لیے قابل عمل رہے۔ نظام ترقی اور تمدن کے عوامل کے ساتھ ساتھ آگے چلتا ہے۔ دنیا پتھر کے زمانے سے نکلی، زرعی زمینوں کے ذریعے سے معیشت پر استوار ہوئی، مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی صنعتی دور میں داخل ہو گئی اور اب ایک قدم آگے بڑھا کر اس دور میں داخل ہو رہی ہے جہاں شاید صنعتی دورکے زمانے کی بھی بہت سی چیزیں فرسودہ ہو چکی ہیں۔ جب صورت حال یہ ہو تو پھر یہ کسی طرح موزوں نہیں ہو سکتا تھا کہ کوئی چیز آپ کو جزئیات کے ساتھ بنا کر دے دی جاتی اور آپ ا سے معاشرے میں نافذ کر دیتے۔ ہمارے ہاں نظام کا جو طرز فکر پیدا ہوا، اس سے سب سے بڑا نقصان یہ پہنچاکہ جو کام ہم مسلمانوں کے کرنے کا تھا، وہ ہم نے خدا کے سپرد کر دیا اور اس طریقے سے اس سارے عمل ہی سے فارغ ہو کر بیٹھ گئے جس کو کیے بغیر یا تخلیقی فعالیت کا مظاہرہ کیے بغیر ہم دنیا میں کھڑے نہیں ہو سکتے۔

لوگ بہت اطمینان کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ ہم خلافت کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ میں نے ایک مذہبی دانش ور سے پوچھا کہ اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ اس سے ہماری مراد خلافت راشدہ کا نظام ہے۔ میں نے ادب سے عرض کیا کہ ذرا وہ بتا دیجیے کہ کیا تھا؟ تو انھوں نے کہا کہ اس میں Accountability تھی۔ میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ کون سا نظام ہے جس میں اس اصول کو نہیں مانا جاتا کہ لوگوں کو جواب دہ ہونا چاہیے؟ ہم اصل میں اس فرق سے واقف نہیں ہیں کہ نظام کیا ہوتا ہے، اخلاقی اقدار کیا ہوتی ہیں، اورچیزوں کے بارے میں قانونی حدبندی کیسے ہوا کرتی ہے؟

موجودہ زمانے میں انسان نے ایک بڑا طویل سفر طے کیا ہے اور میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ یہ سفرصرف سائنس ہی کے میدان میں نہیں ہوا،سماجی علوم میں بھی انسان نے بڑا طویل سفرطے کر لیا ہے۔ مرزا صاحب نے اپنی کتاب میں جگہ جگہ اس جانب توجہ دلائی ہے کہ یہ سفر بھی اتنا ہی قابل لحاظ ہے جتنا سائنسی انکشافات کا سفر قابل لحاظ ہے۔ یعنی ا نسان کے نظام بنانے کا عمل اب اس منتہا تک پہنچ گیا ہے کہ اس وقت ہم اپنی سیاست کے لیے، اپنی معیشت کے لیے اور اپنی معاشرت کے لیے طوعاً کرہاًاس نظام کو اپنائے ہوئے ہیں ، اور مذہبی راہنماؤں کی اگر آپ گفتگو سنیں تو معلوم ہو گا کہ کبھی وہ یہ فرمائیں گے کہ پارلیمانی طریقے میں یہ تھوڑی سی تبدیلی کر لیجیے اور ذرا صدارتی نظام میںیہ تھوڑی سی تبدیلی کر لیجیے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان نے اپنے تمدنی سفرمیں نظام بنانے کے عمل کو بھی نہایت درجہ پیچیدہ اور محکم کر لیا ہے۔ چنانچہ ہم جس طرح سے سائنسی ترقیوں کے نتائج سے صرف نظر نہیں کر سکتے اسی طرح سماجی علوم کے معاملے میں جو ترقی ہوئی ہے، اس سے بھی صرف نظر نہیں کر سکتے۔ لہٰذا یہ ناگزیر ہے کہ ہمارے اندر ایسے لوگ پیدا ہوں جو اپنے اندر غیر معمولی تخلیقی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ان اقدار کا ادراک رکھتے ہوں جو اسلام نے دی ہیں اور قانونی حدود کی نوعیت سے بھی آگاہ ہوں جو اسلام نے متعین کی ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ دیکھ سکیں کہ دنیا نے تہذیب وتمدن اور سماجی علوم کے معاملے میں اب تک کیا سفر طے کیا ہے۔ وہ دنیا کے اس سفر پر مجتہدانہ نگاہ ڈالتے ہوئے اس کو آگے بڑھا سکیں۔ ورنہ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ اپنی طرف سے چند الفاظ بولتے رہیں اور دنیا کی قطعی حقیقتیں آپ سے نظر چرا کر کسی اور جانب چلی جائیں۔ آپ کو ان کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان نتائج کو قبول کرنا پڑے گا۔

