HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

قریش کی حکمرانی کے بارے میں روایت

روی۱ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لقریش : إن ہذا الأمر فیکم ،۲ وأنتم ولاتہ ما لم تحدثوا عملا۳ ینزعہ اللّٰہ منکم، فإذا فعلتم ذلک سلط۴ اللّٰہ علیکم شرار خلقہ فالتحوکم۵ کما یلتحی القضیب.
’’روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے فرمایا : حکمرانی کا یہ معاملہ اس وقت تک تمھارے درمیان رہے گااور تم ہی اس معاملے کے نگران رہو گے۱ جب تک کہ تم کوئی ایسا کام نہ کرو کہ اللہ تمھیں اس سے ہٹادے ۔۲ جب تم ایسا کرو گے توخدا اپنی بدترین مخلوق۳ تم پر مسلط کردے گاجو تمھیں اس طرح چھیل کے رکھ دے گی جیسے شاخ کو چھیلا جاتا ہے۔‘‘ ۴

ترجمے کے حواشی

۱۔ اس سے پہلے یہ وضاحت ہو چکی ہے کہ قریش کو چونکہ بنی اسماوعیل کے تمام قبائل کاسیاسی اعتماد حاصل تھا ، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’أمرہم شوریٰ بینہم‘(ان کے معاملات باہمی مشاورت پر مبنی ہیں) کے قرآنی اصول کے تحت لوگوں کو آگاہ کردیاتھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بنی اسماعیل کے سیاسی معاملات کی ذمہ داری قریش کے کاندھوں پر ہوگی۔

۲۔ یعنی حکمرانی کا یہ منصب انھیں خدا کی طرف سے حاصل ہوا ہے اور یہ اس وقت تک انھیں حاصل رہے گا جب تک وہ خدا کے قوانین کے پابند رہیں گے۔

۳۔ یعنی ظالم لوگ۔

۴۔ قرآن مجید (۱۷: ۴۔۸اور ۲: ۱۴۳)کے مطابق بنی اسرائیل کی طرح بنی اسماعیل بھی خداکی طرف سے شہادت علی الناس کے منصب پر فائز ہیں۔اس کے تحت اگر یہ حق پر قائم رہیں تو اللہ تعالیٰ انھیں دوسری قوموں پر غلبہ عطافرماتے ہیں اور اگر حق سے انحراف کریں تودوسری قوموں کے ذریعے سے ذلت اور محکومی کے عذاب میں مبتلا کردیے جاتے ہیں۔قریش کو چونکہ بنی اسماعیل کے نمائندوں کی حیثیت حاصل ہے ، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں انھیں خداکے اس قانون کے بارے میں خبردار کیا ہے۔

متن کے حواشی

۱۔ یہ روایت اپنی اصل کے اعتبار سے ابن ابی شیبہ ، رقم ۳۷۷۱۸ہے۔ بعض اختلافات کے ساتھ یہ درج ذیل مقامات پر نقل ہوئی ہے:

احمدبن حنبل ، رقم ۱۷۱۱۰، ۲۲۴۰۹، ۲۲۴۱۵۔ عبدالرزاق ، رقم۱۹۹۰۳۔ بیہقی ، رقم ۱۶۳۱۲، ۱۶۳۲۳۔

۲۔ بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل ، رقم ۲۲۴۰۹میں ’إن ہذا الأمر فیکم‘ (یہ معاملہ تمھارے اندر رہے گا) کے بجائے ’إن ہذا الأمر لا یزال فیکم‘(یہ معاملہ تمھارے اندر جاری رہے گا)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔

۳۔ بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل ، رقم ۱۷۱۱۰میں ’ما لم تحدثوا عملا‘(جب تک کہ تم کوئی ایسا معاملہ نہ کرو) کے بجائے ’ولن یزال فیکم حتي تحدثوا أعمالا‘(یہ معاملہ تمھارے درمیان ہی رہے گا، یہاں تک کہ تم ایسے اعمال نہ کرو) کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔

۴۔ بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل ، رقم ۱۷۱۱۰میں ’سلط‘(مسلط کرنا)کے بجائے ’بعث‘ (اٹھانا)کالفظ روایت ہوا ہے۔

۵۔ بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل ، رقم ۱۷۱۱۰میں ’فالتحوکم‘(تو وہ تمھیں چھیل دیں گے)کے بجائے ’فیلتحیکم‘ (تو وہ تمھیں چھیل دیں گے )کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔

بیہقی ، رقم ۱۶۳۲۳میں یہ روایت یوں نقل ہوئی ہے:

أنتم أولی الناس بہذا الأمر ما کنتم مع الحق إلا أن تعدلوا عنہ فتلحون کما تلحی ہذہ الجریدۃ یشیر إلی جریدۃ بیدہ.
’’اگر تم حق پر قائم رہوتو(حکمرانی کے)اس معاملے کے تم تمام لوگوں سے زیادہ حق دار ہو اور اگر تم حق سے ہٹوگے تو اس طرح چھیل دیے جاؤ گے جیسے یہ ٹہنی چھیلی جاتی ہے ۔ یہ کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ٹہنی کی طرف اشارہ کیا۔ ‘‘

عبدالرزاق ، رقم ۱۹۹۰۳کے مطابق یہ روایت اس طرح ہے:

روی أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم مر بنفر من قریش ووجوہہم کأنہا سبائک الذہب فجعل یوصیہم فقال إنکم لن تزالوا بخیر ما أتقیتم اللّٰہ وحفظتم أمرہ من ترک ذلک منکم لحاہ اللّٰہ کما لحا ہذا العود وجعل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یلحو عودا کان فی یدہ لم یترک فیہ شیئا.
’’روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے ایک گروہ کے پاس سے گزرے جن کے چہرے گویا سونے کی اینٹوں جیسے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نصیحت کرتے ہوے فرمایا: تم اس وقت تک بھلائی پر رہو گے جب تک تم خدا سے ڈرتے رہو اور اس کے احکامات کی پابندی کرو۔ تم میں سے جو بھی اس سے پھراتو اللہ اسے اس لکڑی کی طرح چھیل کے رکھ دے گا۔ تب آپ نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی لکڑی کو چھیلنا شروع کیا ، یہاں تک کہ اس میں سے کچھ بھی باقی نہ بچا۔‘‘

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B