ہر قوم کے غالی مذہبی لوگوں کا یہ خیال رہا ہے کہ عبادت میں جتنی زیادہ جسمانی مشقتیں اٹھائی جائیں اور جسم کو اذیت میں مبتلا کیا جائے اتنا ہی زیادہ اللہ خوش اور راضی ہوتا ہے۔ اس سے پہلے عیسائی رہبان کی ریاضات شاقہ کا حال آپ پڑھ چکے ہیں۔ بعض مسلم صوفیا بھی عیسائی رہبان کے نقش قدم پر چلے ہیں۔ ۴۲ لیکن اسلام کی تعلیم اس معاملے میں نہایت سادہ، آسان اور مطابق فطرت ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
مَا جَعَلَ عَلَیْْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ .( الحج۲۲: ۷۸)
’’اور اس نے دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔‘‘
ایک دوسری جگہ وضو اور تیمم کے ذکر کے بعد ارشاد ہوا ہے:
مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَہِّرَکُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.(المائدہ ۵: ۶)
’’اللہ یہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی ڈالے، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کرے اور تم پر اپنی نعمت تمام کرے تاکہ تم اس کے شکر گزار بنو۔‘‘
ماہ صیام میں بیماری اور سفر کی حالت میں روزے کا حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے:
یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.(البقرہ۲: ۱۸۵)
’’ اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے، تمھارے ساتھ سختی نہیں کرنا چاہتا۔ وہ تو چاہتا ہے کہ تم تعداد پوری کرو اور اللہ نے جو ہدایت تمھیں بخشی ہے، اس پر اس کی بڑائی کرو، اور تاکہ تم اس کے شکر گزار بنو۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعدد ارشادات میں صحابہ کو تلقین کی ہے کہ وہ دین میں میانہ وری اختیار کریں اور عبادت میں غیرضروری مشقت سے کام نہ لیں کہ یہ عیسائی رہبان کا طریقہ ہے، فرمایا:
ان الدین یسر، ولن یشاد الدین احد الا غلبہ فسدوا وقاربوا وأبشروا... الخ ۴۳
’’ دین آسان ہے، جو کوئی دین سے سختی میں مقابلہ کرے گا تو وہ اس پر غالب آ جائے گا۔ پس راہ راست دکھاؤ، میانہ روی اختیار کرو اور خوش خبری دو...الخ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسیٰ اشعری کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا تو دوسری باتوں کے علاوہ یہ نصیحت بھی کی:
یسرا ولا تعسرا وبشرا ولا تنفرا وتطاوعا ولا تختلفا.۴۴
’’ تم دونوں آسانی پیدا کرنا، تنگی پیدا نہ کرنا، خوش خبری دینا، نفرت نہ دلانا، او رخوشی سے ایک دوسرے کی تابع داری کرنا، اختلاف نہ کرنا۔‘‘
آسانی اور سادگی ہی اسلام کی روح ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
الا ہلک المتنطعون، الا ہلک المتنطعون، الا ہلک المتنطعون. ۴۵
’’سن لو، غلو کرنے والے ہلاک ہوئے، سن لو، غلو کرنے والے ہلاک ہوئے، سن لو ، غلو کرنے والے ہلاک ہوئے۔‘‘
اسلام میں وہی عبادت محمود ہے جو آسانی کے ساتھ، مگر پابندی سے کی جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
اکلفوا من العمل ما تطیقون فان اللّٰہ لا یمل حتی تملوا، فان احب العمل الی اللّٰہ ادومہ وان قل.۴۶
’’اتنے ہی کام کی تکلیف اٹھاؤ جس کو بآسانی کر سکو کیونکہ جب تک تم نہ اکتا جاؤ خدا نہیں اکتاتا۔ خدا کے نزدیک سب سے پسندیدہ کام وہ ہے جو برابر انجام پائے اگرچہ قلیل ہو۔‘‘
