[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے ۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
اسلام کے تصور عبادت کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے لفظ عبادت کے معنی و مفہوم کو، جو عربی زبان ہی کا ایک لفظ ہے، ذہن نشین کر لیں۔ عبادت کے لغوی معنی انتہائی عجز وتذلل کے ہیں۔ امام راغب لکھتے ہیں:
’’عبودیت کے معنی اظہار فروتنی کے ہیں اور عبادت کے معنی اس سے بھی ایک درجہ آگے یعنی غایت درجہ فروتنی کے ہیں۔ اس کی مستحق صرف وہ ذات ہے جس کی مہربانیاں بے پایاں ہیں۔ اسی لیے ارشاد ہوا ہے: ان لا تعبدوا الا ایاہ ،’’صرف اسی کی عبادت کرو۔‘‘ ۱
معروف عربی لغت لسان العرب میں ہے:
’’عبادت کے معنی اطاعت کے ہیں۔’ عبد الطاغوت ‘یعنی اس نے طاغوت کی اطاعت کی اور اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا قول ہے: ’ایاک نعبد ‘یعنی ہم تیری ہی عاجزانہ اطاعت کرتے ہیں۔ اور لغت میں عبادت کے معنی اطاعت مع الخضوع ہیں۔ چنانچہ وہ راستہ جو آمدورفت کی کثرت سے پامال ہو گیا ہو ، طریق معبد کہلاتا ہے۔‘‘ ۲
تاج العروس میں ہے :
’’لغت میں عبادت کے معنی اطاعت مع الخضوع کے ہیں۔‘‘ ۳
مفسرین نے بھی عبادت کے یہی معنی لکھے ہیں۔ امام طبری فرماتے ہیں:
’’جملہ اہل عرب کے نزدیک عبودیت کی اصل ذلت ہے اور اسی لیے وہ راستہ جو مسافروں کی آمدورفت کی کثرت سے پست وپامال ہو چکا ہو ، طریق معبد کہلاتا ہے۔ طرفہ کا شعر ہے:
تباری عتاقاً ناجیات، واتبعت
وظیفاً وظیفاً فوق مور معبد ۴
اس شعر میں ’مور معبد‘سے مراد طریق معبد یعنی پامال راہ ہے۔ اور اسی طرح وہ اونٹ جسے سواری کے لیے رام کیا جا چکا ہو ’بعیر معبد ‘کہلاتا ہے۔ عبد کو بھی اسی وجہ سے عبد یعنی غلام کہتے ہیں کہ وہ اپنے آقا کا مطیع و منقاد ہوتا ہے۔ اشعار عرب میں اس کے شواہد اس کثرت سے ہیں کہ ان کا احاطہ مشکل ہے۔‘‘ ۵
صاحب کشاف لکھتے ہیں:
’’عبادت نام ہے غایت درجہ خضوع و تذلل کا اور اسی لیے اس لفظ کا استعمال صرف اللہ کے سامنے خضوع کے لیے خاص ہے، کیونکہ وہی آقا اور منعم حقیقی ہے ۔اس لیے وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کے آگے خضوع و تذلل کا اظہار کیا جائے۔‘‘۶
علامہ علاء الدین بغدادی رقم طراز ہیں:
’’عبادت انتہائی جھکاؤ اور پستی کا نام ہے۔ (العبادۃ اقصٰی غایۃ الخضوع والتذلل) غلام کو اسی لیے عبد کہتے ہیں کہ وہ بالکل جھکا ہوا اور مطیع ہوتاہے۔‘‘ ۷
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:
’’لغت میں عبادت کے معنی ذلت کے ہیں۔‘‘ ۸
مفسرین اور اہل لغت کی اس تشریح سے واضح ہو گیا کہ عبادت میں ذلت اور خضوع کا مفہوم نمایاں ہے۔ لیکن ان کے معنی میں تھوڑا فرق ہے۔ صاحب ’’لسان ‘‘نے ذلت کے مفہوم کی وضاحت میں لکھا ہے:
’’ذلت، قوت و شوکت اور غلبہ کی ضد ہے۔ اس کے معنی کمزوری، درماندگی اور مغلوبیت کے ہیں۔ ’الذل‘بالکسر کے معنی نرمی اور سہولت کے ہیں۔ یہ صعوبت کی ضد ہے۔ ’الذل ‘بالضم(ضمہ کے ساتھ ذل) بھی اسی معنی میں آتا ہے۔ ’ذلیل‘ اور ’ذلول ‘صفت کے طور پر آتاہے۔ ’ذلول ‘کا استعمال غیر ذوی العقول کے ساتھ مخصوص ہے اور ’ذلت ‘انسان کے لیے۔ ’ذلت الدابۃ ‘کا مطلب ہے کہ جانورسواری کے لیے رام ہو گیا۔ ’فرسٌ ذلولٌ‘اس گھوڑے کو کہتے ہیں جو سرکشی چھوڑ کر مطیع ہو گیا ہو، جس پر سواری آسان ہو گئی ہو۔ طریق ذلیل اور طریق مذلل اس راستے کو کہتے ہیں جو پامال ہو کر ہموار ہوگیا ہو۔ ’ذلت القوافی للشاعر ‘کا مطلب ہے کہ شاعر کو قوافی پر پوری قدرت اور غلبہ حاصل ہو گیا ہے۔ ’تذلل‘ کے معنی کمزور ہونا، مغلوب ہونا اور مطیع ہونا ہے۔‘‘ ۹
اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ ذلت اور تذلل کا مفہوم ہے سرکشی اور مزاحمت چھوڑ کر مغلوب اور تابع ہو جانا، اس طرح کہ جو مغلوب ہو ، اس کے ظاہر و باطن سے پستی اور کمزوری ظاہر ہو۔ اسی لیے طریق ذلیل یا مذلل اس راستے کو کہتے ہیں جو اس طرح پست و پامال ہو چکا ہو کہ اس پر چلنے میں کوئی دشواری نہ ہو اور چلنے والا نہایت آسانی سے کسی ادنیٰ رکاوٹ کے بغیر اس سے گزر جائے۔ اس قسم کے راستوں کی ظاہری صورت ان کی پستی اور مغلوبیت کی تصویر ہوتی ہے۔ اسی طرح ’فرس ذلول‘کے معنی ، جیسا کہ اوپر مذکور ہوا، اس گھوڑے کے ہیں جس پر سواری آسان ہو، دوسرے لفظوں میں سوار کسی مزاحمت کے بغیر اس پر سواری کرسکے اور اس کی حرکات و سکنات سے صاف ظاہر ہو کہ وہ سواری کے لیے بالکل پست و مغلوب ہو چکا ہے، اس کے اندر سرکشی نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے۔
خضوع کے معنی جھکنے کے ہیں۔’ خضعہ الکبر واخضعہ ‘یعنی بڑھاپے نے اس کی کمر جھکا دی۔’نعام اخضع‘،وہ شتر مرغ ہے جس کی گردن چرنے میں زمین تک جھک جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خضوع کا لفظ جوارح یعنی سر، گردن اور جسم کے جھکنے کے لیے آتا ہے۔ حضرت عمر فاروق کے بارے میں آتا ہے کہ جب وہ کسی کو سر جھکا کر نماز پڑھتے دیکھتے تو گردن اٹھا دیتے اور فرماتے :’لیس الخضوع فی الرکاب‘ (خضوع گردن میں نہیں ہے) اور پھر دل کی طرف اشارہ کرتے کہ’ ھٰھنا‘(یہاں ہے)۔ اسی لیے ’خاضع ‘کا اطلاق اس شخص پر بھی ہوتا ہے جو اپنا سر اور گردن مغلوب اور کمزور ہونے کی وجہ سے جھکا لے۔ (الخاضع،المطاطی رأسہ وعنقہ للذل والاستکانۃ)۔
معلوم ہوا کہ خضوع کا لفظ اپنے اندر مغلوبیت کا جو پہلو رکھتا ہے ، اس میں ظاہر بدن کی مغلوبیت نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے یہ اطاعت و انقیاد کے معنی میں زیادہ مستعمل ہے۔ لسان العرب میں ہے: ’الخضوع الانقیاد والمطاوعۃ‘،لیکن اسی اطاعت و انقیاد پر خضوع کا اطلاق ہوگا جو رضا و رغبت کے ساتھ ہو۔ اسی لیے صاحب لسان نے خضوع کی تشریح میں انقیاد کے ساتھ مطاوعت (برضا اطاعت) کا اضافہ کیا ہے۔ لیکن کبھی یہ جبری اطاعت کے لیے بھی آتا ہے۔ ۱۰
یہاں یہ بات فراموش نہ ہو کہ عبادت کے لغوی معنی میں پرستش کا مفہوم بھی شامل ہے۔ ’تعبد‘ کے معنی ’تنسک‘ کے ہیں یعنی گوشہ گیر ہو کر کسی برتر ہستی کی یاد اور اس کی تعظیم میں مشغول ہونا۔ ’متعبد‘ وہ شخص ہے جو عبادت کے لیے گوشہ گیر ہو جائے۔’عبد بہ‘ کا مطلب ہے: ’لزمہ فلم یفارقہ‘یعنی اس سے وابستہ ہو گیا اور جدا نہ ہوا۔ ’معبد‘ کے معنی جہاں منقاد کے ہیں، وہاں اس کے معنی معبود کے بھی ہیں۔ ایک شاعر کہتا ہے:
تقول لا تبقی علیک فاننی
اری المال عند المسکین معبدا
’’میری بیوی ملامت کرتی ہے کہ نمودو دہش میں تو اپنا بھی خیال نہیں رکھتا۔ میں تو دیکھتی ہوں کہ مال بخیلوں کے یہاں پوجا جاتا ہے۔‘‘
قرآن مجید کی بکثرت آیات میں عبادت اور اس کے مشتقات کا استعمال ہوا ہے اور اس سے اس کا واقعی مفہوم بالکل متعین ہو جاتا ہے، یعنی اطاعت مع الخضوع۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
قُلْ إِنِّیْ نُہِیْتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُونِ اللّٰہِ لَمَّا جَآءَ نِیَ الْبَیِّنَاتُ مِن رَّبِّیْ وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ.(المؤمن۴۰: ۶۶)
’’اے نبی، ان لوگوں سے کہہ دو کہ مجھے ان کی عبادت سے منع کیا گیا ہے جنھیں تم خدا کے سوا پکارتے ہو (میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں) جب کہ میرے رب کی طرف سے میرے پاس روشن دلائل آچکے ہیں۔ اور مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں رب کائنات کے آگے اپنا سر جھکا دوں۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا گیا ہے:
قَالُوْا نَعْبُدُ إِلٰہَکَ وَإِلٰہَ آبَاءِکَ إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ إِلٰہاً وَاحِداً وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ. (البقرہ ۲: ۱۳۳)
’’انھوں (اولاد یعقوب ) نے کہا کہ ہم تیرے معبود اور تیرے باپ دادا ابراہیم و اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو تنہا معبود ہے اور ہم اسی کے مطیع و فرماں بردار ہوں گے۔‘‘
