HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

کھانے میں برکت

(مسلم، رقم ۲۷)

 

عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال: کنا مع النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فی مسیر. قال: فنفدت أزواد القوم. قال: حتی وہم بنحر بعض حمائلہم. قال: فقال عمر: یا رسول اﷲ، لو جمعت ما بقی من أزواد القوم فدعوت اﷲ علیہا. قال: ففعل. قال: فجاء ذوالبر ببرہ، وذوالتمر بتمرہ. قال: وقال مجاہد: وذوالنواۃ بنواہ. قلت: وما کانوا یصنعون بالنوی؟ قال: قالوا یمصونہ ویشربون علیہ الماء. قال: فدعا علیہا. حتی ملأ القوم أزودتہم. قال: فقال عند ذلک: أشہد أن لا إلہ إلا اﷲ وأنی رسول اﷲ. لا یلقی اﷲ بہما عبد غیر شاک فیہما إلا دخل الجنۃ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ لوگوں کا زاد راہ ختم ہونے کو آگیا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی سواریوں کو ذبح کرنے کا سوچنے لگے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہ آپ زاد راہ میں سے جو کچھ بچ رہا ہے ، اسے جمع کریں اور اس میں برکت کے لیے اللہ سے دعا کریں۔ آپ نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ جو والا جو لے آیا اور کھجور والا کھجور۔ مجاہد نے اضافہ کیا کہ گٹھلیوں والا گٹھلیاں لے آیا۔ میں نے پوچھا: وہ گٹھلیوں کا کیا کرتے تھے۔ کہا: وہ انھیں چوستے تھے اور بعد میں پانی پی لیتے تھے۔ (جب یہ سب جمع ہوگیا) تو ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم )نے ان پر دعا کی۔ ( اب لوگوں نے لینا شروع کیا) یہاں تک کہ سب نے اپنے لیے زاد سفر بھر لیا۔ آپ نے اس موقع پر فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ان دوباتوں کو مان کر جو بھی اللہ تعالیٰ سے ملے گا جنت میں جائے گا۔‘‘

عن أبی ہریرۃ أو عن أبی سعید شک الأعمش قال: لما کان غزوۃ تبوک أصاب الناس مجاعۃ. قالوا: یا رسول اﷲ، لو أذنت لنا فنحرنا نواضحنا فأکلنا وادہنا. فقال رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم: افعلوا؟ قال: فجاء عمر فقال: یا رسول اﷲ، إن فعلت قل الظہر. ولکن ادعہم بفضل أزوادہم، ثم ادع اﷲ لہم علیہا بالبرکۃ. لعل اﷲ أن یجعل فی ذلک. فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: نعم. قال: فدعا بنطع فبسطہ. ثم دعا بفضل أزوادہم. قال فجعل الرجل یجئ بکف ذرۃ. قال ویجئ الآخر بکف تمر. ویجئ الآخر بکسرۃ حتی اجتمع علی النطع من ذلک شئ یسیر. قال: فدعا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم علیہ بالبرکۃ ثم قال خذوا فی أوعیتکم. فأخذوا فی أوعیتہم حتی ما ترکوا فی العسکر وعاء الا ملأوہ. قال: فأکلوا حتی شبعوا وفضلت فضلۃ. فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم أشہد أن لا إلہ إلا اﷲ وأنی رسول اﷲ لا یلقی اﷲ بہما عبد غیر شاک فیحجب عن الجنۃ.

