پروفیسرخورشید عالم
[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے ۔ چنانچہ
اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
حسب ذیل مضمون معروف اسکالر جناب پروفیسر خورشید عالم صاحب کی تالیف ہے ۔ اس میں انھوں نے عورت کے حجاب کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر بالتفصیل بیان کیا ہے ۔ اس ضمن میں مدیر ’’اشراق‘‘ جناب جاوید احمد صاحب غامدی کا موقف ان کی تالیف ’’قانون معاشرت‘‘ میں ’’مردوزن کا اختلاط‘‘ کے زیر عنوان شائع ہو چکا ہے ۔نائب مدیر]
خالق کا ئنات نے آدم اور حوا، دونو ں کو جنت کا مکین بنایا۔دونوں کو حکم دیا کہ اللہ کی اطاعت کریں۔ لیکن دونوں کو ابلیس نے حیات جاوداں کا فریب دے کر اس درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کیا جس سے اللہ نے ان دونوں کومنع فرمایا تھا۔ نافرمانی کی پاداش میں دونوں کے مخصوص اعضا ایک دوسرے کے سامنے برہنہ ہوگئے۔ طبعی مزاج کے باعث وہ اپنے اعضا پرجنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے ۔ اللہ نے ان کے لیے زمین پر ٹھکانا بنایااورانھیں زمین پراترنے کا حکم دیا اور ان کو زندگی گزارنے کے لیے ہر وہ چیز مہیا کی جس کی ان کو ضرورت تھی۔ سب سے پہلے ان کو لباس کی نعمت سے نوازا، کیونکہ عریانی انسان کی توہین اوررسوائی کا باعث ہے اورستر پوشی انسان کی عزت و تکریم کا سبب ۔ یہ لباس تین قسم کا تھا : ستر پوشی کا لباس، زینت کا لباس اورتقویٰ کا لباس ۔پہلے دو لباس بدن کے عیوب کو چھپاتے ہیں اورتیسر ا لباس دل کے عیوب کو دو ر کرتا ہے۔ تقویٰ کیا ہے ؟برائی سے رکتے اوربھلائی کو کرتے وقت اللہ کے خوف کا احساس ،یعنی اللہ انسان کے اندر ایک ایسی پاکیزگی پیدا کرنا چاہتاہے جو انسان کے ایمان اوروجدان سے پیدا ہوتی ہے، نہ کہ قانون کے زورسے ۔ دونوں ظاہری لباس باطنی لباس کے بغیر کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔اگر دلوں میں تقویٰ نہ ہو تو سات یا آٹھ میٹر کا کپڑا مرد و زن کو ایک دوسرے کی ذہنی خباثت سے کیسے محفوظ رکھ سکتا ہے؟
آدم کو خلافت کی جو ذمہ داریاں سونپی گئیں،ان کو آدم اورحوا نے مل جل کر پورا کرنا تھا۔ زندگی کی اس تگ ودو میں دونوں بر ابر کے شریک ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے :
’’ مومن مرد اورمومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں، وہ اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اوربر ے کاموں سے روکتے ہیں۔اورنماز قائم کرتے ہیں اورزکوٰۃدیتے ہیں اور اللہ او راس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔‘‘ (التوبہ۹: ۷۱)
آدم و حوا، مرداور عورت ،دونوں ایک دوسرے کے زوج ہیں ۔دونوں مل جل کر معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر ناقص ہیں۔ دونوں یکساں واجب التعظیم ہیں۔ دونوں کو دل ودماغ کی یکساں صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں ۔دونوں احکام الہٰی کے مکلف ہیں اوردونوں کے اعمال کی جزا اورسزا برابر ہے ۔
اگر قدرت کا منشایہ ہوتاکہ عورت کوچھپا کر مرد سے علیحدہ رکھا جائے تاکہ عورت اس کی عطا کردہ صلاحیتوں کا محدود استعمال کرے تو قدرت عورت کی ان صلاحیتوں کو مختلف ساخت دے دیتی،مگر قدرت نے عورت کو مرد کی طرح سننے، دیکھنے اور سوچنے کی صلاحیتیں دی ہیں تاکہ وہ مردکے ساتھ مل کر بھرپور فعال کردار ادا کر ے اورتہذیبی اورثقافتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے ۔ چنانچہ عورت کو سوسائٹی سے کاٹ کر گھر میں بند رکھنا منشا ے الہٰی کے خلاف ہے ۔ عہد نبوت اورخلفاے راشدہ کے دورمیں بھی عورتیں اپنے خانگی کاموںیا دینی وتمدنی ضروریات کے لیے گھر وں سے باہرنکلتی تھیں،وہ مردوں سے چھپ کر زندگی بسر نہیں کرتی تھیں ،بلکہ دینی اورثقافتی تقریبات میں شرکت کرتی تھیں، وعظ و نصیحت کی مجالس میں اور پنج وقتہ نماز میں شرکت کے لیے مسجد نبو ی میں جایا کرتی تھیں ، لیکن باہر نکلتے وقت ان کے لباس اوررفتار و گفتا رمیں بے حیائی کا اظہار نہیں ہوتا تھا۔
دور ملوکیت میں روم اورایران کی شہنشایت کے زیر اثر عورتوں کو مردوں سے علیحدہ کردیاگیا ۔ پردہ نشینی عرب سماج میں مروج ہوگئی اورحرم کا نظام عمل میں آگیا ۔ عورتوں کو سختی کے ساتھ گھروں میں بند رکھنے کی رسم کا اسلام میں قطعی کوئی وجود نہیں،بلکہ قرآن نے عورتوں کو گھروں میں بند رکھنے کو بطور سزا تسلیم کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
’’ جو عورتیں تمھار ی بیویوں میں سے بے حیائی کا کام کریں توتم ان عورتوں پر چار آدمی اپنے میں سے گواہ کر لو، پس اگر وہ گواہی دیں تو تم ان کو گھروں میں بند رکھو ،یہاں تک کہ موت ان کا خاتمہ کردے یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور راہ تجویز فرمائیں۔‘‘ (النساء۴: ۱۵)
پردے کے جتنے احکام قرآن میں موجود ہیں، ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ عورت کو چھپا کرنہ رکھا جائے،بلکہ باہر نکلتے وقت لباس میں احتیاط کی جائے۔ اگر خواتین کو چھپا کر پابند رکھنا مقصود ہوتا تو پردے کے احکام کی کیا ضرورت تھی، کیونکہ گھر تو بذات خود ایک پردہ ہے۔ اسلام میں عورت کا پردہ یہ ہے کہ وہ مردوں کے ساتھ میل جول کے دوران میں اپنے بدن کو ڈھانپے اوراس کی نمایش نہ کرے ۔
مرد اور عورت، دونوں کو نظریں نیچی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،بلکہ مردوں کو پہلے حکم دیا گیاہے ،مگر عجیب بات ہے کہ مردوں کو جو حکم ہوا، اس کا چرچا نہیں ہوتا ۔طبرانی نے حضرت جابر سے روایت کی ہے:
عفوا تعف نساء کم وبروا آباء کم تبر أبناء کم.
’’پاک باز ہو جاؤ، تمھاری عورتیں خو د بخود پاک باز ہو جائیں گی۔ اپنے ماں باپ کے فرماں بردار ہو جاؤ، تمھاری اولاد خو د بخود تمھاری فرماں بردار ہو جائے گی۔ ‘‘
آپ نے دیکھا کہ اخلاقی حدود نیک مرد متعین کرتے ہیں ۔ چند بدنیت مردوں کی موجودگی کی وجہ سے عورت نارمل اوربھر پور زندگی بسر کرنے کے حق سے محروم ہو جاتی ہے ۔ منہ چھپانے والی عورت دراصل اخلاقی لحاظ سے مرد کو ایک کمزور اور ناقابل اعتبارمخلوق قرار دے رہی ہوتی ہے ۔
موضوع پرگفتگو کرنے سے پہلے دو باتوں کا ذکر بطور خاص کرنا چاہتاہوں ، کیونکہ ان کے بغیر موضوع کے بارے میں ذہن صاف نہیں ہوگا ۔ پہلی بات یہ ہے کہ سورۂ احزاب سورۂ نور سے پہلے نازل ہوئی ، کیونکہ اس سورت میں غزوۂ خندق اوربنو قریظہ کی فتح کاذکر ہے اوریہ واقعات ذی قعدہ کے آخر میں ۴ھ میں رونما ہو ئے، جبکہ سورۂ نور واقعۂ افک اورغزوۂ بنی مصطلق کے بعد ناز ل ہوئی اوریہ واقعات شعبان ۶ھ میں ہوئے ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی ’’فتح الباری‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ مشہور قول یہی ہے کہ سورۂ احزاب ۴ھ میں نازل ہوئی اوراس کی دلیل عبداللہ بن عمر کی وہ روایت ہے جسے بخاری نے (کتاب ا لشہادات اورکتاب المغازی) اور مسلم نے ( کتاب الامارۃ میں) پیش کیا ہے کہ انھوں نے جنگ احد کے موقع پر جبکہ ان کی عمر چودہ برس تھی ، اپنے آپ کو جہاد کے لیے پیش کیا ،مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت نہ دی ۔پھر انھوں نے اپنی خدمات غزوۂ خندق کے موقع پر پیش کیں ، جبکہ وہ پندرہ بر س کے تھے تو آپ نے اجازت دے دی۔‘‘ (۷: ۴۰۷، ۴۰۸)
مسلم کے شارح امام نووی کہتے ہیں کہ یہ روایت بتاتی ہے کہ غزوۂ خندق ۴ھ میں ہوا اوریہ صحیح ہے ، کیونکہ غزوۂ احد بلاشک ۳ھ میں ہوا۔مالک بن انس ، موسیٰ بن عقبہ ، امام بخاری، ابن قتیبہ، یعقوب بن سفیان ،امام نووی ،امام ابن حزم اورابن خلدون نے اسی رائے کی تائید کی ہے۔ طبرانی نے ابن اسحاق کی سند سے روایت کی ہے کہ ’’غزوۂ بنی مصطلق ۶ھ میں ہوا۔ ۱ ‘‘ ھیثمی کا قول ہے کہ اس روایت کے راوی ثقہ ہیں۔ابن جریر طبری، ابن حزم ، ابن العربی ، ابن اثیراور ابن خلدون کی بھی یہی رائے ہے ۔ امام سیوطی نے بھی اتقان میں سورۂ احزاب کو سورۂ نور سے مقدم تسلیم کیا ہے ۔۲