مذکورہ دونوں آیتوں میں ’اسلم‘ اور ’مسلمون‘ کے الفاظ دراصل’اعبد‘ اور ’نعبد‘کی معنوی وضاحت کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ اور یہ معلوم ہے کہ لغت میں اسلام ۱۱ کے معنی اطاعت و فرماں برداری کے ہیں۔ بعض مقامات پر عبادت کے اس مفہوم کو کھول دیاگیا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوا ہے:
فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُہُمَا لَنَا عَابِدُونَ. (المؤمنون ۲۳: ۴۷)
’’انھوں نے کہا، کیا ہم لوگ اپنے ہی جیسے دو آدمیوں کی بات مان لیں حالانکہ ان کی قوم (یعنی بنی اسرائیل) ہماری مطیع ہے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا گیاہے:
یَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْْطَانَ إِنَّ الشَّیْْطَانَ کَانَ لِلرَّحْمَنِ عَصِیّاً. (مریم۱۹: ۴۴)
’’ابا جان، شیطان کی بندگی نہ کیجیے، بے شک شیطان نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے۔‘‘
آخری آیت میں شیطان کی عبادت کے معنی اس کی اطاعت و پیروی کے ہیں۔اس لیے کہ معروف معنی میں شیطان کی پرستش کوئی آدمی بھی نہیں کرتا ہے۔ آیت میں ’عصیا‘ کا لفظ بھی اس معنی کی طرف رہبری کرتا ہے جس کے معنی نافرمان کے ہیں۔ مفسرین نے اس آیت کی تشریح میں عبادت کے معنی اطاعت ہی کے لکھے ہیں۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:
لا تعبد الشیطان ای لا تطعہ فی عبادۃ ھذہ الاصنام.۱۲
’’شیطان کی عبادت نہ کرو یعنی ان بتوں کی پوجا کرنے میں اس کی اطاعت نہ کرو۔‘‘
علامہ نسفی لکھتے ہیں:
ای لا تطعہ فیما سول من عبادۃ الصنم.۱۳
’’یعنی ان بتوں کی پوجا کرنے کی گمراہی میں اس کی اطاعت نہ کرو۔‘‘
علامہ قرطبی فرماتے ہیں:
ای لا تطعہ فیما یامرک من الکفر ومن اطاع شیئا فی معصیۃ فقد عبدہ.۱۴
’’جس کفر کا یہ تجھے حکم دیتا ہے ، اس میں اس کی بات نہ مان، اور جس نے نافرمانی میں کسی کی ادنیٰ اطاعت بھی کی تو گویا اس نے اس کی عبادت کی۔‘‘
اس سلسلے میں قرآن مجید کی ایک اور آیت ملاحظہ ہو:
بَلْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ.(سبا ۳۴: ۴۱)
’’بلکہ وہ جنوں کی عبادت کرتے تھے‘‘
اس آیت میں بھی عبادت کے معنی جنوں کی اطاعت کے ہیں۔ علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں:
بل کانوا یعبدون الجن ای یطیعون الشیاطین فی عبادتھم.۱۵
’’بلکہ وہ جنوں کی عبادت کرتے تھے یعنی ان کی عبادت کرنے میں شیاطین کی اطاعت کرتے تھے۔‘‘
یہ آیت بھی قابل ملاحظہ ہے:
أَلَمْ أَعْہَدْ إِلَیْْکُمْ یَا بَنِیْ آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْْطَانَ. (یٰسین ۳۶ : ۶۰)
’’اے بنی آدم، کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیاتھا کہ تم شیطان کی عبادت نہیں کرو گے۔‘‘
اس آیت میں بھی شیطان کی عبادت کے معنی اس کی اطاعت کے ہیں۔ ابن جوزی اس کی تشریح میں لکھتے ہیں:
الم اعھد الیکم ای الم امرکم، الم اوصکم، ولا تعبدوا بمعنی لا تطیعوا، الشیطان ھو ابلیس زین لھم الشرک فاطاعوہ.۱۶
’’کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا، یعنی میں نے تمھیں حکم نہیں دیا، کیاتمھیں وصیت نہیں کی۔ اور ’لا تعبدوا‘ بمعنی ’لا تطیعوا‘ ہے یعنی اطاعت نہ کرو۔ شیطان سے مراد ابلیس ہے جس نے ان کے لیے شرک کو مزین کیا پس انھوں نے اس کی اطاعت کی۔‘‘
معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں عبادت کا لفظ واضح طور پر اطاعت کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ لیکن ہر اطاعت کو عبادت نہیں کہیں گے۔ عبادت کا اطلاق صرف اس حالت پر ہوگا جس میں سر کے ساتھ دل بھی پوری طرح جھکا ہواہو، یعنی برضاو رغبت تابع داری اور سرافگندگی۔ اس کے بر خلاف صورت کو قرآن مجیدنے استکبار سے تعبیر کیا ہے۔
ایک جگہ ارشاد ہو اہے:
وَمَن یَسْتَنکِفْ عَنْ عِبَادَتِہِ وَیَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُہُمْ إِلَیْہِ جَمِیْعاً. (النساء ۴ : ۱۷۲)
’’اور جو شخص اس کی عبادت (یعنی اطاعت و بندگی) کو اپنے لیے عار سمجھے گا اور استکبار کرے گا تو وہ (ایک دن )سب کو اپنے پاس جمع کرے گا (اور اس وقت معلوم ہو جائے گا کہ کبریائی کے لائق کون ہے)۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا ہے:
وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ مِنْ دَآبَّۃٍ وَالْمَلآءِکَۃُ وَہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُوْنَ. (النحل ۱۶: ۴۹)
’’ آسمانوں اور زمین کی تمام ذی حیات مخلوقات اور فرشتے، سب اللہ کے آگے سر بسجود ہیں اور وہ استکبار نہیں کرتے۔‘‘
اس آخری آیت میں سجدہ کے لفظ نے استکبار کے معنی کو بالکل متعین کر دیا ہے، یعنی خدا کے بالمقابل اپنی ہستی کو بڑا سمجھنا اور اس کے سامنے سر اطاعت جھکانے سے اعراض کرنا، اس لیے لازماً عبادت کے معنی ہوئے، خدا کے بالمقابل اپنی ہستی کو حقیر ترین سمجھنا اور اس کے آگے سر اطاعت خم کرنا، لیکن عبادت میں جیسا کہ اس سے پہلے بیان ہوا، اطاعت مع الخضوع یعنی برضاورغبت تابع داری کا مفہوم غالب ہے۔
عبادت کے مذکورہ بالا لغوی اور قرآنی مفہوم کی روشنی میں دیکھیں تو اسلام میں عبادت کی حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ اس کائنات کی ہر چیز خواہ چھوٹی ہو یا بڑی خدا کے بنائے ہوئے قوانین کی پیروی کر رہی ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے:
وَلَہُ أَسْلَمَ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ طَوْعاً وَکَرْہاً. (آل عمران۳: ۸۳)
’’آسمانوں اور زمین میں جو بھی زندہ وجود ہے، وہ اس کے آگے ، خواہ خوشی سے اور خواہ جبر سے ، سرفگندہ ہے‘‘
یہ جبری اطاعت کا قانون پوری کائنات میں نافذ ہے۔ اس قانون سے انسان کی تکوینی زندگی بھی مستثنیٰ نہیں ہے، لیکن اس کی تمدنی اور اخلاقی زندگی اس جبری اطاعت سے آزاد ہے ۔ زندگی کے اسی حصے کو اپنی خوشی سے خدا کی مرضی کے تابع کر دینا حقیقی معنی میں عبادت ہے، اور یہی اسلام کی حقیقت بھی ہے۔ ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
قَالُوْا نَعْبُدُ إِلٰہَکَ وَإِلٰہَ آبَاءِکَ إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ إِلٰہاً وَاحِداً وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ. (البقرہ ۲: ۱۳۳)
’’انھوں نے کہا، ہم تیرے معبود اور تیرے باپ دادا ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی ، جو تنہا معبود ہے، عبادت کریں گے اور ہم اسی کے فرماں بردار ہوں گے۔‘‘
اور یہی انسان کی غایت تخلیق بھی ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ.(الذاریات۵۱: ۵۶)
’’ ہم نے جنوں اور انسانوں کو صرف عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘
اس آیت میں جس عبادت کو انسان کی غایت تخلیق کہا گیا ہے ، وہ دل کی کامل رضا و رغبت کے ساتھ خدا کی فرماں برداری ہے۔ اسلام میں ایک عبادت گزار سے جہاں یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے اعضا و جوارح سے خدا کے سامنے عجز و تذلل کا اظہار کرے، جسے عرف عام میں پرستش سے تعبیر کیا جاتا ہے، وہاں اس سے یہ بھی مطلوب ہے کہ وہ معاملات زندگی میں دل کی مکمل رضا کے ساتھ حتی المقدور خدا کی فرماں برداری کرے اور اس کی نافرمانی سے بچے۔ بندے کے اس عابدانہ رویے کا نام قرآن مجید کی زبان میں تقویٰ ہے۔ عبادت اور تقویٰ میں گہرا رشتہ ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس ربط و تعلق کو واضح کر دیا گیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
أَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوہُ وَأَطِیْعُونِ.(نوح ۷۱: ۳)
’’ یہ کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا ہے:
وَإِبْرَاہِیْمَ إِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوہُ. (العنکبوت ۲۹ : ۱۶)
’’اور ابراہیم کہ جب اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد ہوا ہے:
