HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: آل عمران ۳: ۱۳۷-۱۴۳ (۲۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)  


قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ، فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ، فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ{۱۳۷} ہٰـذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ، وَہُدًی، وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ{۱۳۸}وَلاَ تَہِنُوْا، وَلاَ تَحْزَنُوْا، وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ{۱۳۹}اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ، فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ، وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ، وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآئَ، وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ {۱۴۰} وَلِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، وَیَمْحَقَ الْکٰفِرِیْنَ{۱۴۱}اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ، وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا مِنْکُمْ، وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ{۱۴۲}وَلَقَدْ کُنتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْہُ، فَقَدْ رَاَیْتُمُوْہُ، وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ{۱۴۳}
(ایمان والو، آخری فتح تمھاری ہو گی)۔ اِس کی بہت سی مثالیں تم سے پہلے گزر چکی ہیں۔ سو اپنی اس سرزمین ہی میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا ہے۔ یہ نہایت واضح تنبیہ ہے اُن لوگوں کے لیے (جو پیغمبر کو جھٹلا دینے پر مصر ہیں) اور ہدایت و نصیحت اُ ن کے لیے جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔ (اِس لیے مطمئن رہو) اور (اِس شکست سے) بے حوصلہ نہ ہو اور غم نہ کرو، ۲۰۴ اگر تم مومن ہو تو غلبہ بالآخر تمھیں ہی حاصل ہو گا۔ ۲۰۵ (اِس وقت) اگر تم کو چوٹ لگی ہے تو ایسی ہی چوٹ ۲۰۶ (اِس سے پہلے) دشمن ۲۰۷ کو بھی لگ چکی ہے۔ اور دنوں ۲۰۸ کا یہ الٹ پھیر تو ہم لوگوں کے اندر (اِس لیے) کرتے ہیں (کہ اُن کا امتحان کریں) ۲۰۹  اور اِس لیے کہ اللہ ایمان والوں کو جان لے اور تم میں سے اُن لوگوں کو چھانٹ لے جو (اپنی جان دے کر بھی) حق کی گواہی دینے والے ہوں ۲۱۰  ــــ (اِن مصالح کو سمجھنے کی کوشش کرو) اور (یاد رکھو کہ) اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۲۱۱ ــــ اور۲۱۲ اِس لیے (کرتے ہیں) کہ ایمان والوں کو اللہ الگ کر لے اور اِن منکروں کو مٹا دے ۲۱۳  ـــ کیا ۲۱۴ تم نے یہی سمجھا کہ جنت میں داخل ہو جائو گے، اور اللہ نے ابھی اُن لوگوں کو دیکھا ہی نہیں جنھوں نے تمھارے اندر سے جہاد کیا (اور جنھوں نے نہیں کیا) ــــ اور اِس لیے (کرتے ہیں) کہ اللہ اُن کو بھی جان لے جو ثابت قدم رہنے والے ہوں۔ ۲۱۵ (اب حوصلہ چھوڑ رہے ہو) اور موت کے (اِس طرح) سامنے آجانے سے پہلے تم اُس کی تمنا کر رہے تھے۔ سو (تمھاری یہ تمنا پوری ہو گئی، اس لیے کہ) اب تو موت کو تم نے آنکھیں چار کر کے دیکھ لیا ہے۔ ۲۱۶ ۱۳۷۔۱۴۳

۲۰۴؎  اشارہ ہے اس شکست کی طرف جس سے احد کے موقع پر مسلمانوں کو اپنی ایک غلطی کی وجہ سے دوچار ہونا پڑا۔

 ۲۰۵؎  یہ اس سنت الہٰی کی طرف اشارہ ہے جس کے تحت رسولوں کے منکرین پر ان کی طرف سے اتمام حجت کے بعد عذاب آجاتا اور ان کے ماننے والوں کواللہ تعالیٰ لازماً غلبہ عطا فرماتے ہیں۔ اس سنت کے مظاہر سرزمین عرب میں عادوثمود، قوم لوط اور قوم شعیب کے آثار کی صورت میں موجود تھے۔ قرآن نے یہاں انھی مظاہر کو سنن سے تعبیر فرمایا ہے۔

