HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

حضرت عبادہ بن صامت کا اضطراب

 (مسلم، رقم ۲۹)


عن صنابحی عن عبادۃ بن الصامت أنہ قال دخلت علیہ وہو فی الموت. فبکیت. فقال: مہلا، لما تبکی، فواﷲ لإن استشہدت لأشہدن لک. ولإن شفعت لأشفعن لک. ولإن استطعت لأنفعنک. ثم قال: ما من حدیث سمعتہ من رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لکم فیہ خیر إلا حدثتکموہ إلا حدیثا واحدا وسوف أحدثکموہ الیوم، وقد أحیط بنفسی. سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقول: من شہد أن لا إلہ إلا اﷲ وأن محمدا رسول اﷲ حرم اﷲ علیہ النار.
’’صنابحی حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ میں ان کے ہاں گیا تو وہ جان کنی کی حالت میں تھے۔میں (انھیں دیکھ کر) روپڑا۔ انھوں نے کہا: حوصلہ کرو، کیوں روتے ہو۔ اگر مجھ سے گواہی طلب کی گئی تو میں تمھاری گواہی دوں گا۔ اگر مجھے سفارش کا موقع دیا گیا تو میں تمھاری سفارش کروں گا۔ اور اگر میرے لیے ممکن ہوا تو میں تمھارا فائدہ کروں گا۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی بات سنی ہے اور اس میں تم لوگوں کے لیے کوئی خیر تھا تو وہ تم لوگوں کو بتادی ہے۔ ایک بات کے سوا، وہ میں تمھیں آج بتاؤں گا، حالانکہ میری جان پہ بنی ہوئی ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناہے: جس نے برملا اقرار کیا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، اللہ نے اس پر آگ حرام کر دی۔‘‘
لغوی مباحث

وقد أحیط بنفسی: ’ أحیط ‘ کا لفظی مطلب ہے ’گھر جانا‘ ۔ مسلم کے شارح نووی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ اس کی اصل یہ ہے کہ جب کسی شخص کو اس کے دشمن گھیر لیتے ہیں اور بچنے کا کوئی موقع باقی نہیں رہتا تو اس موقع پر ’ قد أحاطوا بہ ‘ یا ’ أطافوا بہ‘ کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔یہاں بھی اس اسلوب سے یہی بات بیان کرنا پیش نظر ہے کہ اب میری موت یقینی ہے۔

معنی

اس روایت کے پہلے حصے میں دور صحابہ کا ایک خوب صورت پہلو سامنے آتا ہے۔ ایک صحابی کے ساتھ اس سے دین سیکھنے والے کس طرح محبت کرتے تھے اور ایک استاد کی حیثیت سے حضرت عبادہ کی اپنے شاگرد کے ساتھ شفقت کیا تھی۔ روایت کے اس حصے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ صحابہ تمام روایات نقل نہیں کرتے تھے ، وہی بات بیان کرتے تھے جس میں وہ اپنے متعلقین کی بھلائی دیکھتے تھے یا ان کی رہنمائی اور تربیت کے لیے ضروری خیال کرتے تھے۔ زیر مطالعہ متن بظاہر یہ معنی رکھتا ہے کہ محض ایمان نجات کا باعث ہوگا۔ انھوں نے یہ بات اس وقت تک بیان نہیں کی جب تک وہ مطمئن نہیں ہو گئے کہ اس سے یہ معنی نہیں لیے جائیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی قبولیت یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار اور محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا رسول مان لیناایک نئی زندگی کو اختیار کرنا ہے۔ ہم نسلی مسلمان جب شعوری کوشش سے اپنے ایمان وعمل کی اصلاح کرتے ہیں تو اس کا کچھ تجربہ کرتے ہیں۔ لیکن ایک غیر مسلم کے لیے یہ تجربہ زیادہ ہمہ گیر ہوتا ہے۔یہاں اس روایت میں یہی ایمان زیر بحث ہے۔ وہ ایمان یہاں مراد نہیں جو مسلمانوں کے ہاں پیدا ہونے کے نتیجے میں ہمیں حاصل تو ہوتا ہے ، لیکن اس کے ہماری زندگی پر کوئی آثار نہیں ہوتے۔ یہ درست ہے کہ وہ آدمی جس نے ایمان کی نعمت پالی۔ اس کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس سے کوئی کمی کوتاہی ہوئی یا گناہوں کا ارتکاب ہوا تو اللہ تعالیٰ کے عفو ودرگزر سے اس کی مغفرت ہو جائے گی۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن مجید میں بیان کیے گئے معیار پر پورا اترے۔ مطلب یہ کہ اس نے شرک نہ کیا ہو۔اس نے خدا کے ان احکام کی خلاف ورزی نہ کی ہو جن کی خلاف ورزی پر ابدی جہنم ہے۔ وہ غلطی اور گناہ پر توبہ واصلاح کی سعی کرتا رہا ہویعنی وہ ایک سرکش آدمی نہ رہا ہووغیرہ۔ دوسری روایات، قرآن مجید اور خود صحابہ کا اس طرح کی روایات کا فہم ، سب سے یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ حضور کے اس طرح کے ارشادات سے محض کلمۂ حق کا زبان سے کہہ دینا مراد نہیں ہے۔