دوسری بات یہ ہے کہ لفظ حجاب اور ستر میں کیا فرق ہے ؟ اس کی وضاحت ضروری ہے ۔امام راغب حجاب کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کسی چیز تک پہنچنے سے روکنا اوردرمیان میں حائل ہونا ،جیسے وہ پر دہ جو دل اورپیٹ کے درمیان حائل ہے، اسے حجاب الجوف (Diaphragm) کہا جاتاہے ۔چنانچہ قرآ ن حکیم میں ہے کہ جنت اور دوزخ کے درمیان حجاب ہوگا۔۳ اس سے مراد وہ آڑ ہے جو جنت کی لذتو ں کو جہنم تک پہنچنے سے روک دے گی۔ حاجب دربان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ بادشاہ تک پہنچنے سے روکتاہے ۔ ارشاد ربانی ہے: ’کلا انھم عن ربہم یومئذ لمحجوبون۴ ‘اس کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے روز تجلی الہٰی سے ان کو روک لیا جائے گا ۔ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں حجاب کے عنوان سے ایک باب باندھا ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ حکومتیں اپنی تشکیل کے ابتدائی ایام میں اپنے اور عوام کے درمیان کوئی حجاب یا فاصلہ نہیں رکھتیں۔ اس طرح ار دو میں حجاب کے معنی رکاوٹ، آڑ اور اوٹ کے بنتے ہیں۔ ان معنوں میں لباس اورپہناوے کامفہوم قطعی شامل نہیں ۔ عورت کے پردے کے بارے میں حجاب کا استعمال ایک نئی اصطلاح ہے ۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی پردے کو دوسری اقوام کے پردوں پر قیاس کیاگیا ہے ۔ زمانۂ قدیم اورخاص طور پر فقہا کی اصطلاح میں ستر پردے کے معنوں میں آتاہے۔ کتاب الصلاۃ ہو یاکتاب النکاح، فقہا نے ہر جگہ پہناوے کے مفہوم میں لفظ حجاب کو نہیں ،بلکہ ستر کو استعمال کیا ہے۔ فقہا نے کبھی بھی آیت حجاب کو ستر کے حق میں پیش نہیں کیا ۔آج کل حجاب کو صرف سکارف کے معنوں میں استعمال کیا جاتاہے ۔ فرانس،ترکی یا جہاں خواتین حجاب کے حق میں مظاہرہ کرتی ہیں، وہاں اس سے مراد Head Scarf (سرپوش) ہوتا ہے ۔
میں صرف ان آیات مبارکہ کا ذکر کروں گا جن میں یا تو پردے کے حدود متعین ہیں یا انھیں چہرے کے پردے کے بارے میں بطور دلیل استعمال کیا جاتاہے ۔ سب سے پہلے سورۂ احزاب کی آیات کو پیش کروں گا کیونکہ وہ سورۂ نور سے پہلے نازل ہوئی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
’’ اے ایمان والو،نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے گھروں میں ( یونہی) مت داخل ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمھیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے ،مگر اس کے پکنے کے منتظر نہ رہو ،بلکہ جب تمھیں بلایا جائے (کہ کھانا تیار ہے) تب داخل ہو ا کرو پھر جب تم کھانا کھا لو تو اٹھ کر چلے جایا کرو او رباتوں میں جی لگا کر مت بیٹھے رہا کرو۔ یہ بات نبی کو تکلیف دیتی ہے، وہ تم سے حیا کرتے ہیں ۔اللہ حق بات کہنے سے شرم نہیں کرتا۔ اورجب تم ان (امہات المومنین) سے کوئی متاع ( سامان ) مانگو تو اوٹ کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ بات تمھارے دلوں کے لیے اوران کے دلوں کے لیے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے اورتمھیں مناسب نہیں کہ اللہ کے رسول کوایذا دو اورنہ یہ کہ اس کی بیویوں سے اس کے بعد نکاح کرو اوریہ بات اللہ کے نزدیک بہت بری ہے۔‘‘( ۳۳: ۵۳)
منافقین کا گروہ مدینے میں اسلامی معاشر ے کے خلاف نت نئی سازشوں میں مصروف تھا اوروہ شب و روز اس ٹوہ میں رہتے تھے کہ اہل بیت کے بارے میں کوئی اسکینڈل بنائیں تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہو اورمسلمانوں کی ساکھ کو نقصان پہنچے۔ بقول مولانا امین احسن اصلاحی وہ درانہ نبی کریم کے گھروں میں گھس جاتے تھے تاکہ وسوسہ اندازی کا کوئی موقع ان کے ہاتھ لگے۔یہ حالات تھے جب مسلمانوں کو امہات المومنین سے تخاطب اور گھروں کے اندر جانے کے آداب کی تعلیم دی گئی اورامہات المومنین کو اپنا رویہ بدلنے کا حکم ہوا تاکہ غرض مند ان کی کسی لغزش کو حجت نہ بنا سکیں۔ منافق عورتیں ازواج مطہرات کے دلوں میں اس قسم کے ارمان پیدا کرنے کی کوشش کرتی تھیں کہ آپ تقشف کی اس زندگی سے چھٹکارہ حاصل کرلیں تو وقت کے سردار آپ کو نکاح کا پیغام دیں گے ۔ امہات المومنین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کیا، وہ بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی تھی۔ سورۂ احزاب کی آیات نمبر۲۸تا ۳۴میں مخاطب امہات المومنین ہیں، ان آیات کی ابتدا اورانتہا ، ان کا انداز بیان اورافعال وضمائر کا استعمال، سب اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ منافقوں کی سازشوں کے پیش نظر امہات المومنین کو خاص خاص باتوں کی تعلیم دی گئی ہے ۔
آیت نمبر ۵۳کی شان نزول بھی اس بات پردلالت کرتی ہے کہ یہ آیت امہات المومنین کے لیے مخصوص ہے ۔ ابن العربی احکام القرآن میں کہتے ہیں کہ اس آیت کی شان نزول کے سلسلہ میں صحیح روایات حضرت انس سے مروی ہیں ۔ ۵ حضرت انس کی روایت کو بخاری ، مسلم اورترمذی نے نقل کیا ہے ۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ میں اس حدیث کو سب سے بہتر جانتا ہوں:
’’جب سیدہ زینب بنت جحش نکاح کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آئیں تو آپ نے دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا۔ ستو اورگھی کا آمیزہ بنایا اورایک بکری ذبح کی ۔میری والدہ ام سلیم نے پتھر کے ایک برتن میں حیس(کھجور ، ستو اورگھی کاآمیزہ) بھیجا ،لوگوں کو دعوت دی گئی ۔کوئی تین سو کے قریب مہمان تھے ۔ ایک ٹولی آتی تھی کھانا کھا کر نکل جاتی تھی یہاں تک کہ سب لوگوں نے کھانا کھا لیا۔ آپ نے دستر خوان اٹھانے کا حکم دیا۔ صرف تین مہمان بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ اس دوران میں سیدہ زینب دیوار کی طرف منہ کر کے بیٹھیں رہیں ۔ آپ باہر نکل گئے۔ لوٹ کر آئے تو وہ تین آدمی ابھی تک بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ جب انھیں محسوس ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پران کا وجود گراں گزر رہاہے تو وہ بھی اٹھ کر چلے گئے ۔ آپ نے پردہ گرا لیا اوراندرداخل ہوئے جبکہ میں حجرے میں بیٹھا ہواتھا ...پھر اس آیت کا نزول ہوا اللہ کے رسول باہر نکلے اوریہ آیت پڑھ کر سنائی۔‘‘
امام رازی تفسیر کبیر میں کہتے ہیں کہ جب لوگوں کو رسالت مآب کے گھروں میں داخل ہونے سے روک دیاگیا تو ماعون( برتنے کی چیزیں) کے حصول میں دقت ہوتی تھی حالانکہ ان کامانگنا ممنوع نہیں۔ تو حکم ہوا کہ گھر میں نہ گھسا کرو، بلکہ اوٹ کے پیچھے سے مانگ لیا کرو۔ ۶
بے پروا عرب مسلمان کسی بات کا خیال کیے بغیر بے دھڑک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں گھس جایا کرتے تھے، جہاں آپ کی ازواج مطہرات تشریف رکھتی تھیں۔ منافق تو اسکینڈل بنانے کے موقع کی تلاش میں رہتے تھے تو یہ آیت نازل ہوئی کہ اولاًتو بلا اطلاع اوربلا اجازت پیغمبر کے گھر میں داخل ہو نے کی کوشش ہی نہ کرو اوراگر تمھیں دعوت میں بلایا جائے تو ان آداب کو پیش نظر رکھو جو آیت میں مذکور ہیں کیونکہ ان آداب کو نظر انداز کرنے سے پیغمبر کو تکلیف ہوتی ہے ۔ اور پھر جب تم ازواج مطہرات سے کچھ مانگنا چاہو تو تمھیں چاہیے کہ گھر میں داخل ہوئے بغیر اوٹ کے پیچھے سے طلب کرو ۔ یہ طریقہ تمھارے اور ان کی پاکیزگی کے لیے بہتر ہے۔
یہ آیت مبارکہ بلندوبالاآداب پر مشتمل ہے ۔ گھر میں داخل ہونے کے آداب ، ازواج مطہرات سے مخاطب ہونے کے آداب اور یہ ادب کہ بلا ضرورت بات نہ کی جائے۔
آیت میں مذکور دستور اس طرز عمل سے متعلق ہے جو انسان کو دوسروں کے گھروں کے لیے اختیار کرنا چاہیے۔ اس کے مطابق مرد کے لیے جائز نہیں کہ وہ عورتوں کی رہایش میں داخل ہو۔ اگر اسے کسی چیز کی ضرورت ہے تو اسے چاہیے کہ پس دیوار کھڑے ہو کر اسے طلب کرے۔ اس بات کا پردے کی بحث سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ پردہ کو فقہ میں ستر کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے، نہ کہ حجاب کے نام سے ۔کسی فقیہ نے پردے کے لیے آیت حجاب سے دلیل نہیں پکڑی۔ اصل مقصد یہ ہے کہ مرد اور عورت تنہائی میں اکٹھے نہ ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرما ن ہے: ’’کوئی مرد کسی عورت سے خلوت نہ کرے وگرنہ دونوں کے ساتھ تیسرا شیطان ہوگا۔‘‘ عورت مرد سے تنہائی میں نہیں مل سکتی نہ چہرہ ننگا کر کے اور نہ چہرے پر کپڑا ڈال کر۔ آیت کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی اندر چلا جائے اور وہ چہرہ ڈھانپ کر اس کے سامنے بیٹھ جائے۔ حجاب سے یہاں مراد پہناوا یا لباس نہیں، بلکہ مراد دروازے ، دیوار یا کسی اور چیز کی اوٹ ہے۔
ایک اچھے معاشرے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ عورت کا احترام کیا جائے۔ اس اعتبار سے ازواج مطہرات خاص احترام کی سزاوار ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکم دیا گیا کہ کوئی ایسی حرکت نہ کی جائے جس سے ان کو جیتے جی یا وفات کے بعد تکلیف ہو ۔ اسی احترام کے پیش نظر آپ کی ازواج کو آپ کی وفات کے بعد شادی کی اجازت نہیں دی گئی۔
