HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ریحان احمد یوسفی

نو گیارہ سے سات سات تک

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ جدید انسانی تاریخ کا ایک غیر معمولی دن تھا۔اس دن دنیا کی تنہا سپر پاور کے دل و دماغ پر بیک وقت حملہ کیا گیا اور اس کے تجارتی مرکز اور دفاعی حصار پر سنگین ضرب لگائی گئی ۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی اور پینٹاگون پر حملے کا جواب امریکہ نے افغانستان میں طالبان اور عراق پر صدام کی حکومت کے خاتمے اور ان پر قبضے کی شکل میں دیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یقین تھا کہ مسلمان انتہا پسند ہی ان حملوں کے ذمہ دار ہیں۔ مسلمانوں میں اس بارے میں ایک سے زیادہ آرا پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگ اسے اسامہ بن لادن کی کارروائی ہی سمجھتے ہیں ، مگر اسے امریکہ کے ظالمانہ اقدامات کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔جبکہ بعض کے نزدیک یہ یہودی سازش تھی۔ کم و بیش یہی معاملہ ۷ جولائی کے سانحے کے بارے میں ہوا۔ اس روز لندن میں بم دھماکے ہوئے جس میں ۵۰ سے زیادہ بے گناہ افراد، جو ٹرینوں اور بسوں کے ذریعے سے اپنی روزمرہ مصروفیات کی جگہوں تک پہنچ رہے تھے ، مارے گئے۔اس حادثے کی ذمہ داری ’’القاعدہ‘‘ کی یورپی شاخ ہونے کی دعوے دار ایک تنظیم نے قبول کی۔ برطانوی حکام کے مطابق اس میں چار پاکستانی نژاد برطانوی نوجوان ملوث ہیں۔

ہم نہیں جانتے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اس حملے کا جواب کس شکل میں دیں گے ، البتہ یہ بات یقینی ہے کہ وہ جو بھی جواب دیں گے ، اس سے دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے مسائل ہی بڑھیں گے۔دوسری طرف مسلمانوں میں ایک دفعہ پھر اس واقعے کے بارے میں دو آرا قائم ہوچکی ہیں۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو برطانوی حکام کے دعووں کی تصدیق کررہے ہیں، مگر اسے عراق اورافغانستان پر حملوں کا جواب قرار دے رہے ہیں۔ دوسری طرف نظرےۂ سازش پر یقین رکھنے والے مسلمان ہیں جو نت نئی تھیوریز پیش کرکے اس واقعے کی ذمہ داری برطانوی خفیہ ایجنسیوں پر ڈال رہے ہیں۔ مثلاََایک تھیوری یہ ہے کہ ۶ جولائی کو لند ن نے اولمپک کی میزبانی کا اعزاز حاصل کیا۔ چنانچہ ضروری تھا کہ لندن کی ریلوے کا نظام از سرنو تعمیر کیا جائے۔ چنانچہ ایک طرف یہ دھماکے کرواکے انشورنس اور دوسرے ذرائع سے ریلوے سسٹم کی تعمیر نوکے فنڈز حاصل کیے گئے او ر دوسری طرف مسلمانوں کے خلاف نئے اقدامات کے لیے بہانہ بھی مل گیا۔ان لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ مسلمان ایک عرصے سے سامراج کی بربریت کا شکار ہیں۔ انھوں نے پہلے پورے عالم اسلام پر قبضہ کیا، پھر عالم اسلام کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گاڑا۔ اس کے جواب میں مسلمانوں نے احتجاج کیا تو اس احتجاج کو غیر موثر بنانے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے نو گیارہ اور سات سات جیسے واقعات کرائے گئے۔

برطانوی حکام کے دعووں اور نظرےۂ سازش کے علم برداروں کے اختلاف سے قطع نظر ہم قارئین کی توجہ ایک بہت اہم بات کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ اس وقت امت مسلمہ کی پوری فکری اور مذہبی قیادت جس نقطۂ نظر کی قائل ہے ، وہ یہ ہے کہ مسلمان دنیا میں خدائی فوج دار ہیں۔وہ پہلے اپنے ملکوں میں اسلامی نظام قائم کرنے کے مکلف ہیں اور پھر پوری دنیا کو مغلوب کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ وہ ان ملکوں کو پہلے دعوت دیں گے اور اگر انھوں نے دعوت قبول نہ کی تو مسلمان بزور شمشیر ان ملکوں کو فتح کرکے وہاں اسلام کی حکمرانی قائم کریں گے۔

