بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، لاَ تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ، لاَ یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالاً، وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ، قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ، وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ اَکْبَرُ، قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ{۱۱۸} ہٰٓاَنْتُمْ اُولَآئِ تُحِبُّوْنَہُمْ، وَلاَ یُحِبُّوْنَکُمْ، وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْکِتٰبِ کُلِّہٖ، وَاِذَا لَقُوْکُمْ قَالُوْآ اٰمَنَّا، وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ، قُلْ: مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ، اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ {۱۱۹} اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ، وَاِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّئَۃٌ یَّفْرَحُوْا بِہَا، وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لاَ یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا، اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ{۱۲۰}
وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَہْلِکَ تُبَوِّیُٔ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ، وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ{۱۲۱}
اِذْ ہَمَّتْ طَّآئِفَتٰنِ مِنْکُمْ اَنْ تَفْشَلاَ، وَاللّٰہُ وَلِیُّہُمَا، وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ{۱۲۲} وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ، فَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ{۱۲۳}
اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ: اَلَنْ یَّکْفِیَکُمْ اَنْ یُّمِدَّکُمْ رَبُّکُمْ بِثَلٰثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُنْزَلِیْنَ{۱۲۴} بَلٰٓی، اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَیَاْتُوْکُمْ مِّنْ فَوْرِہِمْ ہٰـذَا، یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُسَوِّمِیْنَ{۱۲۵}
وَمَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلاَّ بُشْرٰی لَکُمْ، وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُکُمْ بِہٖ، وَمَا النَّصْرُ اِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ {۱۲۶} لِیَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا، اَوْ یَکْبِتَہُمْ فَیَنْقَلِبُوْا خَآئِبِیْنَ {۱۲۷} لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْء ٌ، اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْہِمْ، اَوْ یُعَذِّبَہُمْ، فَاِنَّہُمْ ظٰلِمُوْنَ {۱۲۸} وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ، یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ، وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ{۱۲۹}
ایمان ۱۸۹ والو، (یہ تمھارے دوست نہیں ہیں، اِس لیے) اپنے سے باہر کے لوگوں کو بھیدی نہ بناؤ۔ ۱۹۰ تمھیں نقصان پہنچانے میں یہ کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔ یہ تمھارے لیے زحمتوں کے خواہاں ہیں۔ اِن کی دشمنی اِن کے منہ سے نکلی پڑتی ہے اور جو کچھ اِن کے سینوں میں چھپا ہوا ہے، وہ اِ س سے بھی سخت تر ہے۔ ہم نے یہ نشانیاں تمھارے لیے واضح کر دی ہیں، اگر تم عقل رکھتے ہو۔ یہ تمھی ہو کہ اِن کو دوست رکھنا چاہتے ہو، مگر وہ تم سے دوستی نہیں رکھتے، دراں حالیکہ تم اللہ کی تمام کتابوں کو مانتے ہو۔