HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: آل عمران ۳: ۷۷-۸۰ (۱۷)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)

  

اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَھْدِ اللّٰہِ ، وَاَیْمَانِھِمْ ثَمَنًا قَلِیْلاً، اُولٰٓئِکَ لاَ خَلَاقَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ ، وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ ، وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ، وَلَا یُزَکِّیْھِمْ ، وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ {۷۷}
وَاِنَّ مِنْھُمْ لَفَرِیْقًا یَّلْوٗنَ اَلْسِنَتَھُمْ بِالْکِتٰبِ ، لِتَحْسَبُوْہُ مِنَ الْکِتٰبِ ، وَمَا ھُوَ مِنَ الْکِتٰبِ ، وَ یَقُوْلُوْنَ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ، وَمَا ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہ ، وَیَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ ، وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ{۷۸} 
مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَہُ اللّٰہُ الْکِتٰبَ ، وَالْحُکْمَ ، وَالنُّبُوَّۃَ ، ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ : کُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ، وَلٰکِنْ کُوْنُوْا رَبّٰنِیْٖنَ بِمَا کُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتٰبَ ، وَبِمَا کُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ{۷۹} وَلَا یَاْمُرَکُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰٓئِکَۃَ وَالنَّبِیّٖنَ اَرْبَابًا ، اَیَاْمُرُکُمْ باِلْکُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ{۸۰}
(اِس کے بر خلاف )جو لوگ اللہ کے عہد ۱۴۴ اور اپنی قسموں۱۴۵  کو تھوڑی قیمت پر بیچ دیتے ہیں، اُن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے،اور اللہ قیامت کے دن نہ اُن سے بات کرے گا، نہ اُن کی طرف نگاہ التفات سے دیکھے گا اور نہ اُنھیں (گناہوں سے )پاک کرے گا، ۱۴۶ بلکہ (وہاں)اُن کے لیے ایک درد نا ک سزا ہے۔۱۴۷  ۷۷
اور اِن میں وہ لوگ بھی ہیںکہ اللہ کی کتاب کو پڑھتے ہوئے اپنی زبان کو اس طرح توڑتے مروڑتے ہیں کہ تم سمجھو کہ جو کچھ وہ پڑھ رہے ہیں، وہ کتاب ہی کی عبارت ہے، دراں حا لیکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی، اور کہتے ہیںکہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، دراں حالیکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا، اور (اِس طرح)جانتے بوجھتے اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔۱۴۸  ۷۸
(پھر یہی نہیں، وہ اللہ کے پیغمبر پر بھی جھوٹ باندھتے ہیںاور نہیں سوچتے کہ )کسی انسان کی یہ شان نہیں ہے کہ اللہ اُس کو اپنی کتاب دے اور(اُس کے مطابق)فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور نبوت عطا فرمائے،پھر وہ لوگوںسے یہ کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جائو۔ (نہیں)، بلکہ (وہ تو یہی کہے گاکہ لوگو)، اللہ والے بنو،۱۴۹ اِس لیے کہ تم اللہ کی کتاب پڑھتے اور پڑھاتے ہو۔اور نہ وہ تم سے یہ کہے گا کہ فرشتوں اور نبیوں کو اپنا رب بنا لو۔ تمہارے مسلمان ہو چکنے کے بعد کیا وہ تمھیں کفر اختیار کر لینے کا حکم دے گا ؟۱۵۰  ۹ ۷۔۸۰

۱۴۴؎  اس سے مراد وہ عہد ہے جو اللہ کی شریعت اور آخری بعثت سے متعلق یہود سے لیا گیا تھا۔

۱۴۵؎  یعنی وہ قسمیں جو انھوں نے اللہ کے نبیوں ، بالخصوص نبی امی پر ایمان اور ان کی تائید و نصرت کا عہد کرتے وقت کھائی تھیں۔ آیت ۸۱ میں ان کے اس عہد اور ان قسموں کا ذکر آئے گا۔

