HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: آل عمران ۳: ۱۰۰-۱۰۹ (۱۹)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)


یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا، اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ، یَرُدُّوْکُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَ{۱۰۰} وَکَیْفَ تَکْفُرُوْنَ، وَاَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ اٰیٰتُ اللّٰہِ، وَفِیْکُمْ رَسُوْلُہٗ، وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ{۱۰۱}
 یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا، اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ، وَلاَ تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ{۱۰۲} وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا، وَّلاَ تَفَرَّقُوْا،وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ، اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً، فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ،فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا، وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَاحُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ،فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَا.کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ، لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ {۱۰۳} وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ، یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ، وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ، وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَاُولٰٓـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ {۱۰۴}
وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا، وَاخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ ہُمُ الْبَیِّنٰتُ، وَاُولٰٓـئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ{۱۰۵}یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ، وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ، فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْہُہُمْ، اَکَفَرْتُم بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ، فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ {۱۰۶} وَاَمَّاالَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْہُہُمْ، فَفِیْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ،ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ {۱۰۷}تِلْکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ نَتْلُوْہَا عَلَیْکَ بِالْحَقِّ، وَمَا اللّٰہُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعٰلَمِیْنَ{۱۰۸}وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ، وَمَا فِی الْاَرْضِ، وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ{۱۰۹}  
 ایمان ۱۶۷ والو، تم اِن اہل کتاب کے ایک گروہ ۱۶۸  کی بات مان لو گے تو تمھارے ایمان کے بعد یہ پھر تمھیں کفر کی طرف پھیر لے جائیں گے۔۱۶۹ (اِس پر متنبہ رہو )اور (غور کرو کہ )تمھارا کفر میں پڑنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے، جب کہ تمھیں اللہ کی آیتیں سنائی جارہی ہیں اور اُس کا رسول تمھارے اندر موجود ہے۔۱۷۰ (لہٰذا اللہ کو مضبوطی سے پکڑے رہو )اور (یاد رکھو کہ ) جو اللہ کو مضبوطی سے پکڑے گا۱۷۱ تو (سمجھ لو کہ ) اُس نے سیدھی راہ کو پا لیا ہے۔۱۰۰۔۱۰۱
ایمان والو، اللہ سے ڈرو، جیسا کہ اُس سے ڈرنے کا حق ہے،۱۷۲ اور دنیا سے رخصت ہوتو ہر حال میں اسلام پر رخصت ہو،۱۷۳ اور اللہ کی رسی ۱۷۴ کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑو اور تفرقہ میں نہ پڑو، اور اپنے اوپر اللہ کی اُس عنایت کو یاد رکھو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اُس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اُس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے، اور (یاد رکھو کہ ) تم آگ کے ایک گڑھے کے بالکل کنارے پر کھڑے تھے، پھر اُس نے تم کو اُس سے بچا لیا۔۱۷۵  اللہ اِسی طرح اپنی آیتیں تمھارے لیے واضح کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پر رہو۔ ۱۷۶ اور چاہیے کہ تمھارے اندر سے کچھ لوگ مقرر ہوں جو نیکی کی دعوت دیں، بھلائی کی تلقین کریں اور برائی سے روکتے رہیں۔ (تم یہ اہتمام کرو) اور (یاد رکھو کہ جو یہ کریں گے ) وہی فلاح پائیں گے۔۱۷۷ ۱۰۲۔۱۰۴
(تم یہ کرو ) اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جو فرقوں میں بٹ گئے اور جنھوں نے نہایت واضح ہدایات اپنے پاس آجانے کے بعد اختلاف کیا ۱۷۸ اور (اب) وہی ہیں کہ جن کے لیے بڑی سخت سزا ہے، اُس دن جب کچھ چہرے روشن ہوں گے اور کچھ چہروں پر تاریکی چھار ہی ہو گی۔ سو جن پر تاریکی چھا رہی ہو گی، (اُن سے پوچھا جائے گا): کیا تم ایمان کی نعمت سے بہرہ یاب ہونے کے بعد پھر کافر ہو گئے؟ تو اپنے اِس کفر کی پاداش میں اب چکھو عذاب کا مزہ۔ رہے وہ جن کے چہرے روشن ہوں گے تو اُن کی جگہ اللہ کی رحمت کے سایے میں ہو گی، وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم تمھیں ٹھیک ٹھیک سنا رہے ہیں، اور (اِس لیے سنا رہے ہیں کہ) اللہ نہیں چاہتا کہ وہ دنیا والوں پر کوئی ظلم کرے۔ (لہٰذا اِن اہل کتاب کی طرح جھوٹی امیدوں میں نہ رہو ) اور (یاد رکھو کہ) زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کا ہے اور تمام معاملات اللہ ہی کے حضور میں پیش کیے جاتے ہیں۔ ۱۷۹  ۱۰۵۔۱۰۹