وَإِنَّ ہَذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُونِ. (المومنون ۲۳ : ۵۲)
اس آیت میں ’فاعبدون ‘کی جگہ ’فاتقون ‘(پس میری نافرمانی سے بچو) کے جملہ نے عبادت کے مفہوم کو کھول دیا ہے کہ وہ دل سے خدا کی اطاعت و فرماں برداری کا نام ہے۔
اسلامی عبادت کے مفہوم میں جس طرح برضا ورغبت خداے واحد کی اطاعت و بندگی کا مفہوم، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، بنیادی حیثیت رکھتا ہے ، اسی طرح ضروری ہے کہ یہ اطاعت و بندگی خالص ہو، اس میں کسی طرح کی آمیزش نہ ہو۔ قرآن کی اصطلاح میں اس بے آمیز عبادت کو ’’اخلاص دین‘‘ کہا گیا ہے۔ ارشاد ہوا ہے:
إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصاً لَّہُ الدِّیْنَ أَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ.(الزمر ۳۹ : ۲)
’’بے شک ، ہم نے یہ کتاب تمھاری طرف مطابق حق اتاری ہے تو تم اللہ ہی کی بندگی کرو اطاعت کو اسی کے لیے خاص کرتے ہوئے۔ سن لو کہ خالص اطاعت کا سزاوار اللہ ہی ہے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَاء.(البینہ ۹۸ : ۵)
’’ان کو بس یہی حکم دیاگیا تھا کہ وہ اللہ کی بندگی کریں، اطاعت کو اسی کے لیے خاص کرتے ہوئے، بالکل یک سو ہو کر۔‘‘
اخلاص کے لفظی معنی چھانٹ کر الگ کر دینے کے ہیں یعنی اگر کسی چیز میں کوئی اور شے خارج سے آکر شامل ہو گئی ہو تو اس کو اصل شے سے جدا کر دینا اخلاص ہے۔ ’خلص الماء من الکدر ‘کا مطلب ہے، پانی کا میل کچیل سے پاک و صاف ہونا۔ اسی سے لفظ خالص بنا ہے جو اردو میں کثیر الاستعمال ہے۔ عربی میں ’ھذا ثوب خالص‘ کے معنی ہیں ’یہ صاف رنگ کا کپڑا ہے‘ یعنی اس میں کسی دوسرے رنگ کی آمیزش نہیں ہے۔ دین کے معنی لغت میں متعدد ہیں۔ ایک معنی اطاعت کے بھی ہیں۔ اوپر کی آیت میں یہ اطاعت کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
’’اخلاص اور دین ‘‘ کی اس لغوی وضاحت کے مطابق مذکورہ بالا آیات میں اخلاص دین کا مفہوم یہ ہوا کہ خدا کی اطاعت کے ساتھ کوئی دوسری اطاعت یا اطاعتیں جمع نہ ہوں۔ خدا کی خالص اطاعت و بندگی کو جن چیزوں نے ہمیشہ سے داغ دار کیا ہے ، ان میں نفس اور مخلوق کی اطاعت نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ اول الذکر اطاعت کے متعلق فرمایا گیا ہے:
أَفَرَأَیْْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰہَہُ ہَوَاہُ.(الجاثیہ ۴۵ : ۲۳)
’’کیا تم نے دیکھا اس آدمی کو جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا لیا ہے۔‘‘
موخر الذکراطاعت میں مرئی اور غیر مرئی، دونوں مخلوقات شریک رہی ہیں۔ غیر مرئی مخلوق میں فرشتے اور مرئی مخلوق میں وفات یافتہ بزرگان دین قابل ذکر ہیں۔ ہم نے اوپر سورۂ زمر کی جو آیت نقل کی ہے، جس میں خدا کی خالص اطاعت کا حکم دیا گیاہے، اس سے ٹھیک متصل یہ آیت ہے:
وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوا مِن دُونِہِ أَوْلِیَاء مَا نَعْبُدُہُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُونَا إِلَی اللّٰہِ زُلْفَی إِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ بَیْْنَہُمْ فِیْ مَا ہُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ ہُوَ کَاذِبٌ کَفَّارٌ. (الزمر۳۹: ۳)
’’اور جن لوگوں نے اس کے سوا دوسرے کار ساز (اولیا) بنا رکھے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہم کو خدا سے قریب کر دیں۔ اللہ ان کے درمیان اس بات کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔ اللہ ان لوگوں کو راہ نہیں دکھاتا جو جھوٹے اور ناشکرے ہیں۔‘‘
اس آیت میں بہت واضح طور پر وفات یافتہ صلحا اور انبیا کی کارسازی کی تردید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جو لوگ یہ خیال رکھتے ہیں ، وہ جھوٹے ہیں اور ناشکرے بھی۔ نفس پرستی اور غیر خدا کی مطلق کارسازی کے عقیدہ کے علاوہ درج ذیل امور بھی اخلاص عبادت کے منافی ہیں:
[۱] خدا کے سوا کسی دوسرے کو، خواہ وہ نبی اور ولی ہی کیوں نہ ہو، سجدہ نہ کیا جائے اس لیے کہ سجدہ عبادت (نماز) کا ایک اہم رکن ہے اور وہ اللہ کے لیے مخصوص ہے۔ فرمایا گیاہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا ارْکَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّکُمْ. (الحج ۲۲ : ۷۷)
’’اے ایمان والو، رکوع اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو۔‘‘
معلوم ہوا کہ رکوع اور سجدہ عبادت میں داخل ہیں ، اس لیے یہ دونوں عمل کسی بھی شکل میں مخلوق کے لیے جائز نہیں، خواہ تعظیم کی غرض سے ہو اور خواہ اطاعت و بندگی کے اظہار کے لیے۔ ۱۷ یہاں کسی کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے کہ قرآن میں برادران یوسف کی سجدہ گزاری کا ذکر آیا ہے۔ اس سجدہ کا مطلب زمین پر گر جانانہیں ، بلکہ سر کو ذرا آگے کی طرف خم کرنا ہے۔ اس کو انگریزی میں ’Bow down ‘ کہتے ہیں۔ ۱۸ اس سے مقصود اعتراف عزو کمال ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آسمان و زمین نیز درخت اور پہاڑ کی سجدہ گزاری کا بیان ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ چیزیں معروف معنی میں سجدہ نہیں کر سکتی ہیں ، اس لیے لازماً ان کے سجدے کا مطلب اللہ کے طبعی قوانین کی تعمیل ہے۔ پس کسی مخلوق کو حقیقی معنی میں سجدہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ سجدہ گزار اس کا مطیع و عابد ہے اور یہ عمل اخلاص عبادت کے منافی ہو گا۔
[۲] کسی مخلوق کو مافوق الطبعی طور پر حاجت روا ۱۹ اور مشکل کشا سمجھ کر نہ پکارا جائے کہ یہ عمل اخلاص عبادت کے منافی ہے۔ صاف لفظوں میں کہا گیا ہے:
وَلاَ تَدْعُ مِن دُونِ اللّٰہِ مَا لاَ یَنفَعُکَ وَلاَ یَضُرُّکَ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّکَ إِذاً مِّنَ الظَّالِمِیْنَ. (یونس ۱۰ : ۱۰۴)
’’اللہ کے سوا کسی کو نہ پکار جو نہ تمھیں نفع پہنچائیں اور نہ نقصان۔ اگر تم نے ایسا کیا (یعنی حاجتوں اور مصیبتوں میں غیر خدا کو مدد کے لیے پکارا) تو تمھارا شمار ظالموں (مشرکوں) میں ہوگا۔‘‘
ہر مذہب کے درویشوں اور ولیوں کے بارے میں اس کے غالی پیرووں کا یہ خیال رہا ہے اور آج بھی ہے کہ وہ خدا کی طرف سے تصرف کا اختیار رکھتے ہیں اور اپنے ماننے والوں کو نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اسی باطل خیال کے تحت وہ ان کے مقابر پر جا کر ان سے مدد مانگتے ہیں۔ قرآ ن مجید میں اس اختیار و تصرف کی شدت کے ساتھ تردید کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ کوئی مخلوق کسی نوع کے مافوق الفطری اختیار سے بہرہ ور نہیں ہے ۔ اس مضمون کی چند آیات ملا حظہ ہوں:
o وَالَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن دُونِہِ مَا یَمْلِکُونَ مِن قِطْمِیْرٍ إِن تَدْعُوہُمْ لَا یَسْمَعُوا دُعَاء کُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَکُمْ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُونَ بِشِرْکِکُمْ وَلَا یُنَبِّءُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ.(فاطر۳۵: ۱۳، ۱۴)
’’اس کے سوا جن ہستیوں کو تم پکارتے ہو، وہ کھجور کی گٹھلی کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اگرتم انھیں پکارو تو وہ (بذات خود) تمھاری پکار کو سن نہیں سکتے،اور اگر (کسی ربانی ذریعہ سے) سن بھی لیں تو تمھاری حاجت روائی نہیں کر سکتے، اور روز آخرت وہ تمھارے شرک کا انکار کر دیں گے، ایک باخبر (یعنی اللہ) کے سوا کوئی دوسرا تمھیں اس حقیقت کی خبر نہ دے گا۔‘‘
o أَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا أَن یَتَّخِذُوا عِبَادِیْ مِن دُونِیْ أَوْلِیَاء إِنَّا أَعْتَدْنَا جَہَنَّمَ لِلْکَافِرِیْنَ نُزُلاً. (الکہف۱۸: ۱۰۲)
’’پس کیا منکرین حق نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ مجھ کو چھوڑ کر (میرے بندوں کو) اپنا ولی اور کارساز بنا لیں (اور میں ان کا محاسبہ نہ کروں گا) ہم نے جہنم کو ایسے منکروں کے استقبال کے لیے تیار کر رکھا ہے۔‘‘
