قتل انسانیت کے خلاف کیا جانے والا سب سے بڑا جرم ہے،لیکن یہ جرم کبھی اسباب کے بغیر جنم نہیں لیتا۔ فطرت انسانی میں جان کی حرمت کا احساس اتنا غیر معمولی ہے کہ عام حالات میں ایک انسان دوسرے انسان کو قتل کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔جب کبھی یہ جرم سرزد ہوتا ہے تو اسباب و محرکات کی ایک دنیا اس کے پیچھے موجود ہوتی ہے۔یہ کبھی غصہ و انتقام سے جنم لیتا ہے۔کہیں حرص و ہوس کی آگ اس کا باعث بنتی ہے اور بسا اوقات مال و زر کی طلب اس کا محرک بن جایا کرتی ہے۔
قتل کا یہ جرم ایک انسان جب اپنے خلاف کرتا ہے تو صورت حال زیادہ سنگین ہوجاتی ہے۔دوسروں کاقتل معاشرے میں صبر وتحمل کے فقدان کی علامت ہے تو اپنا قتل ذہنی تناؤاور مایوسی کا ایک غیر معمولی اظہار ہوتا ہے۔ اپنے قتل سے زیادہ بھیانک جرم اپنے پیاروں کا قتل ہے۔اپنوں کے خلاف قتل کا اقدام ،معاشرے میں برداشت اور امید کے خاتمے کا ایک ایسا صریح اعلان ہے جس کے بعد کسی دوسرے اعلان کی ضرورت نہیں رہتی۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے رہنے والے قتل و غارت گری اور خودکشی کی خبروں کے تو بہت عادی ہوچکے تھے کہ اب باپ کے ہاتھوں اولاد کے قتل کی خبروں نے ہر شخص کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔شہر کراچی میں ماہ اپریل کے دس دنوں میں ایسے تین واقعات ہوئے۔ پہلے واقعے میں ایک اسکول ٹیچر نے اپنے تین بچوں کو ذبح کردیا۔دوسرے واقعے میں ایک باپ نے اپنی اکلوتی بیٹی کو مارڈالا اور آخری واقعے میں ایک باپ کے ہاتھوں دو نوعمر بچیاں ذبح ہوگئیں۔
ان واقعات نے ہر صاحب دل کو ہلاکر رکھ دیا ہے ۔لوگ سوال کررہے ہیں کہ یہ آخر کیا ہورہا ہے۔قتل کرنے والوں سے جب پوچھا جاتا ہے تو وہ غربت وا فلاس اور ذہنی پریشانی کو اپنے اس سفاکانہ اقدام کا سبب بتاتے ہیں۔ماہرین نفسیات اسے مایوسی کا آخری مقام قرار دیتے ہیں۔ماہرین معیشت کے نزدیک یہ چارسو پھیلی غربت کا نتیجہ ہے، جبکہ ماہرین سماجیات جہالت کو ایسے واقعات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
یہ تجزیے بڑی حد تک ٹھیک ہیں۔ہمارا معاشرہ غربت اور جہالت کے شکنجے میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔معاشی ترقی جو کچھ ہورہی ہے، اس کے اثرات ایک خاص طبقے تک محدود ہیں۔مڈل کلاس کو اس ترقی کی اطلاع بذریعہ اخبار مل بھی جاتی ہے، مگر غربا کے پاس اخبار خریدنے کے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ وہ ترقی کی اس اطلاع ہی کو سن کر خوش ہوجائیں۔وہ ایک طرف اپنی جائز ضروریات پوری کرنے سے بھی قاصر ہیں تو دوسری طرف نت نئی گاڑیوں اور عالی شان مکانات کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ان حالات میں مایوسی کا پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ یہ مایوسی ذہنی تناؤ کو جنم دیتی ہے جو لوگوں کی اکثریت کے لیے ذہنی اور جسمانی عوارض کا سبب بنتی ہے، جبکہ ایک اقلیت کے لیے جرائم، خودکشی اور قتل اولاد کا محرک بن جاتی ہے۔
ہمارے نزدیک معاشرے میں پھیلی اس مایوسی کا سبب غربت اور تنگ دستی ہی نہیں ،بلکہ منفی اندازفکر کا وہ بیج بھی ہے جو عرصے سے قوم کے ذہن میں بویا جارہا ہے۔کسی معاشرے کے حالات صرف سیاسی قیادت کے اعمال ہی کا نتیجہ نہیں ہوتے،بلکہ فکری اور مذہبی لیڈر شپ بھی معاشرے کے خیر و شر کی ذمہ دار ہوتی ہے۔پاکستان میں غربت و جہالت کے ذمہ دار اگر سیاسی لوگ ہیں تو قوم کو منفی انداز فکر دینے والے لوگ وہ ہیں جو معاشرے میں مذہبی اور بالخصوص فکری قیادت کے منصب پر فائز ہیں۔
