روی۱ أنہ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: خیر نساء رکبن الإبل صالح نساء قریش۲ أحناہ علی ولد فی صغرہ۳ وأرعاہ علی زوج۴ فی ذات یدہ.۵
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اونٹ کی سواری کرنے والی عورتوں ۱ میں سے سب سے بہتر قریش کی صالح عورتیں ہیں۔۲ وہ اپنے بچے کی ابتدائی عمر میں اس پر بہت مہربان اور اپنے شوہر کے مال کا زیادہ خیال رکھنے والی ہیں۔۳
۱۔اونٹ پر سواری کرنے والیوں سے یہاں عرب عورتیں مراد ہیں۔
۲۔مسلم، رقم۲۵۲۷کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اس وقت ارشاد فرمائی جب حضرت ام ہانی رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کرنے سے محض اس لیے معذرت کرلی کہ وہ اپنی تمام تر توجہ اپنے چھوٹے بچوں کی تربیت پر مرکوز کر سکیں اورکہیں پہلے شوہر سے ان کے بچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودن رات تنگ نہ کریں ۔
۳۔یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ قریش کی خواتین کا عرب کی سب خواتین سے بہتر ہونا اس وجہ سے ہے ، کیونکہ وہ اپنے بچوں کے لیے بہترین مائیں اور اپنے شوہروں کے لیے بہترین بیویاں ہیں۔ ظاہر ہے ایک صحت مند گھرانے کے پہلو سے کسی خاتون کے سب سے اہم اوصاف یہی ہیں۔
۱۔ یہ روایت بعض اختلافات کے ساتھ درج ذیل مقامات پرنقل ہوئی ہے:
بخاری، رقم۳۲۵۱، ۴۷۹۴، ۵۰۵۰۔ مسلم، رقم۲۵۲۷۔ احمدبن حنبل، رقم۲۹۲۶، ۷۶۳۷، ۷۶۹۵، ۸۲۲۷، ۹۱۰۲، ۹۷۹۶، ۱۰۰۶۱، ۱۰۵۳۲، ۱۶۹۷۱۔ ابن حبان، رقم۶۲۶۷، ۶۲۶۸۔ نسائی سنن الکبریٰ ، رقم۹۱۳۴۔ بیہقی، رقم ۱۴۴۹۳۔ ابویعلیٰ، رقم۲۶۸۶، ۶۶۷۳۔حمیدی، رقم۱۰۴۷۔ عبدالرزاق، رقم۲۰۶۰۳، ۲۰۶۰۴۔ ابن ابی شیبہ، رقم ۳۲۴۰۱، ۳۲۴۰۲، ۳۲۴۰۳۔
۲۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۳۲۵۱میں ’خیر نساء رکبن الإبل صالح نساء قریش‘(اونٹ کی سواری کرنے والی عورتوں میں سے سب سے بہتر قریش کی صالح عورتیں ہیں)کے بجائے ’نساء قریش خیر نساء رکبن الإبل‘ (اونٹ کی سواری کرنے والی عورتوں میں سے سب سے بہتر قریش کی عورتیں ہیں)کے الفاظ، جبکہ احمدبن حنبل، رقم۲۹۲۶میں ’خیر نساء رکبن أعجاز الإبل صالح نساء قریش‘(اونٹ کی پشت پرسواری کرنے والی عورتوں میں سے سب سے بہتر قریش کی صالح عورتیں ہیں) کے الفاظ، احمدبن حنبل، رقم۷۶۳۷میں ’خیر نساء رکبن نساء قریش‘(سواری کرنے والی عورتوں میں سے سب سے بہتر قریش کی عورتیں ہیں) کے الفاظ، احمدبن حنبل، رقم۱۶۹۷۱میں ’خیر نسوۃ رکبن الإبل صالح نساء قریش‘ (اونٹ کی سواری کرنے والی عورتوں میں سے سب سے بہتر قریش کی صالح عورتیں ہیں) کے الفاظ اور ابن ابی شیبہ،رقم ۳۲۴۰۳ میں ’خیر نساء رکبن الإبل صالحۃ نساء قریش‘ (اونٹ کی سواری کرنے والی عورتوں میں سے سب سے بہتر قریش کی صالح عورتیں ہیں)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
۳۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۳۲۵۱میں ’أحناہ علی ولد فی صغرہ‘( وہ بچے کی ابتدائی عمر میں اس کی بہتر نگہداشت کرنے والی ہیں) کے بجائے ’أحناہ علی طفل‘(وہ بچے کازیادہ خیال رکھنے والی ہیں) کے الفاظ، جبکہ مسلم، رقم ۲۵۲۷میں ’أحناہ علی یتیم فی صغرہ‘ (وہ یتیم بچے کی زیادہ نگہداشت کرنے والی ہیں) کے الفاظ اور احمدبن حنبل، رقم۹۱۰۲میں ’أحناہ علی ولد‘(وہ بچے کی زیادہ نگہداشت کرنے والی ہیں) کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۴۔ بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل، رقم۸۶۹۵میں ’أرعاہ علی زوج‘(وہ شوہر کی زیادہ نگہداشت کرنے والی ہیں) کے بجائے ’أرعاہ لزوج‘ (وہ شوہر کے لیے زیادہ نگہداشت کرنے والی ہیں) کے الفاظ، جبکہ ابویعلیٰ، رقم ۲۶۸۶ میں ’أرعاہ علی بعل‘(وہ خاوند کا زیادہ خیال رکھنے والی ہیں)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