اہل تحقیق کا ان آیات کے بارے میں ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ ان آیات میں ازواج مطہرات کو خاص طور پر مخاطب کیاگیا ہے ۔ ان آیات میں امہات المومنین کے امتیازی حقوق کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے ۔ ان امتیازات میں سے ایک تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان سے نکاح حرام ہے۔ دوسرے ان کی جزا و سزا دگنی ہے۔ تیسرے ان کو طلاق دے کر دوسری عورت سے شادی کرنا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے۔ چوتھے ان کے گھروں میں آیات کا نزول ہوتا ہے چنانچہ’ قرن فی بیوتکن‘اورآیت حجاب بھی انھی امتیازات میں سے ہے۔ آیات کا آغاز یوں کیا گیا ہے: ’’ اے نبی کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو‘‘ اوراختتام اس طرح ہوا ہے: ’’ اے نبی کے اہل بیت، تمھیں اللہ آلودگی سے پاک کرنا چاہتا ہے ۔‘‘ اللہ نے تطہیر کا ذمہ صرف ازواج مطہرات کے لیے کیا ہے، نہ کہ عام عورتوں کے لیے۔
سنن ابی داؤد ( جلد سوم کتاب ا للباس ) میں ام سلمہ سے مروی ہے:
’’ میں اور میمونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں کہ عبداللہ بن ام مکتوم آگئے۔ آپ نے فرمایا: اس سے پردہ کرو۔ ہم نے کہا: وہ تو اندھا ہے ۔ آپ نے فرمایا: تم تو اندھی نہیں۔ کیاتم اسے نہیں دیکھ رہی ہو۔ ‘‘
امام ابو داؤد کا قول ہے کہ یہ حکم نبی کریم کی بیویوں کے ساتھ خاص ہے۔ ابن قدامہ حنبلی المغنی (۷: ۴۶۶) میں کہتے ہیں کہ اثرم کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ ( امام احمد بن حنبل ) سے پوچھا کہ کیا نبہان والی روایت ( جو ام سلمہ سے مروی ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے بارے میں ہے اورفاطمہ بنت قیس والی روایت ( جس میں نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کو ام شریک کے بجائے ابن ام مکتوم کے گھر عدت گزارنے کے لیے کہا تھا) عام عورتوں کے لیے ہے ؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔
اما م زمخشری نے آیت نمبر ۳۵کی تفسیر میں لکھا ہے کہ جب یہ آیات ۲۸تا ۳۴ازواج مطہرات کے بارے میں نازل ہوئیں تو دوسری مسلمان عورتوں نے کہا کہ ہمارے بارے میں تو کچھ نازل نہیں ہوا تو آیت ۳۳تا ۳۵ نازل ہوئی۔ حافظ ابن حجر عسقلانی حضرت سودہ کی اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے جس میں حضرت عمر نے ان کے خروج پر اعتراض کیا تھا، فرماتے ہیں کہ حجاب کے بارے میں دوسری عورتوں کو چھوڑ کر امہات المومنین پر سختی کی گئی ہے۔۷ پھر حافظ صاحب قاضی عیاض کا قول نقل کرتے ہیں کہ حجاب امہات المومنین کے لیے خاص ہے ...ان کا خیال ہے کہ امہات المومنین کو پردے میں بھی باہر نکلنے کی اجازت نہیں۔ لیکن حافظ صاحب قاضی عیاض کے موقف کی تردید کرتے ہیں اوردلیل کے طورپر حضرت سودہ کی حدیث پیش کرتے ہیں۔ اس مکتب فکر کے حامی دلیل کے طور پرفقہ کے اصول کو پیش کرتے ہیں کہ ایسے احکام جو مخصوص نوعیت اورکسی قید سے مقید ہوں، انھیں عام کرنا درست نہیں، مثلاً ازواج کی تعداد میں جو رخصت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ثابت ہے، اس میں کسی دوسرے کو شامل نہیں کیا جاسکتا ۔
اس نقطۂ نظر کے مخالف کہتے ہیں کہ جن باتوں کا حکم اللہ کے پیغمبر کی بیویوں کو دیاگیا ہے، امت مسلمہ کی دوسری عورتیں بھی ان احکام میں ان کے تابع ہیں۔ وہ دلیل کی طور پر کہتے ہیں کہ آیت نمبر۳۳ میں ازواج کو حکم دیاگیاہے کہ تم نماز قائم کرو اورزکوٰۃ دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔یہ حکم تو سب عورتوں پر لاگوہو گا ۔ یہ اعتراض بے وزن ہے، کیونکہ نماز ، زکوٰۃ اور اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کا حکم متعدد دوسری آیات میں موجود ہے، یہ حکم پہلی مرتبہ نہیں دیا گیا۔ یہاں یہ خاص حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ امہات المومنین کو زمانۂ جاہلیت کی طرح بن ٹھن کر باہر نکلنے سے منع کیاگیا ہے اور اس کے بجائے ان کی سمت سیدھی رکھنے کے لیے انھیں نماز ، زکوٰۃ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا نسخہ بتایا گیا ہے یعنی نمود ونمایش پر ان اعمال سے قابو پایا جا سکتا ہے وگرنہ وہ نماز پہلے بھی پڑھتی تھیں، زکوٰۃ بھی ادا کرتی تھیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں بھی کمی نہیں کرتی تھیں۔ یہاں پران اعمال کاخاص حکم ہے تاکہ اخلاقی عیوب پر قابو پالیں اورلغزش سے بچی رہیں۔ازواج مطہرات کو یہ احکام سیاسی اوراجتماعی مصلحتوں کی وجہ سے دیے گئے ہیں ۔
سورۂ احزاب کی آیت۵۹ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ اے نبی، اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اورمومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے جلباب اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں (یا ان میں سے کچھ نیچے کر لیا کریں ) اس سے جلدی پہچان ہو جایا کرے گی تو آزار نہ دی جایا کریں گی۔‘‘(۳۳: ۵۹)
اس آیۂ مبارکہ کو سمجھنے کے لیے دو الفاظ کی وضاحت ضروری ہے۔ جلباب اور ادناء۔۱۔جلباب کے درست معنی کیا ہیں ؟ ۲۔ ادناء سے کیا مراد ہے؟ اوراس کی کیفیت کیاہے؟
’’مقاییس اللغہ‘‘ میں احمد بن فارس کہتے ہیں کہ جلباب کے معنی قمیص کے ہیں اورعمرو ذی کلب کی بہن جندب کا
شعر بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ وہ اپنے بھائی کا مرثیہ کہتے ہوئے کہتی ہے :
تمشی النسورالیہ وھی لاھیۃ
مشی العذاری علیھن جلابیب
’’ کرگس لا ابالیانہ انداز میں اس کی طرف ایسے چل رہے ہیں جیسے دوشیزائیں جلباب پہنے چلتی ہیں۔‘‘
کرگس کا سراور چونچ ننگی ہوتی ہے اس پر پرنہیں ہوتے باقی بدن پر پراتنے گھنے ہوتے ہیں کہ یوں لگتاہے جیسے انھوں نے قمیص پہنی ہوئی ہے۔
’’المفردات ‘‘میں امام راغب کا قول ہے کہ جلباب سے مراد قمیص یا اوڑھنی ہے۔ ابن سیدہ ’’المخصّص ‘‘میں جلباب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ اوڑھنی سے بڑا اورچادر سے چھوٹا ہوتا ہے۔ اس سے عورت اپنی پیٹھ اور سینہ ڈھانپتی ہے۔ فیروز ابادی ’’القاموس المحیط‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جلباب عبارت ہے قمیص اور ایک بڑے اور کشادہ کپڑے سے جو لحاف سے کسی قدر چھوٹا یا چادر کی طرح کا پتلالحاف ہوتا ہے جس کے ذریعہ سے عورت اپنی پوشاک ڈھانپتی ہے یا پھر اوڑھنی سے عبارت ہے۔
صاحب لسان العرب لکھتے ہیں: ’’ جلباب اوڑھنی سے بڑا اورچادر ( عبا) سے چھوٹا ایک لباس ہے جس سے عورت بد ن ڈھانپتی ہے اور خمار سے اپنا سر اورسینہ ڈھانپتی ہے۔ پھر انھوں نے ایک قول نقل کیا ہے کہ وہ ’مقنعۃ‘ (اوڑھنی ) کی مانند ہوتا ہے جس سے عورت اپنا سر، پیٹھ اورسینہ ڈھانپتی ہے۔ (لین)’ Lane‘اپنی لغت کی مشہور کتاب ’Lexicon‘ میں کہتا ہے کہ یہ اوڑھنی سے بڑا اورچادر سے چھوٹا ہوتا ہے جس سے عورت اپنا سر اورسینہ ڈھانپتی ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ جلباب کے بارے میں مفسرین کی کیا رائے ہے۔ صاحب کشاف کہتے ہیں کہ جلباب ایک کھلا کپڑا ہے جو اوڑھنی سے بڑا اورچادر سے چھوٹا ہوتا ہے۔ عورت اسے سر پر لپیٹ لیتی ہے اورباقی کا حصہ سینے پر ڈال دیتی ہے۔ ’’درمنثور‘‘ میں ابن ابی حاتم کی روایت سے مشہور تابعی سعید بن جبیر کا قول نقل کیا گیا ہے کہ جلباب وہ چادر ہے جو اوڑھنی کے اوپراوڑھی جاتی ہے۔کسی مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں کہ نامحرم اسے دیکھے اوراس کی اوڑھنی کے اوپرچادر نہ ہواوراس نے اسے سر اور سینے پراچھی طرح ڈالا ہوا نہ ہو ۔ ’’تفسیرالمراغی‘‘ میں ہے کہ جلباب سے مراد وہ چادر ہے جسے عورت قمیص اوراوڑھنی سے اوپر پہنتی ہے۔ ۸ مقصد ایسا لباس ہے جو اس کے جسم اورسر کو ڈھانپ لے اورسر ، سینہ اوربازو جیسے مقام زینت کو ظاہر نہ کرے۔ سید قطب فی ظلال القرآن اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ان سے کہہ دو جب عورت گھر سے نکلے، وہ اپنے جسم ، سر اورسینہ کو ڈھانپ لے۔
اہل لغت اورمفسرین کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ جلباب کا اطلاق ہر سلے اوران سلے وسیع کشادہ کپڑے پر ہوتا تھا ، خواہ وہ کھلی قمیص ہو یا چادر۔ کھلی قمیص میں ہر قسم کا گاؤن، اوور کوٹ یا عبا شامل ہے جن کا گریبان کھلا ہوتا ہے۔ آج کل گاؤن یا اوورکوٹ اسکارف سے مل کر جلباب کا مقصد بدرجۂ اتم پورا کرتے ہیں۔
یہاں اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ جلباب مرد بھی پہنتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہ نے صحابۂ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :’ھذاجلباب رسول اللّٰہ لم یبل ھذا أبلی عثمان سنتہ‘ ، ’’یہ رہی اللہ کے رسول کی قمیص جو ابھی بوسیدہ نہیں ہوئی، مگر عثمان نے ان کی سنت کو بوسیدہ کردیاہے۔‘‘لسان العرب میں حضرت علی کا قول نقل ہوا ہے کہ ’ من أحبنا اھل البیت فلیعدّ جلباب الفقر‘،’’جو ہم اہل بیت سے محبت کرتاہے، اسے چاہیے کہ فقر کی قمیص تیار کرے۔ ‘‘چنانچہ جلباب کھلے پیرہن ، گاؤن یا اوور کوٹ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ آج کل سوڈانی اپنے ثوب کو جلابیہ کہتے ہیں۔ تصریحات بالا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جلباب کے معنی وہ چادریں بھی ہیں جو اوڑھنی سے بڑی اورردا (چادر )سے چھوٹی ہوتی ہیں، یہ اوڑھنی کے اوپر پہنی جاتی ہیں اورسر ، سینہ اور پیٹھ کو ڈھانپتی ہیں۔ سورۂ نورآیت ۶۰کی تفسیرمیں ’ ثیاب‘ (کھلے کپڑے ) سے مراد خمار ( اوڑھنی ) اورجلباب (چادر)لیے گئے ہیں یعنی سن رسیدعورتوں کے لیے جائزہے کہ وہ اپنے سرو ں کو ننگا رکھیں۔ چہرے کو ڈھانپنا جلباب کے مقصد میں قطعی شامل نہیں۔
