روی۱ أنہ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم فتح مکۃ: لا تغزی ہذہ بعد الیوم إلی یوم القیامۃ،۲ ولا یقتل قرشی صبرا۳ بعد ہذا الیوم۴ إلی یوم القیا۵ مۃ.۶
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: آج کے بعد اب قیامت تک کے لیے اس شہر پر حملہ نہیں کیاجانا چاہیے، ۱ اوراس دن کے بعد قیامت تک کے لیے قریش ۲ میں سے کوئی اپنے دفاع کا حق دیے بغیر۳ نہیں مارا جانا چاہیے۔
۱۔ سیدناابراہیم علیہ السلام کے وقت سے حکم خداوندی کے تحت مکہ کو شہر امن کے طور پر عزت دی جاتی تھی۔ مکہ پر حملہ آور ہونا یا حدود حرم میں کسی شخص کو قتل کرنا مکہ خصوصاً حرم سے متعلق حکم الٰہی کی خلاف ورزی سمجھا جاتا تھا۔ مکہ کی یہ حرمت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم سے عارضی طور پر اس وقت ختم کی گئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد مشرکین بنی اسماعیل کے لیے موت کی سزا کا اعلان کیا گیا۔اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اسی بات کی یاددہانی کرائی ہے کہ شہر مکہ کی یہ حرمت میرے لیے محض ایک دن کے لیے اٹھائی گئی ہے، چنانچہ آج کے بعد جو کوئی بھی اس شہر پر حملہ آور ہوگا، وہ خدا کی قائم کردہ ایک ابدی حرمت کو توڑنے والا ہوگا۔
۲۔ مشرکین بنی اسماعیل کے اصل نمائندے چونکہ قریش ہی تھے، لہٰذا ان کاذکر خصوصی طور پر کیا گیا۔
۳۔ کسی آدمی کو باندھ کرسب سے الگ تھلگ اس طرح چھوڑ دینا کہ وہ بھوک پیاس کے ہاتھوں ہلاک ہو جائے قتل صبر کہلاتا تھا۔اس اصطلاح کا استعمال ان لوگوں کے لیے بھی کیا جاتا تھا جنھیں قابو کرنے کے بعد اس طرح باندھ کر ماردیا جاتا کہ وہ اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتے تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر منکرین رسول کے لیے خدا کی طرف سے عذاب کے طورپر بعض کفار کو اپنے دفاع کا موقع دیے بغیر اسی طرح گھیراؤ کرکے قتل کیا گیا۔ رسول کے منکرین کو اس طرح دفاع کا حق دیے بغیر ماردینا چونکہ ایک خدائی فیصلہ تھا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں متنبہ کیا ہے کہ آج کے بعد کسی شخص کو اپنے دفاع کا موقع دیے بغیر نہیں مارا جانا چاہیے۔
۱۔بعض اختلافات کے ساتھ یہ روایت درج ذیل مقامات پر نقل ہوئی ہے:
مسلم، رقم ۱۷۸۲۔ ترمذی، رقم ۱۶۱۱۔ ابن حبان، رقم ۳۷۱۸۔ دارمی، رقم۲۳۸۶۔ احمدبن حنبل، رقم۱۵۴۴۳، ۱۵۴۴۴، ۱۵۴۴۵، ۱۵۴۴۶، ۱۷۸۹۹، ۱۷۹۰۰، ۱۷۹۰۱، ۱۷۹۰۲، ۱۹۰۴۱، ۱۹۰۴۲۔ بیہقی، رقم۱۸۵۶۶۔ حمیدی، رقم۵۶۸، ۵۷۲۔ عبدالرزاق، رقم۹۳۹۹۔ ابن ابی شیبہ، رقم۲۵۸۹۹، ۳۲۳۹۸، ۳۶۹۱۱، ۳۶۹۱۲۔
۲۔’لا تغزی ہذہ بعد الیوم إلی یوم القیامۃ‘(اس شہر پر اب قیامت تک کے لیے حملہ نہیں کیا جانا چاہیے)کے الفاظ ترمذی، رقم۱۶۱۱میں روایت ہوئے ہیں، جبکہ احمدبن حنبل، رقم۱۹۰۴۱میں ان کے بجائے ’لا تغزی مکۃ بعدہا أبدا‘(اب کے بعد مکہ پر کبھی حملہ نہیں ہونا چاہیے)کے الفاظ، بیہقی ، رقم۱۸۵۶۶میں ’لا تغزی بعدہا إلی یوم القیامۃ‘(اب کے بعد اس پر قیامت تک کے لیے حملہ نہیں ہونا چاہیے )کے الفاظ ، احمدبن حنبل، رقم۱۵۴۴۵میں ’لا