HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: آل عمران ۳: ۱۱۰-۱۱۷ (۲۰)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)


  کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ، تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ، وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ، وَلَوْ اٰمَنَ اَہْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ، مِنْہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ، وَاَکْثَرُہُمُ الْفٰسِقُوْنَ{۱۱۰} لَنْ یَّضُرُّوْکُمْ اِلَّآ اَذًی، وَاِنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ یُوَلُّوْکُمُ الْاَدْبَارَ ، ثُمَّ لاَ یُنْصَرُوْنَ{۱۱۱} ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْٓا، اِلاَّبِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ، وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ، وَبَآء ُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ، وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الْمَسْکَنَۃُ. ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ، وَیَقْتُلُوْنَ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ. ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ{۱۱۲}
لَیْسُوْا سَوَآئً ، مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ، یَتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَآئَ الَّیْلِ، وَہُمْ یَسْجُدُوْنَ {۱۱۳} یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ، وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ، وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ، وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَیُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ، وَاُولٰٓـئِکَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ {۱۱۴} وَمَا یَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ یُکْفَرُوْہُ، وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِالْمُتَّقِیْنَ {۱۱۵}
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ اَمْوَالُہُمْ، وَلَآ اَوْلاَدُہُمْ مِّنَ اللّٰہِ شَیْئًا، وَاُولٰٓـئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ، ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ {۱۱۶} مَثَلُ مَا یُنْفِقُوْنَ فِیْ ہٰـذِہِ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا، کَمَثَلِ رِیْحٍ فِیْہَا صِرٌّ، اَصَابَتَ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ، فَاَہْلَکَتْہُ، وَمَا ظَلَمَہُمُ اللّٰہُ، وَلٰـکِنْ اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ{۱۱۷}
(ایمان والو، اِس وقت تو اللہ کی عنایت سے) تم ایک بہترین جماعت ہو جو لوگوں (پر حق کی شہادت) کے لیے برپا کی گئی ہے۔ تم بھلائی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر سچا ایمان رکھتے ہو۔ ۱۸۰ اور یہ اہل کتاب بھی (قرآن پر) ایمان لاتے تو اِن کے لیے بہتر ہوتا۔ ۱۸۱ (اِس میں شبہ نہیں کہ) اِن میں ماننے والے بھی ہیں، لیکن (افسوس کہ) زیادہ نافرمان ہی ہیں۔ یہ تمھیں کچھ اذیت دے سکتے ہیں، اس کے سوا یہ تم کو ہر گز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اور (مطمئن رہو کہ) اگر یہ تم سے لڑیں گے تو لازماً پیٹھ دکھائیں گے۔ پھر اِن کو کہیں سے کوئی مدد نہ ملے گی۔ ۱۸۲ اِنھیں جہاں دیکھیے، اِن پر ذلت کی مار ہے۔ اللہ کی طرف سے اور لوگوں کی طرف سے کسی معاہدے کے تحت کوئی سہارا، البتہ مل جاتا ہے۔ یہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ہیں اور اِن پر پست ہمتی تھوپ دی گئی ہے۔ ۱۸۳  اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کی آیتوں کے منکر رہے ہیں اور اُس کے پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں، اِس لیے کہ اِنھوں نے نافرمانی کی اور یہ ہمیشہ حد سے بڑھتے رہے ہیں۔ ۱۸۴ ۱۱۰۔۱۱۲
(یہ بات، البتہ واضح رہے کہ ) سب اہل کتاب یکساں نہیں ہیں۔ اِن میں ایک گروہ اپنے عہد پر قائم ہے۔ ۱۸۵  وہ راتوں کو اللہ کی آیتیں تلاوت کرتے اور (اُس کے سامنے) سجدہ ریز رہتے ہیں۔ اللہ پر اور قیامت کے دن پر سچا ایمان رکھتے ہیں، نیکی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے ہیں، بھلائی کے کاموں میں سبقت کرتے ہیں اور وہ خدا کے نیک بندوں میں سے ہیں۔ (اِس میں شبہ نہیں کہ وہ حق کے سچے طالب ہیں) اور (اپنے اِس رویے کے صلے میں) جو نیکی بھی کریں گے، اُس کے اجر سے محروم نہ ہوں گے ۱۸۶ اور اللہ اِن پرہیز گاروں سے خوب واقف ہے۔ ۱۱۳۔۱۱۵
(اِس کے بر خلاف ) جن لوگوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ منکرہی رہیں گے، اُن کے مال و اولاد۱۸۷ اللہ کے مقابل میں اُن کے کچھ بھی کام نہ آئیں گے اور وہ دوزخ کے لوگ ہیں، اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اِس دنیا کی زندگی میں جو کچھ وہ (بظاہر اللہ کی راہ میں ) خرچ کرتے ہیں، اُس کی تمثیل ایسی ہے کہ پالے کی ہوا ہو جو اُن لوگوں کی کھیتی پر چل جائے جنھوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہو اور اُنھیں ہلاک کر دے۔ ۱۸۸ (یہ اِسی کے سزاوار ہیں) اور (حقیقت یہ ہے کہ ) اللہ نے اِن پر کوئی ظلم نہیں کیا، بلکہ یہ آپ ہی اپنے اوپر ظلم کرتے رہے ہیں۔ ۱۱۶۔۱۱۷