اس نقطۂ نظر میں کیا علمی مغالطے ہیں اور کس طرح سیرت طیبہ اور خلفاے راشدین کے بعض اقدامات کو درست طور پر نہ سمجھنے کی بنا پر یہ غلطی لگی ہے ، ہم سردست اس بحث کو جانے دیتے ہیں، لیکن ایک لمحے کے لیے یہ مان لیجیے کہ یہی نقطۂ نظر درست ہے تو بتائیے کہ جو طاقتیں اس وقت دنیا میں غالب ہیں ، ان کا رویہ مسلمانوں کے بارے میں کیا ہونا چاہیے۔کیا ان طاقتوں کی اولین کوشش یہ نہیں ہونی چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو آپس میں لڑاکر ان کی طاقت کو مفلوج کریں۔ ان کے وسائل پر قبضہ کرکے انھیں بے دست و پا کردیں۔ جدید ٹیکنالوجی سے انھیں محروم رکھنے کی سعی کریں۔ ان کے جسد پر قبرص ، فلسطین ، کشمیر ، چیچنیااور مشرقی تیمور کے گھاؤ لگائیں۔جہاں اس نقطۂ نظر کے لوگ حکومت میں آجائیں ، ان ملکوں پر فوراً قبضہ کرلیں۔ جن تعلیمی اداروں میں اس نقطۂ نظر کو فروغ دیا جاتا ہے ، ان کی بیخ کنی کرنے کی کوشش کریں۔

اگر ان کے یہ اقدامات ظالمانہ ہیں تو ہم سوال کرتے ہیں کہ اگر پاکستان میں رہنے والے قادیانی یا کوئی اور اقلیت یہ طے کرلے کہ اسے پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرکے یہاں کے مسلمانوں کو مغلوب کرنا ہے تو ہمارا رویہ کیا ہوگا؟ ہماری حکومت اس کے ساتھ کیا کرے گی؟کیا ہم وہی کچھ نہیں کریں گے جو آج دنیا کی طاقتیں ہمارے ساتھ کررہی ہیں؟

ہم مغرب کے کسی ظالمانہ اقدام کی تائید نہیں کرتے، مگر اپنے لوگوں کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ حقائق کی دنیا کیا ہوتی ہے۔دوسروں پر نظرےۂ سازش کا الزام لگانے سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ ہم خود دوسروں کے بارے میں کیا عزائم رکھتے ہیں۔خدا کی دنیا میں یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ دوسروں کی بربادی کے منصوبے بنائیں او روہ آپ کو پھولوں کے ہار پہنائیں۔آپ دوسروں کو مغلوب کرنے کا اعلان کریں اور وہ خاموشی سے بیٹھے آپ کے عزائم کی تکمیل کا انتظار کریں۔وہ آگے بڑھیں گے اور خطرے کو بڑھنے سے پہلے ہی ختم کر دیں گے۔

ہمارے قائدین کو اتنا معصوم نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ان واضح حقائق کو نہ سمجھ سکیں۔ نائن الیون کے بعد ہمارے پاس وقت تھا کہ ہم اس بارے میں بحث و مباحثہ شروع کرتے کہ امت کا نصب العین سمجھنے میں ہم سے کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنی کوتاہیوں کے سبب خدا کے عذاب کی زد میں آچکے ہوں، مگر بدقسمتی سے اس کے بجائے ہمارے ہاں یہ بحث شروع ہوگئی کہ یہ حملے اسامہ بن لادن نے نہیں کیے ، بلکہ یہ ایک یہودی سازش ہے۔اور اگر کیے ہیں تو امریکہ کے ظلم کے خلاف کیے ہیں ۔ اسی پر پوری قوم کا اجماع ہوگیا۔کسی نے اس کے خلاف بات کرنے کی کوشش کی تو اسے امریکی ایجنٹ قرار دے دیاگیا۔ اب سیون سیون کے بعد ایک دفعہ پھر ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم کوئی سازش دریافت کرنے کے بجائے اپنے اور دیگر قوموں کے تعلق کی حقیقت کو سمجھیں کہ یہ داعی اور مدعو کا تعلق ہے نہ کہ حاکم اور محکوم کا۔ہم اپنے نقطۂ نظر کی غلطی دریافت کریں۔ اسلام کی دعوت کو پرامن طور پر پھیلانے کی منصوبہ بندی کریں۔قوم و ملت کی تعمیر کے لیے اسے ٹکراؤ کے بجائے تیاری کے میدان میں لے آئیں۔ یہی ہماری اولین ذمہ داری ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B