جلباب کے معنی میں جو اختلاف ہے، وہ لفظی اختلاف ہے، معنوی نہیں۔ ایسے اختلاف کو اصول تفسیر میں نوعیت کا اختلاف کہا جاتا ہے، اس سے مراد پیرہن لے لیں یا چادرلے لیں، معانی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر اہل لغت کی تصریحات کی روشنی میں جلباب کو صرف چادر کے معنی تک محدود نہیں کیا جاسکتا ۔اوراگر اس سے چادر بھی مراد لے لی جائے توبھی جلباب صرف بدن اوراطراف کوڈھانپے گا ۔سر اورسینے کو خمار ڈھانپے گا جیسا کہ سورۂ نورمیں بیان ہوا ۔ کیونکہ قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تفسیر کرتاہے۔
زیر نظر آیت میں دوسری اہم تعبیر ’ یدنین علیھن ‘ ہے ’یدنین‘کا صیغہ باب افعال کے مصدر’ ادن ء‘ سے مضارع کا جمع مؤنث غائب کا صیغہ ہے۔ اس کا ثلاثی مجرد’ دنا یدنو دنواً ودناوۃً ‘ہے جس کے بنیادی معنی قریب ہونا ہے۔ اس سے ثلاثی مزید ’ادنیٰ‘ اور ’دنّی ‘ہے جس کے معنی ہیں ،اس نے قریب کیا۔ ’’مقاییس اللغہ‘‘ میں احمد بن فارس بن زکریا (المتوفی ۳۹۵ھ) نے ’دنّی ‘ کے بارہ میں لکھا ہے کہ اس کے بنیادی معنی ’مقاربۃ‘ (قریب ہونا ) کے ہیں اور’ الدنی‘ قریب آدمی کو کہا جاتاہے۔ دنیا کو بھی قریب ہونے کی وجہ سے ’دنیا ‘کہا جاتا ہے اور ’دانیت بین الامرین ‘کے معنی ہیں: میں نے دوچیزوں کو باہم قریب کیا۔اورحدیث میں ہے:’ اذا اکلتم فدنّوا‘ یعنی جب کھاؤ تو اپنے قریب سے کھاؤ۔ اور عربی محاورے میں کہا جاتاہے:’ لقیتہ ادنی دنّی‘ یعنی میں اسے سب سے پہلے ملا۔’’صحاح‘‘ میں ہے:’دنوت منہ وادنیت غیری‘ یعنی میں اس کے قریب ہوا اورمیں نے دوسرے کو قریب کیا۔ فیروز ابادی ’’القاموس المحیط‘‘ میں لکھتے ہیں: ’دنی‘ وہ قریب ہوا یہ’ ادنی ‘اور ’دنی‘ کی مانند ہے جس کے معنی ہیں کہ اس نے قریب کیا ۔امام راغب ’’مفردات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’الدنو‘ کے معنی ہیں قریب ہونا ’ادنیت بین الامرین وادنیت احدھما‘، ’’میں نے دو چیزوں کو باہم قریب کیا۔‘‘ یا میں نے ان میں سے ایک کو قریب کیا۔ یہ معنی لکھنے کے بعدانھوں نے ’یدنین علیھن من جلابیبھن‘ کو بطور دلیل پیش کیا ہے یعنی اپنی چادریں قریب کرلیںیعنی پہن لیں۔ ’’اساس البلاغہ‘‘ میں زمخشری کا قول ہے کہ ’ ادنت المراۃ ثوبہا ودنتہ‘ کے معنی ہیں کہ عورت نے اپناکشادہ کپڑا پہن لیا۔شاہد کے طور پر انھوں نے عمرو بن ابی ربیعہ کا شعر نقل کیا ہے :
کأن ثوبا لما التقی الرکب تد
نیہ تشف من قمر
’’جب سوار آپس میں ملے تو جو کشادہ کپڑامحبوبہ نے پہن رکھا تھا، اس میں سے چاند صاف نظر آرہا تھا۔ ‘‘
Lane کی Lexicon میں ہے کہ’ دنّی‘ کے فعل کے ساتھ حروف جار (Preposition)من، إلی، علی اور ل استعمال ہوں گے تو معنی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، بلکہ مطلب ہوگا: وہ قریب ہوا یا اس نے قریب کیا ۔
اس بنا پر جلباب کو قریب کرنے کا مقصد اس کو پہننا ہے۔ جب کسی عورت سے کہا جاتاہے کہ اپنے لبا س کو قریب کرلو تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے نہ چھوڑو، اسے سمیٹ کر ایک طرف نہ رکھو، اسے بے اثر اوربے خاصیت نہ جانو اوراپنے آپ کو اس سے ڈھانپ لو۔
ابن قتیبہ دینوری تیسری صدی ہجری کے معروف محقق ، مفسر، محدث اورمورخ ہیں۔ اپنی معرکتہ الآرا کتاب ’’مشکل القرآن و غریبہ‘‘ کی دوسری جلد کے صفحہ ۸۱پر لکھتے ہیں ’یدنین علیھن من جلا بیبھن ای یلبسن الاردیۃ‘ یعنی اس سے مراد ہے اپنی چادریں اوڑھ لیں۔
نحو اورلغت کے اما م کسائی نے کہا ہے کہ ’یدنین علیھن من جلا بیبھن‘ سے مراد ہے کہ اپنی چادروں کو اپنے گرد سمیٹ لیں کیونکہ’ ادناء‘ انضما م( سمیٹنے اور اکٹھا کرنے )کے معنوں میں آتاہے۔
’ جلا بیبھن‘ سے پہلے حرف جار’’من ‘‘ تبعیض (Splitting) کے معنوں میں ہے۔
’’کشاف‘‘ میں اس کی دو صورتوں کا ذکر ہے۔ ۹ ایک تو یہ کہ اپنے جلبابوں میں سے ایک جلباب۔ مقصد ہے کہ عورت اپنے یہاں پڑے ہوئے جلبابوں میں سے کوئی جلباب پہن لے ۔اس صورت میں ’ادنی‘ کے معنی پہننے کے ہوں گے۔ دوسری صورت کو بعد میں بیا ن کیا جائے گا۔
اگر ’ ادناء‘ اپنے بنیادی معنوں یعنی قریب کرنااور اوڑھنا کے لیے استعمال کیا جائے تو بات بالکل صاف ہوجاتی ہے اور اس کی کیفیت کے بارے میں کسی قسم کے اشکال کی کوئی گنجایش نہیں رہتی ۔
اب آئیے دوسرے معنی کی طرف ،متاخرین اہل لغت جیسے’’ المصباح المنیر‘‘ اور ’’المعجم الوسیط‘‘ کے مصنفین نے اس کے معنی نیچے کرنے اورلٹکانے کے بھی لیے ہیں۔ مفسرین نے بھی اس کے معنی نیچا کرنے اور لٹکانے کے لیے ہیں۔ صاحب کشاف کہتے ہیں کہ’ جلابیبھن‘ سے پہلے حرف جار کی دوسری صورت یہ ہے کہ اپنے جلباب کا کچھ حصہ نیچے کرلو۔ صاحب روح المعانی کہتے ہیں کہ ’ادنانی‘ کے معنی ہیں کہ اس نے مجھے قریب کیا، مگر ضمناً اس کے معنی ’ارخاء‘ (لٹکانے) کے بھی آتے ہیں ، ۱۰ خصوصاً جب اس کے بعد حرف جار تعدیہ کے لیے استعمال ہواہو اور انھوں نے مشہور تابعی سعید بن جبیر کا قول نقل کیاہے کہ ’یدنین ‘کے معنی ہیں ،وہ لٹکا لیں۔
ذہن میں یہ بات رہے کہ ’ ادناء‘ کے معنی لٹکانا اسی صورت میں ہوں گے جب جلباب کو چادر کے معنوں میں لیا جائے، نہ کہ قمیص ، اوور کوٹ اور گاؤن کے معنوں میں ۔
چادر کو کتنا نیچے کیا جائے، اس بارے میں اہل تحقیق میں اختلاف ہے۔
ایک رائے تو یہ ہے کہ جلباب کو اتنا نیچے کیا جائے کہ بدن کے وہ حصے چھپ جائیں جنھیں چھپانے کے لیے عرب معاشرے میں عام طور پر جلباب پہنا جاتا تھا۔اس بات کی پہلے وضاحت ہو چکی ہے کہ جلباب پیشانی ، پیشانی کے بال، کان اور کانوں کے بندے اور گردن سینہ اور اس کا ہار چھپانے کے لیے پہنا جاتا تھا۔
امام طبری نے ’’جامع البیان‘‘ میں حضرت ابن عباس سے قتادہ کی روایت بیان کی ہے کہ جلباب کو اپنی پیشانی پر باندھ لیا جائے۔۱۱ لیکن مجاہدکا قول ہے کہ اپنے ابرووں پر باندھ لیا جائے۔ ابن نجیح نے مجاہدبن جبر المکی سے اثر روایت کیا ہے کہ ادناء سے مراد پیشانی پر باندھنا ہے، مجاہد نے سورۂ نور کی آیت نمبر ۳۱کی جو تفسیر کی ہے، وہ بھی اسی رائے کی تائید کرتی ہے۔۱۲ ابن عباس نے ادناء کی تفسیر کی ہے: ’تدلی الجلباب الی وجہھا ولا تضرب بہ‘ چادر چہرے تک نیچے کی جائے گی، مگر اس کو چھپائے گی نہیں ’’درالمنثور‘‘ میں سعید بن جبیر کا قول نقل کیا ہے کہ ادناء کا طریقہ یہ ہے کہ سر اور سینے پر جمایا جائے۔ ۱۳
جمہور تابعین کا یہی مذہب ہے۔ مجاہد اور ان کے ہم خیال تابعین کی رائے ہے کہ ادناء کو ان مقامات زینت پر نیچاکرو جن کا اظہار جائز نہیں یعنی سورۂ نور کی آیت ’ولیضربن بخمرھن علی جیوبہن‘ سورۂ احزاب کی اس آیت کی تفسیر ہے۔ چونکہ سورۂ نور سورۂ احزاب کے بعد نازل ہوئی، اس سے یہ سمجھا جا سکتاہے کہ اس پر عمل کرنے کے علاوہ سورۂ نور میں دیے گئے حکم کی مکمل پابندی کی جائے گی۔اگر ادناء سے مراد چہر ہ چھپانا لیا جائے تو پھر سورۂ نور کے احکام معاذ اللہ بے معنی ہو کر رہ جائیں گے۔ سورۂ احزاب کی آیت ان عورتوں کے لیے ہے جو آوارہ لوگوں کی مزاحمت سے دوچار ہوں، جبکہ سورۂ نو رکی آیت ۳۱ایک کلی اوردائمی حکم کی حیثیت رکھتی ہے ،خواہ عورتوں کے لیے کوئی مزاحمت ہو یا نہ ہو۔ زیرنظرآیت میں آنے والا حکم اس دستورکی طرح ہے جو سورۂ احزاب کی آیت ۳۲میں وارد ہوا ہے، اس آیت میں انداز سخن کی وہ کیفیت بیان کی گئی ہے جو وقاراورعصمت کی آئینہ دار ہے جبکہ زیر بحث آیت آمدورفت میں وقار کے دستور سے متعلق ہے، اس آیت میں پردے کی حدود بیان نہیں ہوئیں اورنہ ہی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چہرے کا چھپانا واجب ہے۔ پردے کی واجبی حدود کا تعین سورۂ نورکی آیت ۳۱میں کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ فقہ کے کسی امام نے وجوب ستر کے دلائل میں اس آیت سے استنباط نہیں کیا۔ زیرنظر آیت کا اسلوب بھی اسی رائے کی تائید کرتاہے۔ جس ادناء کا حکم دیا گیا ہے، وہ مثبت صیغے میں ہے اور مثبت کا صیغہ عام حکم کے لیے استعمال ہوتا ہے اگر انداز تخاطب نفی یا نہی کے صیغے سے ہوتا توپھر اسے خاص ادناء یعنی چہرے کو چھپانے پر محمول کیا جاسکتا تھا۔