o قُلْ أَفَاتَّخَذْتُم مِّن دُونِہِ أَوْلِیَاء لاَ یَمْلِکُونَ لِأَنفُسِہِمْ نَفْعاً وَلاَ ضَرّاً. (الرعد ۱۳: ۱۶)
’’کہو، کیا تم لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر ان کو اپنا ولی اور کارساز بنالیا ہے جو خود اپنے نفع و نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے۔‘‘
o مَا لَہُم مِّن دُونِہِ مِن وَلِیٍّ وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہِ أَحَداً. (الکہف ۱۸ : ۲۶)
’’اس کے سوا ان کا کوئی کارساز نہیں ہے اوروہ اپنے اختیار میں کسی کو ساجھی نہیں بناتا۔‘‘
بہت سے نادان کہتے ہیں، اور عرب کے مشرکین کا بھی خیال تھا، کہ وہ حاجات و بلایا میں غیر خدا کو محض وسیلہ سمجھ کر پکارتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں چونکہ وہ خدا کے مقرب ہیں ، اس لیے وہ اللہ سے کہہ کر ا ن کی مرادیں پوری کر دیتے ہیں یا ان کے کہنے سے اللہ ان کی حاجتیں پوری کرتا ہے۔ گویا وہ خدا کے ہاں ان کے سفارشی ہیں۔ قرآن مجید نے اس خیال کو باطل قرار دیا ہے۔ فرمایا گیا ہے:
أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللّٰہِ شُفَعَاء قُلْ أَوَلَوْ کَانُوا لَا یَمْلِکُونَ شَیْْئاً وَلَا یَعْقِلُونَ. قُل لِّلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعاً لَّہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ إِلَیْْہِ تُرْجَعُونَ. (الزمر۳۹ : ۴۳،۴۴)
’’کیا انھوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو سفارشی بنا رکھا ہے!کہو، اگرچہ نہ وہ کچھ اختیار رکھتے ہوں اور نہ کچھ سمجھتے ہوں ۔ کہہ دو کہ سفارش تمام تر اللہ ہی کے اختیار میں ہے، آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا ہے:
وَیَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ مَا لاَ یَضُرُّہُمْ وَلاَ یَنفَعُہُمْ وَیَقُولُونَ ہَؤُلاء شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللّہِ قُلْ أَتُنَبِّءُونَ اللّٰہَ بِمَا لاَ یَعْلَمُ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَلاَ فِیْ الأَرْضِ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُونَ. (یونس ۱۰ : ۱۸)
’’اور وہ اللہ کے سوا ایسوں کی پرستش کرتے ہیں جو نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور نہ نقصان، اور وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ، کہہ دو ، کیا تم اللہ کو ایسی بات کی خبر دیتے ہو جس کا اس کو علم نہیں ، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں ۔ وہ پاک اور بلند ہے ان چیزوں سے جن کو وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘
نادان لوگ جن اولیا اور بزرگان دین کے وسیلے پر اعتماد کرتے ہیں ان کا حال قرآن مجید نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے:
قُلِ ادْعُواْ الَّذِیْنَ زَعَمْتُم مِّن دُونِہِ فَلاَ یَمْلِکُونَ کَشْفَ الضُّرِّ عَنکُمْ وَلاَ تَحْوِیْلاً. أُولٰءِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ یَبْتَغُونَ إِلَی رَبِّہِمُ الْوَسِیْلَۃَ أَیُّہُمْ أَقْرَبُ وَیَرْجُونَ رَحْمَتَہُ وَیَخَافُونَ عَذَابَہُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوراً.(بنی اسرائیل۱۷: ۵۶، ۵۷)
’’کہو کہ ان کو پکاردیکھو، جن کو تم نے اس کے سوا معبود خیال کر رکھا ہے، وہ نہ تم سے کسی مصیبت کو دفع کر سکیں گے، نہ اس کو ٹال سکیں گے۔ یہ لوگ جن کو پکارتے ہیں وہ تو خود ہی اپنے رب تک رسائی حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ ان میں سے کون سب سے زیادہ مقرب بنتا ہے۔ وہ اپنے رب کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بے شک ، تمھارے رب کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے قابل۔‘‘
[۳] اخلاص عبادت میں یہ بات بھی داخل ہے کہ خدا کی بخشی ہوئی نعمتوں میں کسی مخلوق کو شریک نہ کیا جائے۔ یہ گمان رکھناکسی مومن کے لیے جائز نہیں کہ اس کو جو نعمتیں حاصل ہیں ، خواہ اولاد ہو ، مال ومنال ہو یا عہد ہ ومنزلت ہو، وہ خدا کے سوا کسی اور نے دی ہیں، براہ راست یا بالواسطہ، فرمایا ہے :
وَاشْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّٰہِ إِن کُنتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ. (النحل ۱۶ : ۱۱۴)
’’ اور اللہ کی نعمت کا شکر بجالاؤ اگرتم فی الواقع اسی کی عبادت کرتے ہو۔‘‘
قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ تمثیل کے پیرایہ میں اس حقیقت کو ان لفظوں میں ذہن نشین کرایا گیا ہے :
فَلَمَّا تَغَشَّاہَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِیْفاً فَمَرَّتْ بِہِ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللّٰہَ رَبَّہُمَا لَءِنْ آتَیْْتَنَا صَالِحاً لَّنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ. فَلَمَّا آتَاہُمَا صَالِحاً جَعَلاَ لَہُ شُرَکَاء فِیْمَا آتَاہُمَا فَتَعَالَی اللّٰہُ عَمَّا یُشْرِکُونَ. أَیُشْرِکُونَ مَا لاَ یَخْلُقُ شَیْْئاً وَہُمْ یُخْلَقُونَ. وَلاَ یَسْتَطِیْعُونَ لَہُمْ نَصْراً وَلاَ أَنفُسَہُمْ یَنصُرُونَ. وَإِن تَدْعُوہُمْ إِلَی الْہُدٰی لاَ یَتَّبِعُوکُمْ سَوَاء عَلَیْْکُمْ أَدَعَوْتُمُوہُمْ أَمْ أَنتُمْ صَامِتُونَ. إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ عِبَادٌ أَمْثَالُکُمْ فَادْعُوہُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُواْ لَکُمْ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ. (الاعراف: ۱۸۹۔۱۹۴)
’ ’ پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے وہ لیے چلتی پھرتی رہی۔ پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں ( مرد اورعورت )نے اللہ سے، جوان کا رب ہے، دعا کی کہ خدایا اگر تو نے ہمیں ایک تندرست اوربے عیب بچہ عطا کیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے ، مگر جب اللہ نے ان کو ایک صحیح وسالم بچہ دے دیا تو اس کی بخشی ہوئی نعمت میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرانے لگے۔ اللہ کی ذات بہت بلند و برتر ہے ، ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ کیا یہ لوگ خداکے ساتھ ان کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کے بھی خالق نہیں ہیں، بلکہ مخلوق ہیں۔ وہ نہ تو ان کی مدد پر قادر ہیں اورنہ ہی اپنی ذات کو مدد پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں۔ اگر تم ان کو رہنمائی کے لیے پکارو تو وہ تمھارے ساتھ نہ چلیں ۔ خواہ تم انھیں پکارو یا چپ رہو (باعتبار نتیجہ) یکساں ہے۔ تم اللہ کے سوا جن ہستیوں کو پکارتے ہو وہ تو تمھارے ہی جیسے بندے ہیں۔ پس ان کو پکاردیکھو، وہ تمھیں جواب دیں اگر تم سچے ہو۔‘‘
[۴] غیر خداپر اعتماد کہ وہ علی الاطلاق نفع و ضرر پہنچانے کا اختیار رکھتے ہیں ، اخلاص عبادت کے خلاف ہے۔ اس کے برعکس اس بات پر اعتماد رکھا جائے کہ ہر قسم کے نفع ونقصان کا سر رشتہ صرف خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ اپنے کسی بند ے کو کوئی فائدہ پہنچانا چاہے تو سارا جہاں مل کربھی اس کوروک نہیں سکتا اوراگر کسی کے حق میں اس کے اعمال بد کی پاداش میں نقصان کا فیصلہ کردے تو اس سے کوئی اس کو بچا نہیں سکتا ہے۔ ( سورۂ یونس :۱۷)عبادت اورتوکل کا یہ ارتباط آیۂ ذیل سے بالکل واضح ہے :
فَاعْبُدْہُ وَتَوَکَّلْ عَلَیْْہِ. (ہود ۱۱ : ۱۲۳)
’’اس کی بندگی کرو اور اسی پر بھروسا کرو۔‘‘