تغزی مکۃ بعد ہذا العام أبدا‘(اس سال کے بعد مکہ پر کبھی حملہ نہیں ہونا چاہیے)کے الفاظ، احمدبن حنبل، رقم۱۹۰۴۲میں ’لا تغزی ہذہ بعدہا أبدا إلی یوم القیامۃ‘(اب کے بعد اس پرکبھی بھی قیامت تک کے لیے حملہ نہیں ہونا چاہیے)کے الفاظ، حمیدی، رقم۵۷۲میں ’لا تغزی مکۃ بعد ہذا الیوم أبدا ‘(اس دن کے بعد مکہ پر کبھی بھی حملہ نہیں ہونا چاہیے)کے الفاظ اور ابن ابی شیبہ، رقم ۳۶۹۱۱میں ’لا تغزی بعد الیوم إلی یوم القیامۃ‘(آج کے بعد اس پر قیامت تک کے لیے حملہ نہیں ہونا چاہیے)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
۳۔بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل، رقم ۱۵۴۴۳میں ’لا یقتل قرشی صبرا‘(قریش میں سے کسی کا بھی قتل صبر نہیں ہونا چاہیے)کے بجائے ’لا ینبغی أن یقتل قرشی صبرا‘(یہ جائز نہیں ہے کہ قریش میں سے کسی کا قتل صبر ہو)کے الفاظ ، جبکہ احمدبن حنبل، رقم ۱۵۴۴۵میں ’لا یقتل رجل من قریش صبرا‘(قریش میں سے کوئی آدمی بھی قتل صبر کے ذریعے سے نہیں مارا جانا چاہیے)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
۴۔بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل، رقم ۱۵۴۴۳میں ’بعد ہذا الیوم‘(اس دن کے بعد)کے بجائے ان کے مترادف الفاظ ’بعد یومہ ہذا‘(اس دن کے بعد)روایت ہوئے ہیں، جبکہ احمدبن حنبل، رقم ۱۵۴۴۴میں ’بعد الیوم‘(آج کے بعد)کے الفاظ اور احمدبن حنبل، رقم ۱۵۴۴۵میں ’بعد العام‘(اس سال کے بعد)کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۵۔بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل، رقم ۱۵۴۴۳میں ’إلی یوم القیامۃ ‘ (قیامت تک کے لیے)کے الفاظ روایت نہیں ہوئے، جبکہ بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل، رقم ۱۵۴۴۵میں ان الفاظ کے بجائے ’أبدا‘(ہمیشہ)کا لفظ روایت ہوا ہے۔
۶۔بعض روایات مثلاً مسلم، رقم۱۷۸۲میں ’ولم یکن أسلم أحد من عصاۃ قریش غیر مطیع.کان اسمہ العاصی فسماہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مطیعا‘(مطیع کے سوا منکرین قریش میں سے کوئی بھی اسلام نہ لایا۔اس کا اصل نام العاصی (یعنی نافرمان) تھا، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسلمان ہونے کے بعد مطیع (یعنی فرماں بردار) کانام دیا)کے الفاظ بھی روایت ہوئے ہیں، جبکہ بعض روایات مثلاً ابن حبان، رقم ۳۷۱۸میں ’ولم یکن أسلم أحد من عصاۃ قریش غیر مطیع‘(مطیع کے سوا منکرین قریش میں سے کوئی بھی اسلام نہ لایا)کے بجائے ’ولم یدرک المسلمون أحدا من کفار قریش غیر مطیع‘ (مسلمانوں نے کفار قریش میں سے مطیع کے سوا کسی کونہ پایا)کے الفاظ، جبکہ احمدبن حنبل، رقم ۱۷۹۰۰میں ’ولم یدرک الإسلام أحد من عصاۃ قریش غیر مطیع‘(منکرین قریش میں سے مطیع کے سوا کسی نے بھی اسلام قبول نہ کیا)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔ ابن حبان، رقم۳۷۱۸میں اسلام لانے والے آدمی کانام ’العاصی‘ کے بجائے ’العاص‘ جبکہ احمدبن حنبل، رقم۱۵۴۴۶میں ’عاصی‘ نقل ہوا ہے۔
تخریج : محمد اسلم نجمی
کوکب شہزاد
ترجمہ و ترتیب : اظہار احمد
____________