آپ کبھی ان لوگوں کو پڑھیں یا سنیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دنیا میں اب کہیں بھلائی نہیں رہی ۔ یہاں ہر طرف ہمارے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔دنیا میں ہر شخص ہمارا دشمن ہے۔ہر طرف لٹیروں اور راہ زنوں کا راج ہے۔ہر فرد صرف تاریکیاں بکھیرنے اور کانٹے بونے میں مشغول ہے۔ خیر کا کوئی امکان باقی نہیں ہے۔ہمارے معصوم لیڈر شاید یہ سوچ کر اس طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ ان کی گفتگو سے احتجاج کا وہ طوفان برپا ہوجائے گا جو سارے معاملات کو درست کردے گا۔انقلاب کی وہ عوامی لہر اٹھے گی جو ہر ظالم و بد کو اپنے ساتھ بہاکر لے جائے گی،مگر بدقسمتی سے یہ لوگ نہیں جانتے کہ خدا کی دنیا کن اصولوں پر چلتی ہے،انسانی نفسیات کس طرح چیزوں کااثر قبول کرتی ہے، معاشرے میں تبدیلی کے اصول کیا ہوتے ہیں۔
ان کی اس بے خبری کا نتیجہ قوم کے حق میں یہ نکلا کہ معاملات سدھرنے کے بجائے بگڑتے چلے جارہے ہیں۔یہ جو کچھ پانا چاہتے تھے، وہ تو نہ ملا ،الٹا جو گرہ میں تھا، وہ بھی گیا ۔معاشرے میں خیر و صلاح کی روش تو نہ پھیلی ،جو کچھ اخلاق حمیدہ کا سرمایہ اپنے پاس تھا، اس سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے۔قوم کے اندر ایک منفی ذہن پروان چڑھنا شروع ہوا ۔ احتجاج اور غصہ کی نفسیات نے جنم لیا۔مایوسی اور ذہنی تناؤ نے ہر گھر کو اپنا اسیر کرلیا۔
اس کے برعکس جب کسی قوم میں ایک مثبت ذہن پیدا کیا جاتا ہے ؛لینے کا نہیں دینے کا ذہن، حقوق کا نہیں فرائض کا ذہن، دوسروں کو تلقین کا نہیں اپنی اصلاح کا ذہن،احتجاج و شکایت کا نہیں صبر و برداشت کا ذہن، دنیا میں جنت کی تعمیر کا نہیں، آخرت کی ابدی فلاح کا ذہن ۔یہ ذہن جب جب پیدا کیا جاتاہے تو اپنے دامن میں خیر کے سوا کچھ نہیں لاتا۔
ہماری فکری قیادت کی تو یہ زیادہ ذمہ داری تھی اور ہے کہ وہ لوگوں میں یہ مثبت انداز فکر پیدا کریں،کیونکہ ہمارے ہاں فکری قیادت کا زیادہ تر کام مذہبی لوگوں نے کیا ہے۔ان سے بڑھ کر کس کو یہ بات جاننی چاہیے کہ یہ مثبت ذہن خدا اور آخرت پر ایمان کا لازمی نتیجہ ہے۔آخرت پر ایمان آدمی کو یہ بتاتا ہے کہ یہ دنیا کھونے اور پانے کی جگہ نہیں امتحان کی دنیا ہے اور اچھے برے سب حالات خدا کی طرف سے انسانوں کی آزمایش کے لیے پیدا کیے جاتے ہیں۔انسان جیسے ہی اس رخ سے پوری صورت حال کو دیکھتا ہے، اس کا ذہن بدل جاتا ہے۔زمانے کے سرد و گرم میں اس کی توجہ حالات سے زیادہ اپنے اس ردعمل کی طرف رہتی ہے جو وہ ان حالات میں ظاہر کرتا ہے۔ نعمت میں شکر اور مصیبت میں صبر کی وہ روش بندۂ مومن کے قول و فعل سے ظاہر ہوتی ہے جو دنیا و آخرت، دونوں کی فلاح کی ضامن ہے۔
دوسری طرف خدا پر ایمان انسان کو کبھی مایوس نہیں ہونے دیتا،کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خدا کی رحمت سے مایوسی کفر ہے۔ خدا سے یہ حسن ظن زندگی کی ہر مشکل کو آسان کردیتاہے۔پھر ہر رات صبح میں ڈھل جاتی ہے۔ ہر تاریکی روشنی میں بدل جاتی ہے جب امید کی ہر کرن دم توڑدے، اسباب کا ہر راستہ بند ہوجائے، امکان کا ہر گوشہ تاریک ہوجائے تب بھی رب العالمین کی ذات پر بھروسا ، اس پر اعتماد، اس کا یقین اور سب سے بڑھ کر ا س کی رحمت بندۂ مومن کا وہ سہارا ہوتی ہے جس کی بنیاد پر انسان ہر طوفان سے ٹکراجاتا ہے۔ وہ ہر تاریکی کا مقابلہ کرتا ہے۔ وہ بدترین حالات میں بھی جینے کا ڈھنگ سیکھ لیتا ہے۔مشکل ترین صورت حال کا سامنا اس حوصلے سے کرتا ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل سکتے ہیں، مگر بندۂ مومن کا اپنے رب پر یقین اس کے پاےۂ استقلال میں لغزش نہیں آنے دیتا ۔یہی وہ بات ہے جو اقبال نے اس طرح کہی تھی:
نہ ہو نومید ، نو میدی زوال علم و عرفاں ہے
امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
آج بھی اگر اس قوم تک کوئی پیغام پہنچناچاہیے تو وہ یہی ہے۔ اس قوم کو کسی نظرےۂ سازش کی ضرورت نہیں۔ اسے خدا اور آخرت پر سچا ایمان چاہیے۔ وہ ایمان جو اس میں مثبت ذہن پیدا کرے اور بدترین حالات میں بھی اس کی امید ٹوٹنے نہ دے۔ جو لیڈر یہ کام کرے گا، وہی اس قوم کا حقیقی خادم ہوگا۔جو لوگ یہ کام نہیں کریں گے، وہ اپنے اخلاص کے باوجود قوم کے حق میں برا ہی کریں گے۔
_________________