عبادت کا لفظ جب اصطلاحاً استعمال کیا جاتاہے تواس سے عام طور پر بعض معروف اعمال عبادت ، مثلاً پرستش ، دعا اور قربانی وغیرہ مراد لیے جاتے ہیں ، اخلاق اور معاملات اس میں شامل نہیں سمجھے جاتے ہیں۔ اسلام نے عبادت کے اس محدود مفہوم کو ختم کیا اوربتایا کہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی بھی عبادت میں داخل ہے۔ جس نے خداکا حق ادا کیا ، لیکن بندوں کے حقوق ، جو خدا نے اس پرعائد کیے ہیں ، ادا نہ کیے تو وہ خدا کی نظر میں عابد شمار نہ ہوگا ۔ قرآن مجید میں ایک سے زیادہ مقامات پر عبادت کے اس پہلو کو واضح کیا گیا ہے۔ مثلاً :
ایک جگہ فرمایا ہے:
وَاعْبُدُواْ اللّٰہَ وَلاَ تُشْرِکُواْ بِہِ شَیْْئاً وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً وَبِذِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْجَارِ ذِیْ الْقُرْبَی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجَنبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ مَن کَانَ مُخْتَالاً فَخُوراً. (نساء ۴ : ۳۶)
’’اوراللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو بھی اس شریک نہ ٹھہراؤ۔ اوروالدین ، رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، قرابت دار پڑوسی ، اجنبی پڑوسی (یعنی جس سے کوئی آشنائی نہ ہو) ، ہم نشین مسافر اوراپنے لونڈی غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اور( مال و جاہ پاکر) اترانے والوں اورگھمنڈ کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا ہے:
قَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّٰہَ مَا لَکُم مِّنْ إِلٰہٍ غَیْْرُہُ وَلاَ تَنقُصُواْ الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ إِنِّیَ أَرَاکُم بِخَیْْرٍ وَإِنِّیَ أَخَافُ عَلَیْْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ. وَیَا قَوْمِ أَوْفُواْ الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْیَاء ہُمْ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِیْ الأَرْضِ مُفْسِدِیْنَ. (ہود ۱۱: ۸۴ ۔ ۸۵)
’’ اے میری قوم کے لوگو ، اللہ ہی کی بندگی کرو ، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں، اور ناپ تول میں کمی نہ کرو۔ (اس وقت) میں تمھیں اچھی حالت ( یعنی فارغ البالی) میں دیکھ رہا ہوں ( لیکن آگے) میں تم پرایک گھیرنے والے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں۔ اور اے میری قوم کے لوگو ، ناپ اورتول کو انصاف کے ساتھ پورا کر و۔ اورلوگوں کی چیزوں میں ان کی حق تلفی نہ کرو اورزمین میں فساد پھیلانے والے بن کرنہ پھرو۔‘‘
ماضی میں دیگر اقوام کی طرح قوم شعیب کاتصور عبادت بھی ناقص تھا۔ چنانچہ جب شعیب علیہ السلام نے انھیں مالی معاملات میں انصاف سے کام لینے کی تلقین کی ، جیسا کہ اوپر کی آیت میں بیان ہوا ہے، تو انھوں نے کہا:
أَصَلاَتُکَ تَأْمُرُکَ أَن نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِیْ أَمْوَالِنَا مَا نَشَاء إِنَّکَ لَأَنتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ. (ہود۱۱ : ۸۷)
’’ کیا تمھاری نماز تمھیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان چیزوں سے دست بردار ہو جائیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں یا یہ کہ ہم اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف نہ کریں ،(کیا خوب) بس تمھی تو ایک دانش مند اور راست رو ہو۔‘‘
فی الحقیقت اسلام میں انسان کا ہر عمل عبادت اورباعث اجر ہے، خواہ وہ عمل بادی النظرمیں بالکل حقیر ہو، بلکہ سراسر دنیاکا کام معلوم ہوتاہو، بشرطیکہ اس عمل سے خدا کی رضا اور اس کا تقرب مطلوب ہو۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت سعد نے خدمت اقدس میں آکرعرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، میں اپنی کل دولت راہ خدا میں خرچ کرنا چاہتاہوں۔ آپ نے فرمایا: سعد تم جو کچھ راہ خدا میں صرف اس کی خوش نودی کی طلب میں خرچ کرو گے ، اس کا ثواب تم کو ضرور ملے گا یہاں تک کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں اس غرض سے ڈالوگے ، اس کا بھی تم کو ثواب ملے گا۔ ۲۰
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد بھی ملاحظہ ہو:
ما اطعمت نفسک فھو صدقۃ، مااطعمت ولدک فھو لک صدقۃ، ما اطعمت زوجک فھو لک صدقۃ، ما اطعمت خادمک فھو لک صدقۃ. ۲۱
’’ تم نے خود اپنے آپ کو جو کھلایا، وہ تمھاری طرف سے صدقہ ہے ، جو اپنی اولاد کو کھلایا، وہ بھی تمھاری طرف سے صدقہ ہے، جو اپنی بیوی کوکھلایا، وہ تمھاری طرف سے صدقہ ہے اور اپنے نوکر کو جو کھلایا، وہ بھی تمھاری طرف سے صدقہ ہے۔‘‘
بہت سے قارئین یہ جان کر حیران ہو ں گے کہ اسلام میں میاں بیوی کے جنسی تعلقات بھی عبادت میں داخل ہیں۔ ایک بار آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ مباشرت بھی صدقہ ہے۔ انھوں نے تعجب سے کہا : کیا شہوت کے پورا کرنے میں بھی اجر ہے؟ فرمایا ، تمھارا کیا خیال ہے ، اگر وہ یہ کام حرام طریقے سے کرتاتو کیا اس پر گناہ نہ ہوتا ؟ صحابہ نے کہا: ضرور یہ فعل گناہ ہوگا ۔ آپ نے فرمایا : تو جب وہ یہی کام حلال طریقے سے کرے گا تو اس کو یقیناً ثواب ملے گا ۔ ’ کذٰلک اذا وضعھا فی الحلال کان لہ اجر‘ ۔ ۲۲
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا :
ما من مسلم یغرس غرسا او یزرغ زرعا فیاکل منہ طیراً وانسان او بھیمۃ الا کان لہ صدقۃ. ۲۳
’’ جس مسلمان نے بھی درخت لگایا یا کھیتی کی پھر اس درخت یا کھیتی سے چڑیا یا انسان یا جانور کھائے تو یہ ضرور اس کی طرف سے صدقہ ہوگا۔‘‘
انسانی معاشرے میں مزاج اور مفادات کے مختلف ہونے کی وجہ سے بسا اوقات آپس کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں اور دلوں میں بغض و نفرت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں ۔ ان بگڑے ہوئے تعلقات کودرست کرنا بھی عبادت ہے۔ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ میں تم کو نفل روزہ و نماز اور صدقہ سے بھی بڑھ کردرجہ کی چیز نہ بتاؤں ۔صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ضرور ارشاد فرمائیں۔ آپ نے کہا : وہ ہے آپس کے تعلقات کا درست کرنا ۔ یعنی ’ اصلاح ذات البین‘ ۔ ۲۴
اتنا ہی نہیں ، ایک دوسرے کو دیکھ کرمسکرادینا ، گونگے کو سنا دینا اور اندھے کو راہ دکھا دینا بھی اسلام میں نیکی اور صدقہ ہے۔ حضرت ابو ہریرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آدمی کی معمولی باتیں بھی اس کے لیے صدقہ ہیں۔ مثلاً انصاف کی بات کہنا، آدمی کو اس کے جانور پرسوار کرادینا یا اس کے سامان کو اس پر لاد دینا ، بھلی بات کہنا، نماز کے لیے پیدل چل کرجانا اور راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا وغیرہ۔ ۲۵
اسلام کے تصور عبادت میں ،جیسا کہ ابھی اوپر بیان ہوا ، خدمت خلق کا شمار عبادت میں ہے اور اس کا درجہ بہت بلند ہے۔ ایک حدیث میں کل مخلوق کو خدا کا کنبہ کہا گیا ہے اور وہی شخص اس کی نگاہ میں زیادہ محبوب ہے جو اس کے کنبہ کے لیے زیادہ خیر خواہ اورنفع بخش ہو۔
حدیث کے الفاظ ہیں:
الخلق کلھم عیال اللّٰہ واحبھم الیہ انفعھم لعیالہ. ۲۶
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ مسکین اوربیوہ کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والے کا مرتبہ خداکی راہ میں جہاد کرنے والے، روزہ دار اوررات میں نماز پڑھنے والے کے برابر ہے۔ ’ الساعی علی الارملۃ والمسکین کالمجاھد فی سبیل اللّٰہ وکالذی یصوم النھار ویقوم الیل‘ ۔ ۲۷
ایک بار کا واقعہ ہے کہ رسول اللہ کی خدمت میں کچھ لوگ انتہائی پریشاں حالی میں صرف کمبل اوڑھے ہوئے حاضر ہوئے ۔ آپ کی نظرجیسے ہی ان کے خستہ حال چہرے پرپڑی ، اداس ہوگئے۔گھر میں تشریف لے گئے ، کچھ دینے کو نہ ملاتو مایوسی کے عالم میں باہر آگئے ۔ بلال سے کہا کہ تمام مسلمانوں کو جمع کرو ۔ وہ جمع ہوئے اورسب نے مل کر کافی سرمایہ اکٹھا کیا اوررسول اللہ کے حوالہ کردیا۔ یہ دیکھ کرآپ نہایت خوش ہوئے۔ واقعے کے راوی حضرت جابر بن عبداللہ کے الفاظ ہیں: فرایت وجہ رسول اللّٰہ کانہ مذھبۃ’’پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ کا چہرہ سونے کی طرح دمک رہا ہے۔‘‘ ۲۸