۱۶۷؎  سورہ کی پہلی فصل آیت ۹۹ پر ختم ہوئی۔ یہاں سے دوسری فصل شروع ہو رہی ہے۔ پہلی فصل میں خطاب اہل کتاب سے تھا۔ ان پر اتمام حجت کے بعد اس آیت سے خطاب کا رخ مسلمانوں کی طرف ہو گیا ہے۔ چنانچہ اس دوسری فصل میں اب پہلے مسلمانوں کو اہل کتاب کی ان گمراہ کن چالوں سے خبردار کیا گیا ہے جو وہ حق کے راستے سے ان کو ہٹانے کے لیے اختیار کر رہے تھے ۔ اس کے بعد تزکیہ و تطہیر کا مضمون شروع ہوتاہے جس میں ان کوامتحان کے اس مرحلے میں کامیابی کے لیے ضروری ہدایات دی گئی ہیں اور یہ حقیقت ان پر واضح کی گئی ہے کہ اسلام کی پیروی کا صحیح حق وہ اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام کر اور آزمایش کے موقعوں پر اللہ و رسول کی اطاعت پر پوری طرح قائم رہ کر ہی ادا کر سکتے ہیں۔

۱۶۸؎  اس سے اہل کتاب کا وہی گروہ مراد ہے جس کی مخالفتوں اور وسوسہ اندازیوں کا ذکر اوپر تفصیل سے ہوا ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک گروہ اہل انصاف کابھی تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات ہر جگہ ملحوظ رکھی ہے کہ ان کے ساتھ کوئی بے انصافی نہ ہونے پائے۔

۱۶۹؎  یعنی تم سمجھتے ہو کہ یہ دین کے ماننے والے ہیں، اس لیے کسی کو گمراہ کرنے کی بات کس طرح سوچ سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی تمام دین داری رسمی ہے۔ یہ اصل دین کے ایسے پکے دشمن ہیں کہ خود بھی منکر ہیں اور ان کی باتوں میں آئو گے تو تمھیں بھی اس کا منکر بنا کر چھوڑیں گے۔

۱۷۰؎  مطلب یہ ہے کہ اس کے باوجود حق کو چھوڑتے ہوتو یہ تمھاری انتہائی محرومی اور بد بختی ہو گی۔ اللہ کے حضور میں پیش کرنے کے لیے اس کے بعد کوئی عذر تمھارے لیے باقی نہ رہے گا۔ اس کے معنی تو پھر یہی ہوں گے کہ تم نے پورے دن کی روشنی میں ٹھوکر کھائی ہے۔

۱۷۱؎  اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے کا مفہوم یہ ہے کہ نرم و گرم ، ہر طرح کے حالات میں آدمی جادئہ حق پر قائم رہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام و ہدایات اور اس کی کتاب سے کسی حال میں روگردانی نہ کرے۔

۱۷۲؎  یہ اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے کی حقیقت واضح فرمائی ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ سے اس طرح ڈرتے رہو، جس طرح اس سے ڈرتے رہنے کا حق ہے۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

’’ ...یہ تقویٰ اگرچہ مطلوب تو اسی حد تک ہے جس حد تک بندے کی استطاعت میں ہے، اس کی وضاحت خود قرآن ہی نے فرما دی ہے کہ ’فا تقوا اللّٰہ ما استطعتم*‘ ۔لیکن خدا سے ڈرنے اور دوسروں سے ڈرنے میں بڑا فرق ہے، اس وجہ سے ارشاد ہوا کہ خدا سے ڈرتے رہو، جس طرح خدا سے ڈرتے رہنے کا حق ہے۔ اول تو بندے پر خدا کے جو حقوق ہیں، وہ کسی اور کے نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ خدا نے جو حدود و قیود قائم کیے ہیں اور ان کے توڑنے کی جو سزا مقرر کی ہے، وہ تمام تر بندوں کی دنیوی و اخروی بہبود کے لیے کی ہے، ان کی پابندی سے خدا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، بلکہ بندوں ہی کو پہنچتا ہے۔ تیسری یہ کہ خدا کی آنکھیں ہر جگہ نگراں ہیں، یہاں تک کہ وہ دلوں کے وسوسوں سے بھی با خبر ہے۔ چوتھی یہ کہ خدا کی پکڑ سے کوئی دوسرا بچانہیں سکتا اور وہ دنیا اور آخرت ، دونوں میں سزا دے سکتا ہے اور ہمیشہ کے لیے دے سکتا ہے۔ خدا سے ڈرنے میں جب تک بندہ ان تمام پہلووں کو مد نظر نہ رکھے وہ خدا سے ڈرنے کا صحیح مفہوم سمجھ بھی نہیں سکتا ، چہ جائیکہ وہ اس کا صحیح حق ادا کر پائے۔ بہت سے لوگ جو انسانوں سے ڈر کر خدا اور اس کی شریعت کو چھوڑ بیٹھتے ہیں، ان کی بنیادی گمراہی یہی ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کی مخالفت اور خدا کے غضب میں فرق نہیں کر پاتے۔ ‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۱۵۲)