۱۹۱ اور (اِن کا طریقہ یہ ہے کہ ) جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو ایمان لائے ہوئے ہیں ۱۹۲ اور جب الگ ہوتے ہیں تو غصے سے تم پر انگلیاں کاٹتے ہیں ـــــکہہ دو کہ اپنے اِسی غصے میں مر جاؤ۔ (اللہ تمھاری ہر چیز سے واقف ہے اور) اللہ تو سینوں کے راز تک جانتا ہے ـــــتمھیں کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اِنھیں تکلیف پہنچتی ہے اورتم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اِس سے خوش ہوتے ہیں۔ (یہ تمھارے دوست نہیں ہیں، اِن کی پروا نہ کرو) اور (یاد رکھو کہ) اگر تم صبر کرو گے اور اللہ سے ڈرتے رہو گے تو اِن کی کوئی تدبیر تمھیں نقصان نہ پہنچا سکے گی، اِس لیے کہ جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اللہ اُس کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ ۱۱۸۔۱۲۰
(یہ حقیقت اِنھیں سمجھاؤ ، اے پیغمبر) اور (اِس کے لیے وہ موقع یاد دلاؤ) جب (احد کے دن) تم مسلمانوں کو جنگ کے مورچوں ۱۹۳ پر کھڑا کرنے کے لیے اپنے گھر سے نکلے تھے۔ (اُس وقت اللہ تمھارے ارادوں سے واقف تھا اور تمھاری باتیں سن رہا تھا) اور اللہ سمیع وعلیم ہے۔۱۲۱
اُس وقت، جب تم میں سے دو گروہوں ۱۹۴ نے حوصلہ چھوڑنا چاہا، دراں حالیکہ اللہ اُن کی مدد کے لیے موجود تھااور ایمان والوں کو تو اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔ اللہ نے(اِس سے پہلے) بدر میں بھی تمھاری مدد کی تھی۔ جب کہ تم نہایت کمزور تھے۔ (پھر بھی ناشکری کرتے ہو)؟ سو اللہ سے ڈرو تاکہ تم اُس کے شکر گزار ہو۔ ۱۲۲۔۱۲۳
یاد کرو، جب تم مسلمانوں سے کہہ رہے تھے کہ کیا تمھارے لیے کافی نہیں ہے کہ تمھارا پروردگار تین ہزار فرشتوں سے تمھاری مدد کرے جو (اِسی مقصد سے) اتارے گئے ہوں؟ ۱۹۵ ہاں کیوں نہیں، اگر تم صبر کرو اور خدا سے ڈرتے رہو اور تمھارے دشمن اِسی وقت تم پر آپڑیں تو تمھارا پروردگار پانچ ہزار فرشتوں سے تمھاری مدد کرے گا جو خاص نشان لگائے ہوئے ہوں گے۔ ۱۹۶ ۱۲۴۔۱۲۵
اور یہ تو اللہ نے صرف اِس لیے کیا کہ تمھیں بشارت ہو اور تمھارے دل اِس سے مطمئن ہو جائیں اور مدد تو اللہ ہی کی طرف سے آتی ہے جو زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔ ۱۹۷ (اِس لیے کیا) تاکہ اِن منکروں کا ایک حصہ کاٹ دے یا اُنھیں ایسا ذلیل کرے کہ خوار ہو کر لوٹیں ـــــ تمھیںاِس معاملے میں کوئی اختیار نہیں ۱۹۸ (کہ اللہ اِن کے ساتھ یہی کرے) یا اِن کی توبہ قبول کر لے، (اگر یہ توبہ کریں) یا اِن پر اپنا عذاب نازل کر دے، اِس لیے کہ یہ ظالم ہیں۔ (یہ اللہ ہی کا اختیار ہے) اور زمین وآسمان میں جو کچھ ہے، وہ اللہ ہی کا ہے۔ وہ (اپنے قانون کے مطابق) جس کو چاہے گا، بخش دے گا اور جس کو چاہے گا، سزادے گا۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ ۱۲۶۔۱۲۹
۱۸۹؎ یہ اب ان مسلمانوں کو تنبیہ کی جارہی ہے جو یاتو اپنی سادگی کی وجہ سے اہل کتاب کی چالوں کو اچھی طرح سمجھتے نہیں تھے یا ان سے جو تعلقات وروابط پہلے سے چلے آرہے تھے، انھیں اپنی کمزوری کے باعث توڑنا نہیں چاہتے تھے۔
۱۹۰؎ اصل میں لفظ ’بطانۃ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس سے آدمی کے خواص و احباب اور محرمان راز مراد ہوتے ہیں۔
۱۹۱؎ مطلب یہ ہے کہ تم ان کی کتاب کو مانتے اور ان کے دین کو اپنا دین سمجھتے ہو۔ بظاہر دشمنی کے لیے کوئی وجہ نظر نہیں آتی، لیکن اس کے باوجود وہ تم سے دشمنی رکھتے ہیں۔ پھر تعجب ہے کہ تم ان سے محبت کی پینگیں بڑھاتے ہو؟
۱۹۲؎ یہ بات وہ اس مفہوم میں کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عربوں کے لیے تو بے شک، خدا کے پیغمبر ہیں اور اس حیثیت سے وہ آپ کو مانتے ہیں، لیکن ان کے لیے آپ کی پیروی ضروری نہیں ہے۔ اس مقصد کے لیے ان کے اپنے پیغمبر ہی کافی ہیں۔