۱۸۰؎  یہ بنی اسمٰعیل کے لیے تسلی اور بشارت ہے کہ ایمان و عمل کے لحاظ سے اس وقت وہ خیر امت ہیں، لہٰذا ان کا کوئی دشمن بھی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا یہی قانون بنی اسرائیل کے لیے بھی تھا، لیکن افسوس کہ ان کی نافرمانیوں نے انھیں ہمیشہ کے لیے اللہ کے غضب کا مستحق بنا دیا ہے۔ اس میں، ظاہر ہے کہ بنی اسمٰعیل کے لیے بھی تنبیہ ہے کہ دنیا کی امامت کا جو منصب انھیں حاصل ہوا ہے، اس پر وہ محض نسل ونسب کی بنا پر نہیں، بلکہ علم و عمل میں نیکی اور خیر کے علم بردار ہونے کی وجہ سے سرفراز ہوئے ہیں، لہٰذا ان کا یہ منصب صفات اور ذمہ داریوں کے ساتھ مشروط ہے۔ وہ ان ذمہ داریوں کے پورا کرنے والے ہوں گے تو یہ سرفرازی انھیں حاصل رہے گی اور ان سے گریز کریں گے تو لازماً اسی انجام کو پہنچیں گے جس کو یہ اہل کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے باربار کی تنبیہ کے باوجود پہنچ چکے ہیں۔

 ۱۸۱؎  اس جملے کے اندر جو ابہام و اجمال ہے، وہ استاذ امام کے الفاظ میں متکلم کے اس غضب کا غماز ہے جس کے الفاظ متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔

 ۱۸۲؎  یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور سرزمین عرب میں ان کے تمام قبائل ایسے ذلیل و خوار ہوئے کہ ہر طرف سے بالکل بے یارومددگار ہو کر رہ گئے اور ذلت کے ساتھ وہاں سے نکال دیے گئے۔

 ۱۸۳؎  مطلب یہ ہے کہ صرف یہاں نہیں، بلکہ دنیا میں ہر جگہ یہ اسی طرح ذلیل ہیں اور قیامت تک اسی طرح ذلیل و خوار رہیں گے۔ ذریت ابراہیم کے بارے میں اللہ کا قانون یہی ہے کہ وہ حق پر قائم ہوں تو ان کے لیے دنیا ہی میں سرفرازی کا وعدہ ہے اور اس سے انحراف کریں تو اس کی سزا بھی انھیں دنیا ہی میں مل جاتی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...یہ یہود کی شامت اعمال اور ان کی بد بختی کا بیان ہے کہ جہاں سے ان کو عزت و سرفرازی کی دولت دوجہاں لے کے لوٹنا تھا، یہ اپنی دوں ہمتی کی وجہ سے وہاں سے خدا کا غضب لے کر لوٹے، جس کے نتیجے میں ان پر ذلت مسلط کر دی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو منصب امامت وشہادت پر مامور فرمایا تھا۔ اگر یہ اس کی ذمہ داریاں ادا کرتے اور اپنے عہد پر استوار رہتے تو دنیا اور آخرت، دونوں میں ان کا مقام بہت اونچا تھا، لیکن یہ اپنی دنیا پرستی اور پست ہمتی کی وجہ سے اس کی ذمہ داریاں نہ سنبھال سکے اور خدا کے غضب کے مستحق ٹھہرے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۱۶۲)

 ۱۸۴؎  اللہ کی آیتوں کے انکار اور انبیا علیہم السلام کے قتل کا جو جرم ان سے سرزد ہوا، یہ اس کا سبب بیان ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نافرما نی اور حدود الہٰی سے تجاوز کی عادت ہی اس کا باعث ہوئی کہ یہ ایسے بدترین جرائم کے مرتکب ہو گئے۔

 ۱۸۵؎  یعنی انبیا علیہم السلام کی تصدیق اور ان کی لائی ہوئی شریعت کی پابندی کا جو عہد انھوں نے اپنے پروردگار کے ساتھ باندھا تھا، اس پر پوری طرح قائم ہیں۔

 ۱۸۶؎  اصل میں ’فلن یکفروہ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں فعل ’ کفر‘دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں یہ ’حرمان‘ کے مفہوم پر متضمن ہے۔ مدعا یہ ہے کہ یہ اہل کتاب اگرچہ ابھی اسلام نہیں لائے ہیں، لیکن اندر سے بالکل مومن صادق ہیں، لہٰذا ان کی کوئی نیکی بھی اجر سے محروم نہ رہے گی۔ اللہ تعالیٰ جانتے بوجھتے حق سے انکار کرنے والوں کے سوا کسی کو بھی اس کی نیکیوں کے صلے سے محروم نہیں کرتے۔

 ۱۸۷؎  یعنی وہ مال و اولاد جو خدا اور اس کے پیغمبروں کی تعلیمات سے بے پروائی کا باعث ہے۔

 ۱۸۸؎  اوپر جس طرح یہ بیان کیا ہے کہ حق کے سچے طالبوں کی کوئی نیکی بھی صلے سے محروم نہ ہوگی، اسی طرح یہاں بیان فرمایا ہے کہ جانتے بوجھتے حق کا انکار کر دینے والوں کی کوئی نیکی بھی ان کے کام نہ آئے گی۔ صدقہ اور خیرات ایک بڑی نیکی ہے، لیکن اس کی مثال بھی قیامت میں اس کھیتی کی ہو گی جس پر پالے والی ہوا چل جائے اور اس کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے۔

              [باقی]

 ـــــــــــــــــــ

B