میرے نزدیک پہلی بات جو اس کتاب کے حوالے سے سامنے رہنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ اب ہم اس تابوت سے نجات حاصل کر لیں اور اپنے آپ کو اس چیز کے لیے آمادہ کریں کہ اس دنیا میں ہم کو جینا ہے، اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت اور رہنمائی ہم کو دے دی ہے، وہ ہماری قیمتی متاع ہے، لیکن وہ رہنمائی اقدار کی نوعیت کی ہے یا چند قوانین کی تحدید کی نوعیت کی ہے، اس کو معاشرے کے ساتھ متعلق کر کے نظام میں بدلنے کا کام ہم کو انجام دینا ہے ۔ اگر ہم اپنا کام نہیں کریں گے تو خدا کی یہ سنت نہیں ہے کہ وہ آسمان سے اتر کر انسانوں کے کام کیا کرے۔

دوسری چیز جس کی طرف میں آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں اور مرزا صاحب نے بھی جگہ جگہ اپنی کتاب میں توجہ دلائی ہے، وہ یہ ہے کہ شریعت کی تعمیرنوکی جائے۔ اس معاملے میں ہمارے ہاں علامہ اقبال سے لے کر اب تک کوئی تین چار مکاتب فکر پیدا ہو چکے ہیں۔ ایک مکتب فکر تو ہمارے قدیم علما کا ہے جو شریعت کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ان کی مراد یا تو فقہ حنفی ہوتی ہے یافقہ شافعی ہوتی ہے یا فقہ مالکی ہوتی ہے یا فقہ حنبلی ہوتی ہے یا ائمۂ اربعہ کی فقہ ہوتی ہے یا یہ کہ بہت سے دوسرے لوگوں کی تحقیقات کو شامل کر کے فقہ اسلامی ہوتی ہے۔ لیکن کیا یہ ساری کی ساری فقہ شریعت ہے؟ وہ کم از کم یہی سمجھتے ہیں۔

دوسرا نقطۂ نظر وہ ہے جس کی دور جدید میں موثر نمائندگی ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب نے کی ہے اور مرزا صاحب نے ان کے بعض اقتباسات بھی اپنی کتاب میں نقل کیے ہیں کہ شریعت کے جو احکام بھی قرآن مجید میں یا روایات میں ملتے ہیں، یہ درحقیقت اس دور کے تقاضوں کے لحاظ سے دیے گئے تھے۔ ان احکام میں اصل چیز ان کا ڈھانچا نہیں، بلکہ ان کا مقصد ہے اور اس مقصد کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق قانون سازی کرنی ہے۔

تیسرا نقطۂ نظریہ ہے کہ شریعت کے احکام تو ہیں، لیکن وہ اجتہادی بصیرت کے ساتھ نفاذ کا تقاضا کرتے ہیں اور ان میں کوئی ردوبدل کرنا پڑے تو مجتہدانہ طریقے سے مسلمان اور ان کے نمائندے کر سکتے ہیں۔