حضرت عائشہ نے جب رسول اللہ کو بتایا کہ خولاء بنت تویت نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ وہ رات بھر نہیں سوئے گی اور عبادت کرے گی تو آپ نے فرمایا:
لا تنام اللیل؟ خذوا من العمل ما تطیقون، فواللّٰہ لا یسأم اللّٰہ حتی تسأموا.۴۷
’’ رات میں نہیں سوئے گی؟ اتنا ہی عمل کرو جتنے کی طاقت رکھتے ہو۔ خدا کی قسم اللہ نہیں اکتاتا جب تک کہ تم نہ اکتا جاؤ۔‘‘
انس روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک رسی دو ستونوں کے درمیان بندھی ہوئی ہے۔ پوچھا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ زینب کی رسی ہے۔ دوران نماز جب وہ تھکن محسوس کرتی ہیں یا وقفہ دینا چاہتی ہیں تو اس کو پکڑ لیتی ہیں۔ فرمایا، اس کو کھول دو۔ تم میں سے ہر شخص کو اس وقت تک نماز پڑھناچاہیے جب تک طبیعت میں تازگی محسوس ہو۔ جب تھک جاؤ یا وقفہ دینا چاہو تو بیٹھ جاؤ۔۴۸
ایام جاہلیت میں مناسک حج کے اندر بعض باتیں رہبانیت کی داخل ہو گئی تھیں، جو دراصل عیسائی رہبان کے اثرات کا نتیجہ تھیں۔ اسلام کے بعد بھی بعض لوگ ان اثرات سے آزاد نہیں ہو سکے تھے۔ چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر کی بہن نے یہ نذر مانی کہ وہ پیدل چل کر حج کریں گی۔عقبہ نے اس بارے میں رسول اللہ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا، خدا کو تمھاری بہن کی اس نذر کی ضرورت نہیں ہے۔ ان سے کہو کہ وہ سوار ہو کر حج کریں۔ ۴۹
آپ نے دیکھاکہ ایک شخص بڑھاپے کی وجہ سے چل نہیں سکتا، اس کے بیٹے دونوں طرف سے اس کو پکڑے ہوئے چلا رہے تھے ۔ آپ نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ اس نے پیدل حج کی نیت کی ہے۔ فرمایا، خدا کو اس کی ضرورت نہیں کہ وہ اپنی جان کو عذاب میں ڈالے، اس کو سوار کر دو۔ ۵۰ اسی طرح ایک دفعہ آپ خطبہ دے رہے تھے تو دیکھا کہ ایک شخص چلچلاتی دھوپ میں ننگے سر کھڑا ہے۔ آپ نے پوچھا ، یہ کون شخص ہے اور وہ کیوں دھوپ میں کھڑا ہے؟ صحابہ نے بتایا کہ اس کا نام ابو اسرائیل ہے۔ اس نے نذر مانی ہے کہ وہ کھڑا رہے گا، بیٹھے گا نہیں اور نہ سایہ میں آرام کرے گا اور نہ بات کرے گا اور برابر روزے رکھے گا۔ آپ نے فرمایا، اس سے کہو کہ باتیں کرے، بیٹھے، سایہ میںآرام کرے اور اپنا روزہ پورا کرے۔ ۵۱
عمار بن یاسر بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ نہایت گرمی کے دنوں میں سفر شروع ہوا تھا۔ راستے میں ہم ایک جگہ ٹھہرے۔ ہم میں سے ایک شخص نکلا اور جلدی سے درخت کے سائے میں چلا گیا۔ دوسرے لوگ تو درخت کے سائے میں آرام کر رہے تھے اور وہ اس طرح سویا ہوا تھا جیسے اذیت میں مبتلا ہو۔ رسول اللہ نے دیکھا تو پوچھا، تمھارے ساتھی کو کیا ہوا ہے؟ لوگوں نے کہا، وہ روزے سے ہے۔ آپ نے فرمایا:
لیس من البر ان تصوموا فی السفر وعلیکم بالرخصۃ التی رخص اللّٰہ لکم فاقبلوھا.۵۲
’’یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ تم سفر میں روزہ رکھو، اللہ کی دی ہوئی رخصت کو لازم جانو اور اس پر عمل کرو۔‘‘