اس رائے کے مخالفین ادناء سے مراد یہ لیتے ہیں کہ ایک آنکھ کے سوا سارا چہرہ چھپایا جائے۔ اس رائے کی تائید میں ایک اثر پیش کیا جاتا ہے جو یوں ہے:
’’ ابو صالح عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے اس نے علی بن ابی طلحہ سے اس نے عبداللہ بن عباس سے روایت کی ہے کہ اللہ نے مسلمان عورت کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی حاجت کے لیے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اوپر سے اپنے چہر ے کو جلباب سے ڈھانپ لیں اورصرف ایک آنکھ کھلی رکھیں ‘‘
اس اثر پرناصر الدین البانی نے اپنی کتاب ’جلباب المراۃ المسلمۃ‘ ( حاشیہ صفحہ ۸۸) پر بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
’’اس کی روایت ابن عباس سے درست نہیں، کیونکہ امام طبری نے اسے علی بن ابی طلحہ کی سند سے روایت کیا ہے۔ اس بات کے علاوہ کہ ائمہ حدیث نے اس پر تنقید کی ہے اوراس کے ثقہ ہونے کے بارے میں کلام کیا ہے، اس کا سماع ابن عباس سے ثابت نہیں،بلکہ انھوں نے عبداللہ بن عباس کو دیکھا تک نہیں، اس کا پہلا راوی ابو صالح عبداللہ بن صالح بھی ضعیف ہے۔ متن کے اعتبار سے بھی یہ اثرمعلول ہے کیونکہ امام طبری نے بعینہٖ اسی سند سے سورۂ نور کی آیت ’الا ما ظہر منھا‘کی تفسیر کے سلسلہ میں روایت کی ہے کہ ابن عباس چہرے کو، آنکھوں کے سر مے کو ، ہتھیلیوں کی مہندی اورانگوٹھی کوزینت ظاہرہ میں شمار کرتے ہیں۔ یہ اثر سورۂ نور کی آیت ۳۰سے متصادم ہے اس لیے قابل حجت نہیں۔ ‘‘
لغوی لحاظ سے ’من جلابیبھن‘ کے معنی ہیں جلباب کا تھوڑا سا حصہ ،جس سے پیشانی اورپیشانی کے بال ، کان اوراس کی بالیا ں چھپ جائیں اس سے پورے چہرے کا چھپانا لازم نہیں آتا۔
ابن العربی نے ’’احکام القرآ ن‘‘ میں لکھا ہے کہ رائے میں اختلاف کا سبب آیت کا یہ ٹکڑا ہے ’ذلک ادنی ان یعرفن‘ ،’’یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں ۱۴ ۔‘‘ جن لوگو ں نے ادنا ء سے مراد چہرے کو چھپانا لیا ہے، ان کا کہناہے کہ چہرے کو دیکھ کر پتا چلے گا کہ وہ آزاد عورت ہے یا لونڈی۔ان کی غلط فہمی کی بنیاد آیت کی شان نزول کے بارے میں سدی کی روایت ہے جس کے مطابق عورتیں جب قضاے حاجت کے لیے نکلتی تھیں تو بدقماش لوگ ان سے چھیڑ چھاڑ کرتے تھے اوریہ عذر پیش کرتے تھے کہ ہم نے تو لونڈی سمجھ کر چھیڑا ہے، چنانچہ بعض مفسرین’ نساء المومنین ‘سے مرادآزادعورتیں لیتے ہیں اورکنیزوں کو ان میں شامل نہیں کرتے ،یہ سوچ غیر قرآنی ہے جیسا کہ تفسیر ’’البحر المحیط‘‘ (۷:۲۵)میں ہے کہ’ نساء المومنین ‘میں آزاد اور کنیزیں سب شامل ہیں، کیونکہ لونڈیوں سے چھیڑ چھاڑکا احتمال زیادہ ہوتا ہے ۔وہ کام کاج کے لیے باہر نکلتی ہیں۔ذہن نہیں مانتاکہ قرآن صرف آزاد عورتوں کو موردعنایت قرار دے اورکنیزوں کی آزار سے چشم پوشی کرے، حالانکہ اللہ کا دین ایک ہے، فطرت ایک ہے پھر آزاد اور لونڈی میں فرق کیوں؟آیت کے اس ٹکڑے کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ جب عورت باوقار لباس پہن کر نکلے گی تو آوارہ منش لوگوں کو ان کو چھیڑنے کی جرأت نہ ہوگی۔ یہ ایک امتیازی نشان ہوگاجس سے پہچان ہو جائے گی کہ وہ باعصمت عورتیں ہیں آوارہ نہیں ۔ آیت کی شان نزول کے بارے میں درج ذیل آیات اسی تفسیر کی تائید کرتی ہیں ۔
۱۔ امام طبری اپنی تفسیر میں روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ کی بیبیاں اوردوسری عورتیں قضاے حاجت کے لیے باہرنکلتی تھیں۔ یہ لوگ چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے راستوں پربیٹھ جاتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ۱۵
۲۔’’زادالمسیر‘‘ میں روایت ہے کہ مدینہ کے کچھ لوگ عورتوں کو دیکھنے کے لیے راستوں میں بیٹھ جاتے۔ انھیں چھیڑتے اور ان کا پیچھا کرتے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ان روایات میں آزاد عورتوں اور لونڈیوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ ۱۶
ایک اورلطیف نکتہ یہ ہے کہ ادنیٰ کے لفظ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اوباشوں کی دل آزاری سے بچنے کا صرف یہی طریقہ نہیں، یہ تو ادنیٰ سی حفاظتی تدبیر ہے جس سے پاک باز عورتوں کے وقار میں اضافہ ہوگا۔ صرف اس لباس کی وجہ سے وہ فاسقوں کی زبان سے محفوظ نہیں رہ سکتیں، یہ تو کمال کی ایک علامت ہے کہ اصل کمال یہ ہے کہ عورت کے اندر تقویٰ کامانع ( deterrent)ہو۔
مختصر یہ کہ زیر نظر آیت سے چہرے کا ڈھانپنا نہ منطوق کے اعتبار سے اورنہ مفہوم کے اعتبارسے ثابت ہوتا ہے۔ جلباب کی غرض انھی مقامات کو ڈھانپنا ہے جس کی تفصیل سورۂ نور میں ہے، کیونکہ سورۂ نور کا حکم مستقل حکم ہے۔
سورۂ نور کی آیت ۳۰اور۳۱میں پردے کی واجبی حدود کو متعین کیاگیاہے۔ قرآن حکیم کی کوئی دوسری آیت ان حدود کا تعین نہیں کرتی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ مومنوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ اللہ اس سے باخبر ہے جووہ کرتے ہیں اورمومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کوظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو کھلی رہتی ہے اور چاہیے کہ اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پرڈال لیں اوراپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے باپوں کے... ‘‘ (۳۳: ۳۰،۳۱)
امام سیوطی نے ’’الدرالمنشور ‘‘میں روایت کیا ہے ایک دن مدینہ کے گرم موسم میں ایک خوب صورت نوجوان عورت ایک راستہ پر اس طرح چل رہی تھی کہ جاہلی رواج کے مطابق دوپٹہ گردن کے پیچھے لٹک رہا تھا۔ اس کا گریبان اورگردن کھلی تھی۔ ایک صحابی سامنے سے آ رہے تھے، وہ اس خوب صورت عورت کو دیکھتے ہی رہ گئے اور بے خبر ی میں آگے چلتے گئے یہاں تک کے دیوار سے باہر نکلی ہوئی کسی چیز سے ان کا چہرہ زخمی ہوگیا۔ وہ اسی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوئے اورسارا ماجرا کہہ سنایا۔ اس موقع پریہ آیت نازل ہوئی۔۱۷ ہوسکتا ہے کہ آیۂ مبارکہ پہلے نازل ہوئی ہواوراس واقعہ پر چسپاں کردی گئی ہو۔ بہر کیف اس روایت سے اتنا توواضح ہوتاہے کہ زمانۂ جاہلیت میں عورتیں اپنے سروں کو اوڑھنیوں سے ڈھانپ کر ان کو پیٹھ پرلٹکا لیتی تھیں جس سے ان کے کان ، گردن اورسینہ کا اوپروالا حصہ بے پردہ ہوجاتا تھا۔
شرم گاہ کی حفاظت سے پہلے نظریں نیچی کرنے کا حکم اس لیے دیا گیا کہ نگاہیں دل کی رہبر ہوتی ہیں، اس لیے انسان زیادہ ٹھوکر انھی کی وجہ سے کھاتا ہے۔ امام قرطبی کے قول کے مطابق نگاہیں دل کا مین گیٹ ہوتی ہیں ۔ اسی لیے امام غزالی کا قول ہے کہ جو نگاہیں نیچی رکھنے پر قدرت نہیں رکھتا، وہ زنا سے بچنے پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔
امام راغب ’’مفردات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’ غض‘ کے معنی کمی کے ہیں، خواہ یہ کمی نظرمیں ہو یا آواز میں یا برتن میں، کچھ کم کرنے کی صورت میں مثال کے طور پر انھوں نے یہی آیت پیش کی ہے۔ عربی زبان میں دو لفظ’ غمض‘ اور ’غض‘ آنکھ کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔ پلکوں کو ایک دوسرے پر سلا دینا ’ غمض‘ کہلاتا ہے اوراس سے ترک نگاہ کا مفہوم نکلتا ہے، جبکہ نظر کو کم کرنا ’غض‘ کہلاتا ہے جس سے نگاہ کو محدود کرنے یا بچانے کا مفہوم نکلتا ہے۔
جب انسان آنکھیں کھول کر دنیا میںرہے گاتو سب چیزوں پر اس کی نظر پڑے گی یہ تو ممکن نہیں کہ کوئی مرد کسی عورت کو او رکوئی عورت کسی مرد کو نہ دیکھے۔ اسی لیے شارع علیہ السلام نے حضرت علی سے فرمایا: ’’ اے علی ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنا ،پہلی نگاہ تو تیری ہے (یعنی فطری ہے)دوسری نگا ہ تیری نہیں( یعنی غیرفطری ہے )۔‘‘ اس روایت کو ابودائود ، ترمذی اور مسند احمد میں روایت کیاگیا ہے۔ جس چیز سے منع کیاگیا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ کی اچانک نگاہ پڑ گئی تو اس کے بعد مقام حسن پر آپ نے دوبارہ نظر دوڑائی اورگھورتے ہی چلے گئے۔ یعنی ایسا دیکھنا جس کی نہ ضرورت ہو اورنہ ہی اس کا تمدنی فائدہ ہو اور جس میں شہوانی جذبات کو تحریک دینے کے اسباب موجود ہوں۔
نگاہ دو طرح کی ہوتی ہے ۔ ایک انسان دوسرے انسان کو اس لیے دیکھتاہے کہ اس سے بات کررہا ہوتا ہے۔ دیکھنا گفتگو کا لازمہ ہے، اس نگاہ کو علما ے اصول کی اصطلاح میں عمومی نگاہ کہتے ہیں۔ اس میں کوئی ممانعت نہیں۔ دوسری نگاہ کسی شخص کا سراپا جانچنے کے لیے ہوتی ہے، اس وقت پوری توجہ سے پورے وجو د کا بھر پور نگاہ سے جائزہ لیا جاتا ہے۔اہل اصول کی اصطلاح میں اسے خصوصی نگاہ کہا جاتا ہے اوریہ ممنوع ہے ۔