اس سلسلے میں ایک حدیث قدسی بھی قابل ذکر ہے ۔ اللہ تعالیٰ روز آخرت فرمائے گا :
’’ اے ابن آدم ، میں بیمار ہوگیاتھا ، مگرتونے میری عیادت نہ کی۔ بندہ عرض کرے گا: اے رب میں بھلا تیری عیادت کیونکر کرتا ، تو تو پروردگار عالم ہے۔ خدا فرمائے گا : کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوگیا تھا اورتو نے اس کی عیادت نہیں کی، اگر تو اس کی خبر گیری کو جاتا تواس کو میرے پاس پاتا یا مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے ابن آدم، میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا ، مگرتو نے نہیں کھلایا۔ بندہ عرض کرے گا : اے رب ، میں تجھ کو کیونکر کھلاتا تو تو خود سارے جہاں کا پروردگا رہے ۔ خدا فرمائے گا : کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں (بھوکے) بندے نے تجھ سے کھانا مانگا ، مگرتو نے نہیں کھلایا ، اگر تو اس کو کھلاتا تواسے میرے پاس پاتا۔ اے ابن آدم ، میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا، مگر تونے نہیں پلایا۔ بندہ عرض کرے گا : اے رب ، میں تجھے کیونکر پانی پلاتا کہ تو رب العٰلمین ہے۔ خدا فرمائے گا: میرے فلاں (پیاسے) بندے نے تجھ سے پانی مانگا ، مگر تونے نہیں پلایا۔ اگر تو اس کو پانی پلاتا تو اسے میرے پاس پاتا۔‘‘ ۲۹
انسان تو بڑی چیز ہے ، اسلام میں جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کو بھی نیکی کا کام بتایا گیا ہے ۔ ایک مجلس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو ایک آدمی کا واقعہ سنایا کہ اس نے ایک کتے کو دیکھا کہ وہ پیاس کی شدت سے زبان نکالے ہوئے مٹی چاٹ رہا ہے ۔ ’یلھث یاکل الثری من شدۃ العطش‘ ۔ چنانچہ یہ دیکھ کر اس کے دل میں رحم آیا اور اس نے پسند نہ کیا کہ وہ اس کتے کو، جب کہ وہ شدید پیاس میں مبتلا ہے ، یونہی چھوڑدے ۔ چنانچہ وہ اس کو لے کرایک کنویں کے پاس پہنچا اور اپنا موزہ اتار کر اس میں پانی بھرا اور اس کتے کو پلایا۔ اللہ نے اس کے اس عمل کو پسند کیا اور اس کو بخش دیا۔ جب صحابہ نے یہ قصہ سنا تو تعجب سے کہا: اے اللہ کے رسول ، کیا جانوروں کے ساتھ حسن سلوک میں بھی اجر ہے۔ ’ ائن لنافی البھا ئم لاجرا یا رسول اللّٰہ‘۔ فرمایا: ہرذی حیات کے ساتھ حسن سلوک میں اجر ہے۔ ۳۰
اسلام نے مخلوق خدا کے ساتھ حسن سلوک کو محض نیکی قرار نہیں دیا ، بلکہ اس کو اسلامی عبادات میں ایک اہم عبادت کا درجہ دیا۔ اسلام میں نماز کے بعد جو دوسری بڑی عبادت ہے ، وہ زکوٰۃ ہے جو غربا ومساکین کی خبرگیری کا دوسرا نام ہے۔ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر نماز کا ذکر زکوٰۃ کے ساتھ آیا ہے ۔ ’ اقیموا الصلوٰۃ واتوا الزکوٰۃ‘ ۔ اس التزام سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ نماز اورزکوٰۃ لازم و ملزوم ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ اسلام میں ایک بندۂ مومن کا ہروہ کام ، خواہ بڑا ہو یا چھوٹا، خواہ آخرت سے تعلق رکھتا ہو یا دنیا سے ، عبادت ہے جو خداکی رضا اور خوش نودی کے لیے کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں حقوق اللہ اورحقوق العباد ، دونوں کی ادائیگی عبادت میں داخل ہے۔
تاریخ انسانی کے ہر دور میں ہر مذہب کے غالی اور متقشف لوگوں کا یہ خیال رہا ہے کہ آدمی خدا کی عبادت میں جس قدر ریاضات شاقہ اٹھاتاہے ، اسی قدر اس کو خدا کی رضا مندی اور اس کاقرب واتصال حاصل ہوتاہے ۔ اسی کے ساتھ ان کا یہ بھی خیال رہا ہے کہ خدا کی خالص اور سچی عبادت کے لیے ناگزیر ہے کہ آدمی انسانی معاشرہ اوراس کے علائق سے قطع تعلق کرکے جنگل یا پہاڑ کے کسی گم نام گوشے میں معتکف ہوجائے، اور اگر کسی سبب سے یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم انسانی آبادی سے دو رکوئی خانۂ عزلت تلاش کرلے، اوراگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو آبادی کے اندر ہی کوئی خاموش گوشۂ عافیت ڈھونڈ لے اور وہاں ہنگامہ ہائے دنیا سے بے خبر ہو کر خدا کی عبادت و ریاضت میں اپنا وقت گزارے۔ گویا ان کے نزدیک خدا کے حق کی ادائیگی کے لیے حقوق العباد سے منہ موڑنا اورامکانی حد تک خود اپنے نفس وجسم کے حقوق کو پامال کرنا ناگزیر ہے۔ اس راہبانہ تصور عبادت کی بہت سی مثالیں انسان کی قدیم مذہبی تاریخ میں موجود ہیں، اس سے پہلے ہم عیسائی رہبان اورہندو جوگیوں کے احوال بیان کرچکے ہیں جن سے راہبانہ تصور عبادت کا مفہوم اور اس کے اطراف وجوانب پوری طرح واضح ہوگئے ہیں۔
جہاں تک اسلامی تاریخ کا تعلق ہے ، اس کے تقریباً ہر عہد میں مسلمانوں کے اند ر ایسے مذہبی لوگ موجود رہے ہیں جو راہبانہ تصور عبادت سے ایک حد تک مانوس تھے، اگرچہ وہ عیسائی راہبوں کی طرح مکمل طور پر تجرد کے قائل نہ تھے اور نہ تربیت نفس کے معاملے میں نفس کشی اورتعذیب جسم کی حد تک پہنچے ہوئے تھے۔ ۳۱ پھر بھی ان کا عام طرز زندگی راہبانہ تھا، اوروہ عام طور پر مخلوق خدا سے الگ تھلگ ہوکر زندگی گزارتے تھے اور ازدواجی تعلق بھی برائے نام ہی رکھتے تھے ۔ یہ غالی صوفیوں کا طبقہ تھا ۔
آج بھی مسلمانوں میں ایک ایسا مذہبی طبقہ موجودہے جس کے تصور عبادت میں راہبانہ تصور عبادت کی جھلکیاں نظرآتی ہیں۔ اس طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد علانیہ ترک دنیاکی تعلیم تو نہیں دیتے ، لیکن ان کے نزدیک روحانی ترقی اور آخرت میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ عابد وزاہد مسلمان اسباب دنیا کی نفی کر ے یا ان سے برائے نام تعلق رکھے اور اپنے اوقات کا بیش تر حصہ کسی گوشۂ مسجد میں یا خانۂ خلوت میں بیٹھ کر ذکر الہٰی، مراقبہ اورمجاہدہ میں گزارے۔ ان کے نزدیک یہی معراج عبادت ہے ۔ یہ خیال بھی راہبانہ تصور عبادت ہی کی ایک قسم ہے ۔
راہبانہ تصور عبادت کوصحیح تسلیم کرلینے کے معنی یہ ہیں کہ یہ کارخانۂ خلق وایجاد ایک کار عبث ہے اوراس میں انسانی وجود کی تخلیق بھی بے مقصد ہے ۔ اوریہ تصور حقیقت واقعہ کے خلاف ہوگا۔ اسلام نے بتایا کہ یہ کائنات کوئی بازیچۂ اطفال نہیں۔ ’وما خلقنا السمآء والارض وما بینھما لعبین‘ (الانبیاء ۲۱ : ۱۶) ، بلکہ اس کی تخلیق کے پیچھے ایک عظیم مقصد ہے اوروہ مقصد حق وباطل کی آویزش اور اس کے نتیجے میں حق کا غلبہ اور باطل کا استیصال ہے۔ ’بل نقذف بالحق علی الباطل فیدمغہ فاذا ھو زاھق‘ ۔(الانبیاء ۲۱: ۱۸)
اس کے علاوہ اس عالم آب و گل میں انسانی وجود ایک مرکزی مقام رکھتا ہے۔ انسان کی عظمت و فضیلت کا اس سے بڑا ثبوت اورکیا ہوگا کہ خدا نے اس کو زمین میں خلیفہ بنایا۔ ’ھوالذی جعلکم خلائف فی الارض الخ‘ (فاطر ۳۵: ۳۹) اور اس جہان رنگ وبو کی تمام چھوٹی اور بڑی اشیا کو اس کے دست تصرف میں دے دیا۔ ’وسخرلکم ما فی السمٰوٰت وما فی الارض جمعیا منہ‘ (جاثیہ ۴۵: ۱۳)۔اس مقام ومرتبہ کے حامل انسان کا مقصد تخلیق یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ وہ اس دنیا سے اپنا ذہنی و عملی رشتہ منقطع کر کے کسی کنج عزلت میں جا بیٹھے اور وہاں عبادت و ریاضت میں اپنی پوری زندگی گزار دے۔
جب معلوم ہوگیا کہ انسان اس زمین میں خلیفہ بنایا گیا ہے تو اس کا مقصد تخلیق خود بخود واضح اورمتعین ہو جاتا ہے۔ اوروہ مقصد یہ ہے کہ وہ خدا کی زمین میں اپنی مرضی اورخوشی سے اس کے حکم و ہدایت کے مطابق زندگی گزارے، انفرادی بھی اوراجتماعی بھی ۔ یہی وہ عبادت ہے جس کے لیے انسان کی تخلیق عمل میں آئی ہے۔ فرمایا گیا ہے :
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ. (الذاریات ۵۱ : ۵۶)
’’ میں نے جنوں اورانسانوںکو صرف عبادت کے لیے پیدا کیاہے ۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اسلام راہبانہ تصور عبادت کا مخالف ہی نہیں ، بلکہ اس کے وجود تک کا منکرہے : ’ لا رھبانیۃ فی الاسلام‘ ۳۲؎ اگر کسی شخص کو لفظ رہبانیت سے کوئی خاص انس و شیفتگی ہوتو وہ جان لے کہ اسلام کے لغت میں اس کا مفہوم ترک دنیا نہیں ، بلکہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے : ’رھبانیۃ ھذہ الامۃ الجھاد فی الا سلام ‘ ،۳۳؎ ’’اس امت کی رہبانیت اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے ۔ ‘‘