اور ایک نقطۂ نظر وہ ہے کہ جس کی نمائندگی بڑی حد تک یہ فقیر کرتا ہے کہ صورت حال ذرا اس سے زیادہ تفصیل کی طالب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو شریعت دی ہے، شریعت کے معنی قانون کے ہیں۔ یعنی صورت حال یہ نہیں ہے کہ سارے کا سارا دین صرف ایمان و اخلاق پر مبنی ہے،بلکہ اس کے ساتھ کچھ قوانین بھی دیے گئے ہیں۔ ان قوانین کو دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے، وہ ان قوانین کا مطالعہ کر نے سے بالکل وا ضح ہو جا تی ہے ۔ یعنی انسان کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ اللہ نے اسے عقل دے رکھی ہے۔ اس کی روشنی میں وہ اپنا سفر طے کرتا ہے۔ اپنے انفرادی اور اجتماعی مسائل حل کرتا ہے اور پھر جو چیزیں پیش آتی ہیں، ان میں نئی نئی طرحیں بھی نکالتا ہے۔ یہ سارا کام بڑے وسیع پیمانے پر انسان کرتا ہے جیسے کہ اس وقت بھی وہ کر رہا ہے، لیکن کچھ معاملات ایسے ہیں جن میں بنیادی طور پر اس کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے اور اگر وہ فیصلہ نہ کیا جائے تو اس کے اثرات دنیا اور آخرت، دونوں کے اعتبار سے دوررس ہو سکتے ہیں۔ وہ چند معاملات ہیں۔ یہی معاملات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ابدی شریعت کے احکامات دیے ہیں۔ ان احکام کے معاملے میں جو اصل غلطی ہو رہی ہے، وہ ان کی تعبیر کا معاملہ ہے۔ ہم چونکہ کم و بیش بارہ صدیوں سے یہ بات طے کرکے بیٹھ گئے ہیں کہ ہمارے ہاں جو کچھ پہلی، دوسری اور تیسری صدی کے فقہا نے ترتیب دے دیا ہے، اس میں کوئی تغیر نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا تعبیر کا معاملہ بھی ایسا ہو کر رہ گیا ہے کہ جیسے آپ کسی مکان کے اوپر تالا ڈال کر برسوں کے لیے چلے جائیں اور پھر جب اپنے ہی گھر کا تالا کھولنا چاہیں تو ہم سائے جاگ اٹھیں۔ اگر آپ روز دروازہ کھولتے رہتے ہیں تو کسی کو تردد نہیں ہوتا۔ سو تعبیر کا معاملہ بھی یہی ہو گیا ہے۔ ایک لمبے عرصے سے چونکہ لوگ اس سے آشنا نہیں رہے، لہٰذا جو کہہ دیا گیا ہے، وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہی الہام ہے، یہی وحی ہے کہ جو براہ راست جبریل امین بول رہے ہیں۔ چنانچہ ضرورت یہ ہے کہ ایسے جرات مند لوگ پیدا ہوں جو قدیم علوم کے اوپر بھی مجتہدانہ نظر رکھتے ہوں، جدید علوم کو بھی بہت اچھی طرح سمجھتے ہوں اور جو کچھ بھی شریعت کی تعبیر کی گئی ہے، اس پر ایک نگاہ ڈال کر یہ دیکھیں کہ اس میں کیا چیزصحیح ہے اور کس چیز میں انسانی سوء فہم کو دخل حاصل ہو گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کام جس جرأت، جس علم، جس ذہانت اور جس تدبر کا تقاضا کرتا ہے، وہ تفصیل کا محتاج نہیں ہے، لیکن بہرحال ہمیں یہ کرنا ہے اور اس کو کیے بغیر ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں ہوسکتا ہے۔

