[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
’’محدث ‘‘کا اگست ۲۰۰۵ کا شمارہ خاصی دیر سے مہینے کے آخر میں نکلا۔ اس میں ایک صاحب پروفیسر ضیاء اللہ برنی نے امامت زن کے مسئلہ پر خامہ فرسائی کی ہے۔ حسب عادت وہ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ آدمی جب دلائل سے عاجز آجاتا ہے تو ذاتیات پر اتر آتا ہے، طعنے دینے شروع کر دیتا ہے۔ عمرگزیدگی کا طعنہ (خدا کا شکر ہے کہ مردم گزیدہ نہیں ، ورنہ غالب کی طرح آئینے سے بھی ڈرتا رہتا)، فن حدیث سے ناواقفیت کا طعنہ، کج بحثی کا طعنہ، صداقت وامانت کو چھوڑنے کا طعنہ، من گھڑت موقف کا طعنہ اور نہ جانے کون کون سے طعنے۔ میرے بھائی طعنوں سے تحقیقی مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔ بہر کیف ان طعنوں کا جواب طعنوں سے دینے کی بجائے میں قرآن مجید کی اس ہدایت پر عمل کروں گا کہ اگر تم صبر کرو تو صبرتمھارے لیے بہتر ہے ۔
سب سے پہلے میں اس افترا پردازی کا جواب دینا چاہتا ہوں جس میں قرآن کالج سے میری باعزت فراغت کا ذکر کیا گیا ہے۔میں اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہوں گا، صرف ’’مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور‘‘ کے مراسلہ نمبر ۰۵/ ۵۳ مورخہ ۵مئی ۲۰۰۵ کا حوالہ دوں گا جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’قرآن کالج کے لیے آپ کی گراں قدر تدریسی ذمہ داریاں قابل تحسین ہیں، لیکن آپ کی طویل العمری اور صحت کے پیش نظر مرکزی انجمن کی انتظامیہ نے طے کیا ہے کہ آپ کو قرآن کالج کی تدریسی ذمہ داریوں سے ریٹائر کر دیا جائے ۔‘‘ناظم اعلیٰ کے دفتر سے اس چٹھی کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ رہی ساتھ رہنے والے نمازیوں کے ساتھ میرے متشددانہ طرز عمل کی بات تو اس کے جواب میں اتنا ہی کہوں گا۔ ’یا ایھا الذین اٰمنوا ان جاء کم فاسق بنباٍ فتبینوا‘ (۴۹: ۶) ’’ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو۔‘‘ مضمون نگار سے گزارش ہے کہ وہ ایل بلاک کی مسجد الہدیٰ میں تشریف لائیں اور دیکھیں کہ نمازیوں کے ساتھ میرا سلوک کیسا ہے اور وہ میرا کتنا احترام کرتے ہیں۔ ہاں اس مسجد میں ایک نکاح خواں خطیب ہیں جو عربی زبان سے قطعی ناآشنا ہیں۔ خطبۂ جمعہ میں زیر زبر کی غلطیاں اکثر کرتے رہتے ہیں ۔ ان کی اصلاح ضرور کرتا رہتا ہوں۔
اب کچھ مضمون نگار کی علمی غلط فہمیوں کے بارے میں اپنی گزارشات پیش کروں گا۔
مجھے فن حدیث سکھانے سے پہلے میرے اس سوال کا جواب مضمون نگار کے ذمہ ہے کہ حدیث ام ورقہ کو ابن خزیمہ اور علامہ عینی کے پائے کے ناقدین نے صحیح قرار دیا ہے اور عصر حاضر کے سب سے بڑے محدث ناصر الدین البانی نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے حسن کہا ہے تو آپ کے شیخ الحدیث ثناء اللہ اسے کس بنا پر ضعیف قرار دے رہے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق اس کے راوی ولید بن عبداللہ بن جمیع پر ناقدین نے کلام کیا ہے، مگر کسی نے ا س حدیث کو ضعیف قرار نہیں دیا۔