حضرت انس سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ ہم میں روزہ دار بھی تھے اور بے روزہ دار بھی۔ ہم نے ایک منزل پر قیام کیا۔ دن نہایت گرم تھا۔ جو روزہ دار تھے وہ تو زمین پر پڑ رہے اور جو لوگ روزہ سے نہیں تھے انھوں نے خیمے نصب کیے اور جانوروں کو پانی پلایا۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ نے فرمایا:
ذہب المفطرون الیوم بالآخر.۵۳
’’ آج اجر میں بے روزہ دار بازی لے گئے۔‘‘
ابو داؤد روایت کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے والد حضرت عمر بن عبد العزیز کے زمانۂ امارت میں انس بن مالک کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت وہ نماز پڑھ رہے تھے، نہایت ہلکی نماز گویاکہ مسافر کی نماز ہو۔ جب انھوں نے سلام پھیرا تو والد نے پوچھا: اللہ آپ پر رحم کرے، کیا یہ فرض نماز تھی یا نفل؟ انھوں نے کہا، یہ فرض نماز تھی، اور یہ رسول اللہ کی نماز تھی۔ میں نے اس میں کوئی خطا نہیں کی ہے بجز بھول چوک کے۔ رسول اللہ فرماتے تھے:
لا تشددوا علی انفسکم فشدد علیکم، فان قوما شددوا علی انفسہم فشد اللّٰہ علیہم، فتلک بقایاہم فی الصوامع والدیار: رہبانیۃ ابتدعوہا ما کتبنا علیہم...الخ. ۵۴
’’ اپنی جانوں پر سختی نہ کرو کہ وہ تم پر سختی کرے۔ ایک قوم نے اپنے نفوس پر سختی کی تو اللہ نے ان پر سختی فرمائی۔ یہ صومعے اور خانقاہیں ان ہی کی یادگار ہیں۔ پھر (سورۂ حدیدکی ) یہ آیت پڑھی: رہبانیۃ ابتدعوہا... الخ۔‘‘
انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ معاذ بن جبل ایک قبیلے کے امام تھے۔ حرام (ابن ملحان) نماز سے فارغ ہو کر اپنے باغ کو سینچنا چاہتے تھے۔ چنانچہ وہ لوگوں کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے اور نماز میں شریک ہو گئے، لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ معاذ نماز کو طول دے رہے ہیں تو وہ نماز مختصر کرکے اپنے باغ میں چلے گئے تاکہ اس کو سینچیں۔ جب معاذ نے نماز ختم کی تو انھیں یہ بات بتائی گئی۔ یہ سن کر انھوں نے کہا کہ وہ منافق ہے۔ کیا وہ باغ کو سینچنے کے لیے نماز میں عجلت کرتا ہے۔ جب حرام کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (اور معاذ بھی آئے) اور کہا: اے اللہ کے نبی، میرا ارادہ یہ تھا کہ اپنے باغ کو سینچوں۔ چنانچہ میں مسجد میں آیا تاکہ لوگوں کے ساتھ نماز پڑھوں، لیکن جب انھوں (معاذ) نے نماز کو طول دیا تو میں اپنی نماز مختصر کرکے باغ میں چلا گیا تاکہ اسے سینچوں۔ انھوں نے اس سے یہ سمجھ لیا کہ میں منافق ہوں۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ کی طرف دیکھا اور فرمایا، کیا تو فتنہ پھیلانے والا ہے، کیا تو فتنہ پھیلانے والا ہے؟ (أفتان أنت، أفتان أنت) ان کو لمبی نماز نہ پڑھایا کرو۔ ’سبح اسم ربک الاعلٰی‘اور ’والشمس وضحاہا‘ وغیرہ پڑھایا کرو۔ ۵۵
دیکھیں کہ ایک شخص طول نماز کی وجہ سے اپنی نماز مختصر کرکے جماعت سے الگ ہو جاتا ہے، لیکن رسول اللہ اس کو ذرا بھی ملامت نہیں کرتے، بلکہ الٹا حضرت معاذ بن جبل جیسے صحابی کو تنبیہ فرماتے ہیں اور یہ سخت الفاظ ارشاد فرماتے ہیں : ’أفتان أنت، أفتان أنت‘؟
اس واقعے سے صاف طور پر دین اسلام کا مزاج معلوم ہو جاتا ہے ۔ اور وہ مزاج یہ ہے کہ عبادت میں غلو سے پرہیز کیا جائے۔ اللہ کو اپنے بندوں سے جسمانی ریاضتیں نہیں، تقویٰ مطلوب ہے۔ یہ غلو ہی تو تھا جس نے ماضی میں قوموں کو ہلاک کیا ہے، ابن عباس فرماتے ہیں:
ایاکم والغلو، فان اہلک من کان قبلکم الغلو.۵۶
’’غلو سے بچو، تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ان کو غلو ہی نے ہلاک کیا ۔‘‘
ہر قوم میں عبادت کے کچھ طریقے اور مراسم مقرر ہیں جن کی لوگ دوران عبادت پابندی کرتے ہیں۔ یہ طریقے اور رسمیں مقصود عبادت یعنی خدا کی یاد اور اس کی اطاعت و بندگی کے اظہار کے لیے مقرر کی گئی تھیں۔ لیکن امتداد زمانہ کے ساتھ عبادت کے اشکال و مراسم ہی کو اصل اہمیت حاصل ہوگئی اور مقصود عبادت نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ یہ بھی ہوا ہے کہ اشکال عبادت کے اختلاف کی وجہ سے مذہبی نزاعات پیدا ہوئے، ایک قوم نے دوسری قوم کو گم راہ قرار دیا اور بسا اوقات نوبت جدال تک پہنچ گئی۔ آج بھی مختلف قوموں کے درمیان مذہبی اختلافات کی ایک بڑی وجہ عبادت کے اشکال و اعمال کا اختلاف ہی ہے۔
ماضی میں یہود و نصاریٰ نے اس معاملہ میں کافی غلو کا مظاہرہ کیا ہے۔ قبلۂ عبادت کے مختلف ہونے کی وجہ سے ایک نے دوسرے کو گم راہ اور بے دین قرار دیا او رباہم اختلاف و نزاع کی آگ اس شدت کے ساتھ بھڑکی کہ ان کے عبادت خانے بھی اس کے شعلوں سے محفوظ نہ رہے۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر ان لفظوں میں ہوا ہے:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّٰہِ أَنْ یُّذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ وَسَعٰی فِیْ خَرَابِہَا أُوْلٰٓءِکَ مَا کَانَ لَہُمْ أَنْ یَّدْخُلُوْہَٓا إِلاَّ خَآءِفِیْنَ لہُمْ فِیْ الدُّنْیَا خِزْیٌ وَلَہُمْ فِیْ الآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ .وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَیْْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ . (البقرہ۲: ۱۱۴۔ ۱۱۵)
’’ اور ان سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ کی مساجد میں اس کے ذکر سے روکیں اور ان کی ویرانی کے درپے ہوں ۔ ان کے لیے زیبا نہ تھا کہ ان میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں بڑی سزا ہے۔ مشرق ہو یا مغرب، دونوں اللہ ہی کے ہیں تو جدھر بھی رخ کرو اسی طرف اللہ موجود ہے۔ اللہ وسعت والا اور علم والا ہے۔‘‘
یہود نے اس کوتاہ اندیشی اور ظاہر پرستی کا مظاہرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بھی اس وقت کیا جب تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا۔ انھوں نے اس تبدیلی پر کافی شور وغوغا برپا کیا۔ ان نادانوں کو بتایا گیا کہ سمت قبلہ کا اختلاف دین میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اصل اہمیت نیکی کو حاصل ہے اور یہی اس کا مغز و جوہر ہے اس لیے اس کے حصول میں مسابقت کی جائے۔ قرآن کے الفاظ ہیں: وَلِکُلٍّ وِجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْْرَاتِ.(البقرہ۲: ۱۴۸) اسی سورہ میں آگے چل کر اس حقیقت کو ان لفظوں میں مزید واضح کیا گیا ہے:
لَّیْْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآءِکَۃِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّنَ وَآتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآءِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَالْمُوْفُونَ بِعَہْدِہِمْ إِذَا عَاہَدُوْا وَالصَّابِرِیْنَ فِیْ الْبَأْسَآءِ والضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَأْسِ أُولٰءِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَأُولٰءِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ.(البقرہ۲: ۱۷۷)
’’ نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا منہ مشرق کی طرف کر لو یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر، روز آخرت پر، کتابوں پر اور نبیوں پر ایمان رکھے۔ اور مال کی حاجت و محبت کے باوجود اس کو رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے۔ نیز گردن چھڑانے میں خرچ کرتا ہو اور نماز قائم کرتا ہو او رزکوٰۃ دیتا ہو، اور جو لوگ عہد کر لینے کے بعد عہد کو پورا کرتے ہوں، اور تنگ دستی، بیماری اور جنگ میں ثابت قدم رہتے ہوں ۔ ایسے ہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ فی الواقع خدا ترس ہیں۔‘‘
دوسری قوموں کی طرح مشرکین عرب بھی مذہبی اعمال و رسوم کی پیروی کو مقصود عبادت سمجھتے تھے۔ چنانچہ دستور کے مطابق وہ حج سے واپسی پر اپنے گھروں میں پیچھے سے داخل ہوتے اور اس کو ایک بڑی نیکی خیال کرتے تھے۔ قرآن نے اس رسم کو بے فائدہ قرار دیا اور بتایا کہ نیکی دراصل تقویٰ ہے:
وَلَیْْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِہَا وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی وَأْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ أَبْوَابِہَا وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.(البقرہ۲: ۱۸۹)
’’ نیکی یہ نہیں ہے کہ تم گھروں میں پیچھے سے آؤ، بلکہ نیکی اس شخص کی ہے جس نے تقویٰ اختیار کیا، اور گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو۔ اللہ کی نافرمانی سے بچو تاکہ تم کو فلاح حاصل ہو۔‘‘
ایام حج میں عرفات سے واپسی کے بعد حجاج منیٰ میں قیام کرتے ہیں۔ اس قیام کی مدت میں اختلاف ہوا تو فرمایا گیا:
وَاذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْ أَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْْنِ فَلاآإِثْمَ عَلَیْْہِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلاآ إِثْمَ عَلَیْْہِ لِمَنِ اتَّقٰی وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا أَنَّکُمْ إِلَیْْہِ تُحْشَرُونَ.(البقرہ۲: ۲۰۳)
’’ اور گنتی کے چند دنوں میں اللہ کو یاد کرو، جو شخص دو دنوں میں اٹھ کھڑا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو ٹھہرا رہے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔ یہ رعایت ان کے لیے ہے جو تقویٰ کا لحاظ رکھتے ہوں۔ اللہ کی نافرمانی سے بچو او رجان لو کہ تم اس کے حضور میں اکٹھے کیے جاؤ گے۔‘‘