۱۷۳؎  یعنی خدا سے یہ ڈرنا اور اس کی اطاعت پر قائم رہنا زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ اس میں کسی انقطاع کی گنجایش نہیں ہے۔ شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد یہ جدوجہد شروع ہو گی اور زندگی کی آخری سانس تک جاری رہے گی۔ لہٰذا خبردار رہو، اتمام سے ذرا پہلے بھی اگر اس کا سلسلہ ٹوٹ گیا تو ساری محنت برباد ہو جائے گی۔

استاذ امام نے اس کا ایک اور پہلو بھی واضح فرمایا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:

’’...آیت کے اسلوب میں یہ بات بھی مخفی ہے کہ یہ راہ بہت ہموار نہیں ہے، بلکہ اس میں بہت سے نشیب و فراز اور ہر قدم پر اتار چڑھائو ہیں۔ اس میں آزمایشوں اور فتنوں سے دوچار ہونا ہو گا اور شیاطین کے شب خونوں اور معاندین کی دراندازیوں اور فساد انگیزیوں سے سابقہ پیش آئے گا۔ کبھی طمع ورغلانے کے لیے عشوہ گری کرے گی۔ کبھی خوف دھمکانے کے لیے اپنے اسلحہ سنبھالے گا۔ جو ان سب مرحلوں سے اپنا ایمان و اسلام بچاتا ہوا منزل پر پہنچا اور اسی حال میں اس نے جان، جان آفرین کے سپرد کی، درحقیقت وہ ہے جو خدا سے اس طرح ڈرا، جس طرح خدا سے ڈرنے کا حق ہے اور یہی ہے جس کو اعتصام باللہ کا مقام حاصل ہوا۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۱۵۲)

۱۷۴؎  اس سے مراد یہاں قرآن ہے، اس لیے کہ یہی وہ رسی ہے جو آسمان سے زمین تک خدا اور اس کے بندوں کے درمیان تنی ہوئی ہے۔ ہمارے اور ہمارے رب کے درمیان یہی واسطہ اور یہی عہد و میثاق ہے۔ چنانچہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم اس کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑیں اور کسی حال میں اس سے الگ نہ ہوں ۔ پھر اس کے ساتھ ’جمیعاً‘ کی قید اور ’لا تفرقوا‘ کی نہی بھی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں سے یہ مطالبہ ان کی اجتماعی حیثیت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ وہ سب مل کر اس رسی کو مضبوطی سے تھامیں اور اس کو چھوڑ کر اپنے شیرازے کو پراگندہ نہ کریں، بلکہ ایک جمعیت بن کر قرآن سے وابستہ ہوں، اسے پڑھیں، اس کی آیتوں پر تدبر کریں، اس سے نصیحت حاصل کریں، خدا کی اتاری ہوئی ایک میزان عدل کی حیثیت سے اپنے تمام معاملات میں اسی کو مرجع بنائیں اور اس کے کسی حکم یا فیصلے کے سامنے کسی دوسری چیز کو ہر گز کوئی وقعت نہ دیں۔

۱۷۵؎  یہ اس عظیم احسان کی یاددہانی ہے جو قرآن کے ذریعے سے عربوں پر ہوا۔ اس کتاب کے نازل ہونے سے پہلے ان کا ہر قبیلہ دوسرے قبیلے کا دشمن تھا اور یہ باہم جنگ و جدال برپا کیے رہتے تھے۔ مذہبی حیثیت سے بھی ان کے مابین وحدت کا کوئی رشتہ باقی نہ رہا تھا۔ ہر قبیلے نے اپنے دیوتا الگ کر لیے تھے اور سیاست و معیشت میں بھی ان کے مفادات باہم متصادم تھے۔ لیکن قرآن کی صورت میں یہ رسی ان کے ہاتھوں میں پکڑا دی گئی تو استاذ امام کے الفاظ میں اس نے ان کو ایک رشتے میں پرو کر موتیوں کی لڑی بنا دیا اور وہ جو ایک دوسرے کے دشمن تھے، ایک دوسرے کے جگری دوست اور غم خوار بھائی بن گئے۔