اس آیت کا مطالعہ دو باتوں پر دلالت کرتا ہے۔ ایک تو یہ کہ عورت یا مرد کے اعضا میں کوئی چیز کھلی ہے جس پر نگاہ پڑ سکتی ہے۔ اس لیے مرد اورعورت، دونوں کو نظریں بچانے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ کھلی چیز چہرے اورہاتھوں کے علاوہ اور کون سی ہو سکتی ہے ؟ اگر چہرہ چھپا ہوا ہو تو پھر نظریں نیچی کرنے یا بچانے کا حکم بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ آیت چہرہ کھلا رکھنے کے لیے قطعی نص کا درجہ رکھتی ہے۔ چہرے سے ہٹ کردوسرے مقامات پر نگاہ ڈالنا غض بصر کے ساتھ بھی ناجائزہے، دوسرے اس آیت سے ظاہر ہوتاہے کہ اس حکم کا تعلق ان مقامات سے ہے جہاں غیر مردوں اور غیر عورتوں کا سامناہوتاہے جیسے راستہ اور بازار۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جسے بخاری ، مسلم ، ابودائوداورمسند احمدنے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’راستے میں نہ بیٹھاکرو اوراگر تمھیں بیٹھنا ہی پڑے تو راستے کا حق ادا کرو، صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول راستے کا حق کیا ہے؟آپ نے فرمایا:نگاہیں نیچی کرنا...‘‘شیخ محمد غزالی نے ’السنۃ النبویۃ بین الحدیث والفقہ‘ میں لکھا ہے کہ قاضی عیاض اورامام شوکانی نے اپنے ہم عصر علما کی رائے نقل کی ہے کہ عورت ، راستہ چلتے وقت اپنا چہرہ نہ ڈھانپے ، بلکہ مردوں پر واجب ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ جنسی لذت جائز طریقے سے گھر کے اندر محدود ہو اورباہر کی فضاصاف ستھری رہے ۔ قرآنی نص عفت و حشمت کے سلسلہ میں مرد اور عورت کو برابر کا حکم دیتی ہے، بلکہ پہلے مرد کو حکم دیتی ہے۔ ہماری عادت سی بن گئی ہے کہ صرف عورت کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اس بارے میں اسلام کی تعلیمات پرعمل کرے۔
ترک نظر اور پاک دامنی کے دو فریضے جو مردوں کے لیے بیان ہوئے ہیں، عورتوں کے لیے بھی انھی الفاظ کے ساتھ واجب العمل ہیں ۔اس قسم کے احکامات نوع بشر کی بہتری کے لیے نافذ ہوئے ہیں۔ اسلامی قوانین مردوں کے امتیاز کی بنیاد پر استوار نہیں ہوئے ہیں ۔وگرنہ یہ تمام واجبات عورت کے لیے ہونے چاہیے تھے اورمرد ان سے بری الذمہ ہوتے۔
پس منظر
تفسیر کشاف میں ہے کہ عرب عورتیں عام طور پر ایسے کرتے پہنا کرتی تھیں جن کے گریبان کھلے ہواکرتے تھے جن میں سے ان کی گردنیں اور سینہ نمایا ں ہوتا تھاجو کپڑا وہ دوپٹے کے طور پر اوڑھتی تھیں، وہ بھی سر کے پیچھے سے کاندھوں پر اس طرح ڈالا جاتا تھا کہ اس سے کان ، سینہ اورگردن سب کے سب کھلے رہتے تھے یہ آیت حکم دیتی ہے کہ وہ سر پر اوڑھے ہوئے اسی دوپٹے کے لٹکے ہوئے دونوں حصوں کو اپنے سینے اورگریبان پراس طرح ڈال لیں کہ بدن کے مذکورہ حصے اچھی طرح چھپ جائیں۔
’لا یبدین زینتہن الا ماظہر منھا‘،’’ وہ اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خودبخود ظاہر ہوجاتی ہے۔ ‘‘
زینت عبارت ہے ان چیزوں سے جن سے عورت اپنے آپ کو آراستہ کرتی ہے ۔ زینت کی دو قسمیں ہیں: ظاہری زینت اورمخفی زینت۔ ظاہر ی زینت وہ ہے جو عادتاً اورطبعاً ظاہر ہو جاتی ہے اور اسے چھپانے کے لیے تکلف سے کام لینا پڑتا ہے۔ اس کا چھپانا واجب نہیں، جبکہ مخفی زینت کا چھپانا واجب ہے۔ ظاہری زینت میں سرمہ ، مہندی ، انگوٹھی اورچھلا وغیرہ شامل ہیں جن کے ظاہر ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں، کنگن ، بازو بند، گلوبند ، کمر بنداور بالیاں مخفی زینتیں ہیں جن کو صرف انھی لوگوں کے سامنے آشکار ہونا چاہیے جنھیں آیت نے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ جن زینتوں کا ظاہر کرنا جائزہے، ان مقامات زینت کا بھی ظاہر کرنا روا ہے اورجن زینتوں کو چھپانا واجب ہے، ان مقامات کو بھی چھپانا واجب ہے۔
آیت کے اس ٹکڑے کے بارے میں تین اقوال ہیں : ایک قول تو یہ ہے کہ ظاہر ی زینتوں سے مراد سرمہ، مہندی اور انگوٹھی ہیں۔ چنانچہ اس سے مراد وہ مقامات زینت بھی ہیں جن کو ان زینتوں سے سجایاجاتا ہے مثلاً چہرہ اور کلائی تک دونوں ہاتھ، یہ قول ابن عباس کا ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ آشکا رزینت سے مراد صرف چہرہ اور کلائیوں تک دونوں ہاتھ ہیں۔ یہ قول عبداللہ بن عمر اور تابعی ضحاک اور عطاء کا ہے ۔
تیسرا قول یہ ہے کہ آشکار زینت سے مراد لباس (اوپروالا ) ہے۔ پائوں کی جھانج ، بالیاں اور چوڑیاں مخفی زینت ہے۔ یہ قول عبداللہ بن مسعود کا ہے۔
پہلے دونوں اقوال کا مفہوم تھوڑے فرق کے ساتھ ایک جیسا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ظاہری زینت اوراس کے مقامات کو چھپانا واجب نہیں سمجھتے، جبکہ عبداللہ بن عمر کے قول کے مطابق صرف ظاہری مقامات زینت کو زینت کے بغیر چھپانا واجب نہیں۔دونوں اقوال کے مطابق چہرہ اور کلائی تک دونوں ہاتھ کھلے رہنے چاہییں۔ صحابہ میں حضرت عائشہ نے اور تابعین میں سے سعید بن جبیر ، مجاہد، مسوربن مخرمہ، عبدالرحمان بن زید ، عکرمہ ، جابر بن زید، عطاء بن ابی ریاح اور ضحاک نے ان دونوں میں سے کسی ایک قول کی تائید کی ہے۔
تیسرے قول کی سند معلول ہے۔ عبداللہ بن مسعود کا قول ابو اسحاق سبیعی نے ابو الاحوص سے روایت کیا ہے۔ اس میں ابو اسحاق سبیعی، مختلط اور مدلّس ہے۔ اس کے علاوہ روایت میں عنعنہ ہے(دیکھیے حافظ ابن حجر عسقلانی کی طبقات المدلسین ۔ ص:۴۰)یہی وجہ ہے کہ اسے کسی صحابی نے قبول نہیں کیا ’الا ما ظہر منھا‘ سے مراد بالائی لباس لینا قرآن حکیم کی بلاغت کے منافی ہے۔ اس آیت میں’ زینتہن‘ کا لفظ دو مرتبہ استعمال ہواہے ۔ علم بیان میں اسم معرفہ کا ذکر کر کے جب اسے دہرایا جائے تو مراد پہلے والا اسم معرفہ ہوتا ہے۔ اگر پہلے’ زینتہن‘ سے مراد بالائی کپڑے لیے جائیں تو مراد یہ ہو گی کہ محارم کے لیے بھی سوائے بالائی کپڑوں کے کوئی اور زینت دیکھنا حرام ہے۔
اس حکم میں ہر دیکھنے والے کے لیے نہی مطلق ہے ۔ اس اطلاق سے دو باتیں مستثنیٰ ہیں۔ ان میں سے ایک کا تعلق زینت کے اطلاق سے ہے۔ پہلے استثنا میں اس زینت کی تخصیص ہے جس کا دکھانا جائز ہے۔ دوسرے کا تعلق ناظرین کے اطلاق سے ہے جن کے سامنے زینتوں میں سے کچھ کا ظاہر کرنا جائز ہے۔ چنانچہ ان ناظرین میں محارم کی تخصیص کر دی گئی ہے۔ پہلے استثنا نے زینت کی اس مقدار کو متعین کیا ہے جس کا عام افراد پر آشکار ہونا جائز ہے اور دوسرے استثنا میں چند معین افراد کے نام لیے ہیں جن پر مخفی زینتوں کا ظاہر کرنا جائز ہے۔ پہلے استثنا میں بدن کے مقامات زینت کے لحاظ سے دائرہ محدود ہے اور افراد کے اعتبار سے لامحدود۔ دوسرا استثنا اس کے برعکس ہے یہی آیت کے ظاہری معنی ہیں اور کسی واضح دلیل کے بغیر ظاہری معنوں کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔ بنیادی طور پر ابن مسعود کی طرف منسوب نظریہ قابل توجہ نہیں ۔ خود بخود آشکار ہونے والی زینت سے مراد اس نظریے کے مطابق اوپر والا لباس ہوگا، کیونکہ نیچے پہنا جانے والا لباس دیکھا نہیں جا سکتا۔ اس صورت میں اس کا کوئی مفہوم نہیں نکلتا کہ عورتیں اپنی زینت کو آشکار نہ کریں، مگر وہ لباس جو اوپر پہنا جا رہاہے۔ اوپر پہنا جانے والا لباس تو چھپایا نہیں جا سکتا کہ اس سے استثنا کیا جائے۔ اس کے مقابلہ میں وہ تمام چیزیں جو ابن عباس اور ابن عمر کے اقوال میں مذکور ہیں یہی وہ زینتیں ہیں جن کو چھپانے سے مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ لباس کو اس وقت زینت شمار کیا جا سکتا ہے جب بدن کا کوئی حصہ نمایاں ہو مثلاً پردے سے بے نیاز عورت کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس کا لباس اس کی زینت ہے، لیکن اگر عورت پورا بدن ایک ہی لباس (جلباب)سے ڈھانپ لے تو ہم اس لباس کو زینت نہیں کہہ سکتے ۔ چنانچہ معروف حنفی فقیہ ابو بکر جصاص احکام القرآن ۱۸؎ میں فرماتے ہیں کہ ابن مسعود کا قول کہ اس سے مراد ظاہری لباس ہے، بے معنی ہے کیونکہ زینت سے مراد وہ عضو ہے جسے مزین کیا گیا ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام زیورات کا مردوں کو دکھانا جائز ہے جو عورت نے نہ پہنے ہوں پس معلوم ہوا کہ زینت سے مراد عضو زینت ہے اسے کپڑوں سے تعبیر کرنا بے معنی ہے، کیونکہ بدن کے علاوہ کپڑوں کودیکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ انھیں نہ پہننے کی صورت میں دیکھ رہے ہوں۔ عبداللہ بن مسعود کا اپنا قول ہے کہ ’نعم ترجمان القرآن عبداللّٰہ ابن عباس‘،’’ قرآ ن کے بہترین ترجمان عبداللہ بن عباس ہیں ‘‘یہی وجہ ہے کہ قدیم و جدید مفسرین نے اسی رائے کی تائید کی ہے جو ابن عباس اور ابن عمر کے اقوال میں ظاہر کی گئی ہے۔
امام طبری اپنی تفسیر میں’ الا ما ظہر منہا‘کی تفسیر میں مختلف روایات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ بہترین قول یہ ہے کہ