مذکورہ بالا آیات کریمہ سے معلوم ہوا کہ اسلام عبادت کے اشکال و مراسم کی بجا آوری کا حکم تو دیتا ہے کہ ان کے بغیر عبادت کی ادائیگی ممکن نہیں ہے، لیکن وہ اس میں غلو کو پسند نہیں کرتا کہ یہ چیز عبادت گزار کو مقصود عبادت سے ، جو دراصل نیکی اور تقویٰ ہے، غافل کر سکتی ہے۔ اگر مقصد عبادت حاصل نہ ہو تو مجرد عبادت کے ظاہری اعمال و رسوم کی ادائیگی سے کوئی فائدہ نہ تو ا س دنیا میں حاصل ہو گا اور نہ ہی آخرت میں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے بھی واضح کیا کہ ظواہر عبادت میں غلو کوئی پسندیدہ چیز نہیں، بلکہ منافی عبادت ہے۔ عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جمرہ کے پاس اس حال میں دیکھا کہ لوگ آپ سے مسائل پوچھتے جاتے تھے۔ ایک شخص نے کہا ، یا رسول اللہ میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی۔ آپ نے فرمایا، اب رمی کر لو، اس میں کچھ حرج نہیں (رم ولا حرج فیہ) دوسرے نے کہا، یا رسول اللہ میں نے قربانی سے پہلے سر منڈوا لیا۔ آپ نے فرمایا،اب قربانی کر لو، اس میں کچھ حرج نہیں (انحر ولا حرج ) پس آپ سے جس چیز کی بابت پوچھا گیا ، خواہ وہ مقدم کی گئی ہو یا موخر، تو آپ نے یہی فرمایا کہ اب کر لو کوئی حرج نہیں۔ (افعل ولا حرج فیہ)۵۷
مناسک حج میں تقدیم و تاخیر سے متعلق ایک دوسری روایت ملاحظہ ہو:
عن اسامۃ بن شریک، قال خرجت مع رسول اللّٰہ حاجا فکان الناس یاتون، فمن قال یا رسول اللّٰہ سعیت قبل ان اطوف او اخرت شیئا، فکان یقول لا حرج الا علی رجل افترض عرض مسلم وہو ظالم فذالک الذی حرج وہلک. ۵۸
’’ اسامہ بن شریک کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے نکلا۔ پس لوگ آپ کے پاس آتے، کوئی کہتا یا رسول اللہ میں نے طواف سے پہلے سعی کر لی، کوئی کہتا، میں نے فلاں چیز پہلے کر لی اور فلاں چیز بعد میں کی۔ آپ ان کو جواب دیتے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ حرج کی بات اور ہلاک کرنے والی بات تو یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی عزت پر حملہ کرے۔‘‘
معلوم ہوا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں پر جو عبادات فرض کی ہیں ان میں اصل اہمیت اعمال و رسوم کو نہیں، بلکہ اس کی روح یعنی تقویٰ کو حاصل ہے۔
اسلام میں جو چار عبادتیں (نماز ، زکوٰۃ،روزہ، حج) فرض ہیں ان کا مقصود ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا ، تقویٰ ہے یعنی دل کی کامل رضا مندی سے اللہ کی فرماں برداری۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کی اطاعت و بندگی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود آدمی کا نفس اور اس کی متلون خواہشات ہیں۔ یہ خواہشات بڑی سرکش اور منہ زور واقع ہوئی ہیں۔ اگر آدمی ہمہ وقت بیدار اور ہشیار نہ ہو اور ان بے عناں خواہشات کو مغلوب کرکے نہ رکھے تو یہ نہایت آسانی کے ساتھ قلب و دماغ پر اپنا غلبہ و تسلط جما لیتی ہیں۔ اس غلبہ کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خود اس کا نفس ہی اس کا معبود بن جاتا ہے اور وہ خواہشات نفسانی کی پیروی میں ہمہ تن مصروف ہو جاتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
أَفَرَأَیْْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰہَہُ ہَوَاہُ .(الجاثیۃ۴۵: ۲۳)
’’ کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہشات نفس کو ہی اپنا معبود بنا لیا ہے۔‘‘