۱۹۳؎ اصل میں لفظ ’مقاعد‘ آیا ہے۔ یہ ’مقعد‘ کی جمع ہے جس کے معنی بیٹھنے کی جگہ کے ہیں، لیکن قرینہ موجود ہو تو اس سے جنگ کا مورچا بھی مراد ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ اسی مفہوم میں ہے۔
۱۹۴؎ ان دو گروہوں سے اشارہ، مورخین کے بیان کے مطابق قبیلۂ خزرج کے بنو سلمہ اور قبیلۂ اوس کے بنو حارثہ کی طرف ہے۔ یہاں جس واقعے کا ذکر ہوا ہے، اس کا پس منظر استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
’’...ان دونوں گروہوں کے اندر منافقین کی شرارت کی وجہ سے کچھ بزدلی پیدا ہوئی، لیکن پھر وہ سنبھل گئے۔ منافقین درحقیقت اس جنگ کے لیے نکلنا نہیں چاہتے تھے۔ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اس کمزوری کا اندازہ تھا۔ چنانچہ آپ نے یہ چاہا کہ نکلنے سے پہلے صحیح صورت حال سامنے آجائے۔ اس کے لیے امتحاناً آپ نے مسلمانوں کے سامنے یہ سوال رکھا کہ قریش کا مقابلہ مدینہ کے اندر سے کیا جائے یا باہر نکل کر؟ اس کا جواب سچے اور پکے مسلمانوں کی طرف سے تو ظاہر ہے کہ یہی ہو سکتا ہے کہ باہر نکل کر۔ چنانچہ انھوں نے پورے جوش وجذبے کے ساتھ یہی جواب دیا۔ لیکن منافقین نے مدینہ میں محصور ہو کر مقابلے کی مصلحتیں سمجھانے کی کوشش کی۔ آں حضرت نے جب صورت حال کا اندازہ کر لیا، منافقین کی کمزوری آپ پر واضح ہوگئی تو آپ نے وہی کیا جو آپ کے دل میں تھا اور جس کااظہار آپ کے جاں نثار ساتھیوں نے کیاتھا۔ منافقین نے جب دیکھا کہ ان کی یہ سازش ناکام ہو گئی تو وہ نکلنے کو تو مسلمانوں کے ساتھ نکلے، لیکن نکلنے کے بعد ان کے لیڈر ابن ابی نے ان کو ورغلایا اور اس چیز کو بہانہ بنا کر کہ اس کے مشورے کی قدر نہیں کی گئی، راستے میں تین سو آدمیوں کے لشکر کے ساتھ الگ ہوگیا۔ اس واقعہ سے قدرتی طور پر مسلمانوں کی بعض جماعتوں کے حوصلے پر اثر پڑا۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی تعداد تین ہزار کفار کے مقابلے میں کل ایک ہزار تھی۔ ایک ہزار آدمیوں میں سے تین سو آدمیوں کا عین موقع پر فرار، ظاہر ہے کہ ایک اہم حادثہ تھا جس سے کمزور طبائع کا اثر لینا قدرتی امر تھا۔‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۱۷۰)
۱۹۵؎ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا حوصلہ بحال کرنے کے لیے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمائی، جب عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر واپس ہوااور مسلمانوں کے بعض گروہوں میں اس سے کچھ بددلی پیدا ہوئی۔
۱۹۶؎ یعنی اس جنگ میں وہ اپنے امتیازی نشان لگا کر آئیں گے۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو خاص اہتمام کے ساتھ اس مہم کے لیے بھیجے گا۔
۱۹۷؎ مطلب یہ ہے کہ اس طرح کی کسی بشارت کے بغیر بھی ایمان والوں کا عقیدہ یہی ہونا چاہیے کہ فتح و نصرت ہمیشہ اللہ ہی کی طرف سے آتی ہے۔
۱۹۸؎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اپنی قوم کے مستقبل سے متعلق کوئی خیال یہاں گزرا ہے جس پر اس جملۂ معترضہ کے ذریعے سے بات کو روک کر توجہ دلائی گئی ہے کہ لوگوں کی ہدایت و ضلالت اور جزاوسزا کامعاملہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ وہ اگر چاہے گا تو تمھاری قوم کو توبہ کی توفیق دے گا اور چاہے گا تو ان پر بھی وہی عذاب نازل کر دے گا جو ان سے پہلے کی قوموں پر نازل ہوا ہے۔ اس کا فیصلہ اللہ ہی کو کرنا ہے اور جو کچھ بھی وہ کرے گا، اپنی حکمت کے لحاظ سے اور اپنے قانون کے مطابق کرے گا۔ کسی دوسرے کے لیے اس میں دخل اندازی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ تاہم وہ غفورورحیم ہے، اس لیے امید رکھنی چاہیے کہ وہ ان پر کرم فرمائے گا۔جملۂ معترضہ کے بعد یہ پوری بات قرآن نے ’او یکبتہم فینقلبوا خائبین‘ پر اسی لیے عطف کر دی ہے کہ اس کے قارئین اس نظم کلام پر متنبہ رہیں۔
[ باقی]
ـــــــــــــــــــ