 ۲۰۶؎  یعنی بدر کے موقع پر۔

 ۲۰۷؎  اصل میں لفظ ’القوم‘ استعمال ہواہے۔ اہل عرب کے عرف میں یہ اس طرح کے موقعوں پر حریف اور دشمن کے لیے آتا ہے۔

 ۲۰۸؎  اصل میں لفظ ’الایام‘ آیا ہے۔ یہ جب اس طریقے سے جمع کی صورت میں آئے تو اس سے مراد تاریخ کے وہ دن ہوتے ہیں جن میں بڑے بڑے حوادث او ر واقعات پیش آئے ہوں۔

 ۲۰۹؎  یہ ’ولیعلم اللّٰہ الذین اٰمنوا‘ کا معطوف علیہ ہے جو عربیت کے اسلوب پر اصل میں حذف ہو گیا ہے۔

 ۲۱۰؎  اس سے معلوم ہوا کہ احد کے موقع پر جو افتاد پیش آئی، اس میں دوسری مصلحتوں کے ساتھ ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ جو لوگ راہ حق میں شہادت کی سعادت حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کی یہ آرزو بھی اس موقع پر پوری ہو جائے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں شہادت کی طلب مسلمانوں کے اندر کتنی شدید تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جذبے کی تسکین کے لیے یہ موقع فراہم کرنا ضروری سمجھا۔

 ۲۱۱؎  یعنی اس شکست سے یہ خیال نہ کرو کہ اللہ اب ان منکروں ہی سے محبت کرنے لگا ہے، نہیں، وہ ان ظالموں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ اس کے پیش نظر کچھ مصالح تھے جن کی وجہ سے اس نے مسلمانوں کی یہ ہزیمت گوارا کی ہے۔

 ۲۱۲؎  جملۂ معترضہ کے بعد یہاں سے کلام پھر اوپر کے بیان سے مربوط ہو گیا ہے۔

 ۲۱۳؎  مطلب یہ ہے کہ منکروں کو مٹانا بھی اسی وقت ممکن تھا، جب وہ بالکل ممیز ہو گئے ہوں، لہٰذا ضروری ہوا کہ لوگوں کو امتحان کی بھٹی سے گزارا جائے تاکہ ہر قسم کا کھوٹ ان کے اندر سے نکل کر علیحدہ ہو۔ چنانچہ مسلمانوں کی شکست، درحقیقت انھی منکروں کو مٹانے کی ایک تدبیر تھی۔

 ۲۱۴؎  یہ پھر ایک جملۂ معترضہ ہے جس سے مخاطبین کو ان کے اس خیال پر برسرموقع تنبیہ کی گئی ہے جو اوپر کی بات سے ان کے ذہن میں پیدا ہوا ہے کہ مومنین اور منکرین کو الگ الگ کرنے کے لیے ہمارے ایمان ہی کو کافی کیوں نہیں سمجھا گیا؟ اس کے لیے یہ کیوں ضروری ہوا کہ لوگوں کو اس طرح کے امتحان سے گزارا جائے؟

 ۲۱۵؎  اصل الفاظ ہیں: ’ویعلم الصٰبرین‘۔ اس کا عطف بھی، صاف واضح ہے کہ ’ولیعلم اللّٰہ الذین اٰمنوا‘ پر ہے او ر اس کے اور ’یمحق الکافرین‘ کے درمیان کا جملہ جملۂ معترضہ ہے جو مخاطبین کے ایک خیال پر، جیسا کہ بیان ہوا، برسرموقع تنبیہ کے لیے آگیا ہے۔

 ۲۱۶؎  یہ مخاطبین کی طرف سے شوق جہاد کے اظہار اور اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کر دینے کے ان دعووں پر تعریض ہے جو وہ احد کے معرکے میں اترنے سے پہلے کر رہے تھے۔

[              باقی]

 ـــــــــــــــــــ

B