دوسری چیز یہ ہے کہ اس شریعت کو فقہ کے انبار سے بالکل الگ کر دینا چاہیے۔ فقہ انسانی کام ہے۔ یہ وہی کام ہے جس کے بارے میں میں نے پہلے نکتے کے ذیل میں اشارہ کیا ہے کہ نظام ہم کو بنانا ہے۔ اپنے اپنے دور کے لحاظ سے جو قانونی تقاضے پیدا ہوئے، اس میں ہمارے فقہا نے اجتہاد کیا۔ ان میں سے کچھ اجتہادات ایسے ہو سکتے ہیں کہ جو ان کے اپنے دور کے لحاظ سے بہت موزوں ہوں۔ زمانے کے عرف کے لحاظ سے بہت موزوں ہوں، لیکن اب وہ کسی لحاظ سے بھی قابل عمل نہیں رہے، کیونکہ بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ جو غلط ہوتے ہیں، لیکن ایک زمانے میں چل جاتے ہیں اور دوسرے زمانے میں وہ غلط بھی ہوتے ہیں اور چلتے بھی نہیں۔ ان تمام اجتہادات سے جو ہماری فقہ ترتیب پائی ہے، وہ انسانی کام ہے اور اس کو ہم کو بہرحال الگ کر کے، شریعت کے جو احکام ہیں، ان کو متعین کرنا ہو گا تاکہ ہم یہ اندازہ کر سکیں کہ کیا بات ہے جو خدا کی بات ہے اور کیا بات ہے جو انسانوں کی بات ہے۔اس وقت جو اسلام سامنے آتا ہے، وہ نوے فی صد خدا کی بات نہیں، انسانوں کی بات ہوتی ہے اور اسی کے لحاظ سے نہ وہ علم کی گرفت میں آتی ہے، نہ عقل کی گرفت میں آتی ہے اور نہ اس کی بنیاد پر اجتماعی اور انفرادی زندگی کو استوار کرنا ممکن معلوم ہوتا ہے۔

تیسری چیز یہ ہے کہ ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ شریعت کے احکام کی پھر دو نوعیتیں ہیں۔ ایک وہ احکام ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کی ازواج مطہرات کو اس وقت کی صورت حال میں، بعض تدابیر کی حیثیت سے دیے گئے۔ اس وقت چونکہ وقت بہت ہو رہا ہے ورنہ میں آپ کو اس کی مثالیں دے کر بتاتا کہ ان کی نوعیت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے کتنے سنگین مسائل مسلمانوں کی فقہ میں پیدا ہوئے اور کیسے کیسے نکات اس کے نتیجے میں ایسے متفق علیہ نکات بن گئے ہیں کہ اب ان کے اوپر تنقید کی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ لیکن بہرحال یہ جرات تو لوگوں کو کرنا پڑے گی اور یہ بتانا پڑے گا کہ یہ وہ چیزیں ہیں جو وقتی تدابیر کی نوعیت کی تھیں، یہ ایک زمانے کے حالات کے لحاظ سے کہی گئیں اور دی گئیں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے ساتھ خاص تھیں۔ ان کا ہمارے ساتھ اب وہ تعلق نہیں ہے۔ یہ ہماری تا ریخ کا حصہ ہیں اور ان کی اپنی افادیت ہے، لیکن بہرحال یہ اب سوسائٹی میں نافذ نہیں ہوں گی اور نہ قرآن کا یہ منشا ہے کہ نافذ ہوں۔