متون

اس روایت کے دو حصے ہیں۔آخری حصہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر مبنی ہے اور پہلا حصہ اس وضاحت سے متعلق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کس موقع پر بیان کیا۔ یہ پہلا حصہ دو طریقوں سے بیان ہوا ہے۔ ایک میں واقعہ بیان کرنے والے حضرت صنابحی رحمہ اللہ ہیں۔ جن محدثین نے یہ روایت لی ہے ، ان میں سے اکثر نے اسی متن کو اختیار کیا ہے۔ دوسرے میں بیان کرنے والے ابن محیریز ہیں۔ یہ متن مسند الشامیین میں ہے:

عن ابن محیریز قال: حدثنا عبادۃ بن الصامت. فأقبل أبو عبد اﷲ الصنابحی. فلما رآہ مقبلا، قال: من أحب أن ینظر إلی رجل عرج بہ إلی السماء. فنظر إلی أہل الجنۃ وأہل النار. فرجع وہو یعمل علی ما رأی فلینظر إلی ہذا. ثم قال: سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم أن یقول حرمت النار علی من شہد أن لا إلٰہ إلا اﷲ وأنی رسول اﷲ.(رقم ۲۱۷۸)
’’ ابن محیریز بیان کرتے ہیں کہ عبادہ بن صامت ہم سے بات کر رہے تھے کہ ابوعبداللہ صنابحی آگئے۔ حضرت عبادہ نے کہا جو ایک ایسے آدمی کو دیکھنا پسند کرے جسے آسمان پر اٹھایا گیا اور اس نے وہاں اہل جہنم اور اہل جنت دیکھے اور پھر واپس آگیا اور اب وہ اس کو مطابق عمل کر رہا ہے جو اس نے دیکھا تووہ ان کی طرف دیکھ لے۔ پھر انھوں نے بتایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اس شخص پر آگ حرام کر دی گئی ہے، جس نے برملا اقرار کیا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ۔‘‘

پہلے طریق کے متن میں کچھ فرق ہیں ، مثلاً، زیر بحث روایت میں ’دخلت علیہ وہو فی الموت‘ آغاز کا جملہ ہے ، جبکہ احمد اور ابن حبان وغیرہ میں ’دخلت علی عبادہ بن الصامت وہو فی الموت‘ سے روایت شروع ہوئی ہے اور عبد بن حمید کی مسند میں الفاظ ابن محیریز کے ہیں۔ کہتے ہیں: ’ کنا جلوسا عند عبادہ بن الصامت إذ جاء ہ الصنابحی فبکی‘ ۔ ایک روایت میں ’مہلا ‘ کے بجائے ’ مہ‘ آیا ہے اور ایک دوسری روایت میں یہ دونوں لفظ ہی نہیں ہیں اور ’ لم تبکی‘ کی جگہ ’ ما یبکیک‘ استعمال ہوا ہے۔ زیر مطالعہ روایت میں بیان ہوا ہے کہ حضرت عبادہ نے کہا کہ میں ہر وہ حدیث بیان کرتا رہا ہوں جس میں لوگوں کے لیے کوئی خیر رہا ہے ۔ ایک روایت میں یہی بات ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: ’ وما کتمتکم حدیثا سمعتہ من رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الا حدیثا واحدا‘ ۔یعنی ایک روایت کے سوا میں نے تم سے کوئی بات نہیں چھپائی جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی۔بعض روایات میں ’ وقد أحیط بنفسی‘ کی جگہ ’ وقد أحیط بی‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ آگ کے حرام ہونے کی بات مختلف اسالیب میں روایت ہوئی ہے۔ ایک روایت میں ’ حرم اﷲ علیہ النار‘ ، ایک روایت میں ’ حرم علی النار‘ اور ایک روایت میں ’ حرمہ اﷲ علی النار‘ کے الفاظ آئے ہیں۔

یہ تفصیل تو اس روایت کے متون سے متعلق ہے۔ لیکن اس مضمون کی حامل روایات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کئی مواقع پر اور مختلف صحابہ سے کہی تھی۔

کتابیات

مسلم، رقم۲۹ ۔ ترمذی، رقم۲۶۳۸۔ احمد، رقم۲۲۷۶۳۔ ابن حبان، رقم۲۰۲۔ مسند الشامیین، رقم۱۹۹۔ عبد بن حمید، رقم۱۸۶۔

____________

B