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے سختی کے ساتھ رہبانیت کے جملہ اعمال و اشکال ، مثلاً ترک دنیا یعنی قطع علائق ، نفس کشی یعنی ترک لذائذ اور عبادت ( پرستش) میں ریاضات شاقہ وغیرہ کی نفی کی ہے جیسا کہ اگلی سطروں سے بالکل واضح ہو جائے گا ۔
ترک دنیا
قرآن کے بیان کے مطابق ، جیسا کہ اوپرذکرہوا انسان کا مقصد تخلیق خدا کی عبادت ہے ، یعنی اس کے احکام کے مطابق اس زمین پرزندگی گزارنا ۔ اس تصور عبادت کے مطابق ترک دنیا ممکن نہیں، بلکہ اس میں ضروری حد تک شمولیت ناگزیر ہے۔ فرمایا گیا ہے :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا نُودِیْ لِلصَّلَاۃِ مِن یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا إِلَی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْْعَ ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ. فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلَاۃُ فَانتَشِرُوا فِیْ الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْراً لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ. (الجمعہ ۶۲ : ۹۔ ۱۰)
’’ اے ایمان والو ، جب جمعہ کے دن کی نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خریدوفروخت چھوڑ دو۔ یہ تمھارے حق میں زیادہ بہتر ہے اگرتم جانو۔ پھر جب نماز ختم ہوجائے تو اللہ کے فضل کی طلب میں زمین میں پھیل جائو۔اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تمھیں کامیابی حاصل ہو۔‘‘
یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک بندۂ مومن اس دنیا میں کس طرح زندگی گزارے ۔ وہ خدا کی عبادت بھی کرے اور فضل خدا (روزی ) کی تلاش سے بھی غافل نہ ہو ، بلکہ اس میں سرگرمی دکھائے ۔ البتہ اس بات کا دھیان رکھے کہ تلاش رزق میں اس سے ایسا کوئی فعل سر زد نہ ہو جو خدا کے حکم و ہدایت کے خلاف ہو ۔ اس آیت میں صرف یہی نہیں کہا گیا ہے کہ وہ روزی کمانے میں جدوجہد کرے ، بلکہ اس عمل کو فضل خدا کی طلب سے تعبیر کیاگیا ہے ۔ یہ لطیف پیرایۂ بیان خود صراحت کرتا ہے کہ روزی کمانا خداکی نظرمیں ایک پسندیدہ فعل ہے اوروہ اپنے بندوں سے اس بات کا خواہاں ہے کہ وہ روزی کمانے کے لیے زمین میں تگ ودو کریں ۔’ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللّٰہ‘ اس کو محض دنیا کا کام یا خدا کی عبادت میں کوئی رکاوٹ سمجھ کراس سے کنا رہ کشی اختیار نہ کریں۔ قرآن مجید میں ایک جگہ کسب معاش کا ذکر جہاد فی سبیل اللہ کے ساتھ آیا ہے جواس کی فضیلت کی دلیل ہے۔ فرمایا گیا ہے:
عَلِمَ أَن سَیَکُونُ مِنکُم مَّرْضَی وَآخَرُونَ یَضْرِبُونَ فِیْ الْأَرْضِ یَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللّٰہِ وَآخَرُونَ یُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَاقْرَؤُوا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ . (المزمل ۷۳ : ۲۰)
’’اس کے علم میں ہے کہ تم میں مریض ہو ں گے اور ایسے لوگ بھی جو اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کریں گے اورکچھ دوسرے لوگ بھی ہوںگے جو اللہ کی راہ میںجہاد کا ارادہ رکھتے ہوں گے تو جتنا آسانی کے ساتھ ہوسکے اتنا قرآن پڑھو۔‘‘
اس آیت کی بہترین تفسیر حضرت عمر فاروق کا یہ قول ہے کہ’’ خدا کی راہ میں لڑتے ہوئے جان دینے کی خواہش کے بعد جس دوسری چیز کی میں تمنا رکھتا ہوں وہ یہ کہ حصول رزق اورکشادگی کی تلاش میںمیری موت واقع ہو۔‘‘ ۳۴؎
حقیقت یہ ہے کہ ایک آدمی کے ایمان وعبادت کا امتحان کا روبار دنیا ہی میں ہوتا ہے جہاں ہر قدم پر شیطانی وساوس اورنفس کی فتنہ انگیزیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ مشہور تابعی ابراہیم نخعی سے کسی نے پوچھا کہ آپ ایک عبادت گزار صوفی اورایک امانت دار تاجر میں سے کس کو ترجیح دیں گے ۔ آپ نے فرمایا کہ امانت دار تاجر میرے نزدیک افضل ہے ۔ اس لیے شیطان اسے بہر صورت ورغلاتاہے ، کبھی ناپ تول اورکبھی لین دین میں اسے الجھانے اورغلط راہ میں لے جانے کی کوشش کرتا ہے ، لیکن وہ اسے برابر شکست دیتا رہتا ہے۔
ترک دنیا کا مطلب بندگان خدا کے حقوق کی ادائیگی سے فرار ہے اوریہ اسلام کی نظرمیں عبادت نہیں ، فعل گناہ ہے۔ اسلام میں جوعبادت مطلوب ہے وہ خدا کے حق کے ساتھ بندوں کے حقوق کو ، جس میں نفس کا جائز حق بھی شامل ہے، احکام شریعت کے مطابق ادا کرنا ہے۔ ایک غزوہ میں کسی صحابی نے ایک ایسا غار دیکھا جو نہایت عمدہ جگہ پر واقع تھا ۔ قریب ہی پانی کا چشمہ رواں تھا اورقرب وجوار میں خوش نما نباتات اگی ہوئی تھیں۔ صحابی مذکور کو یہ جگہ عبادت اورگوشہ نشینی کے لیے نہایت عمدہ معلوم ہوئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر عرض کیا یا رسول اللہ ، مجھ کو ایک غار ملا ہے جو نہایت پسندیدہ ہے ، وہاں ضرورت کی سب چیزیں موجود ہیں ، اجازت دیں کہ میں ترک دنیا کر کے وہاں جا بیٹھوں اور خداکی عبادت کروں۔ آپ نے فرمایا: یہودیت اورعیسائیت لے کر دنیا میں نہیں آیا ہوں۔ میں جو ابراہیمی مذہب لایاہوں وہ نہایت آسان ، سہل اوربالکل واضح ہے۔‘‘ ۳۵؎
نفس کشی
ترک دنیا کی طرح اسلام میں نفس کشی کی بھی اجازت نہیں ہے۔ جائزحدود میں لذائذدنیا سے متمتع ہونا خلاف عبادت تو کجا عین منشاے الہٰی ہے۔ فرمایا گیا ہے:
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیَ أَخْرَجَ لِعِبَادِہِ وَالْطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ. (الاعراف ۷ : ۳۲)
’’پوچھو ، کس نے حرام ٹھہرایا ہے اللہ کی اس زینت کو جسے اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ، اور رزق کی پاکیزہ چیزوںکو۔‘‘
دور رسالت میں جب بعض صحابہ نے جوش عبادت میں نفس کشی کی راہ میں چلنا چاہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ا س راہبانہ رحجان کی سختی کے ساتھ نفی فرمائی۔ ایک صحابی قدامہ بن مظعون اپنے ایک ساتھی کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : ’’ یا رسول اللہ ، ہم میں سے ایک نے عمر بھر مجرد رہنے اور دوسرے نے گوشت نہ کھانے کا ارادہ کر لیا ہے۔ آپ نے فرمایا : میں تو یہ دونوں باتیں کرتاہوں۔ یہ سن کر دونوں صحابی اپنے خیال سے تائب ہو گئے۔ ۳۶؎
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص نے شادی کی اور وہ ایک صالح نوجوان تھے ۔ نماز، روزہ ، تلاوت قرآن سے غیر معمولی شغف رکھتے تھے۔ ان کے والد عمرو ان کے گھرگئے تاکہ ان کی بیوی سے ان کا حال معلوم کریں کہ وہ کس طرح اس کے ساتھ رہتے ہیں۔ بیوی نے کہا : وہ اچھے آدمی ہیں، ہم نے ایک ساتھ ابھی تک بستر میں رات نہیں گزاری ہے۔ یہ سن کر عمرونے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ عبداللہ بن عمرو خود روایت کرتے ہیں کہ جب میں خدمت اقدس میں پہنچا تو آپ نے کہا:
’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم دن میںروزہ رکھتے ہو اورساری رات تلاوت کرتے ہو۔میں نے کہا : ہاں ، یہ بات سچ ہے یارسول اللہ، لیکن اس سے بھلائی کے علاوہ اور میرا کوئی مقصودنہیں ہے۔آپ نے فرمایا : تم پر تمھاری بیوی کا بھی حق ہے ، تمھارے مہمان کا بھی حق ہے اورتمھارے جسم کا بھی حق ہے۔آپ نے مزید فرمایا کہ دائود نبی اللہ کی طرح روزے رکھو کہ وہ بڑے عبادت گزار تھے۔ میں نے کہا، یارسول اللہ ، دائود کا روزہ کیا ہے؟ فرمایا ، وہ ایک دن ناغہ دے کر روزہ رکھتے تھے ۔ مزیدفرمایا کہ ایک مہینے میں قرآن ختم کیا کرو۔ میں نے کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا : بیس دن میں ختم کرلو۔ میں نے کہا: یارسول اللہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔فرمایا تو دس دن میں۔ میں نے کہا، یا رسول اللہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہو ں۔ فرمایا: اچھا تو سات دن میں ختم کیا کرو اور اس میں اضافہ نہ کرو ۔ تم پرتمھاری بیوی کا بھی حق ہے، تمھار ے مہمان کا بھی حق ہے اورتمھارے جسم کا بھی حق ہے۔‘‘ ۳۷؎