اب یقیناآپ یہ فرمائیں گے کہ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ میں آپ کو پورے اطمینان کے ساتھ اپنے ربع صدی کے علمی تجربے کی روشنی میں یہ بتاتاہوں کہ اس کا فیصلہ نہایت وضاحت کے ساتھ خود قرآن کرتا ہے، اور وہ بتا دیتا ہے کہ کیا چیز اس کا ابدی حکم ہے اور کیا چیز ایسی ہے کہ جس میں وقتی نوعیت کی تدبیر کی گئی یا وقتی نوعیت کا حکم دیا گیا جو اپنے زمانے کے لحاظ سے روبۂ عمل ہوا اور پھر ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ اس میں اگلی چیز جو ملحوظ رکھنے کی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم جب ان احکام و قوانین کا مطالعہ کریں گے تو اس چیز کا بھی لحاظ رکھنا ناگزیر ہو گا کہ جو باتیں ہم اب بیان کر رہے ہیں، اگر وہ اجمال کے ساتھ بیان کی گئی ہیں تو کیا ان کی تفصیلات کے وہ ڈھانچے بھی قبول کرنے ہوں گے جو بعد کے لوگوں نے بنا دیے ہیں۔ اس معاملے میں بھی ایک جرات مندانہ اقدام کی ضرورت ہو گی کہ ہم اس اجمال کو خود اپنی بصیرت کی روشنی میں کھولیں اور اپنے تمدن کے تقاضوں کے لحاظ سے ان کو متعین کریں۔ یہ جو ہم بہت سی چیزیں دیکھتے ہیں، حدود آرڈیننس اور دیگر اس نوعیت کی، ان میں اگر دیکھیے تو اسلام شایددو سطروں کا ہو گا، باقی سارا یہی کام ہے جو انسانوں نے آج کے زمانے میں بھی کر ڈالا ہے۔ اس کو بھی الگ کر کے دیکھنے کی اور الگ کر کے متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ اسلام نہیں ہے، یہ خدا کے دین کا یا خدا کا حکم نہیں ہے، یہ ہمارا کام ہے اور ہم بہرحال خطاکار انسان ہیں۔ ہم غلطی کر سکتے ہیں اور ہمیں اپنی غلطی کا اعتراف کرنے میں اور اس کو واپس لینے میں کو ئی باک نہیں ہونا چاہیے۔

شریعت کے معاملے میں ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے اور اس کوہمیشہ ملحوظ رہنا چاہیے۔ اس نازک فرق کو بالعموم موجودہ زمانے کے علما نے تشریح کرتے ہوئے ملحوظ نہیں رکھا، جبکہ قدیم علما نے یہ غلطی نہیں کی۔ وہ فرق یہ ہے کہ کس چیز سے اللہ نے یا اللہ کے پیغمبر نے روک دیا ہے اور کس چیز کے بارے میں ایک دائرے میں قانون سازی کر دی ہے اور باقی کو چھوڑ دیا ہے۔ مثال کے طور پر میں ایک سادہ سی بات آپ سے کہتا ہوں کہ اگر تو صورت حال یہ تھی کہ اسلام میں حکم دیا گیا ہوتا کہ آپ کو چار شادیاں کرنا ہیں تو نوعیت بہت مختلف ہو جاتی۔ اگر مثال کے طور پرآپ کو یہ حکم دیا گیا ہوتا کہ آپ کو چار شادیوں کی اجازت ہرحال میں قائم رکھنی ہے تو تب بھی نوعیت بہت مختلف ہو جاتی۔ اسلام نے ایک سے زیادہ شادیوں پر کچھ پابندیاں لگا کر باقی معاملے کو انسانی معاشرے اور تمدن کی ترقی او ر ارتقا پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ ایک بڑا دائرہ ہے جس کے اندر ہم کو قانون سازی کا اختیار تھا۔ قدیم فقہا اس کو اس طرح بیان کرتے تھے کہ یہ مباحات کا دائرہ ہے جس میں ہم اپنے لحاظ سے قانون بنائیں گے بھی اورا س کو واپس بھی لیں گے۔ شریعت قانون سازی کے معاملے میں، محدود دائرے میں یہ کام اس لیے کرتی ہے تاکہ آنے والے تمدن اور تبدیلیوں میں کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہ ہونے پائے۔ اور ایک بڑے حصے کو انسانوں پر اس لیے چھوڑ دیتی ہے کہ اگروہ اس معاملے میں کوئی قانون بنائیں گے تو اس کی غلطی تجربے سے واضح ہو جائے گی اور وہ اس کو تبدیل کرلیں گے۔ لیکن اس دائرے کے بارے میں بھی یہ خیال ہو گیا کہ یہ غالباًکوئی ممنوعات کا دائرہ ہے۔ چنانچہ اس کی ایک بدترین مثال ہمارے سامنے شاہ بانوکیس میں سامنے آئی ہے کہ جب یہ کہا گیا کہ شریعت یہ حق نہیں دیتی۔ دراں حالانکہ شریعت کچھ حقوق دینے کے بعد ہمیں آزاد چھوڑ دیتی ہے کہ اس میں باقی حقوق کی رعایت کر کے ہم حالات کے لحاظ سے خود فیصلے کر سکتے ہیں۔اس نازک دائرے کو بھی متعین کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس سے بھی انسان کے قانون سازی کے حق پر ایسی پابندیاں لگی ہیں جو مسائل کا باعث بن گئی ہیں۔ وہ بہت سے معاملات جن میں ہم عورتوں کو، بچوں کو، غیرمسلموں کو بہت ساری رعایت دے سکتے تھے، اس کا دروازہ بند ہو گیا۔