۱۷۶؎  مطلب یہ ہے کہ اس وضاحت کے ساتھ یہ یاددہانی اس لیے کی گئی ہے کہ اس معاملے میں معمولی غلطی بھی بڑے غیر معمولی فتنوں کا باعث بن سکتی ہے، لہٰذا متنبہ رہو کہ اگر وحدت و محبت کی اس حالت کو باقی رکھنا چاہتے ہو تو اس کتاب کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا ضروری ہے، ورنہ جاہلیت کی اسی حالت کو لوٹ جائو گے جس میں تم اس سے پہلے مبتلا رہ چکے ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ تم آگ کے ایک گڑھے کے بالکل کنارے پر کھڑے تھے کہ تمھارے پروردگار نے تمھارا ہاتھ تھام کر تم کو اس سے بچا لیا۔ اب اس کتاب کو چھوڑو گے تو اندیشہ ہے کہ اسی گڑھے میں گرو گے اور اس کی آتش سے کسی طرح بچ نہ سکو گے۔

۱۷۷؎  یہ مسلمانوں کو ان کی اجتماعی حیثیت میں حکم دیا ہے کہ اس ہدایت پر قائم رہنے کے لیے اپنے اندر سے کچھ لوگوں کو مقرر کریں جو انھیں بھلائی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے رہیں۔ اس سے واضح ہے کہ یہ حکم ارباب اقتدار سے متعلق ہے۔ چنانچہ اسلامی ریاست میں جمعہ کا منبر اور پولیس کا محکمہ یہی خدمت انجام دیتے ہیں۔ خطبۂ جمعہ کے ذریعے سے مسلمانوں کے ارباب حل و عقد انھیں بھلائی کی دعوت دیتے اور برائیوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں اور پولیس ایسے منکرات کا ارتکاب کرنے والوں کا محاسبہ کرتی ہے جنھیں قانون کی رو سے جرم قرار دیا جاتا ہے۔

۱۷۸؎  یعنی محض سر کشی کے باعث انھیں ماننے سے انکار کر دیا۔ آگے اسی کو ایمان کے بعد پھر کافر ہو جانے سے تعبیر کیا ہے۔

۱۷۹؎  اس پیرے کی آیتوں پر غور کیا جائے تو اس سے جو حقائق سامنے آتے ہیں، وہ استاذ امام کے الفاظ میں یہ ہیں:

’’ اول یہ کہ اعتصام بحبل اللہ سے محروم ہو جانے کے بعداہل کتاب اختلاف و انتشار میں مبتلا ہوئے اور یہ انتشار و اختلاف درحقیقت ایمان کے بعد کفر کی طرف پلٹ جانے کے ہم معنی ہے۔
دوم یہ کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ یہ سرفرازی و سرخ روئی بخشتا ہے کہ ان کے ہاتھ میں خود اپنی رسی پکڑاتا ہے، اگر وہ اپنی شامت اعمال سے اس رسی کو چھوڑ کر دوسرے پھندے اپنی گردنوں میں ڈال لیتے ہیں تو قیامت کے دن ان کو اسی درجے کی روسیاہی بھی حاصل ہوگی جس درجے کی ان کوسرخ روئی بخشی گئی تھی۔ چہرے روشن ان کے ہوں گے جو ہر طرح کے حالات میں اس رسی کو تھامے رہیں گے۔ یہ لوگ، بے شک اللہ کے فضل و رحمت کے حق دار ہوں گے۔
سوم یہ کہ یہ ساری تنبیہات بالحق ہیں یعنی ہر بات شدنی ہے۔ ان کو محض خالی خولی دھمکی سمجھ کر جو لوگ نظر انداز کریں گے، وہ اپنی روسیاہی کا سامان خود کریں گے اور اس کی تمام تر ذمہ داری انھی پر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آگاہی پہلے سے اسی لیے سنا دی ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ کسی کو سزا اس پر حجت تمام کیے بغیر دے۔
چہارم یہ کہ آسمان و زمین میں سارا اختیار صرف اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ سارے امور اسی کے حضور پیش ہوں گے اور اسی کا فیصلہ ناطق و نافذ ہو گا۔ اگر کسی نے کسی اور سے امید باندھ رکھی ہوتو اس کی یہ امید محض ایک واہمہ ہے جو حقیقت کے ظہور کے بعد بالکل سراب ثابت ہو گی۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۱۵۵)

[              باقی]

 ـــــــــــــــــــ

* التغابن ۶۴: ۱۶۔ 

B