روی ۱ أن یہودیۃ کانت تشتم النبی وتقع فیہ. فخنقہا رجل حتی ماتت. فأبطل رسول اللّٰہ دمہا.
روایت ۱ ہے کہ ایک یہودیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی اور آپ کے بارے میں اہانت آمیز باتیں کیا کرتی تھی۔(انتقام کے طور پر)ایک آدمی نے اس کا گلا دبادیا اور وہ مرگئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (یہودیہ)کے قتل پر اس آدمی کو سزانہیں دی۔۲
۱۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس روایت کی سند میں پہلے پانچ راوی اسے نقل کرنے میں بالکل منفرد ہیں۔ یعنی تقریباً ڈیڑھ سو سال تک ہر نسل میں محض ایک آدمی ہی ہے جو اس واقعہ کو نقل کررہا ہے، جبکہ واقعہ کی نوعیت ایسی ہے کہ اس کی شہرت زیادہ لوگوں میں ہونی چاہیے تھی اور زیادہ لوگوں کو اسے روایت کرنا چاہیے تھا۔ مزید برآں روایت کی اس واحد سند کو بھی ناصر الدین البانی صاحب نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اس روایت سے متعلق یہ حقائق اس کی صحت سے متعلق شبہات پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں، تاہم ان حقائق کو اگر نظرانداز کردیاجائے تو روایت کا متن بعض ایسے تحفظات کے ساتھ قبول کیا جاسکتا ہے جن کی وضاحت آگے کی جارہی ہے۔
۲۔ اگرچہ راویوں نے بیان نہیں کیا، تاہم یہ واضح ہے کہ اس طرح کے واقعات کی جس قدر ممکن ہو پہلے تحقیق کی جاتی ہے اور پھر کوئی فیصلہ سنایاجاتا ہے۔ روایت میں اس بات کی بھی تصریح موجود نہیں ہے کہ قتل کرنے والے کو سزاکیوں نہیں دی گئی۔کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ قتل ایسی صورت حال میں کیا گیاکہ جس میں آدمی کے لیے اپنے انتہائی جذبات پر قابو پانا ممکن نہیں رہتا، چنانچہ فیصلہ سناتے وقت اس پہلو کا خیال رکھتے ہوے نرمی برتی گئی یا یہ کہ یہودیہ کا یہ قتل خدا کی طرف سے نافذ کردہ سزا کے طور پر کیاگیا۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کرنے والے یہودونصاریٰ کے لیے جو سزا قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے، اس کے مطابق انھیں مسلمانوں کے زیر دست بن کر رہنا تھااور اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کرتے تو انھیں خدا کے حکم کے مطابق موت کی سزادی جاتی۔اس یہودیہ کا سرعام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنا یہ واضح کرتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو مسلمانوں کے زیردست نہیں کیا تھا ، چنانچہ وہ خدا کی طرف سے نافذ کردہ سزائے موت کی مستحق تھی۔
۱۔ یہ روایت بغیر کسی اختلاف کے درج ذیل مقامات پر نقل ہوئی ہے:
ابوداؤد، رقم۴۳۶۲۔ بیہقی ، رقم۱۳۱۵۴،۱۸۴۸۹۔
تخریج : محمد اسلم نجمی
کوکب شہزاد
ترجمہ و ترتیب : اظہار احمد
____________