حضرت عثمان بن مظعون ایک عابد و زاہد صحابی تھے اورنہایت متقشفانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آنحضور کو معلوم ہوا کہ وہ شب و روز ذکر و عبادت الہٰی میں مشغول رہتے ہیں اوراپنی بیوی سے کوئی تعلق نہیں رکھتے ۔ دن کو روزہ رکھتے ہیں اورشب میں بہت کم سوتے ہیں ۔آپ نے ان کو بلا کرپوچھا : عثمان ، کیا تم میرے طریقے سے ہٹ گئے ہو؟ انھوں نے عرض کیا: خداکی قسم میں ہرگز آپ کے طریقے سے نہیں ہٹا ہوں، میں تو آپ ہی کے طریقے پر چلنا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: عثمان خدا سے ڈرو کہ تمھارے اہل وعیال کا بھی تم پر حق ہے ، تمھارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے، تمھاری جان کا بھی تم پرحق ہے۔ تم روزے بھی رکھو اورافطار بھی کرو، نماز بھی پڑھواورسوئو بھی۔۳۸؎
قبیلہ با ہلہ کے ایک شخص نے اسلام قبول کیا تو ان صحابی نے دن کا کھانا چھوڑ دیا اور مسلسل روزے رکھنے لگے۔ ایک سال کے بعد جب وہ مدینہ آئے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو آپ ان کو پہچان نہ سکے کیونکہ مسلسل روزوں کی وجہ سے ان کی صورت بدل گئی تھی۔انھوں نے اپنا نام بتایا تو فرمایا: تم تو خوب رو تھے ،یہ صورت کیسے بدل گئی؟ عرض کیا، یارسول اللہ ، جب سے آپ سے مل کر گیا ہوں متصل روزے رکھتاہوں۔ فرمایا: تم نے اپنی جان کو کیوں عذاب میں ڈالا، رمضان کے علاوہ ہر مہینے میں ایک روزہ کافی ہے۔ انھوں نے اس سے زیادہ کی طاقت ظاہر کی تو آپ نے مہینے میں دو روزوں کی اجازت دی۔ انھوں نے اس سے زیادہ کی اجازت چاہی تو مہینے میں تین روزے کردیے۔ انھوں نے اس سے بھی زیادہ کی درخواست کی تو آپ نے ماہ حرام کے روزوں کی اجازت دی۔۳۹ ؎
ایک بار صحابہ کی ایک جماعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کا حال معلوم کرنے ازواج مطہرات کے گھر پہنچی۔ ان کا گمان تھاکہ آپ ہر وقت سربسجود رہتے ہوں گے، رات بھر نمازیں پڑھتے ہوںگے، تمام دن روزے رکھتے ہوں گے، رات میں کم سوتے ہوں گے، جسم کو کم ہی آرام دیتے ہوںگے ، عورتوں سے کوئی تعلق نہ رکھتے ہوں گے ۔ لیکن جب ازواج مطہرات نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں بتایا تو وہ ان کے ارادوں سے کم معلوم ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ہم کو آنحضور سے کیا نسبت، اللہ نے آپ کی مغفرت فرمادی ہے ۔ ’ وقد غفر اللّٰہ ما تقدم من ذنبہ وما تاخر‘ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ساری رات نماز پڑھوں گا، دوسرے نے کہا : میںعمر بھر روزے رکھوں گا، اورکبھی ناغہ نہ کروں گا، تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی شادی نہ کروں گا۔ رسول اللہ نے جب ان کی باتیں سنیں تو ان کے پاس آئے اورفرمایا:
انتم القوم الذین قلتم کذا؟ واللّٰہ انی لاخشاکم اللّٰہ واتقاکم لہ لکنی اصوم وافطر، واصلی وارقد، واتزوج النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی. ۴۰ ؎
’’ کیا وہ تمھی لوگ ہو جنھوں نے اس قسم کی باتیں کی ہیں۔ خدا کی قسم میں تم سے زیادہ خدا سے ڈرتاہوں اور اس کی نافرمانی سے احتراز کرتا ہوں ، تاہم میں روزہ بھی رکھتاہوں اورناغہ بھی کرتا ہوں، راتوں کونماز بھی پڑھتاہوں اورسوتا بھی ہوں اورعورتوں سے نکاح بھی کرتاہوں ، جو میرے طریقے سے ہٹ گیا ، اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔‘‘
رہبانیت کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان موثر تعلیمات اور آپ کے اسوۂ حسنہ کے نتیجے میں اسلام کے ابتدائی دور میں شجر رہبانیت کو برگ وبار لانے کا موقع نہیں مل سکا۔ جب بھی کسی کے اندر اس قسم کا میلان پیدا ہو تو خود صحابہ نے اس کوسختی سے روکا۔ حضرت ابو دردا ایک مشہور عابد شب زندہ دار صحابی گزرے ہیں۔ رسول اللہ نے ان کے اور حضرت سلمان فارسی کے درمیان مواخات کا رشتہ قائم کیا تھا۔ ایک بار سلمان ان کی ملاقات کو گئے تو دیکھا کہ ان کی بیوی معمولی کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ پوچھا کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے کہا، تمھارے بھائی ابو دردا کو دنیا سے کوئی رغبت نہیں ہے۔ جب ابودردا آئے تو سلمان کے لیے کھانا لگایا گیا۔ انھوں نے سلمان سے کہا، تم کھاؤ میں روزے سے ہوں۔ انھوں نے کہا، میں اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک تم بھی شریک نہ ہو گے۔ چنانچہ وہ شریک طعام ہوئے۔ جب رات ہوئی تو ابو دردا نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ سلمان نے کہا، ابھی سو رہو، وہ مان گئے۔ وہ دوبارہ اٹھے تو کہا : سو جاؤ۔ جب رات کا آخری پہر آ گیا تو سلمان نے ان کو بیدار کیا اور کہا کہ اب نماز پڑھو۔ چنانچہ دونوں نے نماز ادا کی۔ اس کے بعد سلمان نے کہا: اے ابو دردا ، تمھارے رب کا بھی تم پر حق ہے،تمھاری جان کا بھی تم پر حق ہے اور تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ اس لیے ہر حق دار کا حق اس کو ادا کرو۔ دوسرے دن ابو دردا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور ساری باتیں بیان کیں۔ آپ نے فرمایا، سلمان نے سچ کہا۔۴۱؎
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ دیکھیں، مفردات راغب ، بذیل مادہ ’’عبد‘‘ ۔
۲؎ لسان العرب، ج ۳، ص ۲۷۲۔
۳؎ تاج العروس ، ج ۲، ص۴۱۔
۴؎ ترجمہ ’’وہ تیز رفتار گھوڑیوں کا مقابلہ کرتی ہے اور ایک پیر پر کے پیچھے اور دوسرا پیر پامال راستے پر رکھتی چلی جاتی ہے۔‘‘
۵؎ تفسیر طبری، ج۱، ص۹۔
۶؎ الکشاف ، ج ۱ ، ص ۹ ۔
۷؎ تفسیر خازن مع البغوی، ج۱، ص۱۵۔
۸؎ تفسیر ابن کثیر، ج۱، ص۲۵۔
۹؎ لسان العرب ، بذیل مادہ ’’ذل‘‘۔ مزید دیکھیں، المصباح المنیر ا حمد بن محمد۔
۱۰؎ تفصیل کے لیے دیکھیں، لسان العرب، ج۹، ص۴۲۵۔۴۲۷۔
۱۱؎ اس لفظ کے مادہ میں خود کو حوالہ کر دینے کا مفہوم غالب ہے اور یہیں سے اس میں اطاعت وفرماں برداری کے معنی پیدا ہوئے۔
۱۲؎ تفسیر ابن کثیر، ج ۳، ص۲۲۳۔
۱۳؎ مدارک التنزیل، ج۳، ص۳۶،۳۷۔
۱۴؎ تفسیر قرطبی، ج ۱۱، ص۱۱۱، مزید دیکھیں ، فتح القدیر (شوکانی)، ج۳، ص۳۲۴۔
۱۵؎ زادالمسیر، ج، ۶ص۴۶۳، مزید دیکھیں، معالم التنزیل، بغوی، علی ھامشہ وفی النفسی، ج۳، ص۳۲۸۔
۱۶؎ زادالمسیر، ج۷،ص۳۰۔
۱۷؎ فتاویٰ عالم گیری کے الفاظ ہیں: لا یکفر ولکن یاثم لارتکابہ الکبیرۃ(ص۳۶۹) ’’غیر اللہ کو سجدۂ تعظیمی کرنے والوں کی تکفیر تو نہیں کی جائے گی ، لیکن گناہ گار ٹھہرایا جائے گا ، اس لیے کہ انھوں نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے۔‘‘
۱۸؎ توریت کے انگریزی ترجمہ میں اس مقام پر ’Bow down‘ ہی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
۱۹؎ قرآن مجید میں ہے :’ فابتغو عند اللّٰہ الرزق واعبدوہ واشکروا لہ‘ (العنکبوت۲۹ : ۱۷) ’’پس اسی سے رزق چاہو، اور اسی کی بندگی کرو اور اس کا شکر بجا لائو۔‘‘
۲۰؎ ادب المفرد، امام بخاری، باب:یوجر فی کل شئی۔
۲۱؎ مسند احمد۔
۲۲؎ رواہ مسلم والترمذی، مزید دیکھیں، مسند احمد۔
۲۳؎ متفق علیہ۔
۲۴؎ سنن ابو دائود، کتاب الادب، باب: اصلاح ذات البین۔
۲۵؎ رواہ البخاری و مسلم۔
۲۶؎ رواہ ابوالعلی۔
۲۷؎ بخاری، کتاب الاداب۔
۲۸؎ مسلم۔
۲۹؎ مسلم، رواہ ابو ہریرہ، مزید دیکھیں، ادب المفرد (امام بخاری) باب: عیادۃ المرضیٰ۔
۳۰؎ رواہ البخاری۔
۳۱؎ شاذ میں اس کی مثالیں بھی موجود ہیں۔
۳۲؎ مسند ابن حنبل، ج۵، ص۲۶۶۔
۳۳؎ ایضاً۔
۳۴؎ سنن سعید بن منصور۔
۳۵؎ مسند ابن حنبل، ج۵، ص۲۶۶۔
۳۶؎ بخاری، کتاب الصوم۔
۳۷؎ بخاری، کتاب الصوم، باب: حق الجسم فی الصوم۔
۳۸؎ ابودائود، کتاب الصلوٰۃباب: یومربہ من الفصد فی الصلوٰۃ۔
۳۹؎ ابو دائود، کتاب الصوم ، باب فی صوم شہرالحرام ۔
۴۰؎ صحیح بخاری، کتاب النکاح۔
۴۱؎ بخاری، کتاب الادب۔