اسلامی عبادات کی سب سے بڑی غرض یہی ہے کہ مومن ہواے نفس پر قابو یافتہ ہو اور خواہشات کی اطاعت و غلامی کے بجائے خداے واحد کی دل سے فرماں برداری کرے اور کسی حال میں اس کے حکم سے رو گردانی نہ کرے، دوسرے لفظوں میں تقویٰ کی زندگی گزارے۔ مختلف عبادات کے ذکر میں اس حقیقت کو نمایاں طور پر بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً نماز کے ذکر میں ہے:
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَا ۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوَاتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیّاً . (مریم۱۹: ۵۹)
’’ پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کے جاں نشین ہوئے جنھوں نے نماز ضائع کر دی اور خواہشات نفس کی پیروی کی۔ یہ لوگ عنقریب اپنی گم راہی کے انجام سے دو چار ہوں گے۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ترک نماز کا لازمی نتیجہ اتباع شہوات ہے اور اسی سے یہ حقیقت بھی واضح ہو گئی کہ قیام نماز کا ایک بڑا مقصد نفس کے غلبہ کو توڑنا ہے۔ فرمایاگیا ہے:
إِنَّ الصَّلَا ۃَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنکَرِ.( عنکبوت۲۹: ۴۵)
’’ بے شک نماز بے حیائی اور برے کا موں سے روکتی ہے۔‘‘
زکوٰۃ کے ذکر میں ارشاد ہوا ہے:
وَسَیُجَنَّبُہَا الْأَتْقَی الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی .( الّیل۹۲: ۱۸)
’’ اس (نار جہنم) سے اس خدا ترس کو محفوظ رکھا جائے گا جو اپنا مال اس لیے دیتا ہے کہ وہ پاک ہو جائے۔‘‘
اوپر کی آیت میں جس پاکیزگی کا ذکر ہے اس سے مراد بخل اور حرص مال کی گندگی سے نفس کا پاک ہونا ہے:
وَمَنْ یُوْقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ . (التغابن۶۴: ۱۶)
’’ اور جو شخص حرص نفس کی آلودگی سے محفوظ رکھا گیا تو ایسے ہی لوگ فلاح پائیں گے۔‘‘
روزہ کے بیان میں ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.(البقرہ۲: ۱۸۳)
’’ اے ایمان والو، تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر وہ فرض تھے تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔‘‘
حج کے ذکر میں ہے:
لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلَکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ. (الحج۲۲: ۳۷)
’’ اور اللہ کو نہ جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، اس کے پاس جو چیز پہنچتی ہے وہ صرف تمھارا تقویٰ ہے۔‘‘
مشرکین عرب کے یہاں یہ دستور تھا، اور یہود میں بھی یہ رسم مروج تھی کہ وہ جانوروں کی قربانی کرکے اس کا خون عبادت گاہ پر چھڑکتے اور اس کے گوشت کو مذبح پر جلا کر اس کی خوش بو کو خدا تک پہنچاتے اور یہ گمان کرتے کہ خدا اس عمل سے خوش ہوتا ہے اور ان کے گناہ معاف کیے جاتے ہیں۔ انھیں بتایا گیا کہ قربانی کامقصد ان ظاہری اعمال و رسوم کی انجام دہی نہیں، بلکہ اس کا اصل مقصد تقویٰ ہے، یعنی اللہ نے جانوروں کی شکل میں جو نعمت ان کو بخشی ہے اس پر اس کا شکر بجا لائیں اور اس کے نام پر ان کو ذبح کریں تاکہ دلوں سے مال کی محبت نکلے اور فاقہ کشوں کی بھوک مٹانے کا سامان ہو۔