مضمون نگار نے اعتراض کیا ہے کہ سنن ابی داؤدکی روایت کو قبول کیا جاتا ہے ، حالانکہ اس کی سند میں بھی ولید ہے اور دار قطنی کی دوسری روایت میں بھی وہی راوی ہے، اسے قبول کیوں نہیں کیا جاتا۔ اگر مضمون نگار نے میرا جواب اچھی طرح پڑھا ہوتا تو وہ یہ اعتراض نہ اٹھاتے۔ سنن ابی داؤد کی روایت اس لیے ثقہ ہے کہ یہ روایت ولید نے اپنی دادی سے کی ہے جو ثقہ ہیں، جبکہ سنن دارقطنی کی دوسری روایت ولید نے اپنی والدہ سے کی ہے جو مجہول الحال ہے۔
سنن دارقطنی کی روایت کے بارے میں مقالہ نگار کا دعویٰ ہے کہ’کانت تؤم‘ کے الفاظ کہیں بھی موجود نہیں۔ کاش صاحب مضمون نے سنن دار قطنی کو کبھی کھول کر دیکھا ہوتا! تو وہ یہ دعویٰ کبھی نہ کرتے۔ اب برنی صاحب سنن دار قطنی مطبوعہ عالم الکتب بیروت جلد۱: ۴۰۳ کھولیں، وہاں ان کو باب صلاۃ النساء جماعۃ کے تحت یہ حدیث لکھی ہوئی ملے گی: ’عن ام ورقۃ وکانت تؤم ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آذن لہا ان تؤم اھل دارھا‘ مجھے امید ہے کہ حدیث کے الفاظ سے مقالہ نگار کو ثبوت مل جائے گا۔ انھوں نے مجھ پر جو ناروا الزام لگایا ہے، وہ بارگاہ خداوندی میں اس کے جواب کے لیے تیار رہیں۔ میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط الفاظ کی نسبت کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ہاں مضمون نگار نے یہ کہہ کر کہ سنن دارقطنی میں اس حدیث کی عبارت میں ’نساء اھل دارھا‘ کی صراحت آگئی ہے، غلط الفاظ کو رسالت مآب کی طرف منسوب کیا ہے۔ کیونکہ سنن دارقطنی کی دونوں روایات میں یہ الفاظ قطعی موجود نہیں۔ مذکورہ بالا روایت میں بھی ’تؤم اھل دارھا‘ کے الفاظ ہیں اور دوسری روایت میں بھی جو حدیث کی کسی کتاب میں موجود نہیں ’تؤم نساءھا‘ (اپنی عورتوں کی امامت کرے) کے الفاظ ہیں۔ اس لیے میرا یہ خیال غلط نہیں کہ ضیاء اللہ برنی صاحب نے سنن دارقطنی کا نام تو سن رکھا ہے، مگر کبھی پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
میرے بھائی صرف اہل ’’اشراق‘‘ کے استدلال کا محور حدیث ام ورقہ نہیں، بلکہ امام ابو ثور، مزنی، امام طبری (اور ایک روایت کے مطابق امام داؤد ظاہری) کے استدلال کا محور بھی یہ صحیح حدیث ہے۔ ذرا ’’بدایۃ المجتہد‘‘ اور ’’المغنی‘‘ کو اٹھا کر دیکھ لیجیے، وہاں آپ کو اس اختلاف کا ذکر ملے گا۔ یہ مسئلہ متفقہ نہیں، بلکہ اس میں اختلاف پایا جاتا ہے جو صحیح حدیث پر مبنی ہے۔
ام ورقہ عورتوں اور مردوں کی امامت کرتی تھیں، یہ احتمال نہیں، بلکہ یقینی بات ہے جس پر حدیث کے الفاظ دلالت کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ام ورقہ کو اجازت دی گئی کہ ان کے لیے اذان دی جائے اور اقامت کہی جائے۔ نیز ان کا موذن ایک بوڑھا آدمی تھا او ران کے گھر میں ایک غلام اور لونڈی بھی تھی۔ اگر لفظ دار کو بیت تک محدود کر دیا جائے تب بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ موذن اور غلام ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ کیا موذن اقامت کہنے کے بعد ان کے پیچھے سے بھاگ جاتا تھا؟ اسی لیے امیر صنعانی (متوفی ۱۱۸۲) نے ’’بلوغ المرام‘‘ کی شرح ’’سبل السلام‘‘ میں فرمایا ہے کہ عورت اپنے اہل خاندان کی امامت کرے گی ، خواہ اس میں مرد ہی کیوں نہ ہو۔ (۲: ۳۰)