۱۴۶؎  مطلب یہ ہے کہ ان کے جرائم ایسے نہیں ہیں کہ تھوڑی بہت سزا دے کر اللہ انھیں پاک کر دے ، بلکہ ایسے سخت ہیں کہ ان کی سزا ہمیشہ کی دوزخ ہی ہو سکتی ہے۔

۱۴۷؎  آیت کے الفاظ میں یہود کے لیے کتنی نفرت اور کیسی شدید بے زاری چھپی ہوئی ہے، اس کا اندازہ ہر وہ شخص کر سکتا ہے جو الفاظ کے تیور کچھ پہچانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو حیثیت انھیں دی اور اس کے لحاظ سے جو معاملہ ان کے ساتھ کیا ، اس کے بعد یہ اسی کے سزاوار تھے۔ سورئہ بقرہ میں اس کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ انھیں دیکھنے کے بعد کسی شخص کو اس پر تعجب نہیں ہو سکتا۔

۱۴۸؎  یہ ان تدبیروں میں سے ایک تدبیر کا ذکر ہے جو اہل کتاب نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے عہد کی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے اختیار کر رکھی تھیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...اس جرم کا ارتکاب یہود و نصاریٰ ، دونوںہی نے کیا ہے۔ اس کی مثال میں ہم نے لفظ’’مروہ‘‘کا ذکر کیا ہے۔یہ لفظ تورات میں حضرت ابراہیم کی سرگزشت کے سلسلہ میں آیا ہے کہ اس مقام پر ان کو بیٹے کی قربانی کا حکم ہوا ۔ یہود نے اس قربانی کے واقعے میں جہاں کمی اور بیشی کی نوعیت کی بہت سی تبدیلیاں کی ہیں ، وہیں لفط مروہ کی قرأت کو بگاڑ کر مریا، موریا، موریاہ، مورہ اور نہ جانے کیا کیابنایا تا کہ مکہ کی مشہور پہاڑی مروہ کے بجائے اس سے بیت المقدس کے کسی مقام کو مراد لے سکیں اور اس طرح حضرت ابراہیم اور ان کی ہجرت و قربانی کے واقعہ کا تعلق بیت اللہ سے بالکل کاٹ دیں۔ مقصد اس ساری کاوش سے ان کا یہ تھا کہ اس ایر پھیر سے ان پیشین گوئیوں اور اشارات کا رخ موڑا جا سکے جو بنی اسماعیل اور ان کے اندر نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تورات کے صحیفوں میں وارد تھیں۔‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۱۲۸)

۱۴۹؎  اصل میں لفظ ’ربٰنین‘ آیا ہے۔ یہ ’ربانی‘ کی جمع ہے جس کے معنی خدا پرست اور اللہ والے کے ہیں۔ عربی زبان میں یہ لفظ عبرانی سے آ یا ہوا معلوم ہوتاہے۔

۱۵۰؎  یہ اب عقل سلیم کو مخاطب کر کے قرآن نے اپنے تمام مخاطبین یہود و نصاریٰ ، بلکہ قریش مکہ کو بھی توجہ دلائی ہے کہ جن توہمات کو وہ اپنے عقائد بنائے ہوئے ہیں، ان کی نسبت ان کے جلیل القدر پیغمبروں سے ہر گز درست نہیں ہے ۔ اللہ کا کوئی پیغمبر بھی ایمان و اسلام کی دعوت دینے کے بعد اپنے پیرووں کو کفروشرک میں جھونک دینے کی کوشش نہیں کر سکتا ۔ اس طرح کی کوئی چیز جہاں نظر آئے ، سمجھ لینا چاہیے کہ یہ گمراہ کن لوگوں کی تحریفات کا نتیجہ ہے۔ اسے کسی پیغمبر کی دعوت قرار نہیں دیا جا سکتا۔

 [باقی]

ـــــــــــــــــــــ

B