اسلام کے تصور عبادت کی اس تفصیل و توضیح سے قارئین کو معلوم ہو گیا کہ دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اس کا تصور عبادت زیادہ جامع اور ہمہ گیر ہے۔ یہ ایک موحدانہ تصور عبات ہے جس میں شرک کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اس میں عبادت کے اشکال و مراسم کے بجائے اس کی روح و کنہ (تقویٰ) کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں عبادت کے راہبانہ تصور کی مکمل طور پر نفی کی گئی ہے اور دین و دنیا کی تفریق کے قدیم مذہبی تصور کو ختم کرکے ہر اس کا م کو، خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، عبادت قرار دیا گیا جو خدا کے حکم کے مطابق اس کی رضا کے لیے کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں حقوق اللہ اور حقوق العباد، دونوں پر عبادت کا اطلاق کیا گیا اور ان کو مناسب اہمیت دی گئی ہے۔
لیکن اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ اسلام کا یہ وسیع تصور عبادت اب خود مسلم معاشرہ میں ایک اجنبی چیز بن چکاہے۔ مسلمانوں نے یہودو نصاریٰ کی پیروی میں عبادت کو رسمی پرستش اور اس کے چند ظاہری اعمال و رسوم کی انجام دہی تک محدود کر دیا ہے۔
معاملات زندگی میں خدا کی فرماں برداری اس کے دائرہ سے خارج ہے۔ غربا و مساکین کی خبر گیری سے، جسے اسلام میں عبادت کا درجہ حاصل ہے، اکثر مسلمان بالکل غافل ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات ان کا غیر موحدانہ رویہ ہے۔ بہت سے مسلمان نمازیں پڑھتے ہیں، مگر بزرگان دین کے مزارات پر جا کر وہاں سجدے بھی کرتے ہیں اور ان کو کار ساز سمجھ کر حاجت روائی کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ اس سے بڑی توہین عبادت اورکیا ہو گی۔ مختصر یہ کہ عبادت اب ایک رسمی عمل ہے اور اس کا مقصد صرف حصول ثواب ہے نہ کہ تقویٰ اور تزکیۂ نفس۔
__________
۴۲ ایک صوفی بزرگ بیس سال تک مستقل کھڑے رہے صرف نماز میں تشہد کے لیے بیٹھتے تھے۔ (کشف المحجوب ۲۹۲) سری ایک بڑے عبادت گزار صوفی گزرے ہیں۔ وہ اٹھانوے برس تک زندہ رہے اور سوائے مرض الموت کے کبھی لیٹے نہیں ۔ (احیاء العلوم۴/۳۴۹) ایک چشتی بزرگ خواجہ ابو محمد اپنے مکان کے ایک گہرے کنویں میں الٹا لٹک کر عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ (سیر الاولیاء ۴۰) مزید معلومات کے لیے قارئین ابن الجوزی کی کتاب ’’ تلبیس ابلیس‘‘ ملاحظہ کریں۔
۴۳ رواہ البخاری، کتاب الایمان، باب: الدین یسر۔
۴۴ رواہ البخاری، کتاب الایمان، باب: الدین یسر۔
۴۵ رواہ مسلم و احمد و ابوداؤد۔
۴۶ ابو داؤد، باب: القصد فی الصلوٰۃ۔
۴۷ رواہ البخاری، باب: التہجد باللیل،باب: ما یکرہ من التشدید فی العبادۃ۔
۴۸ ایضاً
۴۹ سنن ابی داؤد، کتاب الایمان والنذور، باب: من رای علیہ کفارۃ اذا کان فی معصیۃ۔
۵۰ ایضاً، مزید دیکھیں بخاری، کتاب الایمان والنذور، باب: النذر فیما لا یملک وفی معصیۃ۔
۵۱ صحیح بخاری، کتاب الایمان والنذور، باب: النذر فیما لا یملک وفی معصیۃ۔
۵۲ رواہ الطبرانی فی الکبیر باسناد حسن۔
۵۳ رواہ احمد و مسلم و ابو داؤد۔
۵۴ سنن ابوداؤد، کتاب الادب، باب: فی الحد۔
۵۵ رواہ احمد باسناد صحیح۔ یہ قصہ صحیحین وغیرہ میں بھی لفظی فرق کے ساتھ مذکور ہے۔ دیکھیں بخاری، باب: اذا طول الامام وکان للرجل حاجۃ۔
۵۶ رواہ مسلم۔
۵۷ بخاری و مسلم، مزید دیکھیں، کتاب العلم لابن عبد البر، ۱/ ۲۴۔(رقم ۱۲۷)
۵۸ مشکوٰۃ، کتاب المناسک۔
________________________