مقالہ نگار نے ایک بات ایسی کہی ہے جس پرعذر گناہ بدتر ازگناہ کا قول صادق آتا ہے۔ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے کویت کے الموسوعۃ الفقہیہ کے حوالے سے ذکر کیا تھا کہ عزت عبید وعاس کی تحقیق سے شائع ہونے والے نسخہ میں ’ان تؤم نساء اھل دارھا‘ (وہ اپنے اہل محلہ کی عورتوں کی امامت کریں ) کے الفاظ درج ہیں۔ میں نے اس نسخہ کو دیکھا تو اس میں یہ الفاظ سرے سے موجود نہ تھے۔ چنانچہ میں نے لکھا کہ حافظ صاحب کو اتنی بڑی جسارت نہیں کرنی چاہیے۔ مقالہ نگار کو یہ الفاظ بہت کھلے ہیں۔ ان کے قول کے مطابق یہ حوالہ کویت کے الموسوعۃ الفقہیہ میں تو موجود ہے، اگر اصل ماخذ میں حوالہ موجود نہیں تو کیا ہوا؟ گویا اگر کسی بڑی کتاب میں غلط حوالہ ہو تو اسے بغیر تحقیق کے قبول کر لینا چاہیے۔ حافظ صاحب اہل حدیث کے بڑے ہیں۔ ان پر واجب تھا کہ وہ ایک ایسے حوالہ کی جو سب کتب حدیث سے متصادم ہے، اصل کتاب سے جو بآسانی دست یاب ہے ، تحقیق کر لیتے۔ انھوں نے بغیر سوچے سمجھے اس حوالہ کو مان لیا جو ان کے ذہنی تحفظات کی تائید کرتا تھا۔
’’اشراق‘‘ کے اگست کے شمارے میں میرا جو مضمون شائع ہوا ہے، اس کا عنوان ہے ’’چہرے کا پردہ‘‘۔ اس میں میں نے کتاب وسنت کی روشنی میں مفسرین، محدثین اورلغویین کی رائے کو پیش کیا ہے اور لکھا ہے کہ جمہورعلما کی رائے میں عورت کے لیے چہرے کا پردہ واجب نہیں، لیکن صاحب مضمون نے جذبات بھڑکانے کے لیے ’’مردوزن کے اختلاط کے جواز‘‘ کا اضافہ اپنی طرف سے کیا ہے۔ یہ بہتان ہے، اللہ ان کو ہدایت دے۔ اس قسم کی الزام تراشیوں کو دیکھ کر علامہ اقبال نے کہا تھا کارملا فی سبیل اللہ فساد رہی یہ بات کہ یہ نیا انحراف ہے تو اس انحراف کے مرتکب وہ سب ائمۂ کرام ہیں جن کا حوالہ میں نے اپنے مضمون میں دیا ہے۔ اس مضمون پر اپنی رائے زنی سے پہلے وہ دور حاضر کے سب سے بڑے محدث ناصرالدین البانی کی کتاب ’’حجاب المراۃ المسلمۃ‘‘ اور ’’جلباب المراۃ المسلمۃ‘‘ پڑھ لیں۔ ان کی تسلی ہو جائے گی۔ محدث البانی سلفی کا مرتبہ اور مقام کیا ہے؟ جماعت اہل حدیث کے کسی پڑھے لکھے آدمی سے پوچھ لیں۔
رفیع اللہ شہاب مرحوم (ایک مسلمان کو آنجہانی کہتے ہوئے خدا کا خوف آنا چاہیے) گردن زدنی تھے، کیونکہ ان کو غلام احمد پرویز سے نسبت تھی۔ میں گردن زدنی ہوں، کیونکہ مجھے جاوید احمد غامدی سے نسبت ہے۔ اس ملک میں اگر کوئی پارسا جنت کا اجارہ دار ہے تو وہ مذہبی پیشوا ہے جو کہتا ہے مستند ہے میرا فرمایا ہوا خواہ اس کا فرمایا ہوا کتنا ہی غیر معقول اور کتاب وسنت سے متصادم ہی کیوں نہ ہو۔ یہ پارسائی آپ کو مبارک ہو۔
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
اگر جاوید احمد غامدی سے نسبت طعنہ ہے تو مجھے اس پر فخر ہے کہ میں فکر فراہی سے منسوب ہوں۔ میں انحراف کی راہیں نہیں کھولتا ۔ میں تو آپ لوگوں کے ان ذاتی خیالات اور میلانات سے پردہ اٹھاتا ہوں جن کو آپ لوگوں نے کتاب وسنت کا لبادہ پہنا کر وحی کا درجہ دے رکھا ہے۔
میرے بھائی ،میرے دوست ،میرے برخوردار اختلاف رائے کو اس طرح برداشت کیجیے جیسے ہمارے اسلاف نے برداشت کیا۔ بدگمانی، افترا پردازی اور الزام تراشی سے تحقیقی مسائل حل نہیں ہوتے۔ اس کے لیے مطالعہ، عرق ریزی، محنت اور نیک نیتی درکار ہے۔
ادارۂ ’’اشراق‘‘ کے بارے میں مضمون نگار نے جو ’’موتی‘‘ بکھیرے ہیں ، ان کو پڑھ کر اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ ’’محدث‘‘ کا نام کتنا بلند ہے اور کام ؟ ۔وما توفیقی الا باللّٰہ العظیم۔
________________