’’ اس سے مراد چہرہ اور دونوں ہاتھ ہیں۔ اس میں سرمہ ، مہندی اور انگوٹھی شامل ہیں ۔ یہ بہترین قول اس لیے ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ ہر نمازی عورت نماز کے دوران میں اپنا سر ڈھانپ لے ۔ اپنا چہرہ اور ہاتھ کھلے رکھے اور باقی سارا بدن ڈھانپ لے۔ ہاں، ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے لیے نصف بازو کھلا رکھنا جائز قرار دیا ہے (یہی امام ابو حنیفہ کامذہب ہے)جب اس بات پر اجماع ہے تو معلوم ہوا کہ عورت اس حصہ کو کھلا رکھ سکتی ہے جو ستر نہیں، کیونکہ جو ستر نہیں اس کا ظاہر کرنا بھی حرام نہیں ۔ مرد کے بارے میں بھی یہی حکم ہے تو معلوم ہوا کہ اللہ کے قول’ الا ما ظہر منہا‘ سے بھی یہی مراد ہے، کیونکہ یہی وہ چیز ہے جو ظاہر رہتی ہے۔ یعنی بدن کے وہ حصے جو نماز میں چھپے رہتے ہیں، نا محرم کے سامنے بھی ان کو چھپانا ضروری ہے اور جن حصوں کو نماز میں کھلا رکھنا جائز ہے، نا محرم کے سامنے ان کو ڈھانپنا واجب نہیں۔ درون نماز اور بیرون نماز ستر میں کوئی فرق نہیں ۔‘‘(۱۰: ۱۱۹)
علامہ زمخشری نے کشاف میں اس استثنا کو زیادہ حکیمانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ فرماتے ہیںـ:
’’ عورت کے لیے چہرے اور ہاتھوں کا چھپانا دشوار ہے۔ اس کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہیں کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے چیزیں اٹھائے اور اپنا چہرہ کھلا رکھے خاص طور پر جہاں اس نے مقدمات میں گواہی دینی ہو یا شادی بیاہ کے موقع پر اسے گلی کوچوں میں راستہ طے کرنا پڑے اور چلتے ہوئے خواہ مخواہ اس کے پائوں دکھائی دیںخاص طور پر ان غریب عورتوں کے پائوں نہیں چھپ سکتے جن کے پاس موزے اور کبھی کبھی جوتا بھی نہیں ہوتا۔ یہ ہے’ الا ما ظہر منہا‘کا مفہوم اس کے معنی یہ ہیں :مگر وہ جو عادتاً اور طبعاً ظاہر ہو جاتی ہیں ۔‘‘ (۳: ۶۱)
امام فخرالدین رازی اپنی تفسیر میںقفال کی رائے پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’چونکہ معاشرت کی ضرورت اس بات کی متقاضی ہے کہ چہرہ اور کلائی تک دونوں ہاتھ کھلے رہیں اور شریعت اسلام ایک آسان شریعت ہے، اس لیے چہرہ اور کلائی تک دونوں ہاتھوں کا چھپانا واجب قرار نہیں دیا گیا۔‘‘ (۲۲: ۲۰۵)
ابن العربی ’’احکام القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’درست بات یہ ہے کہ ہر لحاظ سے اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں، کیونکہ یہی عادتاًاور عبادتاً کھلے رہتے ہیں۔ حالت احرام میں بھی اور نماز میں بھی اور یہی استثنا کا سبب ہے۔‘‘(۳: ۱۳۶۹)
امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں ابن عطیہ کا قول نقل کیا ہے کہ:
’’ استثنا کا سبب وہ حرکت ہے جس کے بغیر چارہ نہیں یا اس کا سبب اصلاح احوال ہے جس کے بغیر عورت اپنے کام درست طور پر انجام نہیں دے سکتی۔ اس لیے عورت کو اس میں چھوٹ دی گئی ہے ۔ پھر فرماتے ہیں کہ مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسی بات کو استثنا کا سبب قرار دیا جائے۔‘‘(۱۲: ۲۲۶)
طنطاوی جوھری اپنی تفسیر’’ الجواھر ‘‘میں اس آیۂ مبارکہ کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ:
’’سوائے اس کے کہ جن چیزوں کو لیتے دیتے وقت ظاہر ہونا پڑے۔ مثلاً کپڑے، انگوٹھی ،سرمہ ، ہاتھ کی مہندی، چہرہ اور پائوں، کیونکہ ان چیزوں کو چھپانا بہت بڑی رکاوٹ کا سبب بنتا ہے ۔ عورت چیز کو ہاتھ سے ہی پکڑے گی پھر شہادت، علاج معالجے اور تجارتی لین دین میں تو اسے چہرہ کھلا رکھنا پڑے گااور یہ سب اس وقت تک ہے جب مرد کو فتنہ کا ڈر نہ ہو وگرنہ وہ اپنی نگاہیں نیچی کر لیں۔ ‘‘
ان بالغ نظر مفسرین نے پہلے استثنا کے دو سبب بیان کیے ہیں: ایک عادت کے اعتبار سے اور دوسرا عبادت کے اعتبار سے۔ اس سے اس غلط فہمی کا ازالہ ہو جاتا ہے جو ہمارے مذہبی پیشوا لوگوں کے ذہن میں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’حجاب ‘‘اور’’ ستر‘‘ میں فرق ہے، حالانکہ درون نماز اور بیرون نماز ستر میں قطعی کوئی فرق نہیں۔
عادتاً چہرے اور ہاتھوں کو کھلا رکھنا پڑتا ہے اور انھیں چھپانے کے لیے تکلف کرنا پڑتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر عورت معاشرے میں انسانی حیثیت سے سرگرم عمل نہیں رہ سکتی ۔ آسودہ حال لوگوں کو چھوڑ کر مسلمانوں اور غیر مسلموں میں بھاری اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کو اشغال زندگی میں مل جل کر جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ بہت ہی کم تعداد ان لوگوں کی ہے جو معاش کے کاروبار میں مرد اور عورت کا حصہ لیے بغیر گزارہ کر سکتے ہیں۔ غربت کی ماری عورت کو گھر سے باہر نکل کر تلاش معاش میں سر گرداں رہنا پڑتاہے ۔ شہروں میں وہ گھر وں میں جھاڑو پوچا لگاتی ہے ، سڑک پر روڑی کوٹتی ہے، سر پر اینٹیں رکھ کر تعمیر کے کام میں حصہ لیتی ہے ، بھٹوں پر اینٹیں تیار کرتی ہے، دیہات میں وہ مردوں کے شانہ بشانہ ابتداے آفرینش سے کام کر رہی ہے اور کام کرتی رہے گی۔ سر پر گھاس پھونس کا گٹھا اٹھاتی ہے۔ دور دراز سے سر پر گھڑے رکھ کر پانی لاتی ہے ۔ چہرے اور ہاتھ کھولے بغیر وہ یہ کام کیسے کر سکتی ہے؟گائوں کی معیشت کا انحصار ہی اس بات پر ہے کہ مرد اور عورت مل جل کر کام کریں ۔ عہد نبوت میں اور اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں ’’طبقات ابن سعد‘‘ کی آٹھویں جلد اور ’’اسد الغابہ‘‘ اور ’’الاصابۃ‘‘ کی آخری جلدوں کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔امام ناصرالدین البانی نے اپنی کتاب ’جلباب المراۃ المسلمۃ‘ میں صفحہ ۶۰ سے لے کر صفحہ ۷۲ تک ۱۳ مستند احادیث پیش کی ہیںاور یہ ثابت کیا ہے کہ عہد نبوت میں صحابیات کا چہرہ اور ہاتھ کھلے ہوتے تھے اور ساتھ یہ بھی ثابت کیا ہے کہ یہ سب احادیث پردے کے وجوب کے بعد کی ہیں۔ اس کے علاوہ اس کتاب کے صفحہ ۹۶ سے لے کر صفحہ ۱۰۳ تک ۱۶ آثار پیش کیے گئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد نبوت کے بعد بھی عورتیں چہرہ ڈھانپے بغیر مختلف نوعیت کے فرائض سرانجام دیتی رہی ہیں۔ حال ہی میں مصر کے ایک محقق عمر رضا کحالہ نے’ أعلام النساء‘ کے نام سے ایک کتاب پانچ جلدوں میں لکھی ہے۔ اس کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان عورتیں ہر زمانے میں سیاسی ، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں کھلے چہرے کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہیں یا کم ازکم مولانا سعید احمد انصاری کی کتاب ’’سیرت صحابیات ‘‘ کا مطالعہ کیا جا سکتاہے جس میں مصنف نے صحابیات کے مذہبی ، سیاسی ، علمی اور عملی کارناموں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔
دور حاضر میں جس مسلمان ملک میں عورتیں احتجاج کے لیے نکلتی ہیں، وہ کھلے چہرے کے ساتھ نکلتی ہیں خواہ وہ ملک ایران ہو، مصر ہو یا ترکی ہو۔ بڑھتے ہوئے وقت کے تقاضوں نے ہمارے مذہبی رہنمائوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ شہر میں بسنے والی خواتین کی دونوں آنکھوں کو کھولنے کی اجازت دے دیں حالانکہ جس ضعیف اثر کے سہارے وہ جمہور علما کی مخالفت کرتے تھے، اس میں ہمیں صرف ایک آنکھ کو کھلا رکھنے کا حکم ہے ۔ اور وہ دن دور نہیں جب بڑھتے ہوئے وقت کا تقاضا انھیں پورا چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت پر مجبور کر دے گا، کیونکہ پورے چہرے میں حسین ترین بولنے والی چیز آنکھیں ہی تو ہوتی ہیں ۔ آج سے کچھ برس اوپر اسمبلیوں جیسے مخلوط اجتماعات سے خطاب کرنا غیر اسلامی سمجھا جاتا تھا، مگر آج متحدہ مجلس کے علما نہ صرف اسمبلیوں میں خطاب کرتے ہیں، بلکہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ان کو سڑکوں پر بھی گھسیٹ لاتے ہیں :
بہ بیں تفاوت راہ است از کجا تا بہ کجا
چنانچہ قرآن حکیم کا منشا بھی یہی ہے کہ ان اعضا کو کھلا چھوڑا جائے جن کو ضروریات انسانی کے زیر اثر عادتاًکھلا چھوڑا جاتاہے اور اس کے علاوہ مخفی زینت کے مقامات کو چھپا کر رکھا جائے۔
عبادتاً یعنی جس طرح نماز اور حج میں چہرے اور ہاتھو ں کو کھلا رکھا جاتا ہے، عام حالت میں بھی اسے کھلا رکھا جائے گا۔ یہ کہنا بعید از عقل ہے کہ حالت احرام کے علاوہ چہرہ کھلا رکھنا حرام ہے۔ مناسک حج و عمرہ کی ادائیگی میں عورت مردوں کے انبوہ کثیر میں گھری ہوتی ہے۔ اگر عورت کے لیے چہرہ چھپانا واجب ہوتا تو اس موقع پر اس کی رعایت ضروری ہوتی ۔ عورت سے یہ نہیں کہا گیا کہ وہ اپنا سر کھلا رکھے، بلکہ صرف چہرہ کھلا رکھنے کا حکم ہے۔ اگر شارع علیہ السلام حالت احرام میں پردے سے صرف نظر کرنا چاہتے تو ممکن ہے کہ وہ عورت کے لیے بھی سر کی برہنگی لازم قرار دیتے۔ فقہا میں سے کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ شارع علیہ السلام کا مقصد یہ ہے کہ حالت احرام میں پردے سے متعلق استثناکو مدنظر رکھا جائے۔ بہت سے مقامات پر جہاں پر دے یا نگاہ کے جواز یا عدم جواز کے بارے میں گفتگو ہے سائلین اور فقہا کے درمیان صرف بالوں کا مسئلہ زیر بحث آیا ہے، چہرے کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ شارع نے حج اور نماز میں چہرہ کھلا رکھنے کا حکم دیا ہے۔تا کہ عام حالات میں چہرہ ڈھانپا جائے۔ یہ طرز استدلال اس لیے غلط ہے کہ اللہ نے حج کے دوران میں مردوں کو سرکھلارکھنے کا حکم دیا ہے۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں ان کے لیے سر ڈھانپنا واجب ہے؟عورت کے جو اعضا عادتاً کھلے رہتے ہیں، عبادت میں بھی وہی کھلے رہیں گے۔ اس سے اس شبہ کا ازالہ بھی ہو جاتا ہے جو ہمارے مذہبی پیشوا یہ کہہ کر ڈالتے ہیں کہ حجاب اور ہے اور ستر اور ۔
مذکورہ بالا مفسرین کے علاوہ حافظ ابن کثیر ،صاحب روح المعانی ، صاحب البحرالمحیط، صاحب التسہیل اور دور حاضر میں صاحب تفسیر المراغی، سید قطب شہید، شیخ عبدالحمید کشک اور شیخ محمد طاہربن عاشور نے بھی ’الا ماظہر منہا ‘کی یہی تفسیر لکھی ہے۔
’ولیضربن بخمرھن علی جیوبہن ‘،’’چاہیے کہ وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈال لیں۔‘‘ میں پہلے بھی تفسیرکشاف کے حوالہ سے بیان کر چکا ہوں کہ عرب عورتیں دوپٹہ اسی طرح اوڑھتی تھیں کہ وہ سر کے پیچھے سے کاندھوں پر اس طرح ڈال لیا جاتا تھا کہ اس سے کان ، سینہ اور گردن، سب کے سب نمایاں رہتے تھے۔ آیت کا یہ ٹکڑا حکم دیتا ہے کہ وہ سر پر اوڑھے ہوئے اسی دوپٹے کے دونو ں لٹکے ہوئے حصوں کو اپنے سینے اور گریبان پر اس طرح ڈال لیں کہ بدن کے مذکورہ حصے اچھی طرح چھپ جائیں ۔ ابن عباس نے اس کی تفسیر یوں کی ہے۔ ’تغطی شعرھا وصدرھا وترائبھا وسوالفھا ‘یعنی عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے بال ، سینہ ،سینے کا بالائی حصہ ، گردن اور اطراف گردن کو ڈھانپے رکھے۔ یہ آیت پردے کی حدود کا تعین کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ پردے کا معیار کیا ہے؟
حرف’ علی‘ کے ساتھ ’ضرب‘ کا فعل کسی چیز کو دوسری چیز پر اس طرح رکھ دینے کے مفہوم کو پیش کرتا ہے کہ وہ چیز دوسری چیز کے لیے اوٹ (حاجب)بن جاے۔ سورئہ کہف میں ہے’فضربنا علی آذانہم‘پس ہم نے ان کے کانوں پر پردہ (حجاب) ڈال دیا (تاکہ وہ سن نہ سکیں)(۱۸: ۱۱)۔
یہ آیت بڑی وضاحت کے ساتھ عورت کے پردے کی واجبی حدود کو ظاہر کرتی ہے کیونکہ آیت میں اوڑھنی کے دونوں سروں کو گریبان پر ڈالنے کی گفتگو ہے، اس لیے پردے کی یہی مقدار ہمارے لیے واجب ہے۔
سنن ابی دائود میں حضرت عائشہ سے ایک حدیث مروی ہے کہ اسماء بنت ابی بکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں آئیں۔ انھوں نے بہت باریک کپڑے پہن رکھے تھے۔ چنانچہ آپ نے منہ موڑ لیا اور فرمایا : اے اسماء جب عورت حیض کی عمر کو پہنچ جائے تو پھر مناسب نہیں کہ اس کے بدن کا کوئی حصہ سوائے اس کے نظر آئے۔ پھر آپ نے اپنے چہرے اور ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔ اس حدیث میں ایک علت ہے کہ یہ مرسل ہے۔ لیکن اس کی تقویت اس حدیث سے ہوتی ہے جسے طبرانی نے’’ المعجم الکبیر‘‘ اور ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔ پھر اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام بیہقی حضرت عائشہ کی روایت اور’ الا ما ظہر منہا ‘کی ابن عباس کی تفسیر کے بعد فرماتے ہیں کہ ’’دیگر صحابہ نے زینت ظاہرہ کی جو تعریف کی ہے، اس سے اس روایت کو تقویت ملتی ہے۔ امام ذھبی تہذیب سنن البیہقی (۱: ۲۸)میں اس رائے کی تائید کرتے ہیں۔ ابن ابی شیبہ نے المصنف ۱۹؎ میں ابن عباس کی روایت نقل کی ہے جسے زیاد بن ربیع نے صالح الدھان سے انھوں نے جابر بن زید سے اور انھوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ’ الا ما ظہر منہا ‘سے مراد چہرے اور ہاتھ کی ٹکڑی ہے اس کی تائید کے طور پر انھوں نے عبداللہ بن عمر کا اثر نقل کیا ہے۔ مذکورہ حدیث کی تقویت منذری ، زیلعی اور عسقلانی کے پائے کے حفاظ حدیث نے کی ہے۔ امام شوکانی بھی اس کی تقویت کرتے ہیں۔ یہ حدیث اس مسئلے میں بہت اہم ہے۔ کم و بیش سب مفسرین کرام نے اسے ’’الا ما ظہر منہا‘کی تفسیر کے ضمن میں پیش کیا ہے۔
ابن رشد اندلسی اپنی کتاب ’’بدایۃ المجتہد‘‘ میں کہتے ہیں کہ اکثرعلما کا مذہب ہے کہ’’ چہرے اور ہاتھوں کا ستر واجب نہیں‘ ‘لیکن امام ابو حنیفہ کا مذہب ہے کہ پائوں کا ستر بھی واجب نہیں ۔ ۲۰؎ امام احمد بن حنبل کے دو اقوال ہیں: ایک قول کے مطابق وہ سارے بدن کا ستر بلا استثنا واجب سمجھتے ہیں، جبکہ دوسرے قول کے مطابق وہ جمہور فقہا کی تائید کرتے ہیں۔ ابن قدامہ المغنی میں کہتے ہیں کہ امام احمد کا دوسرا قو ل مشہور ہے، کیونکہ خرید و فروخت کے لیے عورت کو چہرہ ننگا رکھنے کی ضرورت ہے اور لین دین کے لیے ہاتھوں کو کھلا رکھنا پڑتا ہے۔ ایک اور حنبلی عالم ابن مفلح اپنی کتاب الآداب الشرعیۃ میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ سڑک پر چلتے ہوئے اجنبی عورتوں کے لیے چہرہ کھلا رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ فرماتے ہیں کہ اس سوال کا جواب اس مسئلہ پر موقوف ہے کہ آیا عورت کے لیے چہرہ ڈھانپنا واجب ہے یا اسے دیکھ کر نگاہیں نیچی کر لینا واجب ہے ۔ ۲۱؎ پھر وہ قاضی عیاض کا حوالہ دیتے ہیں جنھوں نے جریر سے مروی مسلم کی روایت کو نقل کیا ہے ۔ حضرت جریر فرماتے ہیں: ’’میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نگاہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ اپنی نگاہ پھیر لو قاضی عیاض کا قول ہے کہ علما اس حدیث سے یہ دلیل لیتے ہیں کہ عورت پر اپنا چہرہ چھپانا واجب نہیں، بلکہ مرد پر واجب ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی کر لے ۔ یہ حنبلی فقہا کی رائے ہے۔ ائمہ اربعہ کے علاوہ امام اوزاعی اور امام ابن حزم کا بھی یہی قول ہے ۔۲۲؎ دور جدید کے مشہور مصری فقیہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور شیخ محمد الغزالی کی بھی یہی رائے ہے۔ ۲۳؎
امام جعفر صادق سے پوچھا گیا کہ نامحرم ہونے کی صورت میں مرد عورت کے کس حصہ کو دیکھ سکتا ہے تو آپ نے فرمایا : چہرہ ہتھیلیاں اور دونو ں پیر۔۲۴؎ آج بھی ایران میں جب خواتین مظاہرہ کرتی ہیں تو ان کا چہرہ کھلا ہوتاہے ۔ اس بارے میں شیعہ اور سنی علما متفق ہیں بہت کم ایسے مسائل ہیں جن میں شیعہ اور سنی علما میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
متاخرین حنفی فقہا اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عورت کے لیے چہرہ چھپانا واجب نہیں، مگر یہ بھی کہتے ہیں کہ فتنے کے ڈر سے چہرہ چھپانا چاہیے۔ فتنے کی یہ شرط صفات الہٰیہ میں سے صفت علم کا ایک طرح کا استدراک ہے گویا کہ اللہ کے علم میں نہ تھا کہ فتنہ پیدا ہوگا۔ حالا نکہ جب اللہ نے مردوں اور عورتوں کو نگاہیں نیچی کرنے کا حکم دیا تو پیش نظر فتنے کا سد باب تھا، لیکن اس کے باوجود چہرہ ڈھانپنے کا حکم نہ دیا۔ سورئہ حجرات کی پہلی آیت میں حکم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو ۔ مطلب یہ ہے کہ دین داری کو اس حد تک نہ لے جائو جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم نہ دیا ہو۔ یہ دین میں مبالغہ ہے جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
اس کے علاوہ فتنہ کی شرط کتمان حق کے برابر ہے جس سے سورئہ بقرہ کی آیت ۱۵۹میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن حکیم نے بہت کم موضوعات میں اتنا سخت اسلوب اختیار کیا ہے۔ جس بات کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے، اسے فتنے کے خوف سے چھپانا کتمان حق ہے اور انسانیت کے حق میں ایک بہت بڑا ظلم۔ مفسرین ، محدثین اور فقہاء کی تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ کتاب و سنت کی رو سے عورت کے لیے چہرہ چھپانا واجب نہیں، بلکہ اگر اسے واجب سمجھا جائے تو پردے کے سارے احکام بے معنی ہو جاتے ہیں۔ چہرے کا چھپانا نہ عادتاً واجب ہے اور نہ عبادتاً۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ مجمع الزوائد۶: ۱۴۲۔
۲؎ ۱: ۸۲۔
۳؎ ۵: ۴۶۔
۴؎ ۸۳: ۱۵۔
۵؎ ۳: ۱۵۷۳۔
۶؎ ۲۴: ۲۲۵
۷؎ فتح الباری ۱۲: ۳۷۔
۸؎ ۸: ۳۰۔
۹؎ ۳: ۲۷۴۔
۱۰؎ ۱۱: ۸۸۔
۱۱؎ ۱۲: ۴۹۔
۱۲؎ تفسیر مجاہد/۴۴۰مجمع البحوث الاسلامیۃاسلام آباد۔
۱۳؎ ۵: ۲۲۲۔
۱۴؎ ۳: ۱۵۸۶۔
۱۵؎ ۱۲: ۴۹۔
۱۶؎ ۶: ۴۲۳۔
۱۷؎ ۵: ۴۰۔
۱۸؎ ۳: ۲۱۶
۱۹؎ ۴: ۱۸۳۔
۲۰؎ ۱: ۸۳۔
۲۱؎ ۱: ۱۸۷۔
۲۲؎ المحلی۳: ۲۲۲۔
۲۳؎ الحلال و الحرام ۱۵۲۔ الغزو الثقانی ۶۰، ۷۲۔
۲۴؎ الکانی ۵: ۵۲۱۔