۵۔ ابن حبان، رقم۶۲۶۸میں ’ولم ترکب مریم بنت عمران بعیرا قط‘ ( مریم بنت عمران نے کبھی اونٹ کی سواری نہیں کی) کے الفاظ کا اضافہ روایت ہوا ہے، تاہم بہت سی دوسری روایات بشمول بخاری، رقم ۳۲۵۱ سے یہ واضح ہے کہ یہ جملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا حصہ نہیں، بلکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے وضاحت ہے۔
احمد بن حنبل، رقم ۱۰۰۶۱میں یہ روایت اس طرح نقل ہوئی ہے:
روی أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:خیر نساء رکبن الإبل أحناہ علی ولدہ وأرعاہ علی زوج فی ذات یدہ یعنی نساء قریش.
’’روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اونٹ کی سواری کرنے والی عورتوں میں سے سب سے بہتر وہ ہیں جو بچے کی ابتدائی عمر میں اس کا زیادہ خیال رکھنے والی اور اپنے شوہر کے مال کی زیادہ نگہداشت کرنے والی ہوں، یعنی قریش کی عورتیں۔ ‘‘
بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل، رقم۲۹۲۶ میں اس روایت کا پس منظر قدرے تفصیل سے نقل ہواہے:
روی أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خطب امرأۃ من قومہ یقال لہا سودۃ وکانت مصبیۃ کان لہا خمسۃ صبیۃ أو ستۃ من بعل لہا مات. فقال لہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ما یمنعک منی؟ قالت واللّٰہ، یا نبی اللّٰہ،ما یمنعنی منک أن لا تکون أحب البریۃ الی، ولکنی أکرمک أن یضغوا ہؤلاء الصبیۃ عند رأسک بکرۃ وعشیۃ. قال: فہل منعک منی شیء غیر ذلک؟ قالت لا، واللّٰہ. قال لہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : یرحمک اللّٰہ ان خیر نساء رکبن أعجاز الإبل صالح نساء قریش، أحناہ علی ولد فی صغر وأرعاہ علی بعل بذات ید.
’’روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبیلے کی سودہ نامی خاتون کو نکاح کا پیغام بھیجا۔اس خاتون کے پہلے فوت شدہ شوہر سے پانچ یاچھ بچے تھے۔(اس نے آپ سے شادی کرنے سے معذرت کرلی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: مجھ سے شادی کرنے سے تمھیں کس چیز نے روکا؟ اس نے جواب دیا: خداکی قسم ، اے اللہ کے نبی، آپ سے شادی کرنے سے مجھے یہ چیز روک رہی ہے کہ آپ تو مجھ سے اچھائی کرنا چاہتے ہیں ، مگر میں آپ کی تکریم کرتی ہوں کہ میرے یہ بچے دن رات آپ کو تنگ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا کوئی اور وجہ بھی ہے؟ خاتون نے جواب دیا: خدا گواہ ہے کہ نہیں۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تم پر رحم فرمائے۔ بے شک اونٹ کی پشت پرسواری کرنے والی عورتوں میں سے سب سے بہتر قریش کی صالح عورتیں ہیں۔وہ بچے کی ابتدائی عمر میں اس کا زیادہ خیال رکھنے والی اور اپنے شوہر کے مال کی زیادہ نگہداشت کرنے والی ہیں۔‘‘
احمد بن حنبل، رقم۷۶۳۷ کے مطابق جس خاتون کو آپ نے نکاح کاپیغام بھیجا وہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنھا نہیں ، بلکہ ام ہانی رضی اللہ عنھا تھیں۔ ناصر الدین البانی صاحب نے بھی سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ جلد ۶صفحہ ۶۳میں یہی وضاحت کی ہے کہ مذکورہ خاتون اصلاً ام ہانی رضی اللہ عنھا تھیں۔
تخریج : محمد اسلم نجمی
کوکب شہزاد
ترجمہ و ترتیب : اظہار احمد
_________________