[۱۴] وحدثنی عن مالک عن عمرو بن یحیی المازنی عن بن أبی سلیط:
اَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ صَلَّی الْجُمْعَۃَ بِالْمَدِیْنَۃِ وَصَلَّی الْعَصَرَ بِمَلَلٍ.قال مالک: وَذَلِکَ لِلتَّہْجِیْرِ وَسُرْعَۃِ السَّیْرِ.
ابی سلیط سے روایت ہے کہ
’’حضر ت عثمان نے (ایک دفعہ)جمعہ مدینہ میں پڑھا، اور عصر جا کر ملل کے مقام پر پڑھی۔‘‘
امام مالک کہتے ہیں:
’’یہ اس وجہ سے ممکن ہوا کہ جمعہ ٹھیک دوپہر کے ہوتے ہی پڑھا گیا اور سفر تیز رفتاری سے کیا گیا۔‘‘
یہ روایت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے کسی سفر کے موقع سے متعلق ہے۔اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ انھوں نے اس سفر کے موقع پر جمعہ مدینہ میں ادا کیا اور ملل کے مقام پر جا کر عصر ادا کی۔ ملل کا فاصلہ مدینہ سے سترہ میل سے لے کر بائیس میل تک بتایا گیا ہے۔ کم از کم سفر بھی پیش نظر رکھیں تو جمعہ اور عصر کو ان کے معمول کے وقت پر ادا کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے یقیناًجمعہ بھی جلدی ادا کیا گیا اور عصر بھی کچھ مزید موخر ہوئی ہو گی۔
یہی وجہ ہے کہ امام مالک نے کہا ہے کہ یہ صرف اس وجہ سے ممکن ہوا کہ انھوں نے جمعہ دوپہر کے ہوتے ہی ادا کر لیا اور سفر بھی تیز کیا جس کی وجہ سے وہ عصر کے وقت پر ہی ملل کے مقام پر پہنچے۔
یہ روایت اپنے ان الفاظ کے ساتھ کہ ’’حضر ت عثمان نے (ایک دفعہ)جمعہ مدینہ میں پڑھا، اور عصر جا کر ملل کے مقام پر پڑھی‘‘ موطا کی اس سے پہلی روایت کے خلاف ہے۔یہ روایت اگر امام مالک والی تاویل نہ کی جائے تو یہ بات کہتی ہے کہ جمعہ شاید زوال سے پہلے ادا کرلیا گیا تھا۔ لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔اس لیے کہ یہ بات اسی وقت درست تھی جبکہ امام مالک والی بات عمل میں آنے میں بالکل ممکن نہ ہوتی۔
اگر عملاً یہ ممکن ہے کہ اونٹوں پر یا گھوڑوں پر سوار ہو کر سترہ سے بائیس میل کا فاصلہ طے ہو سکتا ہے تو یہی بہتر ہے کہ یہ مانا جائے، اس لیے کہ یہی عمل متواتر کے مطابق ہے۔
ہم یہ روایتیں پڑھ چکے ہیں کہ عصر کے بعد ایک آدمی دو یا تین فرسخ کا فاصلہ طے کرلیتا تھااور ابھی سورج سفید روشن ہوتا تھا۔ایک فرسخ تین میل کے برابر ہے۔ تو سترہ میل کا فاصلہ چھ فرسخ سے کم ہے۔ تو جتنا وقت عصر اور آفتاب کے زرد ہونے کے درمیان ہے، اس سے صرف دگنا وقت ہی لگے گاکہ ایک سوار سترہ میل کا فاصلہ طے کرلے۔ بائیس میل کا فاصلہ سات فرسخ اور ایک میل بنتا ہے، جس میں صرف ایک فرسخ ہی کا اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے یہ بعید نہیں ہے کہ جمعہ اور عصر کے درمیانی وقفہ میں اتنا فاصلہ طے کرلیا جائے۔
یہ روایت ایک اثر ہے ، جس میں خلیفۂ ثالث کے زمانے کا ایک واقعہ حکایت کیا گیا ہے۔امام مالک اپنے تبصرہ کے ساتھ اسے اس لیے لائے ہیں کہ اس سے شاید ان کے زمانے میں یہ استدلال کیا جارہا ہوگا، یا وہ سمجھتے ہوں گے کہ اس سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ جمعہ زوال سے پہلے پڑھا جاتا تھا۔ چنانچہ انھوں نے ’تہجیر‘ کا لفظ بول کر بتا دیا کہ جمعہ ’الضحاء‘ ( چاشت) کے وقت نہیں،دوپہر کے وقت پڑھا گیا ۔جس سے معلوم ہوا کہ امام مالک اصل میں اسی مسلک کے قائل تھے کہ جمعہ اور ظہر کا وقت ایک ہی ہے ۔
_____
جمعہ کا وقت وہی ہے ، جو ظہر کا ہے۔لیکن اس میں ظہر کی طرح گرمیوں میں زیادہ تاخیر نہیں کی جاتی تھی۔بلکہ اسے ہر موسم میں جلدی ادا کیا جاتا تھا۔لیکن یہ بات واضح ہے کہ جمعہ کا وقت زوال کے بعد ہی تھا۔
اس باب میں امام مالک رحمہ اللہ نے اسی بات کو ثابت کیاہے ۔ چنانچہ پہلی روایت وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کی لائے ہیں۔ جس سے صاف واضح ہے کہ وہ جمعہ زوال کے بعد ایک بوریا تک سایے کے لمبا ہونے پر پڑھتے۔ اس کے بعدحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے جس واقعہ کو غلط پیش کیا جاسکتا تھا ، اس کی انھوں نے توجیہہ کر دی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