تیسری بات مرزا صاحب نے یہ کہی ہے کہ فقہ جدید کیسے بنے گی؟ اس کو مرزا صاحب نے سوالیہ نشان لگا کر چھوڑ دیا ہے۔ میرے نزدیک اب دین کے علما کا کام اس سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ شریعت کی تعبیر کا فرض انجام دیں۔ یہ ان کے اختصاص کا شعبہ ہے، اور پھر اس کے بعد دوسرے انسانوں کوقائل کریں کہ انھوں نے جو تعبیر کی ہے، وہ واقعی صحیح تعبیر ہے اور اس کے دلائل بیان کریں۔ اس سے اوپر فقہ بنانے یا سادہ لفظوں میں یہ کہیے کہ معیشت کے، معاشرت کے گوناگوں احوال میں ایک نظام کھڑا کرنے کا کام ہم کو کرنا ہے ۔ جسارت نہ ہو تو عرض کروں کہ علم مسلمان کی میراث ہے۔ جس طرح سے سائنسی علوم میں مغرب بہت ساکام کر چکا ہے، اسی طرح بہت سی جدید فقہ بھی بنا چکا ہے اور کوئی حرج نہیں کہ اس کو قبول کر کے آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیجیے۔ اس میں ساری چیزیں ایسی نہیں ہیں کہ جن سے آپ صرف نظرکریں ۔ اس کا نوے فی صد حصہ انسانی مشاہدات و تجربات کے نتیجے میں ترتیب پایا ہے اور میں آپ سے عرض کروں کہ عملاً آپ اس نوے فی صد حصے کو قبول کر چکے ہیں۔ لہٰذا دورجدید میں کچھ کام ہو چکا اور جو باقی رہ گیا ہے، وہ اصل میں سماجی علوم کے ماہرین کو کرنا ہے۔ہم اعتراف کر لیں کہ ہمارے علما کے لیے ا ب یہ اختصاص کا میدان نہیں رہا ۔ ا س میں سماجی علوم کے ماہرین کو آگے بڑھنا بھی ہے اور فروغ علم کی جدو جہد میں سماجی علوم کی اہمیت کو تسلیم بھی کرانا ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ جس طریقے سے آپ سائنسی علوم کے بارے میں فراخ دلی پیدا کر رہے ہیں اور اس میں یہ بحث نہیں کرتے کہ یہ مغرب سے آئے ہیں یا مشرق سے، اسی طرح سماجی علوم کے معاملے میں بھی یہی فراخ دلی پیدا کریں اور جو کچھ ہے، اس کو مومن کی گم شدہ حکمت سمجھ کر قبول کریں۔ معاملہ ایسے نہیں چل سکتا کہ آپ گلیلیو کے دور میں چلے جائیں اور وہاں سے سائنس کی ابتدا کریں۔ آپ کو آئن اسٹائن سے آگے بڑھنا ہو گا اور سما جی علوم کے معاملے میں بھی یہی روش اختیار کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے اور اسی راستہ کو اختیار کرنے میں ہماری نجات ہے۔

یہ چند مختصر گزارشات تھیں جو میں مرزا صاحب کی کتاب کے بارے میں پیش کرنا چاہتا تھا ۔ اس میں اگر کوئی چیز اچھی ہے، اسے قبول کیجیے، اگر کوئی بات گراں گزری ہو تو اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔

 ________________

B