۱۱ / ۹ کے بعد ’’مسلمان اور دہشت گردی‘‘ کے عنوان سے جس بحث کا آغاز ہوا تھا، اس میں تدریجاً تیزی آئی ہے۔ ہر نیا واقعہ اس کے لیے مہمیز ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لندن کے دھماکوں کے بعد، ہر طرف یہ عنوان زیربحث موضوعات میں سر فہرست ہے۔ اس موضوع کے حوالے سے مسلمانوں میں تین نقطہ ہاے نظر پائے جاتے ہیں۔
ایک رائے یہ ہے کہ ۱۱/۹اور اس نوعیت کے دیگر واقعات یہودی سازش کا نتیجہ ہیں۔ دنیا میں ’’القاعدہ ‘‘نام کی کوئی تنظیم موجود نہیں۔ یہ امریکہ کا ایک خود ساختہ تصور ہے جس کو استعمال کر کے مسلمانوں کے وسائل پر قبضے کی کوشش کی جارہی ہے۔
یہ رائے اتنی مضحکہ خیز ہے کہ اس کے رد میں دلائل دینا محض وقت کا ضیاع ہے۔ جنھوں نے یہ تنظیم بنائی، وہ گم نام لوگ نہیں ہیں۔ انھوں نے اپنے مقاصد اور حکمت عملی کو بھی کبھی چھپا کر نہیں رکھا۔ وہ ان تمام واقعات کی ذمہ داری بھی قبول کر چکے ہیں۔ جو لوگ یہ نقطۂ نظر رکھتے ہیں، ان کے اپنے جلسوں میں لوگ ان لوگوں کے پوسٹر اٹھائے ہوتے ہیں۔ اس لیے اس سارے معاملے کو یہودی سازش اور فرضی معاملہ سمجھنا مضحکہ خیز بات ہے۔
دوسری رائے یہ ہے کہ ان واقعات کو ان مظالم سے الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا جو فلسطین، افغانستان یا عراق میں روا رکھے گئے ہیں۔ چونکہ یہ معاملہ رد عمل کا ہے، اس لیے اسے عمل کے تناظر میں دیکھا جا نا چاہیے۔ ان دلائل کا صغریٰ کبریٰ اس طرح ترتیب دیا جا تا ہے کہ اس کا حاصل ان دھماکوں اور واقعات کی تائید ہوتا ہے۔ اس میں ’’دوسروں‘‘ اور ’’اپنوں ‘‘میں ایک تمیز روا رکھی جاتی ہے۔ یعنی امریکہ، نیروبی یا لندن وغیرہ میں جو لوگ دھماکوں کی زد میں آئے، وہ ’’دوسرے ‘‘تھے اور جو افغانستان اور فلسطین وغیرہ میں دہشت گردی کا شکار ہوئے، وہ ’’اپنے‘‘ تھے۔ معروف اسکالر سعید رمضان اس کے لیے’Contextual Justification‘کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ان دھماکوں کی تائید نہیں کرتے، لیکن یہ ایک خاص تناظر میں قابل فہم ہیں۔ آج مسلمانوں کی اکثریت اسی موقف کی قائل ہے۔
اس معاملے کے دینی پہلو سے صرف نظر کرتے ہوئے، صرف اس حوالے سے اس رائے کا جائزہ لیا جائے کہ کیا یہ حکمت عملی مسلمانوں کے مفاد میں رہی ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ افغانستان میں امریکہ کے خلاف ان کارروائیوں کو منظم کرنے کے لیے اس نقطۂ نظر کے علم برداروں نے ایک مرکز بنایا۔ یہ قدم اٹھاتے وقت انھوں نے اس پہلو سے معاملے کا جائزہ نہیں لیا کہ جس قوت کے خلاف وہ ایک جنگ کا آغاز کرنے والے ہیں، وہ مادی اعتبار سے کہاں کھڑی ہے اور یہ کہ ایسامرکز وہ کسی صورت میں گوارا نہیں کرے گی۔ دوسری بات جس پر غور نہیں کیا گیا، وہ یہ ہے کہ اگر وہ قوت کوئی جوابی قدم اٹھاتی ہے تو کیا ہمارے پاس اپنے دفاع کا کوئی موثر نظام موجود ہے۔ بعد میں جو افسوس ناک واقعات ہوئے، انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس حکمت عملی کو اپناتے وقت اس کے نتائج و عواقب سے پوری طرح صرف نظر کیا گیا۔ اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ ہم نہ صرف اپنی آزادی کا دفاع نہیں کر سکے،بلکہ ہمارے لیے امکانات کی دنیا سمٹتی چلی گئی۔ اگر ایک فلسطینی بچے کی بے گناہ شہادت کا ہمیں دکھ ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم یہ سوچیں کہ کل ہمارا کوئی دوسرا بچہ اس ظلم کا شکار نہ ہو۔ آج ایک خودکش حملے میں تین اسرائیلی مرتے ہیں تو اگلے دن کئی بے گناہ فلسطینی ، جن میں عورتیں اور بچے شامل ہیں، ایک نئے ظلم کا شکار ہوتے ہیں۔ چند سال پہلے جو تناسب تھا، اس کے مطابق ایک اسرائیلی کے مقابلے میں پانچ فلسطینی مار دیے جاتے تھے۔ آج اس تناسب میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔
اہل نفسیات کا کہنا ہے کہ رد عمل میں سوچنے والا دماغ کبھی درست فیصلہ نہیں کر تا۔ ’Contextual Justification‘ کا تصور دراصل رد عمل پر مبنی ہے، اس لیے اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے دکھوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اس نقطۂ نظر کی ایک اور خامی یہ ہے کہ اس میں اپنو ں اور دوسروں کی جو تقسیم کی گئی ہے، وہ غیر حقیقی ہے۔ نیویارک اور لندن وغیرہ میں جو لوگ دہشت گردی کا شکار ہوئے، اس میں بہت سے ہمارے اپنے بھائی بھی تھے۔ ایک کثیرالمدنی (Pluristic)سوسائٹی میں کوئی حادثہ ہوتاہے تو اس کا نشانہ تمام مذاہب اور قومیتوں کے لوگ بنتے ہیں۔
تیسری رائے یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس عسکری حکمت عملی سے جس کے مظاہر میں دھماکے اور خود کش حملے شامل ہیں، پوری طرح دست بردار ہو جانا چاہیے۔ اگر کوئی ظلم ہوتا ہے تو اس پر صبر کرنا چاہیے اور تمام توجہ اپنی تعمیر پر دینی چاہیے۔ قوموں کی تعمیر کا دنیا میں ہمیشہ ایک ہی مطلب رہا ہے کہ وہ تعلیم ، معیشت اور سماجی تنظیم میں آگے بڑھے۔ فطرت کا قانون یہ ہے کہ مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے والے کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہوتا۔ توانائی (Energy) کے بارے میں فزکس کا مسلمہ کلیہ (Law)ہے کہ اس کی صورت تبدیل ہو سکتی ہے، لیکن اسے فنا نہیں کیا جا سکتا۔ آج ضرورت ہے کہ ہم اپنی توانائی کا رخ موڑ دیں اور صبر کے ساتھ اپنی تعمیر پر لگ جائیں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جاپان نے ہزیمت اٹھائی اور یہ پابندی قبول کی کہ وہ کوئی فوج نہیں رکھے گا۔ جاپانی قوم نے اپنی توانائی کو مجتمع کیا اور اسے ایک دوسرا رخ دیا جس کے نتیجے میں اس کی معاشی قوت میں اضافہ ہوا۔ آج وہ عالمی اقتصادیات کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور کوئی اہم فیصلہ اس کی شرکت کے بغیر نہیں ہوتا۔ وہ اب اپنی سیاسی حیثیت میں بھی اضافہ کر رہا ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رکنیت کا امیدوار ہے۔
ہم آج دنیا سے جو مطالبات کرتے ہیں، وہ اس غلط فہمی پر مبنی ہیں کہ عالمی سطح پر معاملات حق و انصاف کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں۔ پیغمبروں اور خلفاے راشدین کے دور کے علاوہ دنیا کی معلوم تاریخ میں ایسا لمحہ کم ہی آیا ہے جب فیصلے انصاف کی بنیاد پر ہوئے ہوں۔ دنیا کے فیصلے ہمیشہ انھوں نے کیے جن کے ہاتھ میں طاقت رہی ہے۔ یہ بات محلے سے لے کر عالمی سطح تک ہمیشہ ثابت رہی ہے۔ ابن خلدون سے لے کر ٹوئن بی اور پال کینیڈی تک، جنھوں نے تہذیبوں اور عالمی قوتوں کے عروج و زوال کا مطالعہ کیا ہے اور فلسفۂ تاریخ میں اقوام کے عروج و زوال کے جو معیارات بتائے گئے ہیں، وہ سب اس پر مہر تصدیق ثبت کررہے ہیں۔ میں اس میں ایک اضافی بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ غلبے کے لیے مادی قوت کے ساتھ ساتھ اخلاقی قوت بھی ضروری ہے۔ جب کوئی غالب قوم اخلاقی طور پر تباہ ہو جاتی ہے تو پھر و ہ غالب نہیں رہتی۔ چرچل کا یہ مشہور جملہ بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ اگر برطانیہ کی عدالتوں میں انصاف ہو رہا ہے تو پھر برطانیہ کو کوئی خطرہ نہیں۔ اخلاقیات کا یہ مظاہرہ داخلی معاملات میں ہونا چاہیے اور بین الاقوامی معاملات میں بھی ۔ جہاں تک بین الاقوامی معاملات کاتعلق ہے، میرا تاثر یہ ہے کہ عراق پر حملے کے بعد امریکہ اخلاقی تباہی کے راستے پر ہے اور اگر اس کے ہاں اخلاقی معیارات کے زوال کا یہی عالم رہا تو اس کا سیاسی زوال یقینی ہے ۔ تاہم عروج کی طرح زوال بھی ایک تدریجی عمل ہے اور اقوام کے معاملے میں یہ سالوں پر محیط ہوتا ہے۔
میں اس تیسری رائے کو درست سمجھتا ہوں۔ مجھے افغانی، فلسطینی اور کشمیری مسلمان بھائیوں، بہنوں اور بچوں کے مرنے پر دکھ ہوتا ہے۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ہمارا کوئی بھائی یا بچہ مزید اس ظلم کا شکار نہ ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تصادم اور رد عمل کی نفسیات سے نکل کر ہم وقتی طور پر اس عدم توازن کو قبول کر لیں جو آج واقع ہو چکا ہے۔ اس قبولیت کے بعد ہی تعمیر کا عمل شروع ہوگا۔
______________