’’اعمش نے شک کے ساتھ کہا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ یا ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب غزوۂ تبوک کا سفر پیش آیا تو لوگوں کو فاقے نے آلیا۔ لوگوں نے حضور سے کہا: یارسول اللہ، اگر آپ اجازت دیں تو ہم سواری کے اونٹ ذبح کرلیں تاکہ ان کاگوشت کھائیں اور ان کے روغن سے فائدہ اٹھائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا :کر لو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے اور کہا: یا رسول اللہ، اگر آپ نے یہ کیا تو پیٹھیں(یعنی سواریاں) کم ہو جائیں گی۔اس کے بجائے آپ ان کے بچے ہوئے زاد راہ منگوایے اور اس پر اللہ سے برکت کی دعا کیجیے تاکہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ٹھیک ہے۔ چنانچہ آپ نے ایک کھال کی چٹائی منگوائی اور اسے بچھا دیا پھر بچے ہوئے زاد راہ منگوائے۔ چنانچہ ایک مٹھی بھر مکئی، دوسرا مٹھی بھر کھجور اور کوئی مٹھی بھر روٹی کے ٹکڑے لے آیا۔ یہاں تک کہ کھال پر چھوٹی سی ڈھیری لگ گئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور فرمایا: اسے اپنے برتنوں میں بھر لوچنانچہ لوگوں نے اپنے برتن بھر لیے۔ لشکر میں کوئی برتن نہیں بچا جسے انھوں نے نہ بھرا ہو۔پھر انھوں نے کھایا اور سیر ہو گئے۔ اضافی کھانا پھر بھی بچا ہوا تھا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ ان دو باتوں میں شک نہ کرنے والا اللہ تعالیٰ سے اس طرح نہیں ملے گا کہ اسے جنت سے روک دیا جائے۔‘‘
لغوی مباحث

حمائلہم : ’حمائل‘، ’حمولۃ‘ کی جمع ہے۔ اس سے مراد سواری کے اونٹ ہیں۔ نووی نے بیان کیا ہے کہ بعض روایات میں یہ جیم کے ساتھ ہے۔ اس صورت میں یہ ’ جمالۃ ‘ کی جمع ہے اور ’ جمالۃ ‘ ، ’جمل‘ (اونٹ) کی جمع ہے۔

النواۃ : کھجور کی گٹھلیاں۔ سوال یہ ہے کہ اس کا خوراک کے طور پر کیوں ذکر آیا ہے۔ اس کا جواب روایت ہی میں یہ دیا گیا ہے کہ لوگ ان کو چوستے رہتے تھے اور اس پر پانی پی لیتے تھے۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ خوراک کی عدم دستیابی کی صورت میں کھانے کی خواہش کو بہلانے کا ایک طریقہ ہے۔

أزودۃ : یہ ’ زاد ‘ کی جمع ہے اور اس سے مراد وہ سامان ہے جو مسافر راستے کی ضرورتوں کے لیے اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ اس روایت میں یہ برتن کے معنی میں آیا ہے۔ یعنی یہاں مظروف بول کر ظرف مراد لیا گیا ہے۔

تبوک : تبوک شام کے قریب ایک علاقہ ہے، جہاں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں ایک غزوہ ہوا تھا۔

نواضحنا: ’ نواضح‘ ، ’ ناضحۃ‘ کی جمع ہے اور یہ باربرداری کی اونٹنی کے لیے بولا جاتا ہے۔

نطع : چمڑے کی چٹائی۔ نووی میں لکھا ہے: اس کا مشہور تلفظ’ نِطَعٌ‘ ہے لیکن اسے ’ نِطْعٌ‘ ، ’ نَطَعٌ‘ اور ’ نَطْعٌ‘ بھی پڑھا جاتا ہے۔

ذُرَۃ: صاحب مصباح اللغات نے یہ لفظ ’ ذری‘ کے تحت دیا ہے اور اس کا اردو مترادف مکئی لکھا ہے۔ عربی سے انگریزی لغت المورد میں بھی اس کے معنی مکئی ہی بتائے گئے ہیں۔جبکہ شارح مسلم شبیر احمد عثمانی نے اس کا ہندی مترادف چینا بتایا ہے جو ایک اناج ہے، جس کے دانے چھوٹے اور گول ہوتے ہیں۔ہم نے اہل لغت ہی کی رائے کے مطابق ترجمہ کیا ہے اور وہی صحیح معلوم ہوتا ہے۔

کسرۃ : یہ ٹکڑے کے معنی میں ایک عام لفظ ہے۔ لیکن اس نوع کے سیاق وسباق میں یہ روٹی کے ٹکڑوں کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ہم نے ترجمے میں یہی معنی اختیار کیے ہیں۔

شئ یسیر: تھوڑی سی چیز۔ مراد یہ ہے کہ اگرچہ خوراک کی اشیا جمع کی گئیں، اس کے باوجود چھوٹی سی ڈھیری ہی لگی۔

معنی

صاحب مسلم اس روایت کو ایمانیات کے مباحث میں لائے ہیں۔ جس باب میں انھوں نے اس روایت کو درج کیا ہے اس کا عنوان: ’’جو توحید پر مرا ، وہ یقیناً جنت میں جائے گا‘‘ ہے۔بخاری میں بھی یہ واقعہ روایت ہوا ہے۔ امام صاحب نے اسے دو ابواب میں نقل کیا ہے۔ ایک باب کا عنوان: ’’کھانے میں شرکت...‘‘ اور دوسرے کا عنوان: ’’غزوے میں زاد راہ لینا‘‘ ہے۔ امام بخاری جس چیز کے استشہاد کے لیے اس روایت کو لائے ہیں، بالبداہت واضح ہے کہ وہ اس روایت کے اصل پہلو سے کوئی تعلق نہیں رکھتی اور یہ عنوانات اس جذبے کا مظہر ہیں کہ دنیوی تدابیر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اختیار کی جائیں۔ ہمارے خیال میں یہ محض تکلف ہے۔ البتہ ، امام مسلم اس روایت کو اس کے آخری حصے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کی مناسبت سے لائے ہیں۔ ہم جیسا کہ پچھلی روایت میں واضح کر چکے ہیں کہ قرآن مجید ایمان اور عمل صالح، دونوں کو ضروری قرار دیتا ہے۔ ان روایات کے الفاظ بظاہر دوسرے پہلو کی نفی کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری دعوت اور آپ کے سارے بیانات کو سامنے رکھیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ متکلم کا منشا نہیں ہے۔ آپ کی دعوت آپ کے ہر مخاطب پر پوری طرح واضح تھی ، لہٰذا آپ کی زبان سے صادر ہونے والے یہ مختصر بیانات اس پوری دعوت کے قبول کرنے ہی کا مفہوم رکھتے ہیں۔ توحید اور رسالت پر ایمان چونکہ اس دعوت کاسر عنوان ہے ، لہٰذا بالعموم اس نوع کی روایات میں اسی کا ذکر ملتا ہے۔ ایمان ہی کی جڑ پر اسلام کا شجر قائم ہے۔ جب ایمان کا ذکر کر دیا تو باقی بات آپ سے آپ اس میں شامل ہے۔

بعض روایات میں ذرہ برابر ایمان کو جہنم سے نکلنے کا سبب بتایا گیا ہے۔ اس روایت کو پڑھ کر خیال ہوتا ہے کہ ممکن ہے یہ بھی اسی حقیقت کو بیان کر رہی ہو۔ لیکن ہمارے خیال میں یہاں متکلم کا منشا یہ نہیں ہے۔

اس روایت کی اصل بات غزوۂ تبوک کے سفر میں ظاہر ہونے والے ایک معجزے کا بیان ہے۔ خوراک جب ختم ہو گئی تو آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تجویز پر بچا ہوا سامان جمع کرایا۔ اس میں برکت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ وہ دعا قبول ہوئی اور تھوڑی سی خوراک سے لشکر نے معجزانہ طور پراپنی ضروریات بھی پوری کر لیں یعنی اسے کھانے کے بعد آیندہ کے لیے ذخیرہ بھی کر لیا ۔ اس کے باوجود خوراک بچ گئی۔

اس واقعے سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی جو معیت حاصل تھی، اس کا اظہار ہوتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو پیغمبر کو دوسرے رہنماؤں سے ممتاز کرتی ہے۔ جب یہ چیز اس شان کے ساتھ ظاہر ہوئی تو آپ نے بجا طور پر کہا کہ جسے توحید اور میری رسالت پر سچا ایمان حاصل ہو گیا ، وہ اللہ تعالیٰ سے جنت ہی پائے گا۔ اس سیاق وسباق سے واضح ہے کہ آپ کی دعوت کو ماننے اور قبول کرنے کی بات ہے۔

شارحین نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشورہ دینے کو بھی موضوع بنایا ہے۔ ان کے خیال میں اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹا بھی بڑے کو مشورہ دے سکتا ہے۔ یہ بھی درحقیقت اسی جذبے کی مثال ہے جسے ہم اوپر بخاری کے عنوانات کے حوالے سے بیان کرچکے ہیں۔

متون

امام مسلم نے اس روایت کے دو متون نقل کیے ہیں۔ کتب حدیث میں زیادہ تر یہی متن نقل ہوئے ہیں۔ ان متون میں چند لفظی فرق ہیں مثلاً، پہلی روایت میں ’ حتی ہم بنحر‘ کے الفاظ ہیں۔ سنن کبریٰ میں ’حتی ہم‘ کے بجائے ’ فہم‘ آیا ہے۔ دوسری روایت میں مسلم کے متن کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور کو کہا تھا ’ان فعلت قل الظہر‘ ۔جبکہ اس روایت کے دوسرے متون میں فعل کی نسبت دوسروں سے ہے اور حضرت عمر کے الفاظ ’ان فعلوا قل الظہر‘ تھے۔اسی طرح ان روایات میں ’ذرہ ‘ ، ’ تمر‘ اور ’کسرہ‘ کے الفاظ معرف باللام آئے ہیں۔اس روایت کے ایک متن میں روٹی کے ٹکڑے لانے کا ذکر نہیں ہے۔

صحیح بخاری میں یہ واقعہ دو جگہ پر بیان ہوا ہے۔ امام بخاری نے جس متن کو ترجیح دی ہے، وہ ان دونوں متون سے کافی مختلف ہے۔ ہم یہاں یہ پورا متن نقل کر رہے ہیں:

عن سلمۃ رضی اﷲ عنہ قال: خفت أزواد القوم وأملقوا. فأتوا النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فی نحر إبلہم. فأذن لہم. فلقیہم عمر فأخبروہ. فقال: ما بقاؤکم بعد إبلکم. فدخل علی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم، فقال یا رسول اﷲ، ما بقاؤہم بعد إبلہم. فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ناد فی الناس فیأتون بفضل أزوادہم فبسط لذلک نطع. وجعلوہ علی النطع. فقام رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فدعا وبرک علیہ. ثم دعاہم بأوعیتہم فاحتثی الناس حتی فرغوا. ثم قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: أشہد أن لا إلہ الا اﷲ وأنی رسول اﷲ. (رقم ۲۳۵۲)
’’ حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کا زاد راہ کم ہو گیا اور وہ خوراک کے معاملے میں شدید احتیاج میں مبتلا ہو گئے۔ چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اونٹوں کو ذبح کرنے کی تجویز لے کر آئے۔ آپ نے ان کو اجازت دے دی۔ ان لوگوں کو حضرت عمر ملے تو انھوں نے ان کو بتا دیا۔ حضرت عمر نے کہا : اونٹوں کے بعد تمھارے پاس باقی کیا بچے گا۔ حضرت عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے کہا : یا رسول اللہ اونٹوں کے بعد ان کے پاس کیا بچے گا؟ آپ نے کہا: لوگوں میں اعلان کردو کہ وہ بچا ہوا زاد راہ لے آئیں۔ چنانچہ ایک چمڑے کی چٹائی بچھادی گئی اور لوگوں نے سامان اس کے اوپر رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اس میں برکت کے لیے دعا کی۔ پھر لوگوں سے کہا برتن لاؤ۔ لوگ ہاتھوں سے برتن بھرتے رہے ، یہاں تک کہسب فارغ ہو گئے۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘

اس روایت اور دیگر روایتوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اس کے مطابق دعا کی تجویز حضرت عمر کی نہیں تھی۔

کتابیات

بخاری، رقم۲۳۵۲، ۲۸۲۰۔ احمد، رقم۱۱۰۹۵۔ سنن کبریٰ ، رقم۸۷۹۴۔ ابویعلیٰ، رقم۱۱۹۹۔ ابن حبان، رقم۶